Surah Furqan Ayat 52 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا﴾
[ الفرقان: 52]
تو تم کافروں کا کہا نہ مانو اور ان سے اس قرآن کے حکم کے مطابق بڑے شدومد سے لڑو
Surah Furqan Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) جَاهِدْهُمْ بِهِ میں ” ھا “ کا مرجع قرآن ہے یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کریں، یہ آیت مکی ہے، ابھی جہاد کا حکم نہیں ملا تھا۔ اس لیے مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے اوامرونواہی کھول کھول کر بیان کریں اور اہل کفر کے لیے جو زجر وتوبیخ اور وعیدیں ہیں، وہ واضح کریں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
النبی کل عالم ؑ اگر رب چاہتا تو ہر ہر بستی میں ایک ایک نبی بھیج دیتا لیکن اس نے تمام دنیا کی طرف صرف ایک ہی نبی بھیجا ہے اور پھر اسے حکم دے دیا ہے کہ قرآن کا وعظ سب کو سنا دے۔ جیسے فرمان ہے کہ میں اس قرآن سے تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ہوشیار کردوں اور ان تمام جماعتوں میں سے جو بھی اس سے کفر کرے اس کے ٹھہر نے کی جگہ جہنم ہے اور فرمان ہے کہ تم مکہ والوں کو اور چاروں طرف کے لوگوں کو آگاہ کردو۔ اور آیت میں ہے کہ اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ اے تمام لوگو ! میں تم سب کی طرف رسول اللہ ﷺ بن کر آیا ہوں۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے میں سرخ وسیاہ سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ بخاری ومسلم کی اور حدیث میں ہے کہ تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے رہے اور میں عام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ پھر فرمایا کافروں کا کہنا نہ ماننا اور اس قرآن کے ساتھ ان سے بہت بڑاجہاد کرنا۔ جیسے ارشاد ہے۔ آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۭ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ) 66۔ التحريم:9) یعنی اے نبی کافروں سے اور منافقوں سے جہاد کرتے رہو۔ اسی رب نے پانی کو دو طرح کا کردیا ہے۔ میٹھا اور کھاری۔ نہروں چشموں اور کنووں کا پانی عموما شیریں صاف اور خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ بعض ٹھہرے ہوئے سمندروں کا پانی کھاری اور بدمزہ ہوتا ہے۔ اللہ کی اس نعمت پر بھی شکر کرنا چاہیے کہ اس نے میٹھے پانی کی چاروں طرف ریل پیل کردی تاکہ لوگوں کو نہانے دھونے پینے اور کھیت اور باغات کو پانی دینے میں آسانی رہے۔ مشرقوں اور مغربوں میں محیط سمندر کھاری پانی کے اس نے بہادیئے جو ٹھہرے ہوئے ہیں، ادھر ادھر بہتے نہیں لیکن موجیں مار رہے ہیں، تلاطم پیدا کر رہے ہیں، بعض میں مدوجزر ہے، ہر مہینے کی ابتدائی تاریخوں میں تو ان میں زیادتی اور بہاؤ ہوتا ہے پھر چاند کے گھٹنے کے ساتھ وہ گھٹتا جاتا ہے یہاں تک آخر میں اپنی حالت پر آجاتا ہے پھر جہاں چاند چڑھا یہ بھی چڑھنے لگا چودہ تاریخ تک برابر چاند کیساتھ چڑھتا رہا پھر اترنا شروع ہوا ان تمام سمندروں کو اسی اللہ نے پیدا کیا ہے وہ پوری اور زبردست قدرت والا ہے۔ کھاری اور گرم پانی گو پینے کے کام نہیں آتا لیکن ہواؤں کو صاف کردیتا ہے جس سے انسانی زندگی ہلاکت میں نہ پڑے اس میں جو جانور مرجاتے ہیں ان کی بدبو دنیا والوں کو ستا نہیں سکتی اور کھاری پانی کے سبب سے اس کی ہوا صحت بخش اور اسکا مردہ پاک طیب ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ سے جب سمندر کے پانی کی نسبت سوال ہوا کہ کیا ہم اس سے وضو کرلیں ؟ تو آپ نے فرمایا اسکا پانی پاک ہے اور اسکا مردہ حلال ہے۔ مالک شافعی اور اہل سنن ؒ نے اسے روایت کی ہے اور اسناد بھی صحیح ہے پھر اسکی قدرت دیکھو کہ محض اپنی طاقت سے اور اپنے حکم سے ایک دوسرے سے جدا رکھا ہے نہ کھاری میٹھے میں مل سکے نہ میٹھا کھاری میں مل سکے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ 19 ۙ ) 55۔ الرحمن:19) اس نے دونوں سمندرجاری کردئیے ہیں کہ دونوں مل جائیں اور ان دونوں کے درمیان ایک حجاب قائم کردیا ہے کہ حد سے نہ بڑھیں پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کے منکر ہو ؟ اور آیت میں ہے کون ہے وہ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس میں جگہ جگہ دریا جاری کردئیے اس پر پہاڑ قائم کردئیے اور دوسمندروں کے درمیان اوٹ کردی۔ کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے ؟ بات یہ ہے کہ ان مشرکین کے اکثر لوگ بےعلم ہیں۔ اس نے انسان کو ضعیف نطفے سے پیدا کیا ہے پھر اسے ٹھیک ٹھاک اور برابر بنایا ہے۔ اور اچھی پیدائش میں پیدا کرکے پھر اسے مرد یا عورت بنایا۔ پھر اس کے لئے نسب کے رشتے دار بنادئیے پھر کچھ مدت بعد سسرالی رشتے قائم کردئیے اتنے بڑے قادر اللہ کی قدرتیں تمہارے سامنے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 52 فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ ” یہاں پر لفظ اطاعت حکم کی تعمیل کے مفہوم میں نہیں آیا ‘ بلکہ اس فقرے کا مفہوم سمجھنے کے لیے ان حالات کے بارے میں جاننا ضروری ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت حضور ﷺ کو مکہّ میں درپیش تھے۔ اس وقت مکہ کی فضا انتہائی کشیدہ تھی اور حضور ﷺ پر ہر طرف سے شدید دباؤ تھا۔ ان حالات میں اکثر لوگ آپ ﷺ کو مشورے دیتے تھے اور بار بار سمجھاتے تھے کہ آپ ﷺ نے اپنی پوری قوم کے ساتھ جو لڑائی مول لے رکھی ہے یہ مناسب حکمت عملی نہیں ہے۔ اس سے قبیلے میں پھوٹ پڑجائے گئی ‘ بھائی بھائی سے کٹ جائے گا ‘ اولاد والدین سے ُ جدا ہوجائے گی ‘ قبیلے کی بنی بنائی ساکھ برباد ہوجائے گی اور اس کے نتائج سب کے لیے بہت بھیانک ہوں گے۔ اگر آپ ﷺ اپنے موقف میں تھوڑی سی لچک پیدا کرلیں تو صلح صفائی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے اور حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ چناچہ کشمکش کے اس ماحول میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب ولید بن مغیرہ سمیت قریش کے اکثر اکابرین چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کی کچھ باتیں تسلیم کرلی جائیں ‘ اس کے جواب میں آپ ﷺ بھی اپنے موقف میں کچھ لچک پیدا کریں ‘ اس طرح کوئی درمیانی راہ نکل آئے اور تصادم کا خطرہ ٹل جائے۔ لیکن اہل مکہّ کی اس سوچ اور کوشش کے باوجود آپ ﷺ اپنے موقف پر پوری تندہی اور دل جمعی سے ڈٹے ہوئے تھے۔ ان حالات میں ایک طرف اہل ایمان پر عرصۂ حیات تنگ ہو رہا تھا تو دوسری طرف آپ ﷺ پر شدید نوعیت کا معاشرتی دباؤ تھا۔ اس صورت حال کی نزاکت اور شدت کی ایک جھلک سورة بنی اسرائیل کی ان آیات سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے : وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗق وَاِذًا لاَّتَّخَذُوْکَ خَلِیْلاً وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْہِمْ شَیْءًا قَلِیْلاً ”اے نبی ﷺ ! ! یہ لوگ تو تلے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کو فتنے میں ڈال کر اس سے بچلا دیں جو ہم نے آپ ﷺ کی طرف وحی کی ہے تاکہ آپ ﷺ کچھ اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیں۔ اور اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ آپ ﷺ کو اپنا گاڑھادوست بنا لیتے۔ اور اگر ہم نے آپ ﷺ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو عین ممکن تھا کہ آپ ﷺ ان کی طرف کچھ نہ کچھ مائل ہو ہی جاتے “۔ اس سیاق وسباق میں آیت زیر نظر کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی کسی بات کو قبول کرنا تو درکنار آپ ﷺ ان لوگوں کی باتوں کی طرف بالکل دھیان ہی نہ دیں۔ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا ” ان مشکل حالات میں آپ ﷺ کو قرآن کے ذریعے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ چناچہ مکہّ میں بارہ سال تک آپ ﷺ نے جو جہاد کیا وہ جہاد بالسیف نہیں تھا بلکہ جہاد بالقرآن تھا۔ اس جہاد کی آج پھر ہمارے معاشرے میں شدید ضرورت ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے میری کتاب ”جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ “ کا مطالعہ مفید رہے گا ‘ جو میری دو تقاریر پر مشتمل ہے۔ بہر حال آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت ‘ تربیت ‘ تزکیہ ‘ انذار اور تبشیر کے ذریعے سے ِ اقامت دین کے لیے ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔ ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ یونس : 57 بھی اسی میں ہے۔
Surah Furqan Ayat 52 meaning in urdu
پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ (ایک ہی حالت میں) رہیں گے ان کے آس پاس
- کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ
- تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے
- اور جو شخص محنت کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے محنت کرتا ہے۔
- کچھ شک نہیں کہ خدا نے اسے جو حکم دیا اس نے اس پر عمل
- سو انہوں نے اپنے کاموں کی سزا کا مزہ چکھ لیا اور ان کا انجام
- قریب ہے کہ خدا ایسوں کو معاف کردے اور خدا معاف کرنے والا (اور) بخشنے
- اس روز نہ تو کسی انسان سے اس کے گناہوں کے بارے میں پرسش کی
- اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے اولاد مقرر کی۔ بےشک
- اور اپنے پاس شفقت اور پاکیزگی دی تھی۔ اور پرہیزگار تھے
Quran surahs in English :
Download surah Furqan with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Furqan mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Furqan Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers