Surah Al Araaf Ayat 6 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ﴾
[ الأعراف: 6]
تو جن لوگوں کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ان سے بھی پرسش کریں گے اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے
Surah Al Araaf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) امتوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس پیغمبر آئے تھے؟ انہوں نے تمہیں ہمارا پیغام پہنچایا تھا؟ وہاں وہ جواب دیں گے کہ ہاں! یااللہ تیرے پیغمبر تو یقیناً ہمارے پاس آئے تھے لیکن ہماری ہی قسمت پھوٹی تھی کہ ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں کو پہنچایا تھا؟ اور انہوں نے اس کے مقابلے میں کیا رویّہ اختیار کیا؟ پیغمبر اس سوال کا جواب دیں گے۔ جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سابقہ باغیوں کی بستیوں کے کھنڈرات باعث عبرت ہیں ان لوگوں کو جو ہمارے رسولوں کی مخالفت کرتے تھے انہیں جھٹلاتے تھے تم سے پہلے ہم ہلاک کرچکے ہیں۔ دنیا اور آخرت کی ذلت ان پر برس پڑی، جیسے فرمان ہے تجھ سے اگلے رسولوں سے بھی مذاق کیا گیا، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ مذاق نے انہیں تہو بالا کردیا، ایک اور آیت میں ہے، بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے غارت کردیا جو اب تک الٹی پڑی ہیں اور جگہ ارشاد ہے بہت سے اتراتے ہوئے لوگوں کے شہر ہم نے ویران کردیئے دیکھ لو کہ اب تک ان کے کھنڈرات تمہارے سامنے ہیں جو بہت کم آباد ہوئے۔ حقیقتاً وارث ومالک ہم ہی ہیں ایسے ظالموں کے پاس ہمارے عذاب اچانک آگئے اور وہ اپنی غفلتوں اور عیاشیوں میں مشغول تھے کہیں دن کو دوپہر کے آرام کے وقت، کہیں رات کے سونے کے وقت، چناچہ ایک آیت میں ہے ( افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا وھم نائمون اوامن اھل القری ان یاتیھم باسنا ضحی وھم یلعبون ) یعنی لوگ اس سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ ان کے سوتے ہوئے راتوں رات اچانک ہمارا عذاب آجائے ؟ یا انہیں ڈر نہیں کہ دن دیہاڑے دوپہر کو ان کے آرام کے وقت ان پر ہمارا عذاب آجائیں ؟ اور آیت میں ہے کہ مکاریوں کی وجہ سے ہماری نافرمانیاں کرنے والے اس بات سے نڈر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے ؟ یا ان کے پاس عذاب الٰہی اس طرح آجائے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے یا اللہ انہیں ان کی بیخبر ی میں آرام کی گھڑیوں میں ہی پکڑ لے کوئی نہیں جو اللہ کو عاجز کرسکے، یہ تو رب کی رحمت ورافت ہے جو گنہگار زمین پر چلتے پھرتے ہیں، عذاب رب آجانے کے بعد تو یہ خود اپنی زبانوں سے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیں گے لیکن اس وقت کیا نفع ؟ اسی مضمون کو آیت ( وکم قصمنا ) میں بیان فرمایا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کردیتا انہیں عذاب نہیں کرتا، عبدالملک سے جب یہ حدیث میں آیا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کردیتا انہیں عذاب نہیں کرتا تو آپ نے یہ آیت ( فما کان دعوھم ) الخ، پڑھ سنائی پھر فرمایا امتوں سے بھی، ان کے رسولوں سے بھی یعنی سب سے قیامت کے دن سوال ہوگا، جیسے فرمان ہے ( وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِيْنَ 65 ) 28۔ القصص) یعنی اس دن ندا کی جائے گی اور دریافت کیا جائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟ اس آیت میں امتوں سے سوال کیا جانا بیان کیا گیا ہے اور آیت میں ہے ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۭ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ 109 ) 5۔ المآئدہ) ، رسولوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں غیب کا جاننے والا تو ہی ہے پس امت سے رسولوں کی قبولیت کی بابت اور رسولوں سے تبلیغ کی بابت قیامت کے دن سوال ہوگا، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک با اختیار ہے اور اپنے زیر اختیار لوگوں کی بابت اس سے سوال کیا جانے والا ہے۔ بادشاہ سے اسکی رعایا کا ہر آدمی سے اس کی اہل و عیال کا، ہر عورت سے اس کے خاوند کے گھر کا، ہر غلام سے اس کے آقا کے مال کا سوال ہوگا۔ راوی حدیث حضرت طاؤس نے اس حدیث کو بیان فرما کر پھر آیت کی تلاوت کی۔ اس زیادتی کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم کی نکالی ہوئی بھی ہے اور زیادتی ابن مردویہ نے نقل کی ہے، قیامت کے دن اعمال نامے رکھے جائیں گے اور سارے اعمال ظاہر ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی جائے گی۔ اللہ ہر شخص کے اعمال سے باخبر ہے اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ نہ وہ کسی چیز سے غافل ہے۔ آنکھوں کی خیانت سے سینوں کی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے۔ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے۔ زمین کی اندھیریوں میں جو دانہ ہوتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے۔ تر و خشک چیز اس کے پاس کھلی کتاب میں موجود ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 6 فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ یہ فلسفہ رسالت کا بہت اہم موضوع ہے جو اس آیت میں بڑی جلالی شان کے ساتھ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف رسول کو اس لیے بھیجتا ہے تاکہ وہ اسے خبردار کردے۔ یہ ایک بہت بھاری اور حساس ذمہ داری ہے جو رسول پر ڈالی جاتی ہے۔ اب اگر بالفرض رسول کی طرف سے اس میں ذرا بھی کوتاہی ہوگی تو قوم سے پہلے اس کی پکڑ ہوجائے گی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آپ نے ایک اہم پیغام دے کر کسی آدمی کو اپنے کسی دوست کے پاس بھیجا کہ وہ یہ کام کل تک ضرور کردے ورنہ بہت نقصان ہوگا ‘ لیکن آپ کے اس دوست نے وہ کام نہیں کیا اور آپ کا نقصان ہوگیا۔ اب آپ غصّے سے آگ بگولہ اپنے دوست کے پاس پہنچے اور کہا کہ تم نے میرے پیغام کے مطابق بروقت میرا کام کیوں نہیں کیا ؟ اب آپ کا دوست اگر جواباً یہ کہہ دے کہ اس کے پاس تو آپ کا پیغام لے کر کوئی آیا ہی نہیں تو اپنے دوست سے آپ کی ناراضی فوراً ختم ہوجائے گی ‘ کیونکہ اس نے کوتاہی نہیں کی ‘ اور آپ کو شدیدغصہ اس شخص پر آئے گا جس کو آپ نے پیغام دے کر بھیجا تھا۔ اب آپ اس سے باز پرس کریں گے کہ تم نے میرا اتنا اہم پیغام کیوں نہیں پہنچایا ؟ تم نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دے کر میرا اتنا بڑا نقصان کردیا۔ اسی طرح کا معاملہ ہے اللہ ‘ رسول اور قوم کا۔ اللہ نے رسول کو پیغام بر بنا کر بھیجا۔ بالفرض اس پیغام کے پہنچانے میں رسول سے کوتاہی ہوجائے تو وہ جوابدہ ہوگا۔ ہاں اگر وہ پیغام پہنچا دے تو پھر وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا۔ پھر اگر قوم اس پیغام پر عمل درآمد نہیں کرے گی تو وہ ذمہ دار ٹھہرے گی۔ چناچہ آخرت میں امتوں کا بھی محاسبہ ہونا ہے اور رسولوں کا بھی۔ امت سے جواب طلبی ہوگی کہ میں نے تمہاری طرف اپنا رسول بھیجا تھا تاکہ وہ تمہیں میرا پیغام پہنچا دے ‘ تم نے اس پیغام کو قبول کیا یا نہیں کیا ؟ اور مرسلین سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام پہنچایا یا نہیں ؟ اس کی ایک جھلک ہم سورة المائدۃ آیت 109 میں مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط کے سوال میں اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ قیامت کے دن ہونے والے مکالمے کے ان الفاظ میں بھی دیکھ آئے ہیں : وَاِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط آیت 116 اور جب اللہ پوچھے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے کہا تھا لوگوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو بھی الٰہ بنا لینا اللہ کے علاوہ ؟ اب ذرا حجۃ الوداع 10 ہجری کے منظر کو ذہن میں لائیے۔ محمد رسول اللہ ﷺ ایک جم غفیر سے مخا طب ہیں۔ اس تاریخی موقع کے پس منظر میں آپ ﷺ کی 23 برس کی محنت شاقہ تھی ‘ جس کے نتیجے میں آپ ﷺ نے جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں پر اتمام حجت کر کے دین کو غالب کردیا تھا۔ لہٰذا آپ ﷺ نے اس مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا : اَلاَ ھَلْ بَلَّغْتُ ؟ لوگوسنو ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ اس پر پورے مجمع نے یک زبان ہو کر جواب دیا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ 1۔ ایک روایت میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَّ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ کہ ہاں ہم گواہ ہیں آپ ﷺ نے رسالت کا حق ادا کردیا ‘ آپ ﷺ نے امانت کا حق ادا کردیا یہ قرآن آپ ﷺ کے پاس اللہ کی امانت تھی جو آپ ﷺ نے ہم تک پہنچا دی ‘ آپ ﷺ نے امت کی خیر خواہی کا حق ادا کردیا اور آپ ﷺ نے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں کا پردہ چاک کردیا۔ حضور ﷺ نے تین دفعہ یہ سوال کیا اور تین دفعہ جواب لیا اور تینوں دفعہ انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر پکارا : اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اے اللہ تو بھی گواہ رہ ‘ یہ مان رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا۔ اور پھر فرمایا : فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ 2 کہ اب پہنچائیں وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں ان لوگوں کو جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ گویا میرے کندھے سے یہ بوجھ اتر کر اب تمہارے کندھوں پر آگیا ہے۔ اگر میں صرف تمہاری طرف رسول بن کر آیا ہوتا تو بات آج پوری ہوگئی ہوتی ‘ مگر میں تو رسول ہوں تمام انسانوں کے لیے جو قیامت تک آئیں گے۔ چناچہ اب اس دعوت اور تبلیغ کو ان لوگوں تک پہنچانا امت کے ذمہ ہے۔ یہی وہ گواہی ہے جس کا منظر سورة النساء میں دکھایا گیا ہے : فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا۔ ۔ پھر اس روز حجۃ الوداع کے موقع والی گواہی کا حوالہ بھی آئے گا کہ اے اللہ میں نے تو ان لوگوں کو تیرا پیغام پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ چونکہ معاملہ ان پر کھول دیا گیا تھا ‘ لہٰذا اب یہ لوگ لاعلمی کے بہانے کا سہارا نہیں لے سکتے۔آیت 6 فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ کی طرح اگلی آیت بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔
Surah Al Araaf Ayat 6 meaning in urdu
پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں، جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں (کہ اُنہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا)
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہ (دنیا میں) تھوڑا سا ہنس لیں اور (آخرت میں) ان کو ان اعمال کے
- یہ وعدہ ہم سے اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی ہوتا چلا
- کیا ان کے پاس تمہارے پروردگار کی رحمت کے خزانے ہیں جو غالب اور بہت
- جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے۔ اور
- اور یہ جس طرح کی نیکی کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی
- ہم اسے صعود پر چڑھائیں گے
- اور جب پیغمبر فراہم کئے جائیں
- اے پروردگار مجھ کو (ایسی توفیق عنایت) کر کہ نماز پڑھتا رہوں اور میری اولاد
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- مگر اس کو جو جہنم میں جانے والا ہے
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers