Surah Al Hajj Ayat 46 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ﴾
[ الحج: 46]
کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل (ایسے) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے۔ اور کان (ایسے) ہوتے کہ ان سے سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں (وہ) اندھے ہوتے ہیں
Surah Al Hajj Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اور جب کوئی قوم ضلالت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ عبرت کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے، تو ہدایت کی بجائے، گذشتہ قوموں کی طرح تباہی اس کا مقدر بن کر رہتی ہے۔ آیت میں عمل و عقل کا تعلق دل کی طرف کیا گیا ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عقل کا محل دل ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں، اس لئے عقل و فہم کے حصول میں عقل اور دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا ربط وتعلق ہے ( فتح القدیر، ایسر التفاسیر )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کافروں کی حجت بازی بہت پرانی بیماری ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو تسلی دیتا ہے کہ منکروں کا انکار آپ کیساتھ کوئی نئی چیز نہیں۔ نوح ؑ سے لے کر موسیٰ ؑ تک کے کل انبیاء کا انکار کفار برابر کرتے چلے آئے ہیں۔ دلائل سامنے تھے، حق سامنے تھا لیکن منکروں نے مان کر نہ مانا۔ میں نے کافروں کو مہلت دی کہ یہ سوچ سمجھ لیں اپنے انجام پر غور کرلیں۔ لیکن جب وہ اپنی نمک حرامی سے باز نہ آئے تو آخرکار میرے عذابوں میں گرفتار ہوئے، دیکھ لے کہ میری پکڑ کیسی بےپناہ ثابت ہوئی کس قدر دردناک انجام ہوا۔ سلف سے منقول ہے کہ فرعون کے حکمرانی کے دعوے اور اللہ کی پکڑ کے درمیان چالیس سال کا عرصہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر ظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھٹکارا نہیں ہوتا پھر آپ نے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ01002 ) 11۔ ھود :102) تلاوت کی، پھر فرمایا کہ کئی ایک بستیوں والے ظالموں کو جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی ہم نے غارت کردیا۔ جن کے محلات کھنڈر بنے پڑے ہیں اوندھے گرے ہوئے ہیں، ان کی منزلیں ویران ہوگیئں، ان کی آبادیاں ویران ہوگئیں، ان کے کنویں خالی پڑے ہیں، جو کل تک آباد تھے آج خالی ہیں، ان کے چونہ گچ محل جو دور سے سفید چمکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے، جو بلند وبالا اور پختہ تھے وہ آج ویران پڑے ہیں، وہاں الو بول رہا ہے، ان کی مضبوطی انہیں نہ بچا سکی، ان کی خوبصورتی اور پائیداری بیکار ثابت ہوئی۔ رب کے عذاب نے تہس نہس کردیا جیسے فرمان ہے آیت ( اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ 78 ) 4۔ النساء:78) یعنی گو تم چونہ گچ پکے قلعوں میں محفوظ ہو لیکن موت وہاں بھی تمہیں چھوڑنے کی نہیں۔ کیا وہ خود زمین میں چلے پھرے نہیں یا کبھی غور وفکر بھی نہیں کیا کہ کچھ عبرت حاصل ہوتی ؟ امام ابن ابی الدنیا کتاب التفکر والا عبار میں روایت لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے پاس وحی بھیجی کہ اے موسیٰ ! لوہے کی نعلین پہن کر لوہے کی لکڑی لے کر زمین میں چل پھر کر آثار وعبرت کو دیکھ وہ ختم نہ ہوں گے یہاں تک کہ تیری لوہے کی جوتیاں ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور لوہے کی لکڑی بھی ٹوٹ پھوٹ جائے۔ اسی کتاب میں بعض دانشمندوں کا قول ہے کہ وعظ کے ساتھ اپنے دل کو زندہ کر۔ اور غور وفکر کے ساتھ اسے نورانی کر اور زہد اور دنیا سے بچنے کے ساتھ اسے مار دے اور یقین کے ساتھ اس کو قوی کرلے اور موت کے ذکر سے اسے ذلیل کردے اور فنا کے یقین سے اسے صبر دے۔ دنیا کی مصیبتیں اس کے سامنے رکھ کر اس آنکھیں کھول دے زمانے کی تنگی اسے دکھا اسے دہشت ناک بنادے، دنوں کے الٹ پھیر اسے سمجھا کر بیدار کردے۔ گذشتہ واقعات سے اسے عبرتناک بنا۔ اگلوں کے قصے اسے سنا کر ہوشیار رکھ۔ ان کے شہروں میں اور ان کی سوانح میں اسے غور وفکر کرنے کا عادی بنا۔ اور دیکھ کہ گہنگاروں کے ساتھ اس کا معاملہ کیا ہوا کس طرح وہ لوٹ پوٹ کردیئے گئے۔ پس یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ اگلوں کے واقعات سامنے رکھ کر دلوں کو سمجھدار بناؤ ان کی ہلاکت کے سچے افسانے سن کر عبرت حاصل کرو۔ سن لو آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سب سے برا اندھا پن دل کا ہے گو آنکھیں صحیح سالم موجود ہوں۔ دل کے اندھے پن کی وجہ سے نہ تو عبرت حاصل ہوتی ہے نہ خیروشر کی تمیز ہوتی ہے۔ ابو محمد بن جیارہ اندلسی نے جن کا انتقال05107ھ میں ہوا ہے اس مضمون کو اپنے چند اشعار میں خوب نبھایا ہے وہ فرماتے ہیں۔ اے وہ شخص جو گناہوں میں لذت پا رہا ہے کیا اپنے بڑھاپے اور نفس کی برائی سے بھی تو بیخبر ہے ؟ اگر نصیحت اثر نہیں کرتی تو کیا دیکھنے سننے سے بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی ؟ سن لے آنکھیں اور کان اپنا کام نہ کریں تو اتنا برا نہیں جتنا، برا یہ ہے کہ واقعات سے سبق نہ حاصل کیا جائے۔ یاد رکھ نہ تو دنیا باقی رہے گی نہ آسمان نہ سورج چاند۔ گو جی نہ چاہے مگر دنیا سے تم کو ایک روز بادل ناخواستہ کوچ کرنا ہی پڑے گا۔ کیا امیر ہو کیا غریب کیا شہری ہو یا دیہاتی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 46 اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ ” اگر یہ لوگ عقل اور سمجھ سے کام لیتے تو پیغمبروں کو جھٹلانے والی قوموں کی بستیوں کے کھنڈرات کو دیکھ کر عبرت پکڑتے اور اصل بات کی تہہ تک پہنچتے۔ اس آیت میں ایک بہت اہم نکتہ بیان ہوا ہے کہ یہاں لفظ ”قلب “ کے ساتھ عقل اور سمجھنے کے تعلق کی بات ہوئی ہے۔ یہ بات کئی دفعہ اس سے پہلے بھی میں دہرا چکا ہوں کہ انسان ایک مرکب وجود کا حامل ہے۔ اس مرکب کی ایک اکائی تو اس کا جسم ہے جو خالص ایک حیوانی وجود ہے۔ اس وجود میں حیوانوں کی تمام تر خصوصیات faculties موجود ہیں۔ اس لحاظ سے انسان گویا اعلیٰ ترین حیوان ہے ‘ یعنی اپنے جسم کی ساخت کے اعتبار سے وہ تمام حیوانوں سے افضل ہے۔ لیکن اپنے اس حیوانی وجود کے ساتھ ساتھ انسان اپنا ایک روحانی وجود بھی رکھتا ہے ‘ جو اس کے حیوانی وجود سے علیحدہ اور مستقل بالذات وجود ہے۔ انسان کے ان دونوں وجودوں کے ملاپ اور امتزاج کی ترکیب اور کیفیت کے متعلق ہم کچھ بھی ادراک نہیں رکھتے۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ انسانی وجود کے اندر جو ” جان “ life ہے وہ کہاں ہے ؟ کیا یہ جان دل میں ہے ؟ لیکن دل تو آج کل بدل بھی دیا جاتا ہے اور جان وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ تو کیا یہ جان دل سے متعلق ہے یا دماغ سے متعلق ؟ حقیقت بہر حال یہی ہے کہ اس کے متعلق ہم واقعی نہیں جانتے۔ تو جب ہم جان کے متعلق ہی کچھ نہیں جانتے تو اس سے آگے بڑھ کر ” روح “ کے متعلق ہم کیا جان سکتے ہیں کہ انسان کی روح اس کے جسم کے اندر کس طور سے صحبت پذیر ہے ؟ اتصالے ّ بےتکیف بےقیاس ! ہست رب الناسّ را با جان ناس انسان کے حیوانی اور روحانی وجود میں باہم مصاحبت اور اتصال تو ہے ‘ لیکن اس کی نوعیت واقعتا کیا ہے ؟ بقول شاعر یہ مصاحبت اور اتصال ” بےتکیف و بےقیاس “ ہے۔ نہ اس کی کیفیت معلوم ہوسکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی اور چیز پر قیاس کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن انسان کے دو علیحدہ علیحدہ وجود بہر حال موجود ہیں۔ ان میں سے اس کا روحانی وجود بہت پہلے عالم ارواح میں پیدا کیا گیا تھا ‘ جس کا حوالہ سورة الأنعام کی آیت 94 میں اس طرح آیا ہے : کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ جبکہ ہر انسان کے مادی یا جسمانی وجود کی پیدائش اس دنیا یا عالم خلق کے اندر اپنے اپنے وقت پر ہوتی ہے۔اس ساری تفصیل میں سیاق وسباق کے حوالے سے سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ انسان کے دونوں وجودوں میں سے ہر وجود کی اپنی اپنی صلاحیتیں اور اپنے اپنے ذرائع علم ہیں۔ روح کی اپنی عقل ‘ اپنی بصارت اور اپنی سماعت ہے ‘ جبکہ حیوانی وجود کی اپنی عقل ہے ‘ اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت میں حیوانی وجود ہی کے حواس کا ذکر ہے : اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً ۔ سورة بنی اسرائیل کے مطالعے کے دوران اس آیت کے تحت حیوانی وجود کے ذرائع علم سے متعلق تفصیلاً گفتگو ہوچکی ہے۔ اب آیت زیر نظر میں روحانی وجود کے ذرائع علم کی بات ہو رہی ہے۔ اس کو مختصراً یوں سمجھ لیں کہ روح دیکھتی بھی ہے ‘ سنتی بھی ہے اور سمجھتی بھی ہے۔ چناچہ اسی حوالے سے یہاں فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں کے دل ہوتے جن سے یہ بات سمجھتے !فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ” ذرا غور کریں ‘ یہ کون سا اندھا پن ہے ؟ دراصل یہی وہ اندھا پن تھا جو ابوجہل ‘ ابو لہب اور ولید بن مغیرہ جیسے لوگوں کو لاحق تھا۔ ان کی آنکھیں تو اندھی نہیں تھیں ‘ لیکن ان کے دل مکمل طور پر اندھے ہوچکے تھے۔ ان کی روحوں پر دنیوی اغراض ‘ ہٹ دھرمیوں اور عصبیتوں کے غلیظ پردے پڑچکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی روحیں نہ دیکھ سکتی تھیں ‘ نہ سن سکتی تھیں اور نہ سمجھ سکتی تھیں۔ ایسے لوگوں کا دیکھنا اور سننا صرف حیوانی سطح کا دیکھنا اور سننا ہوتا ہے۔ جیسے تیزی سے گزرتی ہوئی کار کو دیکھ کر انسان بھی ایک طرف ہوجاتا ہے اور کتا بھی اس سے اپنا بچاؤ کرلیتا ہے۔ اس حوالے سے انسان اور کتے ّ کے دیکھنے میں کوئی فرق نہیں۔ چناچہ انسان کو چاہیے کہ اپنی ان صلاحیتوں کے اعتبار سے حیوانوں کی سطح سے ترقی کر کے انسانی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اسی نکتہ کو اقبال جیسے صاحب نظر نے یوں بیان کیا ہے : ”دیدن دگر آموز ! شنیدن دگر آموز ! “ کہ ذرا دوسری طرح کا دیکھنا سیکھو اور دوسرے انداز کا سننا سیکھو ! قریش مکہّ کے تجارتی قافلے عذاب الٰہی کی زد میں آنے والی تباہ شدہ بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرا کرتے تھے۔ وہ لوگ ان کھنڈرات کو دیکھتے تو تھے لیکن وہ یہ سب کچھ حیوانی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ چناچہ نہ وہ ان سے کوئی سبق حاصل کرتے تھے ‘ نہ عبرت پکڑتے تھے۔ انسان کی یہی وہ کیفیت ہے جس کے بارے میں آیت زیر مطالعہ میں فرمایا گیا ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ اس لیے کہ روح کا مسکن قلب ہے۔ ہم یہ تو نہیں سمجھ سکتے کہ اس ملاپ کی نوعیت اور کیفیت کیا ہے اور نہ ہی ہم دل کے اندر کسی طریقے سے روح کے اثرات کا کھوج لگا سکتے ہیں ‘ کیونکہ وہ ایک غیر مرئی چیز ہے ‘ لیکن انسان کے حیوانی وجود کے اندر روح کا تعلق بہر حال اس کے ” قلب “ کے ساتھ ہی ہے۔
أفلم يسيروا في الأرض فتكون لهم قلوب يعقلون بها أو آذان يسمعون بها فإنها لا تعمى الأبصار ولكن تعمى القلوب التي في الصدور
سورة: الحج - آية: ( 46 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 337 )Surah Al Hajj Ayat 46 meaning in urdu
کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال
- تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا
- انہوں نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے
- کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ
- سب تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے (جو سب چیزوں کا مالک ہے یعنی) وہ
- ان کے مال میں سے زکوٰة قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو
- اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے
- اور کیا ہمارے باپ دادا بھی (جو) پہلے (ہو گزرے ہیں)
- اور حسد کرنے والے کی برائی سے جب حسد کرنے لگے
- کیا ہم نے پہلے لوگوں کو ہلاک نہیں کر ڈالا
Quran surahs in English :
Download surah Al Hajj with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Hajj mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Hajj Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers