Surah Ghafir Ayat 42 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿تَدْعُونَنِي لِأَكْفُرَ بِاللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ الْغَفَّارِ﴾
[ غافر: 42]
تم مجھے اس لئے بلاتے ہو کہ خدا کے ساتھ کفر کروں اور اس چیز کو اس کا شریک مقرر کروں جس کا مجھے کچھ بھی علم نہیں۔ اور میں تم کو (خدائے) غالب (اور) بخشنے والے کی طرف بلاتا ہوں
Surah Ghafir Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) عَزِيزٌ ( غالب ) جوکافروں سے انتقام لینے اور ان کو عذاب دینے پر قادر ہے۔ غَفَّارٌ اپنے ماننے والوں کی غلطیوں، کوتاہیوں کو معاف کر دینے والا اور ان کی پردہ پوشی کرنے والا۔ جب کہ تم جن کی عبادت کرنے کی طرف مجھے بلا رہے ہو، وہ بالکل حقیر اور کم تر چیزیں ہیں، نہ وہ سن سکتی ہیں نہ جواب دے سکتی ہیں، کسی کو نفع پہنچانے پرقادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
عالم برزخ میں عذاب پر دلیل۔قوم فرعون کا مومن مرد اپنا وعظ جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں توحید کی طرف یعنی اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی طرف بلا رہا ہوں۔ میں تمہیں اللہ کے رسول ﷺ کی تصدیق کرنے کی دعوت دے رہا ہوں۔ اور تم مجھے کفر و شرک کی طرف بلا رہے ہو ؟ تم چاہتے ہو کہ میں جاہل بن جاؤں اور بےدلیل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف کروں ؟ غور کرو کہ تمہاری اور میری دعوت میں کس قدر فرق ہے ؟ میں تمہیں اس اللہ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں جو بڑی عزت اور کبریائی والا ہے۔ باوجود اس کے وہ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس کی طرف جھکے اور استغفار کرے، لاجرم کے معنی حق و صداقت کے ہیں، یعنی یہ یقینی سچ اور حق ہے کہ جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو یعنی بتوں اور سوائے اللہ کے دوسروں کی عبادت کی طرف یہ تو وہ ہیں جنہیں دین و دنیا کا کوئی اختیار نہیں۔ جنہیں نفع نقصان پر کوئی قابو نہیں جو اپنے پکارنے والے کی پکار کو سن سکیں تو قبول کرسکیں نہ یہاں نہ وہاں۔ جیسے فرمان اللہ ہے ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ ) 46۔ الأحقاف :5) ، یعنی اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا اوروں کو پکارتا ہے۔ جو اس کی پکار کو قیامت تک سن نہیں سکتے۔ جنہیں مطلق خبر نہیں کہ کون ہمیں پکار رہا ہے ؟ جو قیامت کے دن اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی عبادت سے بالکل انکار کر جائیں گے۔ گو تم انہیں پکارا کرو لیکن وہ نہیں سنتے۔ اور بالفرض اگر سن بھی لیں تو قبول نہیں کرسکتے۔ مومن آل فرعون کہتا ہے۔ کہ ہم سب کو لوٹ کر اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔ وہاں ہر ایک کو اپنے اعمال کا بدلہ بھگتنا ہے۔ وہاں حد سے گزر جانے والے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والے ہمیشہ کیلئے جہنم و اصل کردیئے جائیں گے، گو تم اس وقت میری باتوں کی قدر نہ کرو۔ لیکن ابھی ابھی تمہیں معلوم ہوجائے گا میری باتوں کی صداقت و حقانیت تم پر واضح ہوجائے گی۔ اس وقت ندامت حسرت اور افسوس کرو گے لیکن وہ محض بےسود ہوگا۔ میں تو اپنا کام اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ میرا توکل اسی کی ذات پر ہے۔ میں تو اپنے ہر کام میں اسی سے مدد طلب کرتا ہوں۔ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں میں تم سے الگ ہوں اور تمہارے کاموں سے نفرت کرتا ہوں۔ میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ اللہ اپنے بندوں کے تمام حالات سے دانا بینا ہے۔ مستحق ہدایت جو ہیں ان کی وہ رہنمائی کرے گا اور مستحقین ضلالت اس رہنمائی سے محروم رہیں گے، اس کا ہر کام حکمت والا اور اس کی ہر تدبیر اچھائی والی ہے اس مومن کو اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کے مکر سے بچا لیا۔ دنیا میں بھی وہ محفوظ رہا یعنی موسیٰ کے ساتھ اس نے نجات پائی اور آخرت کے عذاب سے بھی محفوظ رہا۔ باقی تمام فرعونی بدترین عذاب کا شکار ہوئے۔ سب دریا میں ڈبو دیئے گئے، پھر وہاں سے جہنم واصل کردیئے گئے۔ ہر صبح شام ان کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں، قیامت تک یہ عذاب انہیں ہوتا رہے گا۔ اور قیامت کے دن ان کی روحیں جسم سمیت جہنم میں ڈال دی جائیں گی۔ اور اس دن ان سے کہا جائے گا کہ اے آل فرعون سخت درد ناک اور بہت زیادہ تکلیف دہ عذاب میں چلے جاؤ۔ یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے بہت بڑی دلیل ہے، ہاں یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے۔ کہ بعض احادیث میں کچھ ایسے مضامین وارد ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب برزخ کا علم رسول اللہ ﷺ کو مدینے شریف کی ہجرت کے بعد ہوا اور یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی ہے۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں کی روحیں صبح شام جہنم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ باقی رہی بات کہ یہ عذاب ہر وقت جاری اور باقی رہتا ہے یا نہیں ؟ اور یہ بھی کہ آیا یہ عذاب صرف روح کو ہی ہوتا ہے یا جسم کو بھی اس کا علم اللہ کی طرف سے آپ کو مدینے شریف میں کرایا گیا۔ اور آپ نے اسے بیان فرما دیا۔ پس حدیث و قرآن ملا کر مسئلہ یہ ہوا کہ عذاب وثواب قبر، روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے اور یہی حق ہے۔ اب ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودیہ عورت حضرت عائشہ ؓ کی خدمت گزار تھی۔ حضرت عائشہ جب کبھی اس کے ساتھ کچھ سلوک کرتی تو وہ دعا دیتی اور کہتی اللہ تجھے جہنم کے عذاب سے بچائے۔ ایک روز حضرت صدیقہ نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا قیامت سے پہلے قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے ؟ اور وہ تو اس سے زیادہ جھوٹ اللہ پر باندھا کرتے ہیں۔ قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک مرتبہ ظہر کے وقت کپڑا لپیٹے ہوئے رسول اللہ ﷺ تشریف لائے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور باآواز بلند فرما رہے تھے قبر مانند سیاہ رات کی اندھیریوں کے ٹکڑوں کے ہے۔ لوگو اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو بہت زیادہ روتے اور بہت کم ہنستے، لوگو ! قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو، یقین مانو کہ عذاب قبر حق ہے۔ اور روایت میں ہے کہ ایک یہودیہ عورت نے حضرت عائشہ سے کچھ مانگا جو آپ نے دیا اور اس نے وہ دعا دی اس کے آخر میں ہے کہ کچھ دنوں بعد حضور ﷺ نے فرمایا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تمہاری آزمائش قبروں میں کی جاتی ہے۔ پس ان احادیث اور آیت میں ایک تطبیق تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ دوسری تطبیق یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آیت یعرضون سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو عالم برزخ میں عذاب ہوتا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مومن کو یہاں کے بعض گناہوں کی وجہ سے اس کی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ یہ صرف حدیث شریف سے ثابت ہوا۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک دن رسول اللہ ﷺ آئے اس وقت ایک یہودیہ عورت مائی صاحبہ کے پاس بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ تم لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے ؟ اسے سن کر حضور ﷺ کانپ گئے اور فرمایا یہود ہی آزمائے جاتے ہیں۔ پھر چند دنوں بعد آپ نے فرمایا لوگو تم سب قبروں کے فتنہ میں ڈالے جاؤ گے۔ اس کے بعد حضور ﷺ فتنہ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت سے صرف روح کے عذاب کا ثبوت ملتا تھا۔ اس سے جسم تک اس عذاب کے پہنچنے کا ثبوت نہیں تھا۔ بعد میں بذریعہ وحی حضور ﷺ کو یہ معلوم کرایا گیا کہ عذاب قبر جسم و روح کو ہوتا ہے۔ چناچہ آپ نے پھر اس سے بچاؤ کی دعا شروع کی، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ کے پاس ایک یہودیہ عورت آئی اور اس نے کہا عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اس پر صدیقہ نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا کہ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے فرماتی ہے اس کے بعد میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ اس حدیث سے تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اسے سنتے ہی یہودیہ عورت کی تصدیق کی۔ اور اوپر والی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تکذیب کی تھی۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ یہ دو واقعے ہیں پہلے واقعے کے وقت چونکہ وحی سے آپ کو معلوم نہیں ہوا تھا آپ نے انکار فرما دیا۔ پھر معلوم ہوگیا تو آپ نے اقرار کیا، واللہ سبحان و تعالیٰ اعلم۔ قبر کے عذاب کا ذکر بہت سی صحیح احادیث میں آچکا ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں رہتی دنیا تک ہر صبح شام آل فرعون کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ بدکارو تمہاری اصلی جگہ یہی ہے تاکہ ان کے رنج و غم بڑھیں ان کی ذلت و توہین ہو۔ پس آج بھی وہ عذاب میں ہی ہیں۔ اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں وہ جنت میں جہاں کہیں چاہیں چلتی پھرتی ہیں۔ اور مومنوں کے بچوں کی روحیں چڑیوں کے قالب میں ہیں اور جہاں وہ چاہیں جنت میں چلتی رہتی ہیں۔ اور عرش تلے کی قندیلوں میں آرام حاصل کرتی ہیں۔ اور آل فرعون کی روحیں سیاہ رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں۔ صبح بھی جہنم کے پاس جاتی ہیں۔ اور شام کو بھی یہی ان کا پیش ہونا ہے۔ معراج والی لمبی روایت میں ہے کہ پھر مجھے ایک بہت بڑی مخلوق کی طرف لے چلے جن میں سے ہر ایک کا پیٹ مثل بہت بڑے گھر کے تھا۔ جو آل فرعون کے پاس قید تھے۔ اور آل فرعون صبح شام آگ پر لائے جاتے ہیں۔ اور جس دن قیامت قائم ہوگی اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ان فرعونیوں کو سخت تر عذابوں میں لے جاؤ اور یہ فرعونی لوگ نکیل والے اونٹوں کی طرح منہ نیچے کئے پتھر اور درخت پر چڑھ رہے ہیں اور بالکل بےعقل و شعور ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جو احسان کرے خواہ مسلم ہو خواہ کافر اللہ تعالیٰ اسے ضرور بدلہ دیتا ہے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کافر کو کیا بدلہ ملتا ہے ؟ فرمایا اگر اس نے صلہ رحمی کی ہے یا صدقہ دیا ہے اور کوئی اچھا کام کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ اس کے مال میں اس کی اولاد میں اس کی صحت میں اور ایسی ہی اور چیزوں میں عطا فرماتا ہے۔ ہم نے پھر پوچھا اور آخرت میں کیا ملتا ہے ؟ فرمایا بڑے درجے سے کم درجے کا عذاب پھر آپ نے ( اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ 46 ) 40۔ غافر:46) ، پڑھی۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت اوزاعی سے ایک شخص نے پوچھا کہ ذرا ہمیں یہ بتاؤ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مفید پرندوں کا غول کا غول سمندر سے نکلتا ہے اور اس کے مغربی کنارے اڑتا ہوا، صبح کے وقت جاتا ہے۔ اس قدر زیادتی کے ساتھ کہ ان کی تعداد کوئی گن نہیں سکتا۔ شام کے وقت ایسا ہی جھنڈ کا جھنڈ واپس آتا ہے لیکن اس وقت ان کے رنگ بالکل سیاہ ہوتے ہیں آپ نے فرمایا تم نے اسے خوب معلوم کرلیا۔ ان پرندوں کے قالب میں آل فرعون کی روحیں ہیں۔ جو صبح شام آگ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں پھر اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ جاتی ہیں ان کے پر جل گئے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ سیاہ ہوجاتے ہیں۔ پھر رات کو وہ اگ جاتے ہیں اور سیاہ جھڑ جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں یہی حالت ان کی دنیا میں ہے اور قیامت کے دن ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس آل فرعون کو سخت عذابوں میں داخل کردو کہتے ہیں کہ ان کی تعداد چھ لاکھ کی ہے جو فرعونی فوج تھی۔ مسند احمد میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کبھی کوئی مرتا ہے ہر صبح شام اس کی جگہ اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اگر وہ جنتی ہے تو جنت۔ اور اگر وہ جہنمی ہے تو جہنم اور کہا جاتا ہے کہ تیری اصل جگہ یہ ہے جہاں تجھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بھیجے گا۔ یہ حدیث صحیح بخاری مسلم میں بھی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 42 { تَدْعُوْنَنِیْ لِاَکْفُرَ بِاللّٰہِ وَاُشْرِکَ بِہٖ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ} ” تم مجھے دعوت دے رہے ہو اس بات کی کہ میں اللہ کا کفر کروں اور شریک ٹھہرائوں اس کے ساتھ جس کا مجھے کوئی علم نہیں “ { وَّاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلَی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ } ” اور میں تمہیں بلا رہا ہوں اس ذات کی طرف جو زبردست ہے ‘ بخشش کرنے والا ہے۔ “
تدعونني لأكفر بالله وأشرك به ما ليس لي به علم وأنا أدعوكم إلى العزيز الغفار
سورة: غافر - آية: ( 42 ) - جزء: ( 24 ) - صفحة: ( 472 )Surah Ghafir Ayat 42 meaning in urdu
تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اُن ہستیوں کو شریک ٹھیراؤں جنہیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمہیں اُس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کہو کہ میں صبح کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں
- تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں
- جب ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں، کہنے لگے یہ صریح جادو ہے
- یہ (حبط اعمال اور اصلاح حال) اس لئے ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا
- جب تاروں کی چمک جاتی رہے
- اور جب ان (مومنوں) کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ تو گمراہ ہیں
- اور (بھلا) جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو تم نے ماشاالله لاقوة الابالله
- اے دونوں جماعتو! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں
- مگر خدا کے بندگان خالص (مبتلائے عذاب نہیں ہوں گے)
- کہ میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے سب سے
Quran surahs in English :
Download surah Ghafir with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ghafir mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ghafir Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers