Surah An Nahl Ayat 42 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾
[ النحل: 42]
یعنی وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں
Surah An Nahl UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
دین کی پاسبانی میں ہجرت جو لوگ اللہ کی راہ میں ترک وطن کر کے، دوست، احباب، رشتے دار، کنبے تجارت کو اللہ کے نام پر ترک کر کے دین ربانی کی پاسبانی میں ہجرت کر جاتے ہیں ان کے اجر بیان ہو رہے ہیں کہ دونوں جہان میں یہ اللہ کے ہاں معزز و محترم ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ سبب نزول اس کا مہاجرین حبش ہوں جو مکہ میں مشرکین کی سخت ایذائیں سہنے کے بعد ہجرت کر کے حبش چلے گئے کہ آزادی سے دین حق پر عامل رہیں۔ ان کے بہترین لوگ یہ تھے حضرت عثمان بن عفان ؓ آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ حضرت رقیہ ؓ بھی تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ جو رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد ؓ وغیرہ۔ قریب قریب اسی آدمی تھے مرد بھی عورتیں بھی جو سب صدیق اور صدیقہ تھے اللہ ان سب سے خوش ہو اور انہیں بھی خوش رکھے۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے سچے لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ انہیں وہ اچھی جگہ عنایت فرمائے گا۔ جیسے مدینہ اور پاک روزی، مال کا بھی بدلہ ملا اور وطن کا بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے جیسی چیز کو چھوڑے اللہ تعالیٰ اسی جیسی بلکہ اس سے کہیں بہتر، پاک اور حلال چیز اسے عطا فرماتا ہے۔ ان غریب الوطن مہاجرین کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم و بادشاہ کردیا اور دنیا پر ان کو سلطنت عطا کی۔ ابھی آخرت کا اجر وثواب باقی ہے۔ پس ہجرت سے جان چرانے والے مہاجرین کے ثواب سے واقف ہوتے تو ہجرت میں سبقت کرتے۔ اللہ تعالیٰ حضرت فاروق اعظم ؓ سے خوش ہو کہ آپ جب کبھی کسی مہاجر کو اس کا حصہ غنیمت وغیرہ دیتے تو فرماتے لو اللہ تمہیں برکت دے یہ تو دنیا کا اللہ کا وعدہ ہے اور ابھی اجر آخرت جو بہت عظیم الشان ہے، باقی ہے۔ پھر اسی آیت مبارک کی تلاوت کرتے۔ ان پاکباز لوگوں کا اور وصف بیان فرماتا ہے کہ جو تکلیفیں اللہ کی راہ میں انہیں پہنچتی ہیں یہ انہیں جھیل لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر جو انہیں توکل ہے، اس میں کبھی فرق نہیں آتا، اسی لئے دونوں جہان کی بھلائیاں یہ لوگ اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 40 اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ حکم عالم امر کے بارے میں ہے جبکہ عالم خلق میں یوں نہیں ہوتا عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت اس سورة کی آیت 2 اور سورة الأعراف کی آیت 54 کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ عالم امر میں کسی واقعے یا کسی چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لیے اسباب وسائل اور وقت درکار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ارادہ فرماکر کن فرماتے ہیں تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ عالم خلق میں بھی کلی اختیار تو اللہ ہی کا ہے مگر اس عالم کو عام طبعی قوانین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ چناچہ عالم خلق میں کسی چیز کو وجود میں آنے اور مطلوبہ معیار تک پہنچنے کے لیے اسباب وسائل اور وقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ کائنات اپنے تمام طبعی موجودات کے ساتھ عالم خلق کا اظہار ہے۔ آیت زیر نظر کے موضوع کی مناسبت سے یہاں میں کائنات کی تخلیق کے آغاز سے متعلق اپنی سوچ اور فکر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔کائنات کی تخلیق کے بارے میں ایک طرف تو پرانے فلسفیانہ تصورات ہیں اور دوسری طرف جدید سائنسی نظریات theories۔ فلسفیانہ تصورات کے مطابق سب سے پہلے وجود باری تعالیٰ سے عقل اوّل وجود میں آئی۔ عقلِ اوّل سے پھر فلکِ اوّل اور پھر فلکِ اوّل سے فلک ثانی وغیرہ۔ یہ مشائین کے فلسفے ہیں جو ارسطو اور اس کے شاگردوں کے نظریات کے ساتھ دنیا میں پھیلے اور ہمارے ہاں بھی بہت سے متکلمین ان سے متاثر ہوئے۔ بہر حال جدید سائنسی انکشافات کے ذریعے ان میں سے کسی بھی نظریے کی کہیں کوئی تائید و تصدیق نہیں ہوئی۔ دوسری طرف جدید فزکس کے میدان میں اعلیٰ علمی سطح پر اس سلسلے میں جتنے بھی نظریات theories ہیں ان میں ” عظیم دھماکے “ Big Bang کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت Big Bang کے نتیجے میں ارب ہا ارب درجہ حرارت کے حامل بیشمار ذرات وجود میں آئے۔ یہ ذرات تیزی سے حرکت کرتے ہوئے مختلف forms میں اکٹھے ہوئے تو کہکشائیں galaxies وجود میں آئیں اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں کا ایک جہان آباد ہوگیا۔ انہی ستاروں میں ایک ہمارا سورج بھی تھا جس کے اندر مزید ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس کے سیارے planets وجود میں آئے۔ سورج کے ان سیاروں میں سے ایک سیارہ ہماری زمین ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوتی رہی اور بالآخر اس پر نباتاتی اور حیوانی زندگی کے لیے سازگار ماحول وجود میں آیا۔ آج کی سائنس فی الحال ” بگ بینگ “ سے آگے کوئی نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظریے سے جو معلومات سائنس نے اخذ کی ہیں وہ ان تمام حقائق کے ساتھ مطابقت corroboration رکھتی ہیں جن کا علم اس موضوع پر ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔ اس سے پہلے مادے کے بارے میں سائنس قانون بقائے مادہ Law of conservation of mass کی قائل تھی کہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا مگر نئے نظریے کو اپنا کر سائنس نے نہ صرف بگ بینگ کو کائنات کا نقطہ آغاز تسلیم کرلیا ہے بلکہ یہ بھی مان لیا ہے کہ مادہ ایک خاص وقت تک کے لیے ہے اور ایک خاص وقت کے بعد ختم ہوجائے گا۔جہاں تک کا ئنات کی تخلیق کے آغاز کے بارے میں میری اپنی سوچ کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ایک امر ” کُن “ سے ہوئی اللہ کے حکم سے نہ کہ اس کی ذات سے۔ پھر اس امر ” کن “ کا ظہور ایک خنک نور یا ٹھنڈی روشنی کی صورت میں ہوا یہ خنک نور حرف کن کا ظہور تھا نہ کہ ذات باری تعالیٰ کا۔ اس روشنی میں حرارت نہیں تھی گویا یہ مادی روشنی material light کے وجود میں آنے سے پہلے کا دور تھا۔ آج جس روشنی کو ہم دیکھتے یا پہچانتے ہیں اس میں حرارت ہوتی ہے اور اسی حرارت کی وجہ سے یہ material light ہے۔ امرِ ” کن “ سے ظہور پانے والے اس خنک نور سے پہلے مرحلے پر ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ جیسے کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے حدیث مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور سے پیدا کیا۔ اسی نور سے انسانی ارواح پیدا کی گئیں اور سب سے پہلے روح محمدی پیدا کی گئی جیسا کہ حدیث میں الفاظ آئے ہیں : اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ 1 یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا۔ ” نُورِی “ اور ” رُوحِی “ گویا دو مترادف الفاظ ہیں کیونکہ روح کا تعلق بھی نور سے ہے۔ بہرحال یہ کائنات کی تخلیق کا مرحلہ اول ہے جس میں فرشتوں اور انسانی ارواح کی تخلیق ہوئی۔اس کے بعد کسی مرحلے پر اس خنک نور میں کسی نوعیت کا زور دار دھماکہ explosion ہوا جس کو آج کی سائنس ” بگ بینگ “ کے نام سے پہچانتی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں حرارت کا وہ گولا وجود میں آیا ‘ جو بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل تھا۔ ان ذرات کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک تھا۔ یہ گویا طبعی دنیا Physical World کا نقطہ آغاز تھا۔ اسی دور میں اس آگ کی لپٹ سے ِ جنات پیدا کیے گئے اور انہی انتہائی گرم ذرات سے کہکشائیں ‘ ستارے اور سیارے وجود میں آئے۔ ان سیاروں میں سے ایک سیارہ یا کرہ ہماری زمین ہے جو ابتدا میں انتہائی گرم تھی۔ اس کے ٹھنڈا ہونے پر اس کے اندر سے بخارات نکلے جو اس کے گرد ایک ہالے کی شکل میں جمع ہوگئے۔ ان بخارات سے پانی وجود میں آیا جو ہزار ہا برس تک زمین پر بارش کی صورت میں برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں تمام روئے زمین پر ہر طرف پانی ہی پانی پھیل گیا۔ اس وقت تک زمین پر پانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ یہی وہ دور تھا جس کا ذکر قرآن میں بایں الفاظ کیا گیا ہے : وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ ھود : 7 ” کہ اس کا عرش اس وقت پانی پر تھا “۔ پھر زمین جب مزید ٹھنڈا ہونے پر سکڑی تو اس کی سطح پر نشیب و فراز نمودار ہوئے۔ کہیں پہاڑ وجود میں آئے تو کہیں سمندر۔ اس کے بعد نباتاتی اور حیوانی حیات کا آغاز ہو۔ اس حیات کے ارتقاء کے بلند ترین مرحلے پر انسان کی تخلیق ہوئی اور حضرت آدم کی روح ان کے وجود کو سونپی گئی۔ حضرت آدم کی تاجپوشی کا یہی واقعہ ہے جہاں سے قرآن آدم کی تخلیق کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار بھی ہے اور اس پوری کائنات کی تخلیق کا اصل مقصود و مطلوب بھی۔ یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ عالم خلق اور عالم امر بالکل الگ الگ نہیں ہیں۔ یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں تک تو عالم خلق ہے اور یہاں سے آگے عالم امر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ دونوں عالم ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط اور باہم گندھے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس عالم خلق میں تمام انسانوں کی ارواح موجود ہیں ‘ جن کا تعلق عالم امر سے ہے : وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ بنی اسرائیل : 85 یہ آیت واضح کرتی ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ” حجۃ اللہ البالغہ “ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض نیک بندوں کی ارواح کو فرشتوں کے طبقہ اسفل میں شامل کرلیتے ہیں۔ چناچہ یہ نیک ارواح ان فرشتوں کے ساتھ سرگرم عمل رہتی ہیں جو اللہ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ میں مصروف ہیں۔ اسی طرح فرشتے جو کہ عالم امر کی مخلوق ہیں وہ بھی یہاں عالم خلق میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ دو دو فرشتے تو ہم میں سے ہر انسان کے ساتھ بطور نگران مقرر کیے گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَاب اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ الاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَاءِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ 1” اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کچھ لوگ کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جمع نہیں ہوتے مگر یہ کہ ان کے اوپر سکینت نازل ہوتی ہے ‘ اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ‘ فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین ملأ اعلیٰ میں ان کا ذکر کرتا ہے۔ “ اس حدیث کی رو سے درس قرآن کی اس محفل میں یقیناً فرشتے موجود ہیں ‘ وہ عالم امر کی شے ہیں ‘ ہم نہ انہیں دیکھ سکتے ہیں نہ ان سے خطاب کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اہل ایمان جنات بھی موجود ہوں اور قرآن سن رہے ہوں۔ چناچہ ارواح فرشتے اور وحی تینوں کا تعلق اگرچہ عالم امر سے ہے مگر ان کا عمل دخل عالم خلق میں بھی ہے۔ اس طرح عالم خلق اور عالم امر کو بالکل الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں میں مرزا عبدالقادر بیدل کے ایک مشہور شعر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو تخلیق کائنات اور تخلیق آدم کے اس فلسفہ کو بہت خوبصورتی سے واضح کرتا ہے :ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش آدمی اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش !مرزا عبدالقادر بیدل ہندوستان میں اور نگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تھے۔ وہ عظیم فلسفی اور فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کا شمار دنیا کے چوٹی کے فلسفیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے سامنے مرزا غالب بھی پانی بھرتے اور ان کی طرز کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں : طرز بیدل میں ریختہ لکھنا اسد اللہ خاں قیامت ہے !موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہاں مرزا بیدل کے مندرجہ بالا شعر کی وضاحت ضروری ہے۔ اس شعر میں وہ فرماتے ہیں ” ہر دو عالم خاک شد “ یعنی دونوں عالم خاک ہوگئے۔ شاعر کے اپنے ذہن میں اس کی وضاحت کیا تھی اس کے بارے میں شاعر خود جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ۔ لیکن میں اس سے یہ نکتہ سمجھا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کو تنزل کے مختلف مراحل سے گزار کر عالم خلق کی شکل دی۔ پھر اس کے مزید تنزلات کے نتیجے میں زمین مٹی پیدا کی گئی۔ گویا دونوں جہانوں نے خاک کی صورت اختیار کرلی تب جا کر کہیں حیات ارضی کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر اس سلسلے میں ارتقا کا وہ بلند ترین مرحلہ آیا : ” تابست نقش آدمی ! “ جب آدمی کا نقش بننا شروع ہوا۔ دوسرے مصرعے میں اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش ! ” نیست “ کے فلسفے کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ” وحدت الوجود “ کے فلسفے کے مطابق حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے ‘ باقی جو کچھ بھی ہمیں نظر آتا ہے اس میں سے کسی چیز کا وجود حقیقی نہیں ہے۔ گویا اللہ کے علاوہ اس کائنات کی ہرچیز ” نیست “ ہے ” ہست “ نہیں ہے : کُلُّ مَا فِی الْکَوْنِ وَ ھْمٌ اَوْ خَیَالٌ اَوْ عُکُوسٌ فِی المَرایَا اَوْ ظِلَال یعنی اللہ کے وجود کے علاوہ جو وجود بھی نظر آتے ہیں وہ وہم ہیں یا خیالی تصویریں۔ اس طرح یہ تمام عالم گویا ” نیست “ ہے اور اس عالم نیست کی ” بہار “ انسان ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ صٓ: 75 کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔ اللہ کا ایک ہاتھ گویا عالم امر اور دوسرا ہاتھ عالم خلق ہے۔ اس طرح انسان اللہ تعالیٰ کے عمل تخلیق کا کلائمکس ‘ مسجود ملائک اور خلیفۃ اللہ ہے۔ چناچہ مرزا بیدل فرماتے ہیں اے بہار نیستی از قدر خود ہوشیار باش ! کہ اے انسان ! اے اس عالم نیستی کی بہار ! ذرا اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانو ! تمہیں وجود میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دو عالم کو نہ جانے تنزلات کی کن کن منازل سے نیچے اتار کر خاک کیا ‘ تب کہیں جا کر تمہارا نقش بنا۔
Surah An Nahl Ayat 42 meaning in urdu
جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- سن رکھو جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ اور
- اور ہم نے اس قرآن کو سچائی کے ساتھ نازل کیا ہے اور وہ سچائی
- (ابراہیم نے) کہا پھر تم خدا کو چھوڑ کر کیوں ایسی چیزوں کو پوجتے ہو
- (سب) پیغمبروں کو (خدا نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر بھیجا تھا)
- اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے جی چھوڑ دینا چاہا مگر خدا ان
- اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان
- کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے
- جو لوگ کافر ہوئے اور خدا کے رستے سے روکتے رہے پھر کافر ہی مرگئے
- اور خدا سچائی کے ساتھ حکم فرماتا ہے اور جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں
- اور بَن کے رہنے والے (یعنی قوم شعیب کے لوگ) بھی گنہگار تھے
Quran surahs in English :
Download surah An Nahl with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nahl mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nahl Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers