Surah Munafiqun Ayat 6 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾
[ المنافقون: 6]
تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگو ان کے حق میں برابر ہے۔ خدا ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔ بےشک خدا نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا
Surah Munafiqun Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اپنے نفاق پر اصرار اور کفر پر استمرار کی وجہ سے وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں استغفار اور عدم استغفار ان کے حق میں برابر ہے۔
( 2 ) اگر اسی حالت نفاق میں وہ مر گئے۔ ہاں اگر وہ زندگی میں کفر ونفاق سے تائب ہو جائیں تو بات اور ہے، پھر ان کی مغفرت ممکن ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
منافقوں کی محرومی سعادت کے اسباب ملعون منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں پر جب ان سے سچے مسلمان کہتے ہیں کہ آؤ رسول کریم ﷺ تمہارے لئے استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاے گناہ معاف فرما دے گا تو یہ تکبر کے ساتھ سر ہلانے لگتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں اور رک جاتے ہیں اور اس بات کو حقارت کے ساتھ رد کردیتے ہیں، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اب ان کے لئے بخشش کے دروازے بند ہیں نبی کا استغفار بھی انہیں کچھ نفع نہ دے گا، بھلا ان فاسقوں کی قسمت میں ہدیات کہاں ؟ سورة براۃ میں بھی اسی مضمون کی آیت گذر چکی ہے اور وہیں اس کی تفسیر اور ساتھ ہی اس کے متعلق کی حدیثیں بھی باین کردی گئی ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ سفیان راوی نے اپنا منہ دائیں جانب پھیرلیا تھا اور غضب وتکبر کے ساتھ ترچھی آنکھ سے گھور کر دکھایا تھا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے اور سلف میں سے اکثر حضرات کا فرمان ہے کہ یہ سب کا سب بیان عبداللہ بن ابی بن سلول کا ہے جیسے کہ عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی قوم کا بڑا اور شریف شخص تھا جب نبی ﷺ جمعہ کے دن خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھتے تھے تو یہ کھڑا ہوجاتا تھا اور کہتا تھا لوگو یہ ہیں اللہ کے رسول ﷺ جو تم میں موجود ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارا کرام کیا اور تمہیں عزت دی اب تم پر فرض ہے کہ تم آپ کی مدد کرو اور آپ کی عزت و تکریم کرو آپ کا فرمان سنو اور جو فرمائیں بجا لاؤ یہ کہہ کر بیٹھ جایا کرتا تھا، احد کے میدان میں اس کا نفاق کھل گیا اور یہ وہاں سے حضور ﷺ کی کھلی نافرمانی کر کے تہائی لشکر کو لے کر مدینہ کو واپس لوٹ آیا جب رسول اللہ ﷺ غزوہ احد سے فارغ ہوئے اور مدینہ میں مع لاخیر تشریف لائے جمعہ کا دن آیا اور آپ منبر پر چڑھے تو حسب عادت یہ آج بھی کھڑا ہوا اور کہنا چاہتا ہی تھا کہ بعض صحابہ ادھر ادھر سے کھڑے ہوگئے اور اس کے کپڑے پکڑ کر کہنے لگے دشمن اللہ بیٹھ جا تو اب یہ کہنے کا منہ نہیں رکھتا تو نے جو کچھ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اب تو اس کا اہل نہیں کہ زبان سے جو جی میں آئے بک دے، یہ ناراض ہو کر لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا باہر نکل گیا اور کہتا جاتا تھا کہ گویا میں کسی بدیات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا میں تو اس کا کام اور مضبوط کرنے کے لئے کھڑا ہوا تھا جو چند اصحاب مجھ پر اچھل کر آگئے مجھے گھسیٹنے لگے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے گویا کہ میں کسی بڑی بات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا حالانکہ میری نیت یہ تھی کہ میں آپ کی باتوں کی تائید کروں انہوں نے کہا خیر اب تم واپس چلو ہم رسول اللہ ﷺ سے عرض کریں گے آپ تمہارے لئے اللہ سے بخشش چاہیں گے اس نے کہا مجھے کوئی ضرورت نہیں، حضرت فتادہ اور حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے واقعہ یہ تھا کہ اسی کی قوم کے ایک نوجوان مسلمان نے اس کی ایسی ہی چند بری باتیں رسول اللہ ﷺ تک پہنائی تھیں حضور ﷺ نے بلوایا تو یہ صاف انکار کر گیا اور قسمیں کھا گیا، انصاریوں نے صحابی کو ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور اسے جھوٹا سمجھا اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس منافق کی جھوٹی قسموں اور اس نوجوان صحابی کی سچائی کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا اب اس سے کہا گیا کہ تو چل اور رسول اللہ ﷺ سے استغفار کرا تو اس نے انکار کے لہجے میں سر ہلا دیا اور نہ گیا، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جس منزل میں اترتے وہاں سے کوچ نہ کرتے جب تک نماز نہ پڑھ لیں، غزوہ تبوک میں حضور ﷺ کو خبر پہنچی کہ عبداللہ بن ابی کہہ رہا ہے کہ ہم عزت والے ان ذلت والوں کو مدینہ پہنچ کر نکال دیں گے پس آپ نے آخری دن میں اترنے سے پہلے ہی کوچ کردیا اسے کہا گیا کہ حضور ﷺ کے پاس جا کر اپنی خطا کی معافی اللہ سے طلب کر اس کا بیان اس آیت میں ہے، اس کی اسناد سعید بن جبیر تک صحیح ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے اس میں نظر ہے بلکہ یہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول تو اس غزوہ میں تھا ہی نہیں بلکہ لشکر کی ایک جماعت کو لے کر یہ تو لوٹ گیا تھا، کتب سیرو مغازی کے مصنفین میں تو یہ مشہور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع یعنی غزوہ بنو المصطلق کا ہے چناچہ اس قصہ میں حضرت ممد بن حییٰ بن حبان اور حضرت عبداللہ بن ابوبکر اور حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ اس لڑائی کے موقعہ پر حضور ﷺ کا ایک جگہ قیام تھا، وہاں حضرت جھجاہ بن سعید غفاری اور حضرت سنان بن یزید کا پانی کے ازدہام پر کچھ جھگڑا ہوگیا جھجاہ حضرت عمر کے کارندے تھے، جھگڑے نے طول پکڑا سنان نے انصاریوں کو اپنی مدد کے لئے آواز دی اور جھجاہ نے مہاجرین کو اس وقت حضرت زید بن ارقم وغیرہ انصاری کی ایک جماعت عبداللہ بن ابی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اس نے جب یہ فریاد سنی تو کہنے لگا لو ہمارے ہی شہروں میں ان لوگوں نے ہم پر حملے شروع کردیئے اللہ کی قسم ہماری اور ان قریشویں کی مثال وہی ہے جو کسی نے کہا ہے کہ اپنے کتے کو مٹا تازہ کرتا کہ تجھے ہی کاٹے اللہ کی قسم اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو ہم ذی مقدور لوگ ان بےمقدروں کو وہاں سے نکال دیں گے پھر اس کی قوم کے جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے ان سے کہنے لگا یہ سب آفت تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنے اوپر لی ہے تم نے انہیں اپنے شہر میں بسایا تم نے انہیں اپنے مال آدھوں آدھ حصہ دیا اب بھی اگر تم ان کی مالی امداد نہ کرو تو یہ خود تنگ آ کر مدینہ سے نکل بھاگیں گے حضرت زید بن ارقم ؓ نے یہ تمام باتیں سنیں آپ اس وقت بہت کم عمر تھے سیدھے سرکار نبوت میں حاضر ہوئے اور کل واقعہ بیان فرمایا اس وقت آپ کے پاسح ضرت عمر بن خطاب ؓ بھی بیٹیھ ہوئے تھے غضبناک ہو کر فرمانے لگے یا رسول اللہ ﷺ عباد بن بشیر کو حکم فرمایئے کہ اس کی گردن الگ کر دے حضور ﷺ نے فرمایا پھر تو لوگوں میں یہ مشہور ہوجائے گا کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کی گردنیں مارتے ہیں یہ ٹھیک نہیں جاؤ لوگوں میں کوچ کی منادی کردو، عبداللہ بن ابی کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی گفتگو کا علم آنحضرت ﷺ کو ہوگیا تو بہت سٹ پٹایا اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر معذرت اور حیلے حوالے تاویل اور تحریف کرنے لگا اور قسمیں کھا گیا کہ میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا، چونکہ یہ شخص اپنی قوم میں ذی عزت اور باوقعت تھا اور لوگ بھی کہنے لگے حضور ﷺ شاید اس بچے نے ہی غلطی کیہ و اسے وہم ہوگیا ہو واقعہ ثابت تو ہوتا نہیں، حضور ﷺ یہاں سے جلدی ہی کوچ کے وقت سے پہلے ہی تشریف لے چلے راستے میں حضرت اسید بن نضیر ؓ ملے اور آپ کی شان نبوت کے قابل با ادب سلام کیا پھر عرض کی کہ حضور ﷺ آج کیا بات ہے کہ وقت سے پہلے ہی جناب نے کوچ کیا حضور ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں ملوم نہیں کہ تمہارے ساتھی ابن ابی نے کیا کہا وہ کہتا ہے کہ مدینہ جا کر ہم عزیز ان ذلیلوں کو نکال دیں گے حضرت اسید نے کہا یا رسول اللہ ﷺ عزت والے آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے یا رسول اللہ ﷺ آپ اس کی ان باتوں کا خیال بھی نہ فرمایئے دراصل یہ بہت جلا ہوا ہے سنئے اہل مدینہ نے اسے سردار بنانے پر اتفاق کرلیا تھا تاج تیار ہو رہا تھا کہ اللہ رب اعلزت آپ کو لایا اس کے ہاتھ سے ملک نکل گیا پس یہ چراغ پا ہو رہا ہے، حضور ﷺ چلتے رہے، دوپہر کو ہی چل دیئے تھے شام ہوئی رات ہوئی صبح ہوئی یہاں تک کہ دھوپ میں تیزی آگئی تب آپ نے پڑاؤ کیا تاکہ لوگ اس بات میں پھر نہ الجھ جائیں، چونکہ تمام لوگ تھکے ہارے اور رات کے جاگے ہوئے تھے اترتے ہی سب سو گئے ادھر یہ سورت نازل ہوئی ( سیرۃ ابن اسحاق ) بیہقی میں ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے ایک مہاجر نے ایک انصار کو پتھر مار دیا اس پر بات بڑھ گئی اور دونوں نے اپنی اپنی جماعت سے فریاد کی اور انہیں پکارا حضور ﷺ سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا جاہلیت کی ہانک لگانے لگے اس فضول خراب عادت کو چھوڑو، عبداللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا اب مہاجر یہ کرنے لگ گئے اللہ کی قسم مدینہ پہنچتے ہی ہم ذی عزت ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے، اس وقت مدینہ شریف میں انصار کی تعداد مہاجرین سے بہت زیادہ تھی گو بعد میں مہاجرین بہت زیادہ ہوگئے تھے، حضرت عمر کو جب ابن ابی کے اس قول کا علم ہوا تو حضور ﷺ سے اس کے قتل کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ نے روک دیا، مسند احمد میں حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک میں میں نے جب اس منافق کا یہ قول حضور ﷺ کے سامنے بیان کیا اور اس نے آ کر انکار کیا اور قسمیں کھا گیا اس وقت میری قوم نے مجھے بہت کچھ برا کہا اور ہر طرح ملامت کی کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نہایت غمگین دل ہو کر وہاں سے چل دیا اور سخت رنج و غم میں تھا کہ حضور ﷺ نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیرا عذر نازل فرمایا ہے اور تیری سچائی ظاہر کی ہے اور یہ آیت اتری ھم الذین الخ یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں ہے، مسند احمد میں ہے حضرت زید بن ارقم کا یہ بیان اس طرح ہے کہ میں اسے چچا کے ساتھ ایک غزوے میں تھا اور میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ دونوں باتیں سنیں میں نے اپنے چچا سے بیان کیں اور میرے چچا نے حضور سے عرض کیں جب آپ نے اسے بلایا اس نے انکار کیا اور قسمیں کھا گیا۔ حضور ﷺ نے اسے سچا اور مجھے جھوٹا جانا میرے چچا نے بھی مجھے برا بھلا کہا مجھے اس قدر غم اور ندامت ہوئی کہ میں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ یہ سورت اتری اور آپ نے میری تصدیق کی اور مجھے یہ پڑھ سنائی۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ ایک سفر کے موقعہ پر جب صحابہ کو تنگی پہنچی تو اس نے انہیں کچھ دینے کی ممانعت کردی۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں اس لئے بلوایا کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں تو انہوں نے اس سے بھی منہ پھیرلیا، قرآن ریم نے انہیں ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں اس لئے کہا ہے کہ یہ لوگ اچھے جمیل جسم والے تھے، ترمذی وغیرہ میں حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ کچھ اعراب لوگ بھی تھے پانی کی جگہ وہ پہلے پہنچنا چاہتے تھے اسی طرح ہم بھی اسی کی کوشش میں رہتے تھے ایک مرتبہ ایک اعرابی نے جا کر پانی پر بضہ کر کے حوض پر کرلیا اور اس کے اردگرد پتھر رکھ دیئے اور اوپر سے چمڑا پھیلا دیا ایک انصاری نے آ کر اس حوض میں سے اپنے اونٹ کو پانی پلانا چاہا اس نے روکا انصاری نے پلانے پر زور دیا اس نے ایک لکڑی اٹھا کر انصاری کے سر پر ماری جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔ یہ چونکہ عبداللہ بن ابی کا ساتھی تھا سیدھا اس کے پاس آیا اور تمام ماجرا کہہ سنایا عبداللہ بہت بگڑا اور کہنے لگا ان اعرابیوں کو کچھ نہ دو یہ خود بھوکے مرتے بھاگ جائیں گے، یہ اعربای کھانے کے قوت رسول اللہ ﷺ کے پاس آجاتے تھے اور کھالیا کرتے تھے تو عبداللہ بن ابی نے کہا تم حضور ﷺ کا کھانا لے کر ایسے وقت جاؤ جب یہ لوگ نہ ہوں آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھالیں گے یہ رہ جائیں گے یونہی بھوکوں مرتے بھاگ جائیں گے اور اب ہم مدینہ جا کر ان کمینوں کو نکال باہر کریں گے، میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کا ردیف تھا اور میں نے یہ سب سنا اپنے چچا سے ذکر کیا چچا نے حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ نے اسے بلوایا یہ انکار کر گیا اور حلف اٹھا لیا حضور ﷺ نے اسے سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا قرار دیا میرے چچا میرے پاس آئے اور کہا تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ حضور ﷺ تجھ پر ناراض ہوگئے اور تجھے جھوٹا جانا اور دیگر مسلمانوں نے بھی تجھے جھوٹا سمجھا مجھ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا سخت غم واندوہ کی حالت میں سر جھکائے میں حضور ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا تھوڑی ہی دیر گذری ہوگی کہ آپ میرے پاس آئے، میرا کان پکڑا، جب میں نے سر اٹھا کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ مسکرائے اور چل دیئے، اللہ کی قسم مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اگر دنیا کی ابدی زندگی مجھے مل جاتی جب بھی میں اتنا خوش نہ ہوسکتا تھا پھر حضرت صدیق اکبر ؓ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ آنحضرت ﷺ نے تم سے کیا کہا ؟ میں نے کہا ؟ فرمایا تو کچھ بھی نہیں مسکراتے ہوئے تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا بس پھر خوش ہو، آپ کے بعد ہی حضرت عمر فاروق ؓ تشریف لائے ہی سوال مجھ سے کیا اور میں نے یہی جواب دیا صبح کو سورة منافقون نازل ہوئی۔ دوسری روایت میں اس سورت کا منھا الذل تک پڑھنا بھی مروی ہے، عبداللہ بن لہیعہ اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی اسی حدیث کو مغازی میں بیان کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں خبر پہنچانے والے کا نام اوس بن اقرم ہے جو قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سے تھے، ممن ہے کہ حضرت زید بن ارقم نے بھی خبر پہنچائی ہو اور حضرت اوس نے بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی سے نام میں غلطیہو گئی ہو واللہ اعلم، ابنابی حاتم میں ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع کا ہے یہ وہ غزوہ ہے جس میں حضرت خالد ؓ کو بھیج کر حضور ﷺ نے مناۃ بت کو تڑوایا تھا جو قفا مثل اور سمندر کے درمیان تھا، اسی غزوہ میں دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا تھا ایک مہاجر تھا دوسرا قبیلہ بہز کا تھا اور قبیل بہز انصاریوں کا حلیف تھا بہزی نے انصاریوں کو اور مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی کچھ لوگ دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور جھگڑا ہنے لگا جب ختم ہوا تو منافق اور بیمار دل لوگ عبداللہ بن اب کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں تو تم سے بہت کچھ امیدیں تھیں تم ہمارے دشمنوں سے ہمارا بچاؤ تھے اب تو بیکار ہوگئے ہو، نفع کا خیال نہ نقصان کا تم نے ہی ان جلالیبکو اتنا چڑھا دیا کہ بات بات پر یہ ہم پر چڑھ دوڑیں، نئے مہاجرین کو یہ لوگ جلالیب کہتے تھے، اس دشمن اللہ نے جواب دیا کہ اب مدینے پہنچتے ہی ان سب کو وہاں سے دیس نکالا دیں گے، مالک بن وخشن جو منافق تھا اس نے کہا میں تو تمہیں پہلے ہی سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک کرنا چھوڑ دو خودبخود منتشر ہوجائیں گے یہ باتیں حضرت عمر ؓ نے سن لیں اور خدمت نبوی میں آ کر عرض کرنے لگے کہ اس بانی فتنہ عبداللہ بن ابی کا قصہ پاک کرنے کی مجھے اجازت دیجئے آپ نے فرمایا اچھا اگر اجازت دوں تو کیا تم اسے قتل کر ڈالو گے ؟ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ کی قسم ابھی اپنے ہاتھ سے اس کی گردن ماروں گا، آپ نے فرمایا اچھا بیٹھ جاؤ اتنے میں حضرت اسید بن حفیر بھی یہی کہتے ہوئے آپ نے ان سے بھی یہی پوچھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا آپ نے انہیں بھی بٹھا لیا، پھر تھوڑی دیر گذری ہوگی کہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور وقت سے پہلے ہی لشکر نے کوچ کیا، وہ دن رات دوسری صبح برابر چلتے ہی رہے جب دھوپ میں تیزی آگئی، اترنے کو فرمایا، پھر دوپہر ڈھلتے ہی جلدی سے کوچ کیا اور اسی طرح چلتے رہے تیسرے دن صبح کو قفا مثل سے مدینہ شریف پہنچ گئے، حضرت عمر کو بلوایا ان سے پوچھا کہ کیا میں اس کے قتل کا تجھے حکم دیتا تو تو اسے مار ڈالتا ؟ " حضرت عمر نے عرض کیا یقیناً میں اس کا سرتن سے جدا کردیتا۔ آپ نے فرمایا اگر تو اسے اس دن قتل کر ڈالات تو بہت سے لوگوں کے ناک خاک آلودہ ہوجاتے میں اگر انہیں کہتا تو وہ بھی اسے مار ڈالنے میں تامل نہ کرتے پھر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ ملتا کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو بھی بےدردی کے ساتھ مار ڈالتا ہے اسی واقعہ کا بیان ان آیتوں میں ہے، یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سی ایسی عمدہ باتیں ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں، سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ جو پکے سچے مسلمان تھے اس واقعہ کے بعد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گذارش کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے جو بکواس کی ہے اس کے بدلے آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اگر یونہی ہے تو اس کے قتل کا حکم آپ کسی اور کو نہ کیجئے میں خود جاتا ہوں اور ابھی اس کا سر آپ کے قدموں تلے ڈالتا ہوں، قسم اللہ کی قبیلہ خزرج کا ایک ایک شخص جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے احسان و سلوک اور محبت و عزت کرنے والا نہیں ( لیکن میں نے فرمان رسول ﷺ پر اپنے پیارے باپ کی گردن مارنے کو تیار ہوں ) اگر آپ نے کسی اور کو یہ حکم دیا اور اس نے اسے مارا تو مجھے ڈر ہے کہ کیں جوش انتقام میں میں اسے نہ مار بیٹھوں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ حرکت مجھ سے ہوگئی تو میں ایک کافر کے بدلے ایک مسلمان کو مار کر جہنمی بن جاؤں گا آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیجئے آپ نے فرمایا نہیں نہیں میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا ہم تو اس سے اور نرمی برتیں گے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے، حضرت عکرمہ اور حضرت ابنزید کا بیان ہے کہ جب حضور ﷺ اپنے لشکروں سمیت مدینے پہنچے تو اس منافق عبداللہ بن ابی کے لڑکے حضرت عبداللہ ؓ دینہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہوگئے تلوار کھینچ لی لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے یہاں تک کہ ان کا باپ آیا تو یہ فرمانے لگے پرے رہو، مدینہ میں نہ جاؤ اس نے کہا کیا بات ہے ؟ مجھے کیوں روک رہا ہے ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو مدینہ میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اللہ کے رسول ﷺ تیرے لئے اجازت نہ دیں، عزت والے آپ ہی ہیں اور تو ذلیل ہے، یہ رک کر کھڑا ہوگیا یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ تشریف لائے آپ کی عادت مبارک تھی کہ لشکر کے آخری حصہ میں ہوتے تھے آپ کو دیکھ کر اس مناق نے اپنے بیٹے کی شکایت کی آپ نے ان سے پوچھا کہ اسے کیوں روک رکھا ہے ؟ انہوں نے کہا قسم ہے اللہ کی جب تک آپ کی اجازت نہ ہو یہ اندر نہیں جاسکتا چناچہ حضور ﷺ نے اجازت دی اب حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے دیا، مسند حمیدی میں ہے کہ آپ نے اپنے والد سے کہا جب تک تو اپنی زبان سے یہ نہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ عزت والے اور میں ذلیل تو مدینہ میں نہیں جاسکتا اور اس سے پہلے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں نے آج تک نگاہ اونچی کر کے ان کے چہرے کو بھی نہیں دیکھا لیکن آپ اگر اس پر ناراض ہیں تو مجھے حکم دیجئے ابھی اس کی گردن حاضر کرتا ہوں کسی اور کو اس کے قتل کا حکم نہ دیجئے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قتل کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا نہ دیکھ سکوں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 6{ سَوَآئٌ عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ } ” اے نبی ﷺ ! ان کے لیے برابر ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں۔ “ { لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ } ” اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ “ یہی مضمون اس سے زیادہ سخت الفاظ میں سورة التوبة میں بھی آچکا ہے۔ وہاں ان لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا : { اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْلاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْط اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْط } آیت 80 ” اے نبی ﷺ ! آپ خواہ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں۔ اگر آپ ستر ّمرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا “۔ لیکن حضور ﷺ کی نرم دلی اور مروّت کی اپنی شان ہے۔ آپ ﷺ نے اس آیت کے نزول کے بعد ایک موقع پر مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا : لَـوْ اَعْلَمُ اَنِّی اِنْ زِدْتُ عَلَی السَّبْعِیْنَ غُفِرَ لَـہٗ لَزِدْتُ عَلَیْھَا 1 ” اگر مجھے معلوم ہو تاکہ ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے اس کی معافی ہوسکتی ہے تو میں اس پر اضافہ کرلیتا “۔ واضح رہے کہ یہاں ستر کا عدد محاورے کے طور پر آیا ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اب ان کے لیے آپ ﷺ کا استغفار کرنا انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا۔ ان کے دلوں میں آپ ﷺ کی عداوت اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ان کی بخشش ممکن ہی نہیں۔ اب آئندہ آیات میں ایک واقعہ کے حوالے سے اہل ایمان کے ساتھ منافقین کی عداوت کا نقشہ دکھایا جارہا ہے۔ یہ واقعہ غزوئہ بنی مصطلق سے واپسی کے سفر میں پیش آیا تھا۔ مریسیع کے کنویں کے قریب جہاں لشکر کا پڑائو تھا ‘ دو مسلمانوں کا پانی بھرنے پر آپس میں جھگڑا ہوگیا۔ ان میں سے ایک انصار کا حلیف تھا جبکہ دوسرا حضرت عمر رض کا خادم تھا ‘ جس نے جذبات میں آکر اس کو ایک لات رسید کردی۔ اس پر منافقین نے اس کو بڑھا چڑھا کر مہاجرین اور انصار کے مابین جھگڑے کا رنگ دے دیا۔ عبداللہ بن ابی نے ‘ جو اس طرح کے مواقع کی ہمیشہ گھات میں رہتا ‘ موقع سے فائدہ اٹھا کر مہاجرین کے خلاف انصار کے جذبات بھڑکانے کے لیے نہایت زہر آلود فقرے کہے۔ اس نے انصار کو مخاطب کر کے کہا کہ مدینہ والو ! یہ ہمارے گھر میں پناہ پا کر اب ہمیں پر ّغرانے لگے ہیں۔ سچ کہا ہے جس نے کہا ہے کہ سَمِّنْ کَلْبَکَ یَاْکُلْکَکہ تم اپنے کتے کو کھلا پلا کر خوب موٹا کرو تاکہ وہ تم ہی کو کاٹے۔ تم نے ان بےگھر لوگوں کو سر چھپانے کی جگہ دی ‘ ان کی مدد کی ‘ انہیں کھلایا پلایا اور اپنے مال میں ان کو حصہ دار بنایا۔ یہ تمہاری اپنی غلطی کا خمیازہ ہے جو تمہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر تم ان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیتے تو یہ کب کے یہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے۔۔۔ خدا کی قسم ! اب ہم پلٹے تو جو باعزت ہیں وہ رذیلوں کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ عبداللہ بن ابی کی یہ بکواس وہاں موقع پر موجود ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم رض سن رہے تھے۔ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر سارا واقعہ بیان کردیا۔ حضور ﷺ نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر دریافت فرمایا تو وہ صاف مکر گیا ‘ بلکہ اس نے الٹا احتجاج کیا کہ کیا آپ ﷺ میرے معاملے میں اس چھوکرے حضرت زید بن ارقم رض کی بات پر یقین کریں گے ؟ اس طرح حضرت زید رض کی پوزیشن بڑی خراب ہوگئی۔ ان آیات کے نزول کے بعد جب واقعہ کی تصدیق ہوگئی تو حضور ﷺ نے حضرت زید بن ارقم رض کی خصوصی طور پر دلجوئی فرمائی اور شفقت سے ان کا کان مروڑتے ہوئے فرمایا کہ لڑکے کے کان نے غلط نہیں سنا تھا۔ اس واقعہ کے حوالے سے یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ عبداللہ بن ابی کا جرم ثابت ہوجانے کے بعد بھی حضور ﷺ نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک عملاً اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس بارے میں عام طور پر تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ حضور ﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے کے فوراً بعد ہی وہاں باقاعدہ اسلامی ریاست وجود میں آگئی تھی اور حضور ﷺ کو باقاعدہ ایک سربراہِ ریاست اور سربراہِ حکومت کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی ‘ لیکن اس دور کے معروضی حقائق اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ غزوئہ اُحد کے موقع پر اسلامی لشکر کو چھوڑ کر جانے والے تین سو افراد سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ منافقین مدینہ اپنے فیصلے حضور ﷺ کے بجائے یہودیوں سے کرواتے تھے۔ ظاہر ہے کسی ریاست میں تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کی ایک تہائی فوج دشمن کے مقابلے سے بھاگ جائے اور ان میں سے کسی ایک فرد سے بھی اس بارے میں کوئی باز پرس نہ ہو ‘ اور نہ ہی کسی ریاست کی عملداری میں یہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی شہری ریاست کی عدالت کو چھوڑ کر اپنا مقدمہ کہیں اور لے جائے۔ بہرحال اس حوالے سے اصل صورت حال یہ تھی کہ علاقے کی واحد منظم اور طاقتور جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے حضور ﷺ کو مدینہ میں معاشرتی و سیاسی لحاظ سے ایک خصوصی اور ممتاز مقام تو ہجرت کے فوراً بعد ہی حاصل ہوگیا تھا۔ البتہ آپ ﷺ کے تحت ایک باقاعدہ ریاست فتح مکہ کے بعد قائم ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ 9 ہجری میں غزوئہ تبوک سے رہ جانے والے لوگوں کا سخت مواخذہ ہوا۔ بہرحال عبداللہ بن ابی کے معاملے میں حضور ﷺ نے بہت درگزر سے کام لیا۔ واقعہ افک میں اس کے کردار سے حضور ﷺ بہت آزردہ ہوئے تھے۔ اس دوران تو ایک موقع پر آپ ﷺ نے یہاں تک فرما دیا تھا کہ کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس شخص کی ایذا سے مجھے بچا سکے ؟ لیکن آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی محض آپ ﷺ کے جذبات کا اظہار تھا ‘ جبکہ آپ ﷺ نے اس کے خلاف کسی عملی اقدام کا حکم اس وقت بھی نہیں دیا۔ البتہ اس موقع پر اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رض نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ حضور ! آپ ﷺ مجھے حکم دیں ‘ میں اس شخص کا کام تمام کرتا ہوں۔ اس پر خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رض نے حضرت سعد رض بن معاذ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عبداللہ بن ابی کے قتل کی بات اس لیے کی ہے کہ اس کا تعلق قبیلہ خزرج سے ہے ! اور پھر حضرت سعد بن عبادہ رض ہی نے حضور ﷺ کو مشورہ دیا تھا کہ حضور ! آپ اس شخص کے معاملے میں نرمی سے کام لیں۔ اس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے اور اس کے لیے ہم نے سونے کا تاج بھی تیار کرلیا تھا کہ اسی اثنا میں آپ ﷺ مدینہ تشریف لے آئے۔ اس طرح اس کے سارے خواب بکھر گئے۔ ہمارے قبیلے پر ابھی تک اس کا اثر و رسوخ موجود ہے ‘ اس لیے حکمت اور مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے خلاف سختی نہ کی جائے۔ بہرحال اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت تک باقاعدہ اسلامی ریاست اور حکومت بھی وجود میں نہیں آئی تھی اور ابھی قبائلی عصبیتیں بھی کسی نہ کسی حد تک موجود تھیں۔ یعنی مجموعی طور پر حالات ایسے نہیں تھے کہ حضور ﷺ ان پہلوئوں کو نظرانداز کر کے عبداللہ بن ابی کے خلاف کوئی سخت اقدام کرنے کا حکم دیتے۔ اس لیے آپ ﷺ نے اس کا یہ جرم بھی نظر انداز کردیا۔ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔ } ” یقینا اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “
سواء عليهم أستغفرت لهم أم لم تستغفر لهم لن يغفر الله لهم إن الله لا يهدي القوم الفاسقين
سورة: المنافقون - آية: ( 6 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 555 )Surah Munafiqun Ayat 6 meaning in urdu
اے نبیؐ، تم چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، ان کے لیے یکساں ہے، اللہ ہرگز انہیں معاف نہ کرے گا، اللہ فاسق لوگوں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- انجیر کی قسم اور زیتون کی
- اور تمہارا پروردگار تو غالب اور مہربان ہے
- اور ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کر ڈالا جو اپنی (فراخی) معیشت میں
- مسلمانو تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں
- کہنے لگے یہ دونوں جادوگر ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو (کے زور) سے تم
- یہ وعدہ ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے پہلے سے ہوتا چلا آیا ہے
- اور کہنے لگے کہ بھلا ہمارے معبود اچھے ہیں یا عیسیٰ؟ انہوں نے عیسیٰ کی
- اور کتاب میں موسیٰ کا بھی ذکر کرو۔ بےشک وہ (ہمارے) برگزیدہ اور پیغمبر مُرسل
- ان میں نیک سیرت (اور) خوبصورت عورتیں ہیں
- (ہر چند) چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں مگر اس سے نہیں نکل سکیں
Quran surahs in English :
Download surah Munafiqun with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Munafiqun mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Munafiqun Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers