Surah An Nur Ayat 50 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾
[ النور: 50]
کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا (یہ) شک میں ہیں یا ان کو یہ خوف ہے کہ خدا اور اس کا رسول ان کے حق میں ظلم کریں گے (نہیں) بلکہ یہ خود ظالم ہیں
Surah An Nur Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جب فیصلہ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے تو اس سے اعراض وگریز کی وجہ بیان کی جارہی ہےکہ یا تو ان کے دلوں میں کفرونفاق کا روگ ہے یا انہیں نبوت محمدی میں شک ہے یا انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان پر اللہ اور اس کا رسول ( صلى الله عليه وسلم ) ظلم کرے گا، حالانکہ ان کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان ہی نہیں، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہی ظالم ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ جب قضا و فیصلے کے لئے ایسے حاکم و قاضی کی طرف بلایا جائے جو عادل اور قرآن وسنت کا عالم ہو، تو اس کے پاس جانا ضروری ہے۔ البتہ اگر وہ قاضی کتاب وسنت کے علم اور ان کے دلائل سے بےبہرہ ہو تو اس کے پاس فیصلے کے لئے جانا ضروری نہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
منافق کی زبان اور، دل منافقوں کا حل بیان ہو رہا ہے کہ زبان تو ایمان واطاعت کا اقرار کرتے ہیں لیکن دل سے اس کے خلاف ہیں۔ عمل کچھ ہے قول کچھ ہے۔ اس لئے کہ دراصل ایماندار نہیں۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص بادشاہ کے سامنے بلوایا جائے اور وہ نہ جائے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے۔ جب انہیں ہدایت کی طرف بلایا جاتا ہے، قرآن و حدیث کے ماننے کو کہا جاتا ہے تو یہ منہ پھیر لیتے ہیں اور تکبر کرنے لگتے ہیں جیسے آیت ( الم تر الی الذین یزعمون سے صدودا ) تک کی آیتوں میں بیان گزر چکا ہے۔ ہاں اگر انہیں شرعی فیصلے میں اپنا نفع نظر آتا ہو تو لمبے لمبے کلمے پڑھتے ہوئے، گردن ہلاتے ہوئے ہنسی خوش چلے آئیں گے اور جب معلوم ہوجائے کہ شرعی فیصلہ ان کی طبعی خواہش کے خلاف ہے، دنیوں مفاد کے خلاف ہے تو حق کی طرف مڑ کر دیکھیں گے بھی نہیں۔ پس ایسے لوگ پکے کافر ہیں۔ اس لئے کہ تین حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ ان کے دلوں میں ہی بےایمانی گھر کرگئی ہے یا انہیں اللہ کے دین کی حقانیت میں شکوک ہیں یا خوف ہے کہ کہیں اللہ اور رسول ان کا حق نہ مارلیں، ان پر ظلم وستم کریں گے اور یہ تینوں صورتیں کفر کی ہیں۔ اللہ ان میں سے ہر ایک کو جانتا ہے جو جیسا باطن میں ہے اس کے پاس وہ ظاہر ہے۔ دراصل یہی لوگ جابر ہیں، ظالم ہیں، اللہ اور رسول اللہ اس سے پاک ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانے میں ایسے کافر جو ظاہر میں مسلمان تھے، بہت سے تھے، انہیں جب اپنا مطلب قرآن و حدیث میں نکلتا نظر آتا تو خدمت نبوی میں اپنے جھگڑے پیش کرتے اور جب انہیں دوسروں سے مطلب براری نظر آتی تو سرکار محمد ﷺ میں آنے سے صاف انکار کر جاتے۔ پس یہ آیت اتری اور حضور ﷺ نے فرمایا جن دو شخصوں میں کوئی جھگڑا ہو اور وہ اسلامی حکم کے مطابق فیصلے کی طرف بلایا جائے اور وہ اس سے انکار کرے وہ ظالم ہے اور ناحق پر ہے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ پھر سچے مومنوں کی شان بیان ہوتی ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی تیسری چیز کو داخل دین نہیں سمجھتے۔ وہ تو قرآن و حدیث سنتے ہی، اس کی دعوت کی ندا کان میں پڑتے ہی صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا یہ کامیاب، بامراد اور نجات یافتہ لوگ ہیں۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ جو بدری صحابی ہیں۔ انصاری ہیں، انصاروں کے ایک سردار ہیں، انہوں نے اپنے بھتیجے جنادہ بن امیہ سے بوقت انتقال فرمایا کہ آؤ مجھ سے سن لو کہ تمہارے ذمے کیا ہے ؟ سننا اور ماننا سختی میں بھی آسانی میں بھی، خوشی میں بھی ناخوشی میں بھی، اس وقت بھی جب کہ تیرا حق دوسرے کو دیا جارہا ہو، اپنی زبان کو عدل اور سچائی کے ساتھ سیدھی رکھ۔ کام کے اہل لوگوں سے کام کو نہ چھین، ہاں اگر کسی کھلی نافرمانی کا وہ حکم دیں تو نہ ماننا۔ کتاب اللہ کے خلاف کوئی بھی کہے ہرگز نہ ماننا۔ کتاب اللہ کی پیروی میں لگے رہنا۔ ابو درداء ؓ فرماتے ہیں کہ اسلام بغیر اللہ کی اطاعت کے نہیں اور بہتری جو کچھ ہے وہ جماعت کی، اللہ کی، اس کے رسول کی، خلیفۃ المسلمین کی اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی میں ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں اسلام کا مضبوط کڑا، اللہ کی وحدانیت کی گواہی، نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی اور مسلمانوں کے بادشاہ کی اطاعت ہے۔ جو احادیث وآثار کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بارے میں اور مسلمان بادشاہوں کی ماننے کے بارے میں مروی ہیں وہ اس کثرت سے ہیں کہ سب یہاں کسی طرح بیان ہو ہی نہیں سکتیں۔ جو شخص اللہ اور رسول کا نافرمان بن جائے جو حکم ملے بجا لائے جس چیز سے روک دیں رک جائے جو گناہ ہوجائے اس سے خوف کھاتا رہے آئندہ کے لئے اس سے بچتا رہے ایسے لوگ تمام بھلائیوں کو سمیٹنے والے اور تمام برائیوں سے بچ جانے والے ہیں۔ دنیا اور آخرت میں وہ نجات یافتہ ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
بَلْ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ”چونکہ یہ لوگ حقیقی ایمان سے محروم ہیں ‘ اس لیے اس کھوٹ کا عکس ان کے کرداروں میں نمایاں ہے۔
أفي قلوبهم مرض أم ارتابوا أم يخافون أن يحيف الله عليهم ورسوله بل أولئك هم الظالمون
سورة: النور - آية: ( 50 ) - جزء: ( 18 ) - صفحة: ( 356 )Surah An Nur Ayat 50 meaning in urdu
کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا ان کو یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ ظالم تو یہ لوگ خود ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور یہ کہ میرا عذاب بھی درد دینے والا عذاب ہے
- کیا اُن لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی (سیر کرتے) تو دیکھ لیتے کہ
- بھلا جس شخص پر عذاب کا حکم صادر ہوچکا۔ تو کیا تم (ایسے) دوزخی کو
- اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے تو ادنیٰ درجے کے لوگ بڑے آدمیوں سے
- بلکہ کافر جھٹلاتے ہیں
- بڑا مہربان نہایت رحم والا
- جہنوں نے کفر کیا ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ اور جو ایمان لائے اور
- کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ
- اے اہل ایمان! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد
- ہاں جو توبہ کرتے ہیں اور اپنی حالت درست کرلیتے اور (احکام الہیٰ کو) صاف
Quran surahs in English :
Download surah An Nur with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nur mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nur Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers