Surah Nisa Ayat 58 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾
[ النساء: 58]
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک خدا سنتا اور دیکھتا ہے
Surah Nisa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کی شان میں، جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان وکلید بردار چلے آرہے تھے، نازل ہوئی ہے۔ مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف وغیرہ کے بعد آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے حضرت عثمان بن طلحہ ( رضي الله عنه ) کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو چکے تھے، طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے ( ابن كثير ) آیت کا یہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ یہ بحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناصب اہل لوگوں کو دیئے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی ووطنی بنیاد یا قرابت وخاندان کی بنیاد یا کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر عہدہ ومنصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔
( 2 ) اس میں حکام کو بطور خاص عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ” حاکم جب تک ظلم نہ کرے، اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیتا ہے “۔ ( سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام )
( 3 ) یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور عدل وانصاف مہیا کرنا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
امانت اور عدل و انصاف رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو تیرے ساتھ امانت داری کا برتاؤ کرے تو اس کی امانت ادا کر اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس سے خیانت مت کر ( مسند احمد و سنن ) آیت کے الفاظ وسیع المعنی ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے جیسے روزہ نماز زکوٰۃ کفارہ نذر وغیرہ، اور بندوں کے آپس کے کل حقوق بھی شامل ہیں جیسے امانت دار کا حق اسے دلوایا جائے گا یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں والی بکری نے مارا ہے تو اس کا بدلہ بھی اسے دلوایا جائے گا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ شہادت کی وجہ سے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں مگر امانت نہیں مٹنے لگی کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید بھی ہوا تو اسے بھی قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کر وہ جواب دے گا کہ دنیا تو اب ہے نہیں میں کہاں سے اسے ادا کروں ؟ فرماتے ہیں پھر وہ چیز اسے جہنم کی تہہ میں نظر آئے گی اور کہا جائے گا کہ جا اسے لے آ وہ اسے اپنے کندھے پر لاد کرلے چلے گا لیکن وہ گرپڑے گی وہ پھر اسے لینے جائے گا بس اسی عذاب میں وہ مبتلا رہے گا حضرت زاذان اس روایت کو سن کر حضرت براء ؓ کے پاس آ کر بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میرے بھائی نے سچ کہا پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتے ہیں ابن عباس ؓ وغیرہ فرماتے ہیں ہر نیک و بد کے لئے پر یہی حکم ہے، ابو العالیہ فرماتے ہیں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس چیز سے منع کیا گیا وہ سب امانت ہے۔ حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں عورت اپنی شرم گاہ کی امانت دار ہے، ربیع بن انس ؓ فرماتے ہیں جو جو معاملات تیرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہوں وہ سب اسی میں شامل ہے، حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ سلطان عید والے دن عورتوں کو خطبہ سنائے۔ اس آیت کی شان نزول میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کیا اور اطمینان کے ساتھ بیت اللہ شریف میں آئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا۔ حجرا سود کو اپنی لکڑی سے چھوتے تھے اس کے بعد عثمان بن طلحہ ؓ کو جو کعبہ کی کنجی برادر تھے بلایا ان سے کنجی طلب کی انہوں نے دینا چاہی اتنے میں حضرت عباس ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اب یہ مجھے سونپئے تاکہ میرے گھرانے میں زمزم کا پانی پلانا اور کعبہ کی کنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہیں یہ سنتے ہی حضرت عثمان بن طلحہ ؓ نے اپنا ہاتھ روک لیا حضور ﷺ نے دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا آپ نے سہ بارہ طلب کی حضرت عثمان نے یہ کہہ کر دے دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں حضور ﷺ کعبہ کا دروازہ کھول اندر گئے وہاں جتنے بت اور تصویریں تھیں سب توڑ کر پھینک دیں حضرت ابراہیم کا بت بھی تھا جس کے ہاتھ فال کے تیر تھی آپ نے فرمایا اللہ ان مشرکین کو غارت کرے بھلا خلیل اللہ کو ان سیروں سے کیا سروکار ؟ پھر ان تمام چیزوں کو برباد کر کے ان کی جگہ پانی ڈال کر ان کے نام و نشان مٹا کر آپ باہر آئے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے کہا کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے وہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اور تام لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی پھر آپ نے ایک لمبا خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا کہ جاہلیت کے تمام جھگڑے اب میرے پاؤں تلے کچل دئیے گئے خواہ مالی ہوں خواہ جانی ہوں بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب جوں کا توں باقی رہے گا اس خطبہ کو پورا کر کے آپ بیٹھے ہی تھے جو حضرت علی ؓ نے آگے بڑھ کر کہا حضور چابی مجھے عنایت فرمائی جائے تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا منصب دونوں یکجا ہوجائیں لیکن آپ نے انہیں نہ دی مقام ابراہیم کو کعبہ کے اندر سے نکال کر آپ نے کعبہ کی دیوار سے ملا کر رکھ دیا اور اوروں سے کہہ دیا کہ تمہارا قبلہ یہی ہے پھر آپ طواف میں مشغول ہوگئے ابھی وہ چند پھیرے ہی پھرے تھے جو حضرت جبرائیل نازل ہوئیے اور آپ نے اپنی زبان مبارک سے اس آیت کی تلاوت شروع کی، اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا میرے ماں باپ حضور ﷺ پر فدا ہوں میں نے تو اس سے پہلے آپ کو اس آیت کی تلاوت کرتے نہیں سنا اب آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا اور انہیں کنجی سونپ دی اور فرمایا آج کا دن وفا کا نیکی اور سلوک کا دن ہے یہ وہی عثمان بن طلحہ ؓ وہی ہیں جن کی نسل میں آج تک کعبۃ اللہ کی کنجی چلی آتی ہے یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام لائے جب ہی خالد بن ولید اور عمرو بن عاص بھی مسلمان ہوئے تھے ان کا چچا عثمان بن طلحہ احمد کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ تھا بلکہ ان کا جھنڈا بردار تھا اور وہیں بحالت کفر مارا گیا تھا۔ الغرض مشہور تو یہی ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے اب خواہ اس بارے میں نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو بہرصورت اس کا حکم عام ہے جیسے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت محمد بن حنفیہ کا قول ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کی امانت کی ادائیگی کا حکم ہے پھر ارشاد ہے کہ فیصلے عدل کے ساتھ کرو حاکموں کو احکم الحاکمین کا حکم ہو رہا ہے کہ کسی حالت میں عدل کا دامن نہ چھوڑو، حدیث میں ہے اللہ حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے جب ظلم کرتا ہے تو اسے اسی کا طرف سونپ دیتا ہے، ایک اثر میں ہے ایک دن کا عدل چالیس سال کی عبادت کے برابر ہے، پھر فرماتا ہے یہ ادائیگی امانات کا اور عدل و انصاف کا حکم اور اسی طرح شریعت کے تمام احکام اور تمام ممنوعات تمہارے لئے بہترین اور نافع چیزیں ہیں جن کا امر پروردگار نے تمہیں دیا ہے ( ابن ابی حاتم ) اور روایت میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ نے اس آیت کے آخری الفاظ پڑھتے ہوئے اپنا انگوٹھا اپنے کان میں رکھا اور شہادت کی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی ( یعنی اشارے سے سننا دیکھنا کان اور آنکھ پر انگلی رکھ کر بتا کر ) فرمایا میں نے اسی طرح پڑھتے اور کرتے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے، راوی حدیث حضرت ابو زکریا ؒ فرماتے ہیں ہمارے استاد مضری ؒ نے بھی اسی طرح پڑھ کر اشارہ کر کے ہمیں بتایا اپنے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا اپنی دائیں آنکھ پر رکھا اور اس کے پاس کی انگلی اپنے داہنے کان پر رکھی ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث اسی طرح امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے اور امام ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اسے نقل کیا ہے۔ اور حاکم نے مستدرک میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے وارد کیا ہے، اس کی سند میں جو ابو یونس ہیں وہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے مولی ہیں اور ان کا نام سلیم بن جیر ؒ ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
یہ دو آیات 58 ‘ 59 قرآن مجید کی نہایت اہم آیات ہیں ‘ جن میں اسلام کا سارا سیاسی ‘ قانونی اور دستوری نظام موجود ہے۔ فرمایا :آیت 58 اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَہْلِہَالا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بالْعَدْلِ ط پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ جو بھی سیاسی نظام بناتے ہیں اس میں مناصب ہوتے ہیں ‘ جن کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اور اختیارات بھی۔ لہٰذا ان مناصب کے انتخاب میں آپ کی رائے کی حیثیت امانت کی ہے۔ آپ اپنی رائے دیکھ بھال کردیں کہ کون اس کا اہل ہے۔ اگر آپ نے ذات برادری ‘ رشتہ داری وغیرہ کی بنا پر یا مفادات کے لالچ میں یا کسی کی دھونس کی وجہ سے کسی کے حق میں رائے دی تو یہ صریح خیانت ہے۔ حقِ رائے دہی ایک امانت ہے اور اس امانت کا استعمال صحیح صحیح ہونا چاہیے۔ عام معنی میں بھی امانت کی حفاظت ضروری ہے اور جو بھی امانت کسی نے رکھوائی ہے اسے واپس لوٹانا آپ کی شرعی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہاں یہ بات اجتماعی زندگی کے اہم اصولوں کی حیثیت سے آرہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ گویا پہلی ہدایت سیاسی نظام سے متعلق ہے کہ امیر المؤمنین یا سربراہ ریاست کا انتخاب اہلیت کی بنیاد پر ہوگا ‘ جبکہ دوسری ہدایت عدلیہ Judiciary کے استحکام کے بارے میں ہے کہ وہاں بلا امتیاز ہر ایک کو عدل و انصاف میسرآئے۔ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا اگلی آیت میں تیسری ہدایت مقننہ Legislature کے بارے میں آرہی ہے کہ اسلامی ریاست کی دستوری بنیاد کیا ہوگی۔ جدید ریاست کے تین ستون انتظامیہ Executive ‘ عدلیہ Judiciary اور مقننہ Legislature گنے جاتے ہیں۔ پہلی آیت میں انتظامیہ اور عدلیہ کے ذکر کے بعد اب دوسری آیت میں مقننہ کا ذکر ہے کہ قانون سازی کے اصول کیا ہوں گے۔
إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها وإذا حكمتم بين الناس أن تحكموا بالعدل إن الله نعما يعظكم به إن الله كان سميعا بصيرا
سورة: النساء - آية: ( 58 ) - جزء: ( 5 ) - صفحة: ( 87 )Surah Nisa Ayat 58 meaning in urdu
مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور لوط (کا قصہ یاد کرو) جب ان کو ہم نے حکم (یعنی حکمت ونبوت)
- اور جب یہ دوزخ کی کسی تنگ جگہ میں (زنجیروں میں) جکڑ کر ڈالے جائیں
- وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے
- اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے
- اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں
- اور پہلے یوسف بھی تمہارے پاس نشانیاں لے کر آئے تھے تو جو وہ لائے
- جب ابراہیم سے خوف جاتا رہا اور ان کو خوشخبری بھی مل گئی تو قوم
- جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر
- اور (اب) ان کے لیے کون سی وجہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے
- (ابراہیم نے) کہا (نہیں) بلکہ تمہارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے جس نے
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers