Surah Nisa Ayat 59 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
[ النساء: 59]
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
Surah Nisa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ” اولو الامر “ ( اپنے میں سے اختیار والے ) سے مراد بعض کے نزدیک امرا وحکام اور بعض کے نزدیک علماء وفقہاء ہیں مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے کیونکہ ” أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ “ ( الاعراف: 54 ) خبردار مخلوق بھی اسی کی ہے، حکم بھی اسی کا ہے ” إِنِ الْحُكْمُ إِلا لِلَّهِ “ ( يوسف: 40 ) حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔ لیکن چونکہ رسول ( صلى الله عليه وسلم ) منشاء الٰہی ہی کا مظہر اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ ” مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ “ ( النساء: 80 ) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدیث بھی اسی طرح دین کا ماخذ ہے جس طرح قرآن کریم۔ تاہم امراء وحکام کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ کیونکہ وہ یا تو اللہ اور اس کے رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں یا امت کے اجتماعی مصالح کا انتظام اور نگہداشت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امرا وحکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ ورسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لئے ” أَطِيعُوا اللهَ “ کے بعد ” أَطِيعُوا الرَّسُولَ “ تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن ” أَطِيعُوا أُولِي الأَمْر “ ِنہیں کہا کیونکہ أُولِي الأَمْرِکی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے ” لا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيةِ الْخَالِقِ “ ( وقال الألباني حديث صحيح- مشكاة نمبر 3696، في لفظ لمسلم: ” لا طاعة في معصية الله “، كتاب الإمارة باب وجوب طاعة الأمر في غير معصية حديث نمبر 1840، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ ) ( صحيح بخاري كتاب الأحكام باب نمبر 4 ) ” السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ لِلإِمَامِ مَا لَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً “ معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔ یہی حال علماء وفقہاء کا بھی ہے۔ ( اگر اولو الامر میں ان کو بھی شامل کر لیا جائے ) یعنی ان کی اطاعت اس لئے کرنی ہوگی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام وفرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد وہدایت اور رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء وفقہاء بھی دینی امور ومعاملات میں حکام کی طرح یقیناً مرجعِ عوام ہیں۔ لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول ( صلى الله عليه وسلم ) کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لئے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔
( 2 ) اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد، قرآن کریم اور الرسول ( صلى الله عليه وسلم ) سے مراد اب حدیث رسول ہے۔ یہ تنازعات کے ختم کرنے کے لئے ایک بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے۔ اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں۔ جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے، جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے، مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے امت منتشرہ بنا رکھا ہے اور اس کے اتحاد کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مشروط اطاعت امیر صحیح بخاری شریف میں بروایت حضرت عبداللہ بن عباس ؓ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چھوٹے سے لشکر میں حضرت عبداللہ بن حذافہ بن قیس کو بھیجا تھا ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے، بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک لشکر بھیجا جس کی سرداری ایک انصاری ؓ کو دی ایک مرتبہ وہ لوگوں پر سخت غصہ ہوگئے اور فرمانے لگے کیا تمہیں رسول اللہ ﷺ نے میری فرمانبرداری کا حکم نہیں دیا ؟ سب نے کہا ہاں بیشک دیا ہے، فرمانے لگے اچھا لکڑیاں جمع کرو پھر آگ منگوا کر لکڑیاں جلائیں پھر حکم دیا کہ تم اس آگ میں کود پڑو ایک نوجوان نے کہا لوگو سنو آگ سے بچنے کے لئے ہی تو ہم نے دامن رسول ﷺ میں پناہ لی ہے تم جلدی نہ کرو جب تک کہ حضور ﷺ نے ملاقات نہ ہوجائے پھر اگر آپ بھی یہی فرمائیں تو بےجھجھک اس آگ میں کود پڑھنا چناچہ یہ لوگ واپس حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا اگر تم اس آگ میں کود پڑھتے تو ہمیشہ آگ ہی میں جلتے رہتے۔ سنو فرمانبرداری صرف معروف میں ہے۔ ابو داؤد میں ہے کہ مسلمان پر سننا اور ماننا فرض ہے جی چاہے یا طبیعت رو کے لیکن اس وقت تک کہ ( اللہ تعالیٰ اور رسول کی ) نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، جب نافرمانی کا حکم ملے تو نہ سنے نہ مانے۔ بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبادہ بن صامت ؓ فرماتے ہیں ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیعت لی کہ کام کے اہل سے اس کام کو نہ چھینیں۔ لیکن جب تم ان کا کھلا کفر دیکھو جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی واضح الٰہی دلیل بھی ہو، بخاری شریف میں ہے سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام امیر بنایا گیا ہو چاہے کہ اس کا سرکشمکش ہے، مسلم شریف میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل ( یعنی رسالت مآب ﷺ نے سننے کی وصیت کی اگرچہ ناقص ہاتھ پاؤں والا حبشی غلام ہی ہو، مسلم کی ہی اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا چاہے تم پر غلام عامل بنایا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق تمہارا ساتھ چاہے تو تم اس کی سنو اور مانو ایک روایت میں غلام حبشی اعضاء کٹا کے الفاظ ہیں، ابن جریر میں ہے نیکوں اور بدوں سے بد تم ہر ایک اس امر میں جو مطابق ہو ان کی سنو اور مانو کہ میرے بعد نیک سے نیک اور بد سے بد تم کو ملیں گے تم پر ایک میں نے جو حق پر ہو اس کا سننا اور ماننا تم سے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہو اگر وہ نیکی کریں گے۔ تو ان کے لئے تفع ہے اور تمہارے لئے بھی اور اگر وہ بدی کریں گے تو تمہارے لئے اچھائی ہے اور ان پر گناہوں کا بوجھ ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنو اسرائیل میں مسلسل لگاتار رسول آیا کرتے تھے ایک کے بعد ایک اور میرے بعد کوئی نبی نہیں مگر خلفاء بکثرت ہوں گے لوگوں نے پوچھا پھر حضور ﷺ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا پہلے کی بیعت پوری کرو پھر اس کے بعد آنے والے کی ان کا حق انہیں دے دو اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔ آپ فرماتے ہیں جو شخص اپنے امیر کا کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے اسے صبر کرنا چاہیے جو شخص جماعت کے بالشت بھر جدا ہوگیا پھر وہ جاہلیت کی موت مرے گا (بخاری و مسلم ) ارشاد ہے جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے حجت و دلیل بغیر ملاقات کرے گا اور جو اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا ( مسلم ) حضرت عبدالرحمن ؒ فرماتے ہیں میں بیت اللہ شریف میں گیا دیکھا تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما ہیں اور لوگوں کا ایک مجمع جمع ہے میں بھی اس مجلس میں ایک طرف بیٹھ گیا اس وقت حضرت عبداللہ ؓ نے یہ حدیث بیان کی فرمایا ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ایک منزل میں اترے کوئی اپنا خیمہ ٹھیک کرنے لگا کوئی اپنے نیز سنبھالنے لگا کوئی کسی اور کام میں مشغول ہوگیا، اچانک ہم نے سنا کہ رسول کریم ﷺ فرما رہے ہیں ہر نبی پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتا ہے کہ اپنی امت کو تمام نیکیاں جو وہ جانتا ہے ان کی تربیت انہیں دے اور تمام برائیوں سے جو اس کی نگاہ میں ہیں انہیں آگاہ کر دے۔ سنو میری امت کی عافیت کا زمانہ اول کا زمانہ ہے آخر زمانے میں بڑی بڑی بلائیں آئیں گی اور ایسے ایسے امور نازل ہوں گے جنہیں مسلمان ناپسند کریں گے اور ایک ہر ایک فتنہ برپا ہوگا ایک ایسا وقت آئے گا کہ مومن سمجھ لے گا اسی میں میری ہلاکت ہے پھر وہ ہٹے گا۔ تو دوسرا اس سے بھی بڑا آئے گا جس میں اسے اپنی ہلاکت کا کامل یقین ہوگا بس یونہی لگا تار فتنے اور زبردست آزمائشیں اور کل تکلیفیں آتی رہیں گے پس جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کا مستحق ہو اسے چاہیے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے سنو جس نے امام سے بیعت کرلی اس نے اپنا ہاتھ اس کے قبضہ میں اور دل کی تمنائیں اسے دے دیں۔ اور اپنے دل کا پھل دے دیا اب اسے چاہیے کہ اس کی اطاعت کرے اگر کوئی دوسرا اس سے خلاف چھیننا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو ، عبدالرحمن فرماتے ہیں میں یہ سن کر قریب گیا اور کہا آپ کو میں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا خود آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ کی زبانی سنا ہے ؟ تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کان اور دل کی طرف بڑھا کر فرمایا میں نے حضور ﷺ سے اپنے ان دو کانوں سے سنا اور میں نے اسے اپنے اس دل میں محفوظ رکھا ہے مگر آپ کے چچا زاد بھائی حضرت معاویہ ؓ ہمیں ہمارے اپنے مال بطریق باطل سے کھانے اور آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرنے کا حکم دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کاموں سے ممانعت فرمائی ہے، ارشاد ہے ( آیت " یا ایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم الخ، ) اسے سن کر حضرت عبداللہ ذرا سی دیر خاموش رہے پھر فرمایا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اگر اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اسے نہ مانو اس بارے میں حدیثیں اور بھی بہت سی ہیں، اسی آیت کو تفسیر میں حضرت سدی ؒ سے مروی ہے کہ رسول مقبول ﷺ نے ایک لشکر بھیجا جس کا امیر حضرت خالد بن ولید ؓ کو بنایا اس لشکر میں حضرت عمار بن یاسر ؒ بھی تھے یہ لشکر جس قوم کی طرف جانا چاہتا تھا چلا رات کے وقت اس کی بستی کے پاس پہنچ کر پڑاؤ کیا ان لوگوں کو اپنے جاسوسوں سے پتہ چل گیا اور چھپ چھپ کر سب راتوں رات بھاگ کھڑے ہوئے۔ صرف ایک شخص رہ گیا اس نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا انہوں نے اس کا سب انسباب جلا دیا یہ شخص رات کے اندھیرے میں خالد ؓ کے لشکر میں آیا اور حضرت عمار ؓ سے ملا اور ان سے کہا کہ اے ابو الیقظان میں اسلام قبول کرچکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں میری ساری قوم تمہارا آنا سن کر بھاگ گئی ہے صرف میں باقی رہ گیا ہوں تو کیا کل میرا یہ اسلام مجھے نفع دے گا ؟ اگر نفع نہ دے تو میں بھی بھاگ جاؤں حضرت عمار ؓ نے فرمایا یقیناً یہ اسلام تمہیں نفع دے گا تم نہ بھاگو بلکہ ٹھہرے رہو صبح کے وقت جب حضرت خالد ؓ نے لشکر کشی کی تو سوائے اس شخص کے وہاں کسی کو نہ پایا اسے اس کے مال سمیت گرفتار کرلیا گیا جب حضرت عمار ؓ کو معلوم ہوا تو آپ حضرت خالد ؓ کے پاس آئے اور کہا اسے چھوڑ دیجئے یہ اسلام لا چکا ہے اور میری پناہ میں ہے حضرت خالد ؓ نے فرمایا تم کون ہو جو کسی کو پناہ دے سکو ؟ اس پر دونوں بزرگوں میں کچھ تیز کلامی ہوگئی اور قصہ بڑھا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا گیا۔ آپ نے حضرت عمار ؓ کی پناہ کو جائز قرار دیا اور فرمایا آئندہ امیر کی طرف سے پناہ نہ دینا پھر دونوں میں کچھ تیز کلامی ہونے لگی اس پر حضرت خالد ؓ نے حضور سے کہا اس ناک کٹے غلام کو آپ ﷺ کچھ نہیں کہتے ؟ دیکھئے تو یہ مجھے برا بھلا کہہ رہا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا خالد ؓ عمار ؓ کو برا نہ کہو۔ عمار ؓ کو گالیاں دینے والے کو اللہ گالیاں دے گا، عمار ؓ سے دشمنی کرنے والے سے اللہ دشمنی رکھے گا، عمار ؓ پر جو لعنت بھیجے گا اس پر اللہ کی لعنت نازل ہوگی اب تو حضرت خالد ؓ کو لینے کے دینے پڑھ گئے حضرت عمار ؓ غصہ میں چلا رہے تھے آپ دوڑ کر ان کے پاس گئے دامن تھام لیا معذرت کی اور اپنی تقصیر معاف کرائی تب تک پیچھانہ چھوڑا جب تک کہ حضرت عمار ؓ راضی نہ ہوگئے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( امر امارت و خلافت کے متعلق شرائط وغیرہ کا بیان آیت " واذقال ربک للملائکتہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ " کی تفسیر میں گزر چکا ہے ہاں ملاحظہ ہو۔ مترجم ) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یہ روایت مروی ہے ( ابن جریر اور ابن مردویہ ) حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ فرماتے ہیں اولی الامر سے مراد سمجھ بوجھ دین والے ہیں یعنی علماء کی ظاہر بات تو یہ معلوم ہوتی ہے آگے حقیقی علم اللہ کو ہے کہ یہ لفظ عام ہیں امراء علماء دونوں اس سے مراد ہیں جیسے کہ پہلے گزرا قرآن فرماتا ہے ( آیت لولا ینھاھم الربانیون الخ، ) یعنی ان کے علماء نے انہیں جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہ روکا ؟ اور جگہ ہے ( آیت فاسئلوا اھل الذکر الخ، ) حدیث کے جاننے والوں سے پوچھ لیا کرو کہ اگر تمہیں علم نہ ہو، صحیح حدیث میں ہے میری اطاعت کرنے والا اللہ کی اطاعت کرنے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہے پس یہ ہیں احکام علماء امراء کی اطاعت کرو یعنی اس کی سنتوں پر عمل کرو اور حکم والوں کی اطاعت کرو یعنی اس چیز میں جو اللہ کی اطاعت ہو، اللہ کے فرمان کے خلاف اگر ان کا کوئی حکم ہو تو اطاعت نہ کرنی چاہیے ایسے وقت علماء یا امراء کی ماننا حرام ہے جیسے کہ پہلی حدیث گزر چکی کہ اطاعت صرف معروف میں ہے یعنی فرمان الہ و فرمان رسول ﷺ کے دائرے میں مسند احمد میں ہے اس سے بھی زیادہ صاف حدیث ہے جس میں ہے کسی کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف جائز نہیں۔ آگے چل کر فرمایا کہ اگر تم میں کسی بارے میں جھگڑ پڑے تو اسے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹاؤ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف جیسے کہ حضرت مجاہد ؒ کی تفسیر ہے پس یہاں صریح اور صاف لفظوں میں اللہ عزوجل کا حکم ہو رہا ہے کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں خواہ وہ مسئلہ اصول دین سے متعلق ہو خواہ فروغ دین سے متعلق اس کے تصفیہ کی صرف یہی صورت ہے کہ کتاب و سنت کو حکم مان لیا جائے جو اس میں ہو وہ قبول کیا جائے، جیسے اور آیت قرآنی میں ہے ( آیت وما اختلفتم فیہ من شیء فحکمہ الی اللہ ) یعنی اگر کسی چیز میں تمہارا اختلاف ہوجائے اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے پس کتاب و سنت جو حکم دے اور جس مسئلہ کی صحت کی شہادت دے وہی حق ہے باقی سب باطل ہے، قرآن فرماتا ہے کہ حق کے بعد جو ہے ضلالت و گمراہی ہے، اسی لئے یہاں بھی اس حکم کے ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو، یعنی اگر تم ایمان کے دعوے میں سچے ہو تو جس مسئلہ کا تمہیں علم نہ ہو یعنی جس مسئلہ میں اختلاف ہو، جس امر میں جدا جدا آراء ہوں ان سب کا فیصلہ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ ﷺ سے کیا کرو جو ان دونوں میں ہو مان لیا کرو، پس ثابت ہوا کہ جو شخص اختلافی مسائل کا تصفیہ کتاب و سنت کی طرف سے نہ لے جائے وہ اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جھگڑوں میں اور اختلافات میں کتاب اللہ و سنت رسول کی طرف فیصلہ لانا اور ان کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے، اور یہی نیک انجام خوش آئند ہے اور یہی اچھے بدلے دلانے والا کام ہے، بہت اچھی جزا اسی کا ثمر ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
فرمایا :آیت 59 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ یعنی کوئی قانون اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔ اصولی طور پر یہ بات پاکستان کے دستور میں بھی تسلیم کی گئی ہے : " No Legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah."لیکن اس کی تنفیذ و تعمیل کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے ‘ لہٰذا اس وقت ہمارا دستور منافقت کا پلندہ ہے۔ اس آیت کی رو سے اللہ کے احکام اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکام قانون سازی کے دو مستقل ذرائع sources ہیں۔ اس طرح یہاں منکرین سنت کی نفی ہوتی ہے جو مؤخر الذکر کا انکار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا :وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج یہاں بہت عجیب اسلوب ہے کہ تین ہستیوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے : اللہ کی ‘ رسول کی اور اولوالامر کی ‘ لیکن پہلے دو کے لیے اَطِیْعُوْا“ کا لفظ آیا ہے ‘ جبکہ تیسرے کے لیے نہیں ہے۔ ایک اسلوب یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اَطِیْعُوْا“ ایک مرتبہ آجاتا اور اس کا اطلاق تینوں پر ہوجاتا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ‘۔ اس طرح تینوں برابر ہوجاتے۔ دوسرا اسلوب یہ ہوسکتا تھا کہ اَطِیْعُواتیسری مرتبہ بھی آتا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاَطِیْعُوْا اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ“۔ لیکن قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا ہے کہ اَطِیْعُوا“ دو کے ساتھ ہے ‘ تیسرے کے ساتھ نہیں ہے ‘ اس سے اولوالامر کی اطاعت کا مرتبہ status متعینّ ہوجاتا ہے۔ ایک تو مِنْکُمْ“ کی شرط سے واضح ہوگیا کہ اولوالامر تم ہی میں سے ہونے چاہئیں ‘ یعنی مسلمان ہوں۔ غیر مسلم کی حکومت کو ذہناً تسلیم کرنا اللہ سے بغاوت ہے۔ وہ کم از کم مسلمان تو ہوں۔ پھر یہ کہ متذکرہ بالا اسلوب سے واضح ہوگیا کہ ان کی اطاعت مطلق ‘ دائم اور غیر مشروط نہیں۔ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت مطلق ‘ دائم ‘ غیر مشروط اور غیر محدود ہے ‘ لیکن صاحب امر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہوگی۔ وہ جو حکم بھی لائے اسے بتانا ہوگا کہ میں کتاب و سنت سے کیسے اس کا استنباط کر رہا ہوں۔ گویا اسے کم از کم یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ حکم کتاب و سنت کے خلاف نہیں ہے۔ ایک مسلمان ریاست میں قانون سازی اسی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ دور جدید میں قانون ساز ادارہ کوئی بھی ہو ‘ کانگریس ہو ‘ پارلیمنٹ ہو یا مجلس ملی ہو ‘ وہ قانون سازی کرے گی ‘ لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ یہ قانون سازی قرآن وسنت سے متصادم نہ ہو۔ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ اولوالامرک ہے کہ میں تو اسے عین اسلام کے مطابق سمجھتا ہوں ‘ لیکن آپ کہیں کہ نہیں ‘ یہ بات خلاف اسلام ہے ‘ تو اب کہاں جائیں ؟ فرمایا :فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ یعنی اب جو بھی اپنی بات ثابت کرنا چاہتا ہے اسے اللہ اور اس کے رسول سے یعنی قرآن و سنت سے دلیل لانی پڑے گی۔ میری پسند ‘ میرا خیال ‘ میرا نظریہ والا استدلال قابل قبول نہیں ہوگا۔ استدلال کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول کی مرضی ہوگی۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ ابھی یہاں ایک خلا ہے۔ وہ خلا یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فریقین میں سے کس کی رائے صحیح ہے۔ اور آج کے ریاستی نظام میں آکر وہ خلا پر ہوچکا ہے کہ یہ عدلیہ Judiciary کا کام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جب عرب میں اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اس طرح علیحدہ علیحدہ ریاستی ادارے ابھی پوری طرح وجود میں نہیں آئے تھے اور ان کی الگ الگ شناخت نہیں تھی کہ یہ مقننہ Legislature ہے ‘ یہ عدلیہ Judiciary ہے اور یہ انتظامیہ Executive ہے۔ حضرت ابوبکر رض کے زمانے میں تو کوئی قاضی تھے ہی نہیں۔ سب سے پہلے حضرت عمر رض نے شعبہ قضاء شروع کیا۔ تو رفتہ رفتہ یہ ریاستی ادارے پروان چڑھے۔ جدید دور میں ان تنازعات کے حل کا ادارہ عدلیہ ہے۔ وہاں ہر شخص جائے اور اپنی دلیل پیش کرے۔ علماء جائیں ‘ قانون دان جائیں اور سب جا کر دلائل دیں۔ وہاں سے فیصلہ ہوجائے گا کہ یہ بات واقعتا قرآن و سنت سے متصادم ہے یا نہیں۔ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً آگے پھر منافقین کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ اس سورة مبارکہ کا سب سے بڑا حصہ منافقین سے خطاب اور ان کے تذکرے پر مشتمل ہے۔
ياأيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم فإن تنازعتم في شيء فردوه إلى الله والرسول إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر ذلك خير وأحسن تأويلا
سورة: النساء - آية: ( 59 ) - جزء: ( 5 ) - صفحة: ( 87 )Surah Nisa Ayat 59 meaning in urdu
اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہنا چاہے
- یعنی) نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور جو لوگ ان کے پیچھے ہوئے
- (اے محمدﷺ) یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہارے پاس بھیجتے ہیں
- میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم خدا کو چھوڑ کر آفتاب کو
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- اور جو اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں
- (یعنی) خدا کا رستہ جو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے۔ دیکھو
- وقت مقرر (یعنی قیامت) کے دن تک
- (اہل جنت) ایسے بچھونوں پر جن کے استرا طلس کے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ہوں
- اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں اُتارا گیا۔
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers