Surah al imran Ayat 45 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ﴾
[ آل عمران: 45]
(وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب فرشتوں نے (مریم سے کہا) کہ مریم خدا تم کو اپنی طرف سے ایک فیض کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح (اور مشہور) عیسیٰ ابن مریم ہوگا (اور) جو دنیا اور آخرت میں باآبرو اور (خدا کے) خاصوں میں سے ہوگا
Surah al imran Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) حضرت عیسیٰ ( عليه السلام ) کو کلمہ یعنی کلمہ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس، باپ کے بغیر، اللہ کی خاص قدرت اوراسکے کلمہ کن کی تخلیق ہے۔
( 2 ) مَسِيحٌ مسح سے ہےأي: مَسَحَ الأَرْضَ یعنی کثرت سے زمین کی سیاحت کرنے والا، یا اس کے معنی ہاتھ پھیرنے والا ہے، کیونکہ آپ ہاتھ پھیر کر مریضوں کو باذن اللہ شفایاب فرماتے تھے۔ ان دونوں معنوں کے اعتبار سے یہ فَعِيلٌ بمعنی فاعل ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہونے والے دجال کو جو مسیح کہا جاتا ہے وہ یا تو بمعنی مفعول یعنی مَمْسُوحُ الْعَينِ( اس کی ایک آنکھ کانی ہوگی ) کے اعتبار سے ہے یا وہ بھی چونکہ کثرت سے دنیا میں پھرے گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا ہر جگہ پہنچے گا، ( بخاری ومسلم ) اور بعض روایات میں بیت المقدس کا بھی ذکر ہے اس لئے اسے بھی الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ کہا جاتا ہے۔ عام اہل تفسیر نے عموماً یہی بات درج کی ہے۔ کچھ اور محققین کہتے ہیں کہ مسیح یہود ونصاریٰ کی اصطلاح میں بڑے مامور من اللہ پیغمبر کو کہتے ہیں، یعنی ان کی یہ اصطلاح تقریباً اولوالعزم پیغمبر کے ہم معنی ہے۔ دجال کو مسیح اس لئے کہا گیا ہے کہ یہود کو جس انقلاب آفریں مسیح کی بشارت دی گئی ہے۔ اور جس کے وہ غلط طور پر اب بھی منتظر ہیں، دجال اسی مسیح کے نام پر آئے گا یعنی اپنے آپ کو وہی مسیح قرار دے گا۔ مگر وہ اپنے اس دعویٰ سمیت تمام دعوؤں میں دجل وفریب کا اتنا بڑا پیکر ہوگا کہ اولین وآخرین میں اس کی کوئی مثال نہ ہوگی اس لئے وہ الدجال کہلائے گا۔ اور عیسیٰ عجمی زبان کا لفظ ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عربی اورعَاسَ يَعُوسُ سے مشتق ہے جس کے معنی سیاست وقیادت کے ہیں ( قرطبی وفتح القدیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مسیح ابن مریم ؑ یہ خوشخبری حضرت مریم کو فرشتے سنا رہے ہیں کہ ان سے ایک لڑکا ہوگا جو بڑی شان والا اور صرف اللہ کے کلمہ " کن " کے کہنے سے ہوگا یہی تفسیر اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت ( مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ ) 3۔ آل عمران:39) کی بھی ہے، جیسے کہ جمہور نے ذکر کیا اور جس کا بیان اس سے پہلے گذر چکا، اس کا نام مسیح ہوگا، عیسیٰ بیٹا مریم ؑ کا، ہر مومن اسے اسی نام سے پہچانے گا، مسیح نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ زمین میں وہ بکثرت سیاحت کریں گے، ماں کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا باپ کوئی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ دونوں جہان میں برگزیدہ ہیں اور مقربان خاص میں سے ہیں، ان پر اللہ عزوجل کی شریعت اور کتاب اترے گی اور بڑی بڑی مہربانیاں ان پر دنیا میں نازل ہوں گی اور آخرت میں بھی اور اولوالعزم پیغمبروں کی طرح اللہ کے حکم سے جس کے لئے اللہ چاہے گا وہ شفاعت کریں گے جو قبول ہوجائیں گی صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیھم اجمعین وہ اپنے جھولے میں اور ادھیڑ عمر میں باتیں کریں گے یعنی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی لوگوں کو بچنے ہی میں دعوت دیں گے جو ان کا معجزہ ہوگا اور بڑی عمر میں بھی جب اللہ ان کی طرف وحی کرے گا، وہ اپنے قول و فعل میں علم صحیح رکھنے والے اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے، ایک حدیث میں ہے کہ بچپن میں کلام صرف حضرت عیسیٰ اور جریج کے ساتھی نے کیا اور ان کے علاوہ حدیث میں ایک اور بچے کا کلام کرنا بھی مروی ہے تو یہ تین ہوئے حضرت مریم اس بشارت کو سن کر اپنی مناجات میں کہنے لگیں اللہ مجھے بچہ کیسے ہوگا ؟ میں نے تو نکاح نہیں کیا اور نہ میرا ارادہ نکاح کرنے کا ہے اور نہ میں ایسی بدکار عورت ہوں ماشاء اللہ، اللہ عزوجل کی طرف سے فرشتے نے جواب میں کہا کہ اللہ کا امر بہت بڑا ہے اسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی وہ جو چاہے پیدا کر دے، اس نکتے کو خیال میں رکھنا چاہئے کہ حضرت زکریا کے اس سوال کے جواب میں اس جگہ لفظ یفعل تھا یہاں لفظ یخلق ہے یعنی پیدا کرتا ہے۔ اس لئے کہ کسی باطل پرست کو کسی شبہ کا موقع باقی نہ رہے اور صاف لفظوں میں حضرت عیسیٰ کا اللہ جل شانہ کی مخلوق ہونا معلوم ہوجائے۔ پھر اس کی مزید تاکید کی اور فرمایا وہ جس کسی کام کو جب کبھی کرنا چاہتا ہے تو صرف اتنا فرما دیتا ہے کہ ہوجا، بس وہ وہیں ہوجاتا ہے اس کے حکم کے بعد ڈھیل اور دیر نہیں لگتی، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ ) 54۔ القمر:50) یعنی ہمارے صرف ایک مرتبہ کے حکم سے ہی بلاتاخیر فی الفور آنکھ جھپکتے ہی وہ کام ہوجاتا ہے ہمیں دوبارہ اسے کہنا نہیں پڑتا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 45 اِذْ قَالَتِ الْمَلآءِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ ق تمہیں اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی کی ولادت کی خوشخبری دے رہا ہے جو اس کی جانب سے ایک خاص کلمہ ہوگا۔
إذ قالت الملائكة يامريم إن الله يبشرك بكلمة منه اسمه المسيح عيسى ابن مريم وجيها في الدنيا والآخرة ومن المقربين
سورة: آل عمران - آية: ( 45 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 55 )Surah al imran Ayat 45 meaning in urdu
اور جب فرشتوں نے کہا، "اے مریمؑ! اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوش خبری دیتا ہے اُس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا، دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا، اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز
- شاید تم کچھ چیز وحی میں سے جو تمہارے پاس آتی ہے چھوڑ دو اور
- انسان ہلاک ہو جائے کیسا ناشکرا ہے
- جو لوگ خدا سے اور اس کے پیغمبروں سے کفر کرتے ہیں اور خدا اور
- اسی نے انسان کو پیدا کیا
- اور تم پر سے بوجھ بھی اتار دیا
- ان کے مال میں سے زکوٰة قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو
- اس دن خدا ان کو (ان کے اعمال کا) پورا پورا (اور) ٹھیک بدلہ دے
- وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور (موت کے) وقت مقررہ تک تم کو مہلت
- اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے کہ تم پر افسوس۔
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers