Surah Nisa Ayat 45 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفَىٰ بِاللَّهِ نَصِيرًا﴾
[ النساء: 45]
اور خدا تمہارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور خدا ہی کافی کارساز ہے اور کافی مددگار ہے
Surah Nisa UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
یہودیوں کی ایک مذموم خصلت اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ یہودیوں کی ایک مذموم خصلت یہ بھی ہے کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دیتے ہیں، نبی آخر الزماں ﷺ پر جو کتاب نازل ہوئی اس سے بھی روگردانی کرتے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا جو علم ان کے پاس ہے اسے بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں خود اپنی کتابوں میں نبی موعود کی بشارتیں پڑھتے ہیں لیکن اپنے مریدوں سے چڑھاوا لینے کے لالچ میں ظاہر نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ خود مسلمان بھی راہ راست سے بھٹک جائیں اللہ کی کتاب کے مخالف ہوجائیں ہدایت کو اور سچے علم کو چھوڑ دیں، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے خوب باخبر ہے وہ تمہیں ان سے مطلع کر رہا ہے کہ کہیں تم ان کے دھوکے میں نہ آجاؤ۔ اللہ کی حمایت کافی ہے تم یقین رکھو کہ وہ اپنی طرف جھکنے والوں کی ضرور حمایت کرتا ہے وہ اس کا مددگار بن جاتا ہے۔ تیسری آیت میں لفظ من سے شروع ہوئی ہے اس میں من بیان جنس کے لئے ہے جیسے ( فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ) 22۔ الحج:30) میں پھر یہودیوں کے اس فرقے کی جس تحریف کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کلام اللہ کے مطلب کو بدل دیتے ہیں اور خلاف منشائے الٰہی تفسیر کرتے ہیں اور ان کا یہ فعل جان بوجھ کر ہوتا ہے قصداً افترا پردازی کے مرتکب ہوتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ اے پیغمبر جو آپ نے کہا ہم نے سنا لیکن ہم ماننے کے نہیں خیال کیجئے ان کے کفر و الحاد کو دیکھئے کہ جان کر سن کر سمجھ کر کھلے لفظوں میں اپنے ناپاک خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں آپ سنئے اللہ کرے آپ نہ سنیں۔ یا یہ مطلب کہ آپ سنئے آپ کی نہ سنی جائے لیکن پہلا مطلب زیادہ اچھا ہے یہ کہنا ان کا بطور تمسخر اور مذاق کے تھا اور اللہ انہیں لعنت کرے علاوہ ازیں راعنا کہتے جس سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں ہماری طرف کان لگائے لیکن وہ اس لفظ سے مراد یہ لیتے تھے کہ تم بڑی رعونت والے ہو۔ اس کا پورا مطلب ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ ) 2۔ البقرۃ :104) کی تفسیر میں گزر چکا ہے، مقصد یہ ہے کہ جو ظاہر کرتے تھے اس کے خلاف اپنی زبانوں کو موڑ کر طعن آمیز لہجہ میں کہتے اور حقیقی مفہوم میں اپنے دل میں مخفی رکھتے تھے دراصل یہ لوگ حضور ﷺ کی بےادبی اور گستاخی کرتے تھے پس انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان دو معنی والے الفاظ کا استعمال چھوڑ دیں اور صاف صاف کہیں کہ ہم نے سنا، مانا، آپ ہماری عرض سنئے ! آپ ہماری طرف دیکھئے ! یہ کہنا ہی ان کے لئے بہتر ہے اور یہی صاف سیدھی سچی اور مناسب بات ہے لیکن ان کے دل بھلائی سے دور ڈال دیئے گئے ہیں ایمان کامل طور سے ان کے دلوں میں جگہ ہی نہیں پاتا، اس جملے کی تفسیر بھی پہلے گزر چکی ہے مطلب یہ ہے کہ نفع دینے والا ایمان ان میں نہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 44 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ وہ الکتاب“ ایک حقیقت ہے جس میں سے ایک حصہ تورات اور ایک حصہ انجیل کے نام سے نازل ہوا اور پھر وہ کتاب ہر اعتبار سے کامل ہو کر قرآن کی شکل میں نازل ہوئی۔یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَۃَ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ مشرکین مکہ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے کہ لوگ لہو و لعب میں مشغول رہیں اور قرآن نہ سنیں۔ انہوں نے ایران سے رستم و اسفندیار کے قصے منگوا کر داستان گوئی کا سلسلہ شروع کیا اور گانے بجانے والی لونڈیوں اور آلات موسیقی کا انتظام کیا تاکہ لوگ انہی چیزوں میں مشغول رہیں اور حضور ﷺ کی بات کوئی نہ سنے۔ اسی طرح مدینہ میں یہود کا بھی یہی معاملہ تھا کہ وہ خود بھی گمراہ کن مشاغل اختیار کرتے اور دوسروں کو بھی اس میں مشغول کرنے کی کوشش کرتے۔ ہمارے زمانے میں اس قسم کے مشاغل کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ہمارے ہاں جب کرکٹ میچ ہو رہے ہوتے ہیں اور ٹیوی پر دکھائے جاتے ہیں تو پوری قوم کا یہ حال ہوتا ہے گویا دنیا کی اہم ترین شے کرکٹ ہی ہے۔ اسی طرح دنیا میں دوسرے کھیل تماشے دیکھے جاتے ہیں کہ دنیا ان کے پیچھے پاگل ہوجاتی ہے۔ شیطان کو اور کیا چاہیے ؟ وہ تو یہی چاہتا ہے ناکہ لوگوں کی حقائق کی طرف نگاہ ہی نہ ہو۔ کسی کو یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو کہ زندگی کس لیے ہے ؟ جینا کا ہے کے لیے ہے ؟ موت ہے تو اس کے بعد کیا ہونا ہے ؟ انسان یا تو حیوانی سطح پر زندگی گزار دے کہ اسے حلال و حرام کی تمیز ہی نہ رہے کہ وہ کیا کما رہا ہے اور کیا کھا رہا ہے ‘ اور یا پھر اس طرح کے لہو و لعب کے اندر زندگی گزار دے۔ ان چیزوں کے فروغ کے لیے بڑے مستحکم نظام ہیں اور ان کھلاڑیوں وغیرہ کے لیے بہت بڑے بڑے انعامات ہوتے ہیں۔ فرمایا : یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بھی سیدھے راستے سے بھٹکا دیں ‘ راہ حق سے منحرف کردیں۔
والله أعلم بأعدائكم وكفى بالله وليا وكفى بالله نصيرا
سورة: النساء - آية: ( 45 ) - جزء: ( 5 ) - صفحة: ( 86 )Surah Nisa Ayat 45 meaning in urdu
اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور تمہاری حمایت و مدد گاری کے لیے اللہ ہی کافی ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یعنی اس جھوٹے خطاکار کی پیشانی کے بال
- (یہ لوگ) جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھی ایسے برباد ہوئے تھے کہ گویا
- تو خدا کی عبادت کو خالص کر کر اُسی کو پکارو اگرچہ کافر برا ہی
- جن لوگوں نے خدا کے سوا (اوروں کو) کارساز بنا رکھا ہے اُن کی مثال
- تو ان سے اعراض کرو۔ تم کو (ہماری) طرف سے ملامت نہ ہوگی
- پس تم صبر کرو بیشک خدا کا وعدہ سچا ہے اور (دیکھو) جو لوگ یقین
- خدا ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور (عدل وانصاف
- اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو (وہ ایسی ہے) جیسے
- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی
- وہی تو ہے جو (ماں کے پیٹ میں) جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers