Surah ahzab Ayat 5 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
[ الأحزاب: 5]
مومنو! لےپالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ کہ خدا کے نزدیک یہی بات درست ہے۔ اگر تم کو اُن کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
Surah ahzab Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانۂ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام ( رضي الله عنهم ) بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ ! کو ( جنہیں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم ) ) نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا) زید بن محمد ( (صلى الله عليه وسلم ) ) کہہ کر پکارﺗے تھے، حتیٰ کہ قرآن کریم کی آیت ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ نازل ہوگئی۔ ( صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الاحزاب ) اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ ! کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہو گیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے حضرت ابو حذیفہ ! کی بیوی کو کہا کہ اسےدودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ( صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب رضاعة الكبير ، أبو داود، كتاب النكاح، باب فيمن حرم به )۔
( 2 ) یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے، اب دوسری نسبت ختم کرکے انہیں کی طرف انہیں منسوب کرو، البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انہیں اپنا بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔
( 3 ) اس لئے کہ خطا ونسیان معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔
( 4 ) یعنی جو جان بوجھ کر غلط انتساب کرے گا، وہ سخت گناہ گار ہوگا۔ حدیث میں آتاہے۔ جس نے جانتے بوجھتے اپنے کو غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ ( صحيح بخاري، كتاب المناقب ، باب ، نسبة اليمن إلى إسماعيل عليه السلام )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سچ بدل نہیں سکتا لے پالک بیٹا نہیں بن سکتا مقصود کو بیان کرنے سے پہلے بطور مقدمے اور ثبوت کے مثلا ایک وہ بات بیان فرمائی جسے سب محسوس کرتے ہیں اور پھر اس کی طرف سے ذہن ہٹاکر اپنے مقصود کی طرف لے گئے۔ بیان فرمایا کہ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل دو نہیں ہوتے۔ اسی طرح تم سمجھ لو کہ اپنی جس بیوی کو تم ماں کہہ دو تو وہ واقعی ماں نہیں ہوجاتی۔ ٹھیک اسی طرح دوسرے کی اولاد کو اپنا بیٹا بنالینے سے وہ سچ مچ بیٹا ہی نہیں ہوجاتا۔ اپنی بیوی سے اگر کسی نے بحالت غضب وغصہ کہہ دیا کہ تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ تو اس کہنے سے وہ سچ مچ ماں نہیں بن جاتیں مائیں تو وہ ہیں جن کے بطن سے یہ پیدا ہوئے ہیں۔ ان دونوں باتوں کے بیان کے بعد اصل مقصود کو بیان فرمایا کہ تمہارے لے پالک لڑکے بھی درحقیقت تمہارے لڑکے نہیں۔ یہ آیت حضرت زید بن حارث ؓ کے بارے میں اتری ہے جو حضور کے آزاد کردہ تھے انہیں حضور نے نبوت سے پہلے اپنا متبنی بنارکھا تھا۔ انہیں زید بن محمد کہا جاتا تھا۔ اس آیت سے اس نسبت اور اس الحاق کا توڑ دینا منظور ہے۔ جیسے کہ اسی سورت کے اثنا میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40 ) 33۔ الأحزاب :40) تم میں سے کسی مرد کے باپ محمد ﷺ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے۔ یہاں فرمایا یہ تو صرف تمہاری ایک زبانی بات ہے جو تم کسی کے لڑکے کو کسی کا لڑکا کہو اس سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔ واقعی میں اس کا باپ وہ ہے جس کی پیٹھ سے یہ نکلا۔ یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکے کے دو باپ ہوں جیسے یہ ناممکن ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہوں۔ اللہ تعالیٰ حق فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک قریشی کے بارے میں اتری ہے جس نے مشہور کر رکھا تھا کہ اس کے دو دل ہیں اور دونوں عقل وفہم سے پر ہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کردی۔ ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نماز میں تھے آپ کو کچھ خطرہ گذرا اس پر جو منافق نماز میں شامل تھے وہ کہنے لگے دیکھو اس کے دو دل ہیں ایک تمہارے ساتھ ایک ان کے ساتھ۔ اس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔ زہری فرماتے ہیں یہ تو صرف بطور مثال کے فرمایا گیا ہے یعنی جس طرح کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے اسی طرح کسی بیٹے کے دو باپ نہیں ہوسکتے۔ اسی کے مطابق ہم نے بھی اس آیت کی تفسیر کی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ پہلے تو رخصت تھی کہ لے پالک لڑکے کو پالنے والے کی طرف نسبت کرکے اس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے لیکن اب اسلام نے اس کو منسوخ کردیا ہے اور فرمادیا ہے کہ ان کے جو اپنے حقیقی باپ ہیں ان ہی کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ عدل نیکی انصاف اور سچائی یہی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں اس آیت کے اترنے سے پہلے ہم حضرت زید کو زید بن محمد ﷺ کہا کرتے تھے لیکن اس کے نازل ہونے کے بعد ہم نے یہ کہنا چھوڑ دیا۔ بلکہ پہلے تو ایسے لے پالک کے وہ تمام حقوق ہوتے تھے جو سگی اور صلبی اولاد کے ہوتے ہیں۔ چناچہ اس آیت کے اترنے کے بعد حضرت سہلہ بنت سہل ؓ حاضر خدمت نبوی ﷺ ہو کر عرض کرتی ہیں کہ یارسول اللہ ﷺ ہم نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا اب قرآن نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا۔ میں اس سے اب تک پردہ نہیں کرتی وہ آجاتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میرے خاوند حضرت حذیفہ ان کے اس طرح آنے سے کچھ بیزار ہیں۔ آپ نے فرمایا پھر کیا ہے جاؤ سالم کو اپنا دودھ پلا اس پر حرام ہوجاؤگی۔ الغرض یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے اب صاف لفظوں میں ایسے لڑکوں کی بیویوں کی بھی مداخلت انہیں لڑکا بنانے والے کے لئے بیان فرمادی۔ اور جب حضرت زید ؓ نے اپنی بیوی صاحبہ حضرت زینب بنت جحش کو طلاق دے دی تو آپ ﷺ نے خود اپنا نکاح ان سے کرلیا اور مسلمان اس ایک مشکل سے بھی چھوٹ گئے فالحمد للہ اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ جہاں حرام عورتوں کو ذکر کیا وہاں فرمایا آیت ( وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ 23ۙ ) 4۔ النساء:23) یعنی تمہاری اپنی صلب سے جو لڑکے ہوں ان کی بیویاں تم پر حرام ہیں۔ ہاں رضاعی لڑکا نسبی اور صلبی لڑکے کے حکم میں ہے۔ جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ پیار سے کسی کو بیٹا کہہ دینا یہ اور چیز ہے یہ ممنوع نہیں مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ہم سب خاندان عبدالمطلب کے چھوٹے بچوں کو مزدلفہ سے رسول اللہ ﷺ نے رات کو ہی جمرات کی طرف رخصت کردیا اور ہماری رانیں تھپکتے ہوئے حضور نے فرمایا بیٹو سورج نکلنے سے پہلے جمرات پر کنکریاں نہ مارنا۔ یہ واقعہ سنہ0100ہجری ماہ ذی الحجہ کا ہے اور اس کی دلالت ظاہر ہے۔ حضرت زید بن حارثہ جن کے بارے میں یہ حکم اترا یہ سنہ008ہجری میں جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ صحیح مسلم شریف میں مروی ہے کہ حضرت انس ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے اپنا بیٹا کہہ کر بلایا۔ اسے بیان فرما کر کہ لے پالک لڑکوں کو ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے پکارا کرو پالنے والوں کی طرف نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہیں انکے باپوں کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور اسلامی دوست ہیں۔ حضور جب عمرۃ القضا والے سال مکہ شریف سے واپس لوٹے تو حضرت ؓ کی صاحبزادی چچاچچا کہتی ہوئی آپ کے پیچھے دوڑیں۔ حضرت علی ؓ نے انہیں لے کر حضرت فاطمہ زہرا ؓ کو دے دیا اور فرمایا یہ تمہاری چچازاد بہن ہیں انہیں اچھی طرح رکھو۔ حضرت زید اور حضرت جعفر فرمانے لگے اس بچی کے حقدار ہم ہیں ہم انہیں پالیں گے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں نہیں یہ میرے ہاں رہیں گی حضرت علی ؓ نے تو یہ دلیل دی کہ میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ حضرت زید ؓ فرماتے ہیں میرے بھائی کی لڑکی ہے۔ جعفر بن ابی طالب ؓ کہنے لگے میرے چچا کی لڑکی ہیں۔ اور ان کی چچی میرے گھر میں ہیں یعنی حضرت اسماء بنت عمیس ؓ۔ آخر حضور ﷺ نے یہ فیصلہ کیا کہ صاحبزادی تو اپنی خالہ کے پاس رہیں کیونکہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے۔ حضرت علی ؓ سے فرمایا تو میرا ہے اور میں تیرا ہوں۔ حضرت جعفر ؓ سے فرمایا تو صورت سیرت میں میرے مشابہ ہے حضرت زید ؓ سے فرمایا تو میرا بھائی ہے اور ہمارا مولیٰ ہے اس حدیث میں بہت سے احکام ہیں۔ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ حضور نے حکم حق سنا کر اور دعویداروں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا۔ اور آپ نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے حضرت زید ؓ سے فرمایا تم ہمارے بھائی اور ہمارے دوست ہو۔ حضرت ابو بکرہ ؓ نے فرمایا اسی آیت کے ماتحت میں تمہارا بھائی ہوں۔ ابی فرماتے ہیں واللہ اگر یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان کے والد کوئی ایسے ویسے ہی تھے تو بھی یہ ان کی طرف منسوب ہوتے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنی نسبت اپنے باپ کی طرف سے دوسرے کی طرف کرے اس نے کفر کیا۔ اس سے سخت وعید پائی جاتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صحیح نسب سے اپنے آپ کو ہٹانا بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے۔ پھر فرماتا ہے جب تم نے اپنے طور پر جتنی طاقت تم میں ہے تحقیق کرکے کسی کو کسی کی طرف نسبت کیا اور فی الحقیقت وہ نسبت غلط ہے تو اس خطا پر تمہاری پکڑ نہیں۔ چناچہ خود پروردگار نے ہمیں ایسی دعا تعلیم دی کہ ہم اس کی جناب میں ہیں آیت ( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا02806 ) 2۔ البقرة :286) اے اللہ ہماری بھول چوک اور غلطی پر ہمیں نہ پکڑ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب مسلمانوں نے یہ دعا پڑھی جناب باری عز اسمہ نے فرمایا میں نے یہ دعاقبول فرمائی۔ صحیح بخاری شریف میں ہے جب حاکم اپنی کوشش میں کامیاب ہوجائے اپنے اجتہاد میں صحت کو پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر خطا ہوجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کو ان کی خطائیں بھول چوک اور جو کام ان سے زبردستی کرائے جائیں ان سے درگذر فرمالیا ہے۔ یہاں بھی یہ فرما کر ارشاد فرمایا کہ ہاں جو کام تم قصد قلب سے عمدا کرو وہ بیشک قابل گرفت ہیں۔ قسموں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے اوپر جو حدیث بیان ہوئی کہ نسب بدلنے والا کفر کا مرتکب ہے وہاں بھی یہ لفظ ہیں کہ باوجود جاننے کے۔ آیت قرآن جو اب تلاوتا منسوخ ہے اس میں تھا آیت ( فان کفرابکم ان ترغبوا عن ابائکم ) یعنی تمہارا اپنے باپ کی طرف نسبت ہٹانا کفر ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا آپ کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اس میں رجم کی بھی آیت تھی حضور ﷺ نے خود بھی رجم کیا ( یعنی شادی شدہ زانیوں کو سنگسار کیا ) اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ ہم نے قرآن میں یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ اپنے باپوں سے اپنا سلسلہ نسب نہ ہٹاؤ یہ کفر ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے مجھے تم میری تعریفوں میں اس طرح بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسیٰ بن مریم ( علیہما السلام ) کے ساتھ ہوا۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں تو تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول اللہ کہنا۔ ایک روایت میں صرف ابن مریم ہے۔ اور حدیث میں ہے تین خصلتیں لوگوں میں ہیں جو کفر ہیں۔ نسب میں طعنہ زنی، میت پر نوحہ، ستاروں سے باراں طلبی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 5 { اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ } ” لہٰذا انہیں پکارا کرو ان کے باپوں کی نسبت سے ‘ یہ زیادہ مبنی بر انصاف ہے اللہ کے نزدیک۔ “ اس واضح حکم کے بعد کسی کی ولدیت تبدیل کرنا حرام مطلق ہے۔ چناچہ اس حکم کے بعد حضرت زید رض کو زید رض بن محمد ﷺ کے بجائے زید رض بن حارثہ کہا جانے لگا۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ کسی وجہ سے کسی کا بچہ لے کر پالتے ہیں تو اس کی ولدیت کی جگہ اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب بڑے ہو کر بچے کو پتا چلے گا کہ وہ اس کے والدین نہیں تو اسے ذہنی طور پر شدید دھچکا لگے گا جو اس کے لیے بہت سے نفسیاتی مسائل کا باعث بنے گا۔ لیکن ایسا کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ { فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآئَ ہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ } ” اور اگر تمہیں ان کے باپوں کے بارے میں پتا نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔ “ کسی وجہ سے یوں بھی ہوسکتا ہے کہ کسی بچے کی ولدیت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ جیسے پاک بھارت تقسیم کے دوران اس طرح کے واقعات ہوئے کہ مہاجرین کی ایک ٹرین میں سب لوگ مارے گئے اور کوئی بچہ زندہ بچ گیا۔ بعد میں کسی نے اس بچے کو پال لیا ‘ لیکن اس کے والدین کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ { وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہ } ” اور اس معاملے میں تم سے جو خطا ہوئی ہے اس پر تم سے کوئی مواخذہ نہیں “ یعنی اس حکم سے پہلے اس سلسلے میں اگر تم سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اللہ کے ہاں اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔ { وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ } ” لیکن تم لوگ جو کچھ اپنے دلوں کے ارادے سے کرو گے اس کا ضرور احتساب ہوگا۔ “ { وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا } ” اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “
ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به ولكن ما تعمدت قلوبكم وكان الله غفورا رحيما
سورة: الأحزاب - آية: ( 5 ) - جزء: ( 21 ) - صفحة: ( 418 )Surah ahzab Ayat 5 meaning in urdu
منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں نا دانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اُس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور کہتے وہ ہیں جو کرتے نہیں
- ہمیشہ رہنے کے باغ جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوں گے
- اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا
- (یعقوب نے) کہا جب تک تم خدا کا عہد نہ دو کہ اس کو میرے
- اور تم میں کوئی (شخص) نہیں مگر اسے اس پر گزرنا ہوگا۔ یہ تمہارے پروردگار
- تاکہ عذر (رفع) کردیا جائے یا ڈر سنا دیا جائے
- تو جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس (بستی) کو (اُلٹ کر) نیچے اوپر کردیا
- مگر اُنہوں نے اُن کو جھوٹا سمجھا سو اُن کو زلزلے (کے عذاب) نے آپکڑا
- اور بے شک یہ چیزیں عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق ہیں کہ (کافروں
- اور جتنے آدمی زمین میں ہیں (غرض) سب (کچھ دے دے) اور اپنے تئیں عذاب
Quran surahs in English :
Download surah ahzab with the voice of the most famous Quran reciters :
surah ahzab mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter ahzab Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers