Surah hashr Ayat 5 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ حشر کی آیت نمبر 5 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah hashr ayat 5 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ﴾
[ الحشر: 5]

Ayat With Urdu Translation

(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ وہ نافرمانوں کو رسوا کرے

Surah hashr Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) لِينَةٍ، کھجور کی ایک قسم ہے، جیسے عجوہ، برنی وغیرہ کھجوروں کی قسمیں ہیں۔ یا عام کھجور کا درخت مراد ہے۔ دوران محاصرہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) کے حکم سے مسلمانوں نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگا دی، کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے۔ جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا۔ اور یہ واضح کرنا تھا کہ اب مسلمان تم پر غالب ہیں، وہ تمہارے اموال وجائیداد میں جس طرح چاہیں، تصرف کرنے پر قادر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کی اس حکمت عملی کی تصویب فرمائی اور اسے یہود کی رسوائی کا ذریعہ قرار دیا۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح تقدیس تمجید تکبیر توحید میں مشغول ہے، جیسے اور جگہ فرمان ہے ( وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا 44؀ ) 17۔ الإسراء :44) یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور ثناء خوانی کرتی ہے، وہ غلبہ والا اور بلند جناب والا اور عالی سرکار والا ہے اور اپنے تمام احکام و فرمان میں حکمت والا ہے۔ جس نے اہل کتاب کے کافروں یعنی قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کو ان کے گھروں سے نکالا، اس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں آ کر حضور ﷺ نے ان یہودیوں سے صلح کرلی تھی کہ نہ آپ ان سے لڑیں نہ یہ آپ سے لڑیں، لیکن ان لوگوں نے اس عہد کو توڑ دیا جن کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو ان پر غالب کیا اور آپ نے انہیں یہاں سے نکال دیا، مسلمانوں کو کبھی اس کا خیال تک نہ تھا، خود یہ یہود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان مضبوط قلعوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لیکن جب اللہ کی پکڑ آئی یہ سب چیزیں یونہی رکھی کی رکھی رہ گئیں اور اچانک اس طرح گرفت میں آگئے کہ حیران رہ گئے اور آپ نے انہیں مدینہ سے نکلوا دیا، بعض تو شام کی زراعتی زمینوں میں چلے گئے جو حشر و نشر کی جگہ ہے اور بعض خیبر کی طرف جا نکلے، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے اونٹوں پر لاد کر جو لے جا سکو اپنے ساتھ لے جاؤ، اس لئے انہوں نے اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ کر جو چیزیں لے جاسکتے تھے اپنے ساتھ اٹھالیں، جو رہ گئیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگیں، اس واقعہ کو بیان کر کے فرماتا ہے کہ اللہ کے اور اس کے رسول ﷺ کے مخالفین کا انجام دیکھو اور اس سے عبرت حاصل کرو کہ کس طرح ان پر عذاب الٰہی اچانک آپڑا اور دنیا میں بھی تباہ و برباد کئے گئے اور آخرت میں بھی ذلیل و رسوا ہوگئے اور درد ناک عذاب میں جا پڑا۔ ابو داؤد میں ہے کہ ابن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو جو قبیلہ اوس و خزرج میں سے تھے کفار قریش نے خط لکھا یہ خط انہیںحضور ﷺ کے میدان بدر سے واپس لوٹنے سے پہلے مل گیا تھا اس میں تحریر تھا کہ تم نے حضور ﷺ کو اپنے شہر میں ٹھہرایا ہے پس یا تو تم اس سے لڑائی کرو اور اسے نکال کر باہر کرو یا ہم تمہیں نکال دیں گے اور اپنے تمام لشکروں کو لے کر تم پر حملہ کریں گے اور تمہارے تمام لڑنے والوں کو ہم تہ تیغ کردیں گے اور تمہاری عورتوں لڑکیوں کو لونڈیاں بنالیں گے اللہ کی قسم یہ ہو کر ہی رہے گا اب تم سوچ سمجھ لو، عبداللہ بن ابی اور اس کے بت پرست ساتھیوں نے اس خط کو پا کر آپس میں مشورہ کیا اور خفیہ طور پر حضور ﷺ سے لڑائی کرنے کی تجویز بالاتفاق منظور کرلی، جب حضور ﷺ کو یہ خبریں معلوم ہوئیں تو آپ خود ان کے پاس گئے اور ان سے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ قریشیوں کا خط کام کر گیا اور تم لوگ اپنی موت کے سامان اپنے ہاتھوں کرنے لگے ہو تم اپنی اولادوں اور اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنا چاہتے ہو میں تمہیں پھر ایک مرتبہ موقعہ دیتا ہوں کہ سوچ سمجھ لو اور اپنے اس بد ارادے سے باز آؤ، حضور ﷺ کے اس ارشاد نے ان پر اثر کیا اور وہ لوگ اپنی اپنی جگہ چلے گئے لیکن قریش نے بدر سے فارغ ہو کر انہیں پھر ایک خط لکھا اور اسی طرح دھمکایا انہیں ان کی قوت ان کی تعداد اور ان کے مضبوط قلعے یاد دلائے مگر یہ پھر اکڑ میں آگئے اور بنو نضیر نے صاف طور پر بد عہدی پر کمر باندھ لی اور حضور ﷺ کے پاس قاصد بھیجا کہ آپ تیس آدمی لے کر آیئے ہم میں سے بھی تیس ذی علم آدمی آتے ہیں، ہمارے تمہارے درمیان کی جگہ پر یہ ساٹھ آدمی ملیں اور آپس میں بات چیت ہو اگر یہ لوگ آپ کو سچا مان لیں اور ایمان لے آئیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ اس بد عہدی کی وجہ سے دوسرے دن صبح رسول اللہ ﷺ نے اپنا لشکر لے جا کر ان کا محاصرہ کرلیا اور ان سے فرمایا کہ اب اگر تم نئے سرے سے امن وامان کا عہد و پیمان کرو تو خیر ورنہ تمہیں امن نہیں انہوں نے صاف انکار کردیا اور لڑنے مرنے پر تیار ہوگئے، چناچہ دن بھر لڑائی ہوتی رہی، دوسری صبح کو آپ بنو قریظہ کی طرف لشکر لے کر بڑھے اور بنو نضیر کو یونہی چھوڑا ان سے بھی یہی فرمایا کہ تم نئے سرے سے عہد و پیمان کرو انہوں نے منظور کرلیا اور معاہدہ ہوگیا، آپ وہاں سے فارغ ہو کر پھر بنو نضیر کے پاس آئے لڑائی شروع ہوئی، آخر یہ ہارے اور حضور ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ تم مدینہ خالی کردو جو اسباب لے جانا چاہو اور اونٹوں پر لاد کرلے جاؤ چناچہ انہوں نے گھر بار کا اسباب یہاں تک کہ دروازے اور لکڑیاں بھی اونٹوں پر لادیں اور جلا وطن ہوگئے، ان کے کھجوروں کے درخت خاصتہ رسول اللہ ﷺ کے ہوگئے اللہ تعالیٰ نے یہ آپ کو ہی دلوا دیئے، جیسے آیت ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ) 59۔ الحشر:6) میں ہے، لیکن آنحضرت ﷺ نے اکثر حصہ مہاجرین کو دے دیا وہاں انصاریوں میں سے صرف دو ہی حاجت مندوں کو حصہ دیا باقی سب مہاجرین میں تقسیم کردیا۔ تقسیم کے بعد جو باقی رہ گیا تھا یہی وہ مال تھا جو رسول اللہ ﷺ کا صدقہ تھا اور جو بنو فاطمہ کے ہاتھ لگا۔ غزوہ بنو نضیر کا مختصر قصہ اور سبب یہ ہے کہ مشرکوں نے دھوکہ بازی سے صحابہ کرام کو بیئر معونہ میں شہید کردیا ان کی تعداد ستر تھی ان میں سے ایک حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓ بچ کر بھاگ نکلے مدینہ شریف کی طرف آئے آتے آتے موقعہ پا کر انہوں نے قبیلہ بنو عامر کے دو شخصوں کو قتل کردیا حالانکہ یہ قبیلہ رسول اللہ ﷺ سے معاہدہ کرچکا تھا اور آپ نے انہیں امن وامان دے رکھا تھا لیکن اس کی خبر حضرت عمر و کو نہ تھی، جب یہ مدینے پہنچے اور حضور ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم نے انہیں قتل کر ڈالا اب مھے ان کے وارثوں کو دیت یعنی جرمانہ قتل ادا کرنا پڑے گا، بنو نضیر اور بنو عامر میں بھی حلف و عقد اور آپس میں مصالحت تھی اس لئے حضور ﷺ ان کی طرف چلے تاکہ کچھ یہ دیں کچھ آپ دیں اور بنو عامر کو راضی کرلیا جائے۔ قبیلہ بنو نضیر کی گڑھی مدینہ کے مشرق کی جانب کئی میل کے فاصلے پر تھی جب آپ یہاں پہنچے تو انہوں نے کہاں ہاں حضور ﷺ ہم میں موجود ہیں ابھی ابھی جمع کر کے اپنے حصے کے مطابق آپ کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں ادھر آپ سے ہٹ کر یہ لوگ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اس سے بہتر موقعہ کب ہاتھ لگے گا۔ اس وقت آپ قبضے میں ہیں آؤ کام تمام کر ڈالو، چناچہ یہ مشورہ ہوا کہ جس دیوار سے آپ لگے بیٹھے ہیں اس گھر پر کوئی چڑھ جائے اور وہاں سے بڑا سا پتھر آپ ﷺ پر پھینک دے کہ آپ ﷺ دب جائیں، عمرو بن مجاش بن کعب اس کام پر مقرر ہوا اس نے آپ کی جان لینے کا بیڑا اٹھایا اور چھت پر چڑھ گیا چاہتا تھا کہ پتھر لڑھکا دے اتنے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑ کو حضور ﷺ کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ آپ یہاں سے اٹھ کھڑے ہوں چناچہ آپ فوراً ہٹ گئے اور یہ بدباطن اپنے برے ارادے میں ناکام رہے۔ آپ کے ساتھ اس وقت چند صحابہ تھے مثلاً حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت علی ؓ وغیرہ آپ یہاں سے فوراً مدینہ شریف کی طرف چل پڑے، ادھر جو صحابہ آپ کے ساتھ نہ تھے اور مدینہ میں آپ کے منتظر تھے انہیں دیر لگنے کے باعث خیال ہوا اور وہ آپ کو ڈھونڈنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے لیکن ایک شخص سے معلوم ہوا کہ آپ مدینہ شریف پہنچ گئے ہیں چناچہ یہ لوگ وہیں آئے پوچھا کہ حضور ﷺ کیا واقعہ ہے ؟ آپ نے سارا قصہ کہہ سنایا اور حکم دیا کہ جہاد کی تیاری کرو مجاہدین نے کمریں باندھ لیں اور اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ یہودیوں نے لشکروں کو دیکھ کر اپنے قلعہ کے پھاٹک بند کردیئے اور پناہ گزین ہوگئے آپ نے محاصرہ کرلیا پھر حکم دیا کہ ان کے کھجور کے درخت جو آس پاس ہیں وہ کاٹ دیئے جائیں اور جلا دیئے جائیں، اب تو یہود چیخنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ آپ تو زمین میں فساد کرنے سے اوروں کو روکتے تھے اور فسادیوں کو برا کہتے تھے پھر یہ کیا ہونے لگا ؟ پس ادھر تو درخت کٹنے کا غم، ادھر جو کمک آنے والی تھی اس کی طرف سے مایوسی ان دونوں چیزوں نے ان یہودیوں کی کمر توڑ دی۔ کمک کا واقعہ یہ ہے کہ بنو عوف بن خزرج کا قبیلہ جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور ودیعہ بن مالک، ابن ابو قوقل اور سوید اور داعس وغیرہ تھے ان لوگوں نے بنو نضیر کو کہلوا بھیجا تھا کہ تم مقابلے پر جمے رہو اور قلعہ خالی نہ کرو ہم تمہاری مدد پر ہیں تمہارا دشمن ہمارا دشمن ہے ہم تمہارے ساتھ مل کر اس سے لڑیں گے اور اگر تم نکلے تو ہم بھی نکلیں گے، لیکن اب تک ان کا یہ وعدہ پورا نہ ہوا اور انہوں نے یہودیوں کی کوئی مدد نہ کی، ادھر ان کے دل مرعوب ہوگئے تو انہوں نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ہماری جان بخشی کیجئے ہم مدینہ چھوڑ جاتے ہیں لیکن ہم اپنا جو مال اونٹوں پر لاد کرلے جاسکیں وہ ہمیں دے دیا جائے آپ نے ان پر رحم کھا کر ان کی یہ درخواست منظور فرمالی اور یہ لوگ یہاں سے چلے گئے جاتے وقت اپنے دروازوں تک کو اکھیڑ کرلے گئے گھروں کو گرا گئے اور شام اور خیبر میں جا کر آباد ہوگئے، ان کے باقی کے اہل خاص رسول اللہ ﷺ کے ہوگئے کہ آپ جس طرح چاہیں انہیں خرچ کریں چناچہ آپ نے مہاجرین اولین کو یہ مال تقسیم کردیا، ہاں انصار میں سے صرف دو شخصوں کو یعنی سہل بن حنیف اور ابو دجانہ سماک بن خرشہ کو دیا اس لئے کہ یہ دونوں حضرات مساکین تھے، بنو نضیر میں سے صرف دو شخص مسلمان ہوئے جن کے مال انہی کے پاس رہے ایک تو یامین بن عمیر جو عمرو بن حجاش کے چچا کے لڑکے کا لڑکا تھا یہ عمرو وہ ہے جس نے حضور ﷺ پر پتھر پھینکنے کا بیڑا اٹھایا تھا، دوسرے ابو سعد بن وہب ایک مرتبہ حضور ﷺ نے حضرت یامین سے فرمایا کہ اے یامین تیرے اس چچا زاد بھائی نے دیکھ تو میرے ساتھ کس قدر برا برتاؤ برتا اور مجھے نقصان پہنچانے کی کس بےباکی سے کوشش کی ؟ حضرت یامین نے ایک شخص کو کچھ دینا کر کے عمرو کو قتل کرا دیا، سورة حشر اسی واقعہ بنو نضیر کے بارے میں اتری ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جسے اس میں شک ہو کہ محشر کی زمین شام کا ملک ہے وہ اس آیت کو پڑھ لے، ان یہودیوں سے جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ تو انہوں نے کہا ہم کہاں جائیں ؟ آپ نے فرمایا محشر کی زمین کی طرف، حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے بنو نضیر کو جلا وطن کیا تو فرمایا یہ اول حشر ہے اور ہم بھی اس کے پیچھے ہی پیچھے ہیں ( ابن جریر ) بنو نضیر کے ان قلعوں کا محاصرہ صرف چھ روز رہا تھا، محاصرین کو قلعہ کی مضبوطی یہودیوں کی زیادتی یکجہتی منافقین کی سازشیں اور خفیہ چالیں وغیرہ دیکھ کر ہرگز یہ یقین نہ تھا کہ اس قدر جلد یہ قلعہ خالی کردیں گے ادھر خود یہود بھی اپنے قلعہ کی مضبوطی پر نازاں تھے اور جانتے تھے کہ وہ ہر طرح محفوظ ہیں، لیکن امر اللہ ایسی جگہ سے آگیا جو ان کے خیال میں بھی نہ تھی، یہی دستور اللہ کا ہے کہ مکار اپنی مکاری میں ہی رہتے ہیں اور بیخبر ان پر عذاب الٰہی آجاتا ہے، ان کے دلوں میں رعب چھا گیا بھلا رعب کیوں نہ چھاتا محاصرہ کرنے والے وہ تھے جنہیں اللہ کی طرف سے رعب دیا گیا تھا کہ دشمن مہینہ بھر کی راہ پر ہو اور وہیں اس کا دل دہلنے لگا تھا صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ یہودی اپنے ہاتھوں اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے چھتوں کی لکڑی اور دروازے لے جانے کے لئے توڑنے پھوڑنے شروع کردیئے مقاتل فرماتے ہیں مسلمانوں نے بھی ان کے گھر توڑے اس طرح کہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے ان کے جو جو مکانات وغیرہ قبضے میں آتے گئے میدان کشادہ کرنے کے لئے انہیں ڈھاتے گئے، اسی طرح خود یہود بھی اپنے مکانوں کو آگے سے تو محفوظ کرتے جاتے تھے اور پیچھے سے نقب لگا کر نکلنے کے راستے بناتے جاتے تھے، پھر فرماتا ہے، اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو اور اس اللہ سے ڈرو جس کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ اگر ان یہودیوں کے مقدر میں جلا وطنی نہ ہوتی تو انہیں اس سے بھی سخت عذاب دیا جاتا، یہ قتل ہوتے اور قید کر لئے جاتے وغیرہ وغیرہ، پھر آخرت کے بدترین عذاب بھی ان کے لئے تیار ہیں۔ بنو نضیر کی یہ لڑائی جنگ بدر کے چھ ماہ بعد ہوئی، مال جو اونٹوں پر لد جائیں انہیں لے جانے کی اجازت تھی مگر ہتھیار لے جانے کی اجازت نہ تھی، یہ اس قبیلے کے لوگ تھے جنہیں اس سے پہلے کبھی جلا وطنی ہوئی ہی نہ تھی بقول حضرت عروہ بن زبیر شروع سورت سے فاسقین تک آیتیں اسی واقعہ کے بیان میں نازل ہوئی ہیں۔ جلاء کے معنی قتل و فنا کے بھی کئے گئے ہیں، حضور ﷺ نے انہیں جلا وطنی کے وقت تین تین میں ایک ایک اونٹ اور ایک ایک مشک دی تھی، اس فیصلہ کے بعد بھی حضور ﷺ نے محمد بن مسلمہ ؓ کو ان کے پاس بھیجا تھا اور انہیں اجازت دی تھی کہ تین دن میں اپنا سامان ٹھیک کر کے چلے آئیں، اس دنیوی عذاب کے ساتھ ہی اخروی عذاب کا بھی بیان ہو رہا ہے کہ وہاں بھی ان کے لئے حتمی اور لازمی طور پر جہنم کی آگ ہے۔ ان کی اس درگت کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول ﷺ کا خلاف کیا اور ایک اعتبار سے تمام نبیوں کو جھٹلایا اس لئے کہ ہر نبی نے آپ کی بابت پیش گوئی کی تھی، یہ لوگ آپ کو پوری طرح جانتے تھے بلکہ اولاد کو ان کا باپ جس قدر پہچانتا ہے اس سے بھی زیادہ یہ لوگ نبی آخری الزماں کو جانتے تھے لیکن تاہم سرکشی اور حسد کی وجہ سے مانے نہیں، بلکہ مقابلے پر تل گئے اور یہ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے مخالفوں پر سخت عذاب نازل فرماتا ہے۔ لینہ کہتے ہیں اچھی کھجوروں کے درختوں کو عجوہ اور برفی جو کھجور کی قسمیں ہیں بقول بعض وہ لینہ میں داخل نہیں اور بعض کہتے ہیں صرف عجوہ نہیں اور بعض کہتے ہیں ہر قسم کی کھجوریں اس میں داخل ہیں جن میں بویرہ بھی داخل ہے، یہودیوں نے جو بطور طعنہ کے کہا تھا کہ کھجوروں کے درخت کٹوا کر اپنے قول کے خلاف فعل کر کے زمین میں فساد کیوں پھیلاتے ہیں ؟ یہ اس کا جواب ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حکم رب سے اور اجازت اللہ سے دشمنان اللہ کو ذلیل و ناکام کرنے اور انہیں پست و بدنصیب کرنے کے لئے ہو رہا ہے جو درخت باقی رکھے جائیں وہ اجازت سے اور جو کاٹے جاتے ہیں وہ بھی مصلحت کے ساتھ، یہ بھی مروی ہے کہ بعض مہاجرین نے بعض کو ان درختوں کے کاٹنے سے منع کیا تھا کہ آخر کار تو یہ مسلمانوں کو بطور مال غنیمت ملنے والے ہیں پھر انہیں کیوں کاٹا جائے ؟ جس پر یہ آیت اتری کہ روکنے والے بھی حق بجانب ہیں اور کاٹنے والے بھی برحق ہیں ان کی نیت مسلمانوں کے نفع کی ہے اور ان کی نیت کافروں کو غیظ و غضب میں لانے اور انہیں ان کی شرارت کا مزہ چکھانے کی ہے، اور یہ بھی ارادہ ہے کہ اس سے جل کر وہ غصے میں پھر کر میدان میں آئیں تو پھر دو دو ہاتھ ہوجائیں اور اعداء دین کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے، صحابہ نے یہ فعل کر تو لیا پھر ڈرے کہ ایسا نہ ہو کاٹنے میں یا باقی چھوڑنے میں اللہ کی طرف سے کوئی مواخذہ ہو تو انہوں نے حضور ﷺ سے پوچھا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی دونوں باتوں پر اجر ہے کاٹنے پر بھی اور چھوڑنے پر بھی، بعض روایتوں میں ہے کٹوائے بھی تھے اور جلوائے بھی تھے۔ بنو قریظہ کے یہودیوں پر اس وقت حضور ﷺ نے احسان کیا اور ان کو مدینہ شریف میں ہی رہنے دیا لیکن بالآخر جب یہ بھی مقابلے پر آئے اور منہ کی کھائی تو ان کے لڑنے والے مرد تو قتل کئے گئے اور عورتیں، بچے اور مال مسلمانوں میں تقسیم کردیئے گئے ہاں جو لوگ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور ایمان لائے وہ بچ رہے، پھر مدینہ سے تمام یہودیوں کو نکال دیا بنو قینقاع کو بھی جن میں سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ تھے اور بنو حارثہ کو بھی اور کل یہودیوں کو جلا وطن کیا۔ ان تمام واقعات کو عرب شاعروں نے اپنے اشعار میں بھی نہایت خوبی سے ادا کیا ہے، جو سیرۃ ابن اسحاق میں مروی ہیں یہ واقعہ بقول ابن اسحاق کے احد اور بیر معونہ کے بعد کا ہے اور بقول عروہ بدر کے چھ مہینے بعد کا ہے واللہ اعلم۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 5{ مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْتَرَکْتُمُوْہَا قَآئِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِہَا فَبِاِذْنِ اللّٰہِ } لِینہ ایک خاص قسم کی کھجور کے درخت کو کہتے ہیں۔ یہودیوں کی گڑھیوں اور حویلیوں کے گرد یہ درخت باڑ کی شکل میں کثرت سے موجود تھے۔ مسلمانوں نے جب ان کا محاصرہ کیا تو حملہ کے لیے راستے بنانے کی غرض سے حسب ِضرورت ان میں سے کچھ درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا۔ یہودیوں نے مسلمانوں کے اس عمل کو ہدفِ تنقید بنایا اور پروپیگنڈا کیا کہ یہ لوگ خود کو مومنین کہتے ہیں اور ان کے قائد اللہ کے رسول ﷺ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ‘ لیکن ان لوگوں کی اخلاقیات کا معیار یہ ہے کہ پھل دار درختوں کو بھی کاٹنے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہودیوں کے اس پراپیگنڈے کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود دیا۔ چناچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے مذکورہ اقدام پر اپنی منظوری sanction کی مہر ثبت کرتے ہوئے واضح کردیا کہ مسلمانوں نے یہ درخت جنگی ضرورت کے تحت اللہ کے رسول ﷺ کی موجودگی میں کاٹے ہیں۔ چناچہ جب اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کیا تو پھر سمجھ لو کہ اللہ کی طرف سے اس کی اجازت دی گئی تھی۔ { وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ۔ } ’ اب اگلی آیات میں مال فے کا ذکر آ رہا ہے جو اس سورت کا اہم ترین مضمون ہے۔ چناچہ ان آیات کے مطالعہ سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ مال فے کیا ہے اور یہ مال غنیمت سے کس طرح مختلف ہے۔ مالِ غنیمت تو وہ مال ہے جو باقاعدہ جنگ کے نتیجے میں حاصل ہو۔ اس سے پہلے سورة الأنفال کی آیت 41 میں مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں حکم آچکا ہے۔ اس حکم کے مطابق مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ ‘ اس کے رسول ﷺ ‘ رسول ﷺ کے قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کے لیے مخصوص ہوگا ‘ جبکہ باقی چار حصے اس جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کے مابین تقسیم کردیے جائیں گے ‘ اور اس تقسیم میں سوار کو پیدل کے مقابلے میں دو حصے ملیں گے۔ اس کے برعکس ” مالِ فے “ وہ مال ہے جو مسلمانوں کو کسی جنگ کے بغیر ہی حاصل ہوجائے ‘ جیسے زیر مطالعہ واقعہ میں باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی تھی ‘ مسلمانوں نے بنونضیر کا محاصرہ کیا اور انہوں نے مرعوب ہو کر ہتھیار ڈال دیے۔ چناچہ اس مہم کے نتیجے میں حاصل ہونے والی زمینیں اور دوسری تمام اشیاء مال فے قرار پائیں۔ آگے آیت 7 میں مال فے کے بارے میں واضح کردیا گیا کہ یہ مال ُ کل کا کل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہے۔ اس میں سے اللہ کے رسول ﷺ اپنی مرضی سے غرباء و مساکین کو تو دیں گے لیکن عام مسلمانوں کو اس میں سے حصہ نہیں ملے گا۔

ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين

سورة: الحشر - آية: ( 5 )  - جزء: ( 28 )  -  صفحة: ( 546 )

Surah hashr Ayat 5 meaning in urdu

تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، یہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا اور (اللہ نے یہ اذن اس لیے دیا) تاکہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. پھر اس کے سر پر کھولتا ہوا پانی انڈیل دو (کہ عذاب پر) عذاب (ہو)
  2. سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
  3. وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا
  4. جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے
  5. اے پیغمبر! جو لوگ کفر میں جلدی کرتے ہیں (کچھ تو) ان میں سے (ہیں)
  6. اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے
  7. ہماری طرف یہ وحی آئی ہے کہ جو جھٹلائے اور منہ پھیرے اس کے لئے
  8. اور ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر ان کی قوم کی طرف بھیجے تو
  9. یا یہ اپنے پیغمبر کو جانتے پہنچانتے نہیں، اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے
  10. تم ان کے لیے بخشش مانگو یا نہ مانگو۔ (بات ایک ہے) ۔ اگر ان

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah hashr with the voice of the most famous Quran reciters :

surah hashr mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter hashr Complete with high quality
surah hashr Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah hashr Bandar Balila
Bandar Balila
surah hashr Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah hashr Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah hashr Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah hashr Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah hashr Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah hashr Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah hashr Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah hashr Fares Abbad
Fares Abbad
surah hashr Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah hashr Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah hashr Al Hosary
Al Hosary
surah hashr Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah hashr Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers