Surah Nisa Ayat 84 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ ۚ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِيلًا﴾
[ النساء: 84]
تو (اے محمدﷺ) تم خدا کی راہ میں لڑو تم اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں اور مومنوں کو بھی ترغیب دو قریب ہے کہ خدا کافروں کی لڑائی کو بند کردے اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے
Surah Nisa UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
حکم جہاد امتحان ایمان ہے رسول اللہ ﷺ کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ تنہا اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں چاہیے کوئی بھی آپ کا ساتھ نہ دے، ابو اسحاق حضرت براء بن عازب ؓ سے دریافت فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان اکیلا تنہا ہو اور دشمن ایک سو ہوں تو کیا وہ ان سے جہاد کرے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تو کہا پھر قرآن کی اس آیت سے تو ممانعت تاکید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے ہاتھوں آپ ہلاکت میں نہ پڑو تو حضرت براء نے فرمایا اللہ تعالیٰ اسی آیت میں اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے اللہ کی راہ میں لڑ تجھے فقط تیرے نفس کی تکلیف دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ مومنوں کو بھی اس سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رکنے والا ہے اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت ہلاکت اتری تو آپ نے صحابہ ؓ سے فرمایا مجھے میرے رب نے جہاد کا حکم دیا ہے پس تم بھی جہاد کرو یہ حدیث غریب ہے۔ پھر فرماتا ہے مومنوں کو دلیری دلا اور انہیں جہاد کی رغبت دلا، چناچہ بدر والے دن میدان جہاد میں مسلمانوں کی صفیں درست کرتے ہوئےحضور ﷺ نے فرمایا اٹھو اور بڑھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین ہے، جہاد کی ترغیب کی بہت سی حدیثیں ہیں، بخاری میں ہے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے، صلوۃ قائم کرے، زکوٰۃ دیتا رہے، رمضان کے روزے رکھے اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہو جہاں پیدا ہوا ہے وہیں ٹھہرا رہا ہو، لوگوں نے کہا حضور ﷺ کیا لوگوں کو اس کی خوشخبری ہم نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا سنو جنت میں سو درجے ہیں جن میں سے ایک درجے میں اس قدر بلندی ہے جتنی زمین و آسمان میں اور یہ درجے اللہ نے ان کے لئے تیار کیے ہیں جو اس کی راہ میں جہاد کریں۔ پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ بہترین جنت ہے اور سب سے اعلیٰ ہے اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی سب نہریں جاری ہوتی ہیں، مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد ﷺ کے رسول و نبی ہونے پر راضی ہوجائے اس کے لئے جنت واجب ہے حضرت ابو سعید اسے سن کر خوش ہو کر کہنے لگے حضور ﷺ دوبارہ ارشاد ہو آپ نے دوبارہ اسی کو بیان فرما کر کہا ایک اور عمل ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سو درجے بلند کرتا ہے ایک درجے سے دوسرے درجے تک اتنی بلندی ہے جتنی آسان و زمین کے درمیان ہے پوچھا وہ عمل کیا ہے ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد۔ ارشاد ہے جب آپ جہاد کے لئے تیار ہوجائیں گے مسلمان آپ کی تعلیم سے جہاد پر آمادہ ہوجائیں گے تو پھر اللہ کی مدد شامل حال ہوگی اللہ تعالیٰ کفر کی کمر توڑ دے گا کفار کی ہمت پست کر دے گا ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے پھر کیا مجال کہ دنیا میں بھی انہیں مغلوب کرے اور یہیں انہیں عذاب بھی دے اسی طرح آخرت میں بھی اسی کو قدرت حاصل ہے، جیسے اور آیت میں ہے۔ ( وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ) 47۔ محمد:4) اگر اللہ چاہے ان سے از خود بدلہ لے لے، لیکن وہ ان کو اور تمہیں آزما رہا ہے۔ جو شخص کسی امر خیر میں کوشش کرے تو اسے بھی اس خیر بھلائی کا ثواب ملے گا، اور جو اس کے خلاف کوشش کرے اور بد نتیجہ برآمد کرے اس کی کوشش اور نیت کا اس پر بھی ویسا ہی بوجھ ہوگا، نبی ﷺ فرماتے ہیں سفارش کرو اجر پاؤ گے اور اللہ اپنے نبی ﷺ کی زبان پر وہ جاری کرے گا جو چاہے، یہ آیت ایک دوسرے کی سفارش کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس مہربانی کو دیکھئے فرمایا محض شفاعت پر ہی اجر مل جائے گا خواہ اس سے کام بنے یا نہ بنے، اللہ ہر چیز کا حافظ ہے، ہر چیز پر حاضر ہے، ہر چیز کا حساب لینے والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے، ہر چیز کو دوام بخشنے والا ہے، ہر ایک کو روزی دینے والا ہے، ہر انسان کے اعمال کا اندازہ کرنے والا ہے۔ سلام کہنے والے کو اس سے بہتر جواب دو :مسلمانو ! جب تمہیں کوئی مسلمان سلام کرے تو اس کے سلام کے الفاظ سے بہتر الفاظ سے اس کا جواب دو ، یا کم سے کم انہی الفاظ کو دوہرا دو پس زیادتی مستحب ہے اور برابری فرض ہے، ابن جریر میں ہے ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا السلام علیکم یا رسول اللہ آپ نے فرمایا وعلیک السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ پھر ایک صاحب آئے انہوں نے السلام علیک ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ نے جواب میں فرمایا وعلیک تو اس نے کہا اے اللہ کے نبی ﷺ فلاں اور فلاں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب دیا کچھ زیادہ دعائیہ الفاظ کے ساتھ دیا جو مجھے نہیں دیا آپ نے فرمایا تم نے ہمارے لئے کچھ باقی ہی نہ چھوڑا اللہ کا فرمان ہے جب تم پر سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا اسی کو لوٹا دو اس لئے ہم نے وہی الفاظ لوٹا دئیے یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی اسی طرح مروی ہے، اسے ابوبکر مردویہ نے بھی روایت کیا مگر میں نے اسے مسند میں نہیں دیکھا واللہ اعلم اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کے کلمات میں سے زیادتی نہیں، اگر ہوتی تو آنحضرت ﷺ اس آخری صحابی کے جواب میں وہ لفظ کہہ دیتے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص حضور کے پاس آئے اور السلام علیکم یارسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے جواب دیا اور فرمایا دس نیکیاں ملیں، دوسرے آئے اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ یا رسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے فرمایا بیس نیکیاں ملیں، پھر تیسرے صاحب آئے انہوں نے کہا السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ملیں، امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں، حضرت ابن عباس ؓ اس آیت کو عام لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خلق اللہ میں سے جو کوئی سلام کرے گا اسے جواب دو گو وہ مجوسی ہو، حضرت قتادہ فرماتے ہیں سلام کا اس سے بہتر جواب دینا تو مسمانوں کے لئے ہے اور اسی کو لوٹا دینا اہل ذمہ کے لئے ہے، لیکن اس تفسیر میں ذرا اختلاف ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے مراد یہ ہے کہ اس کے سلام سے اچھا جواب دیں اور اگر مسلمان سلام کے سبھی الفاظ کہہ دے تو پھر جواب دینے والا انہی کو لوٹادے، ذمی لوگوں کو خود کریں تو جواب میں اتنے ہی الفاظ کہہ دے، بخاری و مسلم میں ہے جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرے تو خیال رکھو یہ کہ دیتے ہیں السام علیک تو تم کہ دو و علیک صحیح مسلم میں ہے یہود و نصاری کو تم پہلے سلام نہ کرو اور جب راستے میں مڈ بھیڑ ہوجائے تو انہیں تنگی کی طرف مضطر کر، امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں سلام نفل ہے اور جواب سلام فرض ہے اور علماء کرام کا فرمان بھی یہی ہے، پس اگر جواب نہ دے گا تو گنہگار ہوگا اس لئے کہ جواب سلام کا اللہ کا حکم ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی توحید بیان فرماتا ہے اور الوہیت اور اپنا یکتا ہونا ظاہر کرتا ہے اور اس میں ضمنی مضامین بھی ہیں اسی لئے دوسرے جملے کو لام سے شروع کیا جو قسم کے جواب میں آتا ہے، تو اگلا جملہ خبر ہے اور قسم بھی ہے کہ وہ عنقریب تمام مقدم و موخر کو میدان محشر میں جمع کرے گا اور وہاں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا، اس اللہ سمیع بصیر سے زیادہ سچی بات والا اور کوئی نہیں، اس کی خبر اس کا وعدہ اس کی وعید سب سچ ہے، وہی معبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی مربی نہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 84 فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج قتال کے ضمن میں یہ قرآن مجید کی غالباً سخت ترین آیت یہ ہے ‘ لیکن اس میں سختی لفظی نہیں ‘ معنوی ہے۔لاَ تُکَلَّفُ الاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج آپ ﷺ اہل ایمان کو قتال فی سبیل اللہ کے لیے جس قدر ترغیب و تشویق دے سکتے ہیں دیجیے۔ انہیں اس کے لیے جوش دلایے ‘ ابھاریے۔ لیکن اگر کوئی اور نہیں نکلتا تو اکیلے نکلئے جیسے حضرت ابوبکر رض کا قول بھی نقل ہوا ہے جب ان سے کہا گیا کہ مانعین زکوٰۃ کے بارے میں نرمی کیجیے تو آپ رض نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا تو میں اکیلا جاؤں گا ‘ عزیمت کا یہ عالم ہے ! تو اے نبی ﷺ آپ کو تو یہ کام کرنا ہے ‘ آپ کا تو یہ فرض منصبی ہے۔ آپ کو ہم نے بھیجا ہی اس لیے ہے کہ روئے ارضی پر اللہ کے دین کو غالب کردیں۔ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط۔کفار و مشرکین کی جنگی تیاریاں ہو رہی ہیں ‘ بڑی چلت پھرت ہو رہی ہے ‘ یہ تو کچھ عرصے کی بات ہے وہ وقت بس آیا چاہتا ہے کہ ان میں دم نہیں رہے گا کہ آپ کا مقابلہ کریں۔ اور وہ وقت جلد ہی آگیا کہ مشرکین کی کمر ٹوٹ گئی۔ سورة النساء کی یہ آیت 4 ہجری میں نازل ہوئی اور 5 ہجری میں غزوۂ احزاب پیش آیا۔ جس کے بعد محمد رسول اللہ ﷺ نے اہل ایمان سے فرمایا کہ لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھذا ولکنکم تغزونھم 1 اس سال کے بعد قریش تم پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کریں گے ‘ بلکہ اب تم ان پر حملہ آور ہو گے۔“ غزوۂ احزاب کے فوراً بعد سورة الصف نازل ہوئی۔ جس میں اہل ایمان کو فتح و نصرت کی بشارت دی گئی۔ وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ اس سے اگلے سال 6 ہجری میں آپ ﷺ نے عمرے کا سفر کیا ‘ جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ ہوگئی ‘ جسے اللہ تعالیٰ نے فتح مبین قرار دیا اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔ اس کے بعد ساتویں سال اللہ تعالیٰ نے فتح خیبر عطا فرما دی اور آٹھویں سال میں مکہ فتح ہوگیا۔ اس طرح ایک کے بعد ایک ‘ سارے بند دروازے کھلتے چلے گئے۔
فقاتل في سبيل الله لا تكلف إلا نفسك وحرض المؤمنين عسى الله أن يكف بأس الذين كفروا والله أشد بأسا وأشد تنكيلا
سورة: النساء - آية: ( 84 ) - جزء: ( 5 ) - صفحة: ( 91 )Surah Nisa Ayat 84 meaning in urdu
پس اے نبیؐ! تم اللہ کی راہ میں لڑو، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے لیے ذمہ دار نہیں ہو البتہ اہل ایما ن کو لڑنے کے لیے اکساؤ، بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی
- اگر ناشکری کرو گے تو خدا تم سے بےپروا ہے۔ اور وہ اپنے بندوں کے
- اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ (آپ کی) فرمانبرداری (دل سے منظور
- اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے
- تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو
- جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں
- اور ان (ہزلیات) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہدِ سلطنت میں شیاطین پڑھا
- تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
- پھر ان پچھلوں کو بھی ان کے پیچھے بھیج دیتے ہیں
- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کی
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers