Surah Al Araaf Ayat 59 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ﴾
[ الأعراف: 59]
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے (ان سے کہا) اے میری برادری کے لوگو خدا کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا (بہت ہی) ڈر ہے
Surah Al Araaf UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
پھر تذکرہ انبیاء چونکہ سورت کے شروع میں حضرت آدم ؑ کا قصہ بیان ہوا تھا پھر اس کے متعلقات بیان ہوئے اور اس کے متصل اور بیانات فرما کر اب پھر اور انبیاء ( علیہم السلام ) کے واقعات کے بیان کا آغاز ہوا اور پے در پے ان کے بیانات ہوئے سب سے پہلے حضرت نوح ؑ کا ذکر ہوا کیونکہ آدم ؑ کے بعد سب سے پہلے پیغمبر اہل زمین کی طرف آپ ہی آئے تھے۔ آپ نوح بن ملک بن مقوشلخ بن اخنوخ ( یعنی ادریس ؑ یہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا ) بن برد بن مہلیل بن قنین بن یانشن بن شیث بن آدم ؑ۔ ائمہ نسب جیسے امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے آپ کا نسب نامہ اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں حضرت نوح جیسا کوئی اور نبی امت کی طرف سے ستایا نہیں گیا۔ ہاں انبیاء قتل ضرور کئے گئے۔ انہیں نوح اسی لئے کہا گیا کہ یہ اپنے نفس کا رونا بہت روتے تھے۔ حضرت آدم اور حضرت نوح کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گذرے تھے۔ اصنام پرستی کا رواج اسی طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہوگئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنالیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنالیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لئے کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کو پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لئے۔ ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر وغیرہ۔ جب بت پرستی کا رواج ہوگیا، اللہ نے اپنے رسول حضرت نوح کو بھیجا آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو۔ قوم نوح کے بڑوں نے، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے حضرت نوح کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا رہے ہو۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ جب یہ بدکار ان نیک کاروں کو دیکھتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ تو بہکے ہوئے ہیں۔ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو ان سے پہلے ہم نہ مان لیتے ؟ یہ تو بات ہی غلط اور جھوٹ ہے۔ حضرت نوح نبی ؑ نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں۔ تمہارا خیر خواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے۔ ہر رسول مبلغ، فصیح، بلیغ، ناصح، خیر خواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کرسکتا۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو تم میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے ؟ سب نے کہا ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کردی تھی اور حق رسالت ادا کردیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یا اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو شاہد رہ، یا اللہ تو گواہ رہ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اس رکوع سے التذکیر بِاَ یَّام اللّٰہ کے اس سلسلے کا آغاز ہو رہا ہے جسے قبل ازیں اس سورت کے مضامین کا عمود قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس سلسلے کا بہت بڑا حصہ انباء الرّسل پر مشتمل ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس اصطلاح کو اچھی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں نبیوں کا ذکر آتا ہے تو اس کا مقصد ان کی سیرت کے روشن پہلوؤں مثلاً ان کا مقام ‘ تقویٰ اور استقامت وغیرہ کو نمایاں کرنا ہوتا ہے ‘ جبکہ رسولوں کا ذکر بالکل مختلف انداز میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی رسول علیہ السلام آیا تو وہ کسی قوم کی طرف بھیجا گیا ‘ لہٰذا قرآن مجید میں رسول علیہ السلام کے ذکر کے ساتھ لازماً متعلقہ قوم کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ پھر رسول کی دعوت کے جواب میں اس قوم کے رویے اور ردِّ عمل کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ چناچہ پہلی قسم کے واقعات کو قصص الانبیاء کہا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال سورة يوسف ہے ‘ جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ‘ مگر کہیں بھی آپ علیہ السلام کی طرف سے اس نوعیت کے اعلان کا ذکر نہیں ملتا کہ لوگو ! مجھ پر ایمان لاؤ ‘ میری بات مانو ‘ ورنہ تم پر عذاب آئے گا اور نہ ہی ایسا کوئی اشارہ ملتا ہے کہ اس قوم نے آپ علیہ السلام کی دعوت کو ردّ کردیا اور پھر ان پر عذاب آگیا اور انہیں ہلاک کردیا گیا۔ دوسری قسم کے واقعات کے لیے انباء الرسل کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ انباء جمع ہے نبأ کی ‘ جس کے معنی خبر کے ہیں ‘ یعنی رسولوں کی خبریں۔ اِن واقعات سے ایک اصول واضح ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی رسول کسی قوم کی طرف آیا تو وہ اللہ کی عدالت بن کر آیا۔ جن لوگوں نے اس کی دعوت کو مان لیا وہ اہل ایمان ٹھہرے اور عافیت میں رہے ‘ جبکہ انکار کرنے والے ہلاک کردیے گئے۔ انباء الرسل کے سلسلے میں عام طور پر چھ رسولوں علیہ السلام کے حالات قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ رسول صرف چھ ہیں ‘ بلکہ یہ چھ رسول علیہ السلام وہ ہیں جن سے اہل عرب واقف تھے۔ یہ تمام رسول علیہ السلام اسی جزیرہ نمائے عرب کے اندر آئے۔ یہ رسول علیہ السلام جن علاقوں میں مبعوث ہوئے ان کے بارے میں جاننے کے لیے جزیرہ نمائے عرب Arabian Peninsula کا نقشہ اپنے ذہن میں رکھیے۔ نیچے جنوب کی طرف سے اس کی چوڑائی کافی زیادہ ہے ‘ جبکہ یہ چوڑائی اوپر شمال کی طرف کم ہوتی جاتی ہے۔ اس جزیرہ نما علاقہ کے مشرقی جانب خلیج فارس Persian Gulf ہے جب کہ مغربی جانب بحیرۂ احمر Read Sea ہے جو شمال میں جاکر دو کھاڑیوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ان میں سے ایک شمال مغرب کی طرف خلیج سویز ہے اور دوسری طرف شمال مشرق کی جانب خلیج عقبہ۔ خلیج عقبہ کے اوپر شمال والے کونے سے خلیج فارس کے شمالی کنارے کی طرف سیدھی لائن لگائیں تو نقشے پر ایک مثلث triangle بن جاتی ہے ‘ جس کا قاعدہ base نیچے جنوب میں یمن سے سلطنت عمان تک ہے اور اوپر والا کونہ شمال میں بحیرۂ مردار Dead Sea کے علاقے میں واقع ہے۔موجودہ دنیا کے نقشے کے مطابق اس مثلث میں سعودی عرب کے علاوہ عراق اور شام کے ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ مثلث اس علاقے پر محیط ہے جہاں عرب کی قدیم قومیں آباد تھیں اور یہی وہ قومیں تھیں جن کی طرف وہ چھ رسول مبعوث ہوئے تھے جن کا ذکر قرآن مجید میں بار بار آیا ہے۔ ان میں سے جو رسول سب سے پہلے آئے وہ حضرت نوح علیہ السلام تھے۔ آپ علیہ السلام کے زمانے کے بارے میں یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن مختلف اندازوں کے مطابق آپ علیہ السلام کا زمانہ حضرت آدم علیہ السلام سے کوئی دو ہزار سال بعد کا زمانہ بتایا جاتا ہے واللہ اعلم۔ اس وقت تک کل نسل انسانی بس اسی علاقے میں آباد تھی۔ جب آپ علیہ السلام کی قوم آپ علیہ السلام کی دعوت پر ایمان نہ لائی تو پانی کے عذاب سے انہیں تباہ کردیا گیا۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں وہ تباہ کن سیلاب آیا تھا جو طوفان نوح سے موسوم ہے اور یہیں کوہ جودی میں ارارات کی وہ پہاڑی ہے جہاں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں سے دوبارہ نسل انسانی چلی۔ آپ علیہ السلام کا ایک بیٹا جس کا نام سام تھا ‘ اس کی نسل جنوب میں عراق کی طرف پھیلی۔ اس نسل سے جو قومیں وجود میں آئیں انہیں سامی قومیں کہا جاتا ہے۔ انہی قوموں میں ایک قوم عاد تھی ‘ جو جزیرہ نمائے عرب کے بالکل جنوب میں آباد تھی۔ آج کل یہ علاقہ بڑا خطرناک قسم کا ریگستان ہے ‘ لیکن اس زمانے میں قوم عاد کا مسکن یہ علاقہ بہت سر سبز و شاداب تھا۔ اس قوم کی طرف حضرت ہود علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔ آپ علیہ السلام کی دعوت کو اس قوم نے رد کیا تو یہ بھی ہلاک کردی گئی۔ اس قوم کے بچے کھچے لوگ اور حضرت ہود علیہ السلام وہاں سے نقل مکانی کر کے مذکورہ مثلث کی مغربی سمت جزیرہ نمائے عرب کے شمال مشرقی کونے میں خلیج عقبہ سے نیچے مغربی ساحل کے علاقے میں جاآباد ہوئے۔ ان لوگوں کی نسل کو قوم ثمود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ اس قوم نے بھی اپنے رسول علیہ السلام کی دعوت کو رد کردیا ‘ جس پر انہیں بھی ہلاک کردیا گیا۔ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر عالی شان عمارات بنانے میں ماہر تھے۔ پہاڑوں کے اندر کھدے ہوئے ان کے محلات اور بڑے بڑے ہال آج بھی موجود ہیں۔ قوم ثمود کے اس علاقے سے ذرا اوپر خلیج عقبہ کے داہنی طرف مدین کا علاقہ ہے جہاں وہ قوم آباد تھی جن کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ مدین کے علاقے سے تھوڑا آگے بحیرۂ مردار Dead Sea ہے ‘ جس کے ساحل پر سدوم اور عامورہ کے شہر آباد تھے۔ ان شہروں میں حضرت لوط علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ بہرحال یہ ساری اقوام جن کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے مذکورہ مثلث کے علاقے میں ہی آباد تھیں۔ صرف قوم فرعون اس مثلث سے باہر مصر میں آباد تھی جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ ان چھ رسولوں کے حالات پڑھنے سے پہلے ان کی قوموں کے علاقوں کا یہ نقشہ اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے۔ زمانی اعتبار سے حضرت نوح علیہ السلام سب سے پہلے رسول ہیں ‘ پھر حضرت ہود علیہ السلام ‘ پھر حضرت صالح علیہ السلام ‘ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر قرآن میں انباء الرسل کے انداز میں نہیں بلکہ قصص الانبیاء کے طور پر آیا ہے۔ آپ علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو سدوم اور عامورہ کی بستیوں کی طرف بھیجا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام مدین تھا ‘ جن کی اولاد میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام حجاز مکہ میں آباد ہوئے اور پھر حجاز میں ہی نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام تھے جن کو آپ علیہ السلام نے فلسطین میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن سے بنی اسرائیل کی نسل چلی۔ قرآن حکیم میں جب ہم انبیاء و رسل کے تذکرے پڑھتے ہیں تو یہ ساری تفصیلات ذہن میں ہونی چاہئیں۔آیت 59 لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ یعنی مجھے اندیشہ ہے کہ اگر تم لوگ یونہی مشرکانہ افعال اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے رہو گے تو بہت بڑے عذاب میں پکڑے جاؤ گے۔
لقد أرسلنا نوحا إلى قومه فقال ياقوم اعبدوا الله ما لكم من إله غيره إني أخاف عليكم عذاب يوم عظيم
سورة: الأعراف - آية: ( 59 ) - جزء: ( 8 ) - صفحة: ( 158 )Surah Al Araaf Ayat 59 meaning in urdu
ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا "اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور پیچھے آنے والوں میں ان کا ذکر (جمیل باقی) چھوڑ دیا
- جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان
- عقل والوں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے
- اور جب دوزخ (کی آگ) بھڑکائی جائے گی
- اور ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر ان کی قوم کی طرف بھیجے تو
- اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور
- اور اے قوم میرا کیا (حال) ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا
- ہم نے ان کو ایک (صفت) خاص (آخرت کے) گھر کی یاد سے ممتاز کیا
- انہوں نے کہا کہ بھائیو مجھ میں حماقت کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میں
- تمہارے پروردگار کی قسم ہم ان سے ضرور پرسش کریں گے
Quran surahs in English :
Download surah Al Araaf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Araaf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Araaf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers