Surah An Nur Ayat 55 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ النور کی آیت نمبر 55 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah An Nur ayat 55 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾
[ النور: 55]

Ayat With Urdu Translation

جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں

Surah An Nur Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) بعض نے اس وعدۂ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان وعمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیرالقرون میں، اس وعدۂ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین پر غلبہ عطا فرمایا، اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو، امن سے بدل دیا۔ پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا۔ نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں، وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلاً آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے فرمایا تھا کہ حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آکر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ( صحيح بخاري، كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام ) نبی کریم ( صلى الله عليه وسلم ) نے یہ بھی فرمایا تھا «إِنَّ اللهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا»( صحيح مسلم كتاب الفتن وأشراط الساعة- باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض ) ” اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لئے سکیڑ دیا، پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لئے زمین سکیڑ دی گئی “۔ حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی، اور فارس وشام اور مصروافریقہ اور دیگر دوردراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر وشرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے تو اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن و استحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔
( 2 ) یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق، اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔
( 3 ) اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر وفسق کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


عروج اسلام لازم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول ﷺ سے وعدہ فرما رہا ہے کہ آپ کی امت کو زمین کا مالک بنا دے گا، لوگوں کا سردار بنا دے گا، ملک ان کی وجہ سے آباد ہوگا، بندگان رب ان سے دل شاد ہوں گے۔ آج یہ لوگوں سے لرزاں وترساں ہیں کل یہ باامن واطمینان ہوں گے، حکومت ان کی ہوگی، سلطنت ان کے ہاتھوں میں ہوگی۔ الحمد للہ یہی ہوا بھی۔ مکہ، خیبر، بحرین، جزیرہ عرب اور یمن تو خود حضرت محمد ﷺ کی موجودگی میں فتح ہوگیا۔ حجر کے مجوسیوں نے جزیہ دے کر ماتحتی قبول کرلی، شام کے بعض حصوں کا بھی یہی حال ہوا۔ شاہ روم ہرقل نے تحفے تحائف روانہ کئے۔ مصر کے والی نے بھی خدمت اقدس میں تحفے بھیجے، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس نے، عمان کے شاہوں نے بھی یہی کیا اور اس طرح اپنی اطاعت گزاری کا ثبوت دیا۔ حبشہ کے بادشاہ اصحمہ ؒ تو مسلمان ہی ہوگئے اور ان کے بعد جو والی حبشہ ہوا۔ اس نے بھی سرکار محمد ﷺ میں عقیدت مندی کے ساتھ تحائف روانہ کئے۔ پھر جب کہ اللہ تعالیٰ رب العزت نے اپنے محترم رسول اللہ ﷺ کو اپنی مہمانداری میں بلوالیا، آپ کی خلافت صدیق اکبر ؓ نے سنبھالی، جزیرہ عرب کی حکومت کو مضبوط اور مستقل بنایا اور ساتھ ہی ایک جرار لشکر سیف اللہ خالد بن ولید ؓ کی سپہ سالاری میں بلاد فارس کی طرف بھیجا جس نے وہاں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا، کفر کے درختوں کو چھانٹ دیا اور اسلامی پودے ہر طرف لگادئیے۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ وغیرہ امراء کے ماتحت شام کے ملکوں کی طرف لشکر اسلام کے جاں بازوں کو روانہ فرمایا۔ انہوں نے بھی یہاں محمدی جھنڈا بلند کیا اور صلیبی نشان اوندھے منہ گرائے، پھر مصر کی طرف مجاہدین کا لشکر حضرت عمرو بن عاص ؓ کی سرداری میں روانہ فرمایا۔ بصری، دمشق، حران وغیرہ کی فتوحات کے بعد آپ بھی راہی ملک بقا ہوئے اور بہ الہام الہٰی حضرت عمر ؓ جیسے فاروق کے زبردست زورآور ہاتھوں میں سلطنت اسلام کی باگیں دے گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ آسمان تلے کسی نبی کے بعد ایسے پاک خلیفوں کا دور نہیں ہوا۔ آپ کی قوت، طبیعت، آپ کی نیکی، سیرت، آپ کے عدل کا کمال، آپ کی ترسی کی مثال دنیا میں آپ کے بعد تلاش کرنا محض بےسود اور بالکل لا حاصل ہے۔ تمام ملک شام، پورا علاقہ مصر، اکثر حصہ فارس آپ کی خلافت کے زمانے میں فتح ہوا۔ سلطنت کسری کے ٹکڑے اڑگئے، خود کسری کو منہ چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہ ملی۔ کامل ذلت واہانت کے ساتھ بھاگتا پھرا۔ قیصر کو فنا کردیا۔ مٹا دیا۔ شام کی سلطنت سے دست بردار ہونا پڑا۔ قسطنطنیہ میں جاکر منہ چھپایا ان سلطنتوں کی صدیوں کی دولت اور جمع کئے ہوئے بیشمار خزانے ان بندگان رب نے اللہ کے نیک نفس اور مسکین خصلت بندوں پر خرچ کئے اور اللہ کے وعدے پورے ہوئے جو اس نے حبیب اکرم ﷺ کی زبان سے کہلوائے تھے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ کی خلافت کا دور آتا ہے اور مشرق ومغرب کی انتہا تک اللہ کا دین پھیل جاتا ہے۔ اللہ کا لشکر ایک طرف اقصی مشرق تک اور دوسری طرف انتہاء مغرب تک پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ اور مجاہدین کی آب دار تلواریں اللہ کی توحید کو دنیا کے گوشے گوشے اور چپے چپے میں پہنچا دیتی ہیں۔ اندلس، قبرص، قیروان وسبتہ یہاں تک کہ چین تک آپ کے زمانے میں فتح ہوئے۔ کسری قتل کردیا گیا اس کا ملک تو ایک طرف نام و نشان تک کھود کر پھینک دیا گیا اور ہزارہا برس کے آتش کدے بجھا دئیے گئے اور ہر اونچے ٹیلے سے صدائے اللہ اکبر آنے لگی۔ دوسری جانب مدائن، عراق، خراسان، اھواز سب فتح ہوگئے ترکوں سے جنگ عظیم ہوئی آخر ان کا بڑا بادشاہ خاقان خاک میں ملا ذلیل وخوار ہوا اور زمین کے مشرقی اور مغربی کونوں نے اپنے خراج بارگاہ خلافت عثمانی میں پہنچوائے۔ حق تو یہ ہے کہ مجاہدین کی ان جانبازیوں میں جان ڈالنے والی چیز حضرت عثمان ؓ کی تلاوت قرآن کی برکت تھی۔ آپ کو قرآن سے کچھ ایساشغف تھا جو بیان سے باہر ہے۔ قرآن کے جمع کرنے، اس کے حفظ کرنے، اس کی اشاعت کرنے، اس کے سنبھالنے میں جو نمایاں خدمتیں خلیفہ ثالث نے انجام دیں وہ یقینا عدیم المثال ہیں۔ آپ کے زمانے کو دیکھو اور اللہ کے رسول ﷺ کی اس پیش گوئی کو دیکھو کہ آپ نے فرمایا تھا کہ میرے لئے زمین سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرق ومغرب دیکھ لی عنقریب میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچ جائے گی جہاں تک اس وقت مجھے دکھائی گئی ہے۔ ( مسلمانو ! رب کے اس وعدے کو پیغمبر کی اس پیش گوئی کو دیکھو پھر تاریخ کے اوراق پلٹو اور اپنی گزشتہ عظمت وشان کو دیکھو آؤ نظریں ڈالو کہ آج تک اسلام کا پرچم بحمد اللہ بلند ہے اور مسلمان ان مجاہدین کرام کی مفتوح زمینوں میں شاہانہ حیثیت سے چل پھر رہے ہیں اللہ اور اس کے رسول سچے ہیں مسلمانو حیف اور صد حیف اس پر جو قرآن حدیث کے دائرے سے باہر نکلے حسرت اور صد حسرت اس پر جو اپنے آبائی ذخیرے کو غیر کے حوالے کرے۔ اپنے آباؤ اجداد کے خون کے قطروں سے خریدی ہوئی چیز کو اپنی نالائقیوں اور بےدینیوں سے غیر کی بھینٹ چڑھاوے اور سکھ سے بیٹھا، لیٹا رہے۔ اللہ ہمیں اپنا لشکری بنالے آمین آمین )حضور ﷺ فرماتے ہیں لوگوں کا کام بھلائی سے جاری رہے گا یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء ہوں گے پھر آپ نے ایک جملہ آہسۃ بولا جو راوی حدیث حضرت جابر بن سمرہ ؓ سن نہ سکے تو انہوں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ حضور ﷺ نے کیا فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ یہ فرمایا ہے یہ سب کے سب قریشی ہوں گے ( مسلم )آپ نے یہ بات اس شام کو بیان فرمائی تھی جس دن حضرت ماعز بن مالک ؓ کو رجم کیا گیا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ ان بارہ خلیفوں کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وہ خلفاء نہیں جو شیعوں نے سمجھ رکھے ہیں کیونکہ شیعوں کے اماموں میں بہت سے وہ بھی ہیں جنہیں خلافت و سلطنت کا کوئی حصہ بھی پوری عمر میں نہیں ملا تھا اور یہ بارہ خلفاء ہوں گے۔ سب کے سب قریشی ہوں گے، حکم میں عدل کرنے والے ہوں گے، ان کی بشارت اگلی کتابوں میں بھی ہے اور یہ شرط نہیں ہے کہ یہ سب یکے بعد دیگرے ہوں گے بلکہ ان کا ہونا یقینی ہے خواہ پے درپے کچھ ہوں خواہ متفرق زمانوں میں کچھ ہوں۔ چناچہ چاروں خلیفے تو بالترتیب ہوئے اول ابوبکر ؓ پھر حضرت عمر ؓ پھر حضرت عثمان ؓ پھر حضرت علی ؓ ان کے بعد پھر سلسلہ ٹوٹ گیا پھر بھی ایسے خلیفہ ہوئے اور ممکن ہے آگے چل کر بھی ہوں۔ ان کے صحیح زمانوں کا علم اللہ ہی کو ہے ہاں اتنا یقینی ہے کہ امام مہدی ؑ بھی انہی بارہ میں سے ہوں گے جن کا نام حضور ﷺ کے نام سے جن کی کنیت حضور ﷺ کی کنیت سے مطابق ہوگی تمام زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسے کہ وہ ظلم وناانصافی سے بھر گئی ہوگئی۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی پھر کاٹ کھانے والا ملک ہوجائے گا۔ ابو العالیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں حضور ﷺ اور آپ کے اصحاب ؓ بیس سال تک مکہ میں رہے اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دنیا کو دعوت دیتے رہے لیکن یہ زمانہ پوشیدگی کا، ڈر خوف کا اور بےاطمینانی کا تھا، جہاد کا حکم نہیں آیا تھا۔ مسلمان بیحد کمزور تھے اس کے بعد ہجرت کا حکم ہوا۔ مدینے پہنچے اب جہاد کا حکم ملا جہاد شروع ہوا دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔ اہل اسلام بہت خائف تھے۔ خطرے سے کوئی وقت خالی نہیں جاتا تھا صبح شام صحابہ ہتھیاروں سے آراستہ رہتے تھے۔ ایک صحابی ؓ نے ایک مرتبہ حضور ﷺ سے کہا یارسول اللہ ﷺ کیا ہم اسی طرح خوف زدہ ہی رہیں گے ؟ یا رسول اللہ ﷺ کیا ہماری زندگی کی کوئی گھڑی بھی اطمینان سے نہیں گزرے گی ؟ یا رسول اللہ ﷺ کیا ہتھیار اتار کر بھی ہمیں کبھی آسودگی کا سانس لینا میسر آئے گا ؟ آپ نے پورے سکون سے فرمایا کچھ دن اور صبر کرلو پھر تو اس قدر امن واطمینان ہوجائے گا کہ پوری مجلس میں، بھرے دربار میں چوکڑی بھر کر آرام سے بیٹھے ہوئے رہو گے۔ ایک کے پاس کیا کسی کے پاس بھی کوئی ہتھیار نہ ہوگا کیونکہ کامل امن وامان پورا اطمینان ہوگا۔ اسی وقت یہ آیت اتری۔ پھر تو اللہ کے نبی جزیرہ عرب پر غالب آگئے عرب میں بھی کوئی کافر نہ رہا مسلمانوں کے دل خوف سے خالی ہوگئے اور ہتھیار ہر وقت لگائے رہنے ضروری نہ رہے۔ پھر یہی امن وراحت کا دور دورہ حضور ﷺ کے زمانے کے بعد بھی تین خلافتوں تک رہا یعنی ابوبکر وعمر و عثمان ؓ کے زمانے تک۔ پھر مسلمان ان جھگڑوں میں پڑگئے جو رونما ہوئے پھر خوف زدہ رہنے لگے اور پہرے دار اور چوکیدار داروغے وغیرہ مقرر کئے اپنی حالتوں کو متغیر کیا تو متغیر ہوگئے۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر وعمر ؓ کی خلافت کی حقانیت کے بارے میں اس آیت کو پیش کیا۔ براء بن عازب کہتے ہیں جس وقت یہ آیت اتری ہے اس وقت ہم انتہائی خوف اور اضطراب کی حالت میں تھے جیسے فرمان ہے۔ آیت ( وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 26؀ )الأنفال:26) ، یعنی یہ وہ وقت بھی تھا کہ تم بیحد کمزور اور تھوڑے تھے اور قدم قدم اور دم دم پر خوف زدہ رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعداد بڑھا دی تمہیں قوت وطاقت عنایت فرمائی اور امن وامان دیا۔ پھر فرمایا کہ جیسے ان سے پہلے کے لوگوں کو اس نے زمین کا مالک کردیا تھا جیسے کہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا آیت ( عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ01209 )الأعراف:129) ، بہت ممکن ہے بلکہ بہت ہی قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کر دے اور تمہیں ان کا جانشین بنا دے۔ اور آیت میں ہے ( وَنُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَي الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّنَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ ۙ ) 28۔ القصص:5) یعنی ہم نے ان پر احسان کرنا چاہا جو زمین بھر میں سب سے زیادہ ضعیف اور ناتواں تھے۔ پھر فرمایا کہ ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے جما دے گا اور اسے قوت وطاقت دے گا۔ حضرت عدی بن حاتم ؓ جب بطور وفد آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کیا تو نے حیرہ دیکھا ہے اس نے جواب دیا کہ میں حیرہ کو نہیں جانتا ہاں اس کا نام سنا ہے آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ میرے اس دین کو کامل طور پر پھیلائے گا یہاں تک کہ امن وامان قائم ہوجائے گا کہ حیرہ سے ایک سانڈنی سوار عورت تنہانکلے گی اور وہ بیت اللہ تک پہنچ کر طواف سے فارغ ہو کر واپس ہوگی نہ خوف زدہ ہوگی نہ ہی اس کے ساتھ محافظ ہوگا۔ یقین مان کہ کسری بن ھرمز کے خزانے مسلمانوں کی فتوحات میں آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی کسری بن ھرمز کے۔ سنو اس قدر مال بڑھ جائے گا کہ کوئی قبول کرنے والا نہ ملے گا۔ حضرت عدی بن حاتم ؓ فرماتے ہیں اب تم دیکھ لو کہ فی الواقع حیرہ سے عورتیں بغیر کسی کی پناہ کی آتی جاتی ہیں۔ اس پیشن گوئی کو پورا ہوتے ہوئے ہم نے دیکھ لیا دوسری پیشین گوئی تو میری نگاہوں کے سامنے پوری ہوئی کسری کے خزانے فتح کرنے والوں نے بتایا خود میں موجود تھا اور تیسری پیشین گوئی یقینا پوری ہو کر رہ گئی کیونکہ وہ بھی رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔ مسند احمد میں حضور ﷺ کا فرمان ہے اس امت کو ترقی اور بڑھوتری کی مدد اور دین کی اشاعت کی بشارت دو۔ ہاں جو شخص آخرت کا عمل دنیا کے حاصل کرنے کے لیے کرے وہ جان لے کہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ملے گا۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔ مسند میں ہے حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ ایک گدھے پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور آپ کے درمیان صرف پالان کی لکڑی تھی آپ نے میرے نام سے مجھے آواز دی میں نے لبیک وسعدیک کہا پھر تھوڑی سی دیر کے بعد چلنے کے بعد اسی طرح مجھے پکارا اور میں نے بھی اسی طرح جواب دیا۔ آپ نے فرمایا جانتے ہو اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے کہا اللہ اور اسکا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ پھر تھوڑی سی دیر چلنے کے بعد مجھے پکارا اور میں جواب دیا تو آپنے فرمایا جانتے ہو جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو اللہ کے ذمے بندوں کا حق کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے۔ آپ نے فرمایا یہ کہ انہیں عذاب نہ کرے۔ ( بخاری ومسلم ) پھر فرمایا اس کے بعد جو منکر ہوجائے وہ یقینا فاسق ہے۔ یعنی اس کے بعد بھی جو میری فرمانبرداری چھوڑ دے اس نے میری حکم عدولی کی اور یہ گناہ سخت اور بہت بڑا ہے۔ شان الہٰی دیکھو جتنا جس زمانے میں اسلام کا زور رہا اتنی ہی مدد اللہ کی ہوئی۔ صحابہ اپنے ایمان میں بڑھے ہوئے تھے فتوحات میں بھی سب سے آگے نکل گئے جوں جوں ایمان کمزور ہوتا گیا دنیوی حالت سلطنت وشوکت بھی گرتی گئی۔ بخاری ومسلم میں ہے میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ برسرحق رہے گی اور وہ غالب اور نڈر رہے گی ان کی مخالفت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے قیامت تک یہ اسی طرح رہے گی اور روایت میں ہے یہاں تک اللہ کا وعدہ آجائے گا ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ یہی جماعت سب سے آخر دجال سے جہاد کرے گی اور حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے اترنے تک یہ لوگ کافروں پر غالب رہیں گے یہ سب روایتیں صحیح ہیں اور ایک ہی مطلب سب کا ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 55 وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ” یہ وعدہ محض موروثی اور نام کے مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ‘ جو اللہ کے احکام کی کلی تعمیل کو اپنا شعار بنانے اور اس کے راستے میں جان و مال کی قربانی دینے کے لیے سنجیدہ نہ ہوں ‘ بلکہ یہ وعدہ تو ان مؤمنین صادقین کے لیے ہے جو ایمان اور عمل صالح کی شرائط پوری کریں۔ یعنی جو ایمان حقیقی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے ہوں۔لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْص ”یعنی اے امت محمد ﷺ ! اگر تم لوگ ایمان حقیقی اور اعمال صالحہ کی دو شرائط پوری کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں زمین میں اسی طرح غلبہ اور اقتدار عطا کرے گا جس طرح اس سے پہلے اس نے حضرت طالوت ‘ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو خلافت عطا کی تھی یا حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کو مکابیّ سلطنت کی صورت میں اقتدار عطا کیا تھا۔ اس آیت میں خلافت کے وعدے کو تین مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اوّل تو یہ تاکیدی وعدہ ہے کہ اللہ لازماً مسلمانوں کو بھی خلافت عطا فرمائے گا جیسے اس نے سابقہ امت کے اہل ایمان کو خلافت عطا کی تھی۔ پھر فرمایا :وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ ”اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ دین کو لازماً غالب کرے گا۔ ظاہر بات ہے کہ جہاں مسلمانوں کی خلافت ہوگی وہاں لازماً اللہ کے دین کا غلبہ ہوگا اور اگر کسی حکومت میں اللہ کا دین غالب ہوگا تو وہ لازماً مسلمانوں ہی کی خلافت ہوگی۔ گویا بنیادی طور پر تو یہ ایک ہی بات ہے ‘ لیکن صرف خلافت کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے پہلی بات کو یہاں دوسرے انداز میں دہرایا گیا ہے۔ البتہ یہاں اس دین کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے جو اللہ نے مسلمانوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ سورة المائدۃ کی آیت 3 میں باقاعدہ نام لے کر بتایا گیا ہے کہ اللہ نے تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے : اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا ط ”آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کی تکمیل فرما دی ہے ‘ اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمادیا ہے ‘ اور تمہارے لیے میں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے “۔ بہر حال دوسری بات یہاں یہ بتائی گئی کہ خلافت ملے گی تو اس کے نتیجے کے طور پر اللہ کا دین لازماً غالب ہوگا۔ اور تیسری بات :وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ط ” یہ اس کیفیت کی طرف اشارہ ہے جو ہجرت کے فوراً بعد کے زمانے میں مسلمانوں پر طاری تھی۔ اس زمانے میں مدینہ کے اندر مسلسل ایمرجنسی کی سی حالت تھی۔ فلاں قبیلے کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے ! فلاں قبیلہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے ! کل قریش مکہ کی طرف سے ایک خوفناک سازش کی خبر پہنچی تھی ! آج ابو عامر راہب کے ایک شیطانی منصوبے کی اطلاع آن پہنچی ہے ! غرض ہجرت کے بعد پانچ سال تک مسلمان مسلسل ایک خوف کی کیفیت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور رہے۔ اس صورت حال میں انہیں خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اب خوف کی وہ کیفیت امن سے بدلنے والی ہے۔ تینوں وعدوں کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہاں بار بار حروف تاکید استعمال ہوئے ہیں۔ تینوں افعال میں مضارع سے پہلے لام مفتوح اور بعد میں ”ن “ مشدد آیا ہے ‘ گویا تینوں وعدے نہایت تاکیدی وعدے ہیں۔یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْءًا ط ” میرے نزدیک یہ حکم مستقبل سے متعلق ہے۔ یعنی جب میرا دین غالب آجائے گا تو پھر مسلمان خالص میری بندگی کریں گے اور کسی قسم کا شرک گوارا نہیں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اللہ کی حکومت قائم نہیں ہوگی تو معاشرہ شرک سے ُ کلیّ طور پر پاک نہیں ہو سکے گا۔ جیسے ہم پاکستان کے مسلمان شہری آج قومی اور اجتماعی اعتبار سے کفر و شرک کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج اگر ہم سب انفرادی طور پر اپنے ذاتی عقائد بالکل درست بھی کرلیں اور اپنے آپ کو تمام مشرکانہ اوہام سے پاک کر کے عقیدۂ توحید کو راسخ بھی کرلیں تو بھی ہم خود کو شرک سے کلی طور پر پاک کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ یعنی جب تک ملک میں اللہ کا قانون نافذ اور اللہ کا دین عملی طور پر غالب نہیں ہوجاتا اور جب تک ملک میں دوسرے قوانین کے بجائے اللہ کے قانون کی بالا دستی قائم نہیں ہوجاتی اس وقت تک اس ملک کے شہری ہونے کے اعتبار سے ہم کفر اور شرک کی اجتماعیت میں برابر کے شریک رہیں گے۔ چناچہ کسی ملک یا علاقے میں عملاً توحید کی تکمیل اس وقت ہوگی جب اللہ کے فرمان کے مطابق دین کل کا کل اللہ کے لیے ہوجائے گا : وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ط الانفال : 39۔وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ”اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ دین کے غلبے کے ماحول میں بھی جو شخص کفر کرے گا تو اس کے اندر گویا خیر کا مادہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ باطل کے غلبے میں کسی شخص کا ایمان لانا ‘ اس پر قائم رہنا اور اس کے مطابق عمل کرنا انتہائی مشکل ہے ‘ لیکن جب دین غالب ہوجائے اور ساری رکاوٹیں دور ہوجائیں تو اس کے بعد صرف وہی شخص دین سے دور رہے گا جس کی فطرت ہی بنیادی طور پر مسخ ہوچکی ہے۔ان دو مفاہیم کے علاوہ میرے نزدیک اس فقرے کا ایک تیسرا مفہوم بھی ہے اور اس مفہوم کے مطابق ”بَعْدَ ذٰلِکَ “ کے الفاظ کا تعلق مذکورہ تین وعدوں سے ہے ‘ کہ جب اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ لازماً تمہیں خلافت سے نوازے گا ‘ وہ لازماً تمہارے دین کو غالب کرے گا اور وہ لازماً تمہارے خوف کی کیفیت کو امن سے بدل دے گا تو اس کے بعد بھی جو شخص کمر ہمتّ نہ باندھے اور اقامت دین کیّ جدوجہدُ کے لیے اٹھ کھڑا نہ ہو تو اسے گویا ہمارے وعدوں پر یقین نہیں اور وہ عملی طور پر ہمارے ان احکام سے کفر کا مرتکب ہو رہا ہے ! یہ آیت 6 ہجری میں نازل ہوئی اور اس کے نزول کے فوراً بعد ہی اس کے مصداق کا ظہور شروع ہوگیا۔ 7 ہجری میں صلح حدیبیہ طے پاگئی جسے خود اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے لیے ” فتح مبین “ قرار دیا : اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا الفتح۔ صلح حدیبیہ کے فوراً بعد 7 ہجری میں ہی خیبر فتح ہوا ‘ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے مال غنیمت عطا کیا۔ 8 ہجری میں مکہ فتح ہوگیا۔ 9 ہجری کو حج کے موقع پر mopping up operation کا اعلان کردیا گیا۔ اس اعلان کے مطابق آئندہ کے لیے مسجد حرام کے اندر مشرکین کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جزیرہ نمائے عرب کے تمام مشرکین کو میعادی معاہدوں کی صورت میں اختتام معاہدہ تک اور عمومی طور پر چارہ ماہ کی مہلت دے دی گئی ‘ اور اس کے ساتھ ہی واضح حکم دے دیا گیا کہ اسّ مدت مہلت میں اگر وہ اسلام قبول نہیں کریں گے تو سب کے سب قتل کردیے جائیں گے۔ یوں 10 ہجری تک جزیرہ نمائے عرب میں اللہ کا دین غالب ہوگیا ‘ اللہ کی حکومت قائم ہوگئی اور حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح محمد رسول اللہ ﷺ بھی اللہ کے خلیفہ بن گئے۔ حضور ﷺ کے بعد خلافت راشدہ قائم ہوئی اور پھر اس کے بعد رفتہ رفتہ حالات میں بگاڑ آنا شروع ہوگیا جو مسلسل جاری ہے۔ سورة الانبیاء کے آخری رکوع کے مطالعہ کے دوران میں نے حضرت نعمان بن بشیر رض سے مروی ایک حدیث بیان کی تھی جس میں امت مسلمہ کے قیامت تک کے حالات کی واضح تفصیل ملتی ہے۔ زیرمطالعہ آیت کے مضمون کے سیاق وسباق میں آپ ﷺ کا یہ فرمان بہت اہم ہے ‘ لہٰذا ہم اس کا ایک بار پھر مطالعہ کرلیتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ” تمہارے درمیان نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ وہ رہے “۔ یعنی جب تک اللہ چاہے گا میں بنفس نفیس تمہارے درمیان موجود رہوں گا۔ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ” پھر اللہ اس کو اٹھا لے گا جب اسے اٹھانا چاہے گا “۔ یعنی جب اللہ چاہے گا میرا انتقال ہوجائے گا اور یوں یہ دور ختم ہوجائے گا۔ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاج النُّبُوَّۃِ ” پھر خلافت ہوگی نبوت کے نقش قدم پر “۔ یعنی میرے قائم کردہ نظام کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے ذریعے یہ نظام ایک بال کے فرق کے بغیر جوں کا توں قائم رہے گا۔ فَتَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ” پھر یہ دور بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے “۔ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا ” پھر اس دور کو بھی اللہ اٹھا لے گا جب اٹھانا چاہے گا “۔ ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا ” پھر کاٹ کھانے والی ظالم ملوکیت ہوگی “۔ فَیَکُوْنُ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَکُوْنَ ” پس یہ دور بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا “ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ” پھر اس کو بھی اللہ اٹھا لے گا جب اٹھانا چاہے گا “۔ ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً ” پھر غلامی کی ملوکیت کا دور آئے گا “۔ یہ چوتھا دور ہمارا دور ہے۔ تیسرے دور کی ملوکیت میں سب کے سب حکمران بنو امیہ ‘ بنو عباس اور ترک بادشاہ مسلمان تھے۔ ان میں اچھے بھی تھے اور برے بھی مگر سب کلمہ گو تھے ‘ جبکہ چوتھے دور کی ملوکیت میں مختلف مسلمان ممالک غیر مسلموں کے غلام ہوگئے۔ کہیں مسلمان تاج برطانیہ کی رعایا بن گئے ‘ کہیں ولندیزیوں کے تسلط میں آگئے اور کہیں فرانسیسیوں کے غلام بن گئے۔ اس طرح پورا عالم اسلام غیر مسلموں کے زیر تسلط آگیا۔ اکیسویں صدی کا موجودہ دور عالم اسلام کے لیے ” مُلْکاً جَبْرِیًّا “ کا ہی تسلسل ہے۔ اگرچہ مسلم ممالک پر سے غیر ملکی قبضہ بظاہر ختم ہوچکا ہے اور ان ممالک پر قابض اقوام کی براہ راست حکومتوں کی بساط لپیٹ دی گئی ہے لیکن عملی طور پر یہ تمام ممالک اب بھی ان کے قبضے میں ہیں۔ استعماری قوتیں آج بھی ریموٹ کنٹرول اقتدار کے ذریعے ان ممالک کے معاملات سنبھالے ہوئے ہیں۔ ورلڈ بینک ‘ آئی ایم ایف ‘ اور دوسرے بہت سے ادارے ان کے مہروں کے طور پر کام کر رہے ہیں اور یوں وہ اپنے مالیاتی استعمار کو اب بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ چوتھا دور بھی ختم ہوجائے گا : ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ” پھر اللہ اسے بھی اٹھا لے گا جب اٹھانا چاہے گا “۔ اور پھر امت کو ایک بہت بڑی خوشخبری دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا : ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْہَاج النُّبُوَّۃِ ” اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور آئے گا “۔ یہ خوشخبری سنانے کے بعد راوی کہتے ہیں : ثُمَّ سَکَتَ ” پھر رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے “۔ آپ ﷺ شاید اس لیے خاموش ہوگئے کہ اس کے بعد دنیا کے خاتمے کا معاملہ تھا۔اس کے علاوہ ہم حضرت ثوبان رض سے مروی یہ حدیث بھی پڑھ آئے ہیں جس میں یہ وضاحت بھی ملتی ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام تمام روئے ارضی کے لیے ہوگا۔ حضرت ثوبان رض حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ ” اللہ نے میرے لیے تمام زمین کو لپیٹ دیا۔ “ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا ” تو میں نے اس کے سارے مشرق اور مغرب دیکھ لیے۔ “ وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا ” اور میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہوگی جو مجھے دکھائے گئے۔ “ اسی طرح ہم نے حضرت مقدادبن اسود رض سے مروی اس حدیث کا مطالعہ بھی کیا تھا جس میں حضور ﷺ نے فرمایا : ” روئے ارضی پر کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر اور کوئی کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ ایسا نہیں رہے گا جس میں دین اسلام داخل نہ ہوجائے ‘ خواہ کسی عزت والے کے اعزاز کے ساتھ خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کی صورت میں “۔ یعنی یا تو اس گھر والا اسلام قبول کر کے اعزاز حاصل کرلے گا یا پھر اسے ذلت کے ساتھ اسلام کی بالا دستی قبول کرنا پڑے گی۔ دین کے غلبے کی صورت میں غیر مسلم رعایا کے لیے یہ وہ اصول ہے جو سورة التوبة میں اس طرح بیان ہوا : حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ یعنی وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔آنے والے اس دور کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ان فرمودات کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو منطقی طور پر یوں بھی سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید میں تین مقامات التوبہ : 33 ‘ الفتح : 28 اور الصف : 9 پر واضح الفاظ میں اعلان فرما دیا گیا ہے : ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ” وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول ﷺ کو الہدیٰ اور دین حق دے کرتا کہ غالب کردے اسے ُ کل کے کل دین نظام زندگی پر “۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم میں پانچ مرتبہ حضور ﷺ کی بعثت کے بارے میں یہ بھی واضح فرما دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کو پوری نوع انسانی کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اس مضمون میں سورة سبأ کی یہ آیت بہت واضح اور نمایاں ہے : وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ” ہم نے آپ ﷺ کو پوری نوع انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے ‘ لیکن اکثر لوگوں کا اس کا ادراک نہیں ہے “۔ سورة الانبیاء میں یہی مضمون ایک نئی شان سے اس طرح آیا ہے : وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ” ہم نے تو آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے “۔ ان دونوں آیات کا مشترک مفہوم یہی ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت کا مقصد تب پورا ہوگا جب پورے عالم انسانیت پر اللہ کا دین غالب ہوگا۔ چناچہ قیامت سے پہلے تمام روئے ارضی پر دین حق کا غلبہ ایک طے شدہ امر ہے۔

وعد الله الذين آمنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم في الأرض كما استخلف الذين من قبلهم وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم وليبدلنهم من بعد خوفهم أمنا يعبدونني لا يشركون بي شيئا ومن كفر بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون

سورة: النور - آية: ( 55 )  - جزء: ( 18 )  -  صفحة: ( 357 )

Surah An Nur Ayat 55 meaning in urdu

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. گویا ان میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سن رکھو کہ مدین پر (ویسی ہی)
  2. اور پرندوں کو بھی کہ جمع رہتے تھے۔ سب ان کے فرمانبردار تھے
  3. اور ان کے پاس ان ہی میں سے ایک پیغمبر آیا تو انہوں نے اس
  4. (یعنی) اس بات پر (قادر ہیں) کہ ان سے بہتر لوگ بدل لائیں اور ہم
  5. اور ہم نے اس سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کردیا ہے۔ بھلا تم
  6. اور میرے باپ کو بخش دے کہ وہ گمراہوں میں سے ہے
  7. کہنے لگا کہ مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا
  8. اور دونوں دریا (مل کر) یکساں نہیں ہوجاتے۔ یہ تو میٹھا ہے پیاس بجھانے والا۔
  9. اور اس سے ظالم کون جو خدا پر جھوٹ بہتان باندھے یا جب حق بات
  10. اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کی

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah An Nur with the voice of the most famous Quran reciters :

surah An Nur mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nur Complete with high quality
surah An Nur Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah An Nur Bandar Balila
Bandar Balila
surah An Nur Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah An Nur Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah An Nur Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah An Nur Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah An Nur Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah An Nur Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah An Nur Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah An Nur Fares Abbad
Fares Abbad
surah An Nur Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah An Nur Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah An Nur Al Hosary
Al Hosary
surah An Nur Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah An Nur Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers