Surah alam nashrah Ayat 6 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴾
[ الشرح: 6]
(اور) بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے
Surah alam nashrah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے لئے اور صحابہ ( رضي الله عنهم ) کے لئے خوشخبری ہے کہ تم اسلام کی راہ میں جو تکلیفیں برداشت کر رہے ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد ہی اللہ تمہیں فراغت وآسانی سے نوازے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جسے ساری دنیا جانتی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
یعنی ہم نے تیرے سینے کو منور کردیا چوڑا کشادہ اور رحمت و کرم والا کردیا اور جگہ ہے فمن برد اللّٰہ الخ، یعنی جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ جس طرح آپکا سینہ کشادہ کردیا گیا تھا۔ اسی طرح آپ کی شریعت بھی کشادگی والی نرمی اور آسانی والی بنادی، جس میں نہ تو کوئی حرج ہے نہ تنگی، نہ ترشی، نہ تکلیف، اور سختی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد معراج والی رات سینے کا شق کیا جانا ہے۔ جیسے کہ مالک بن صعصعہ کی روایت سے پہلے گذرچکا، امام ترمذی نے اس حدیث کو یہیں وارد کیا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں واقعات مراد ہوسکتے ہیں یعنی معراج کی رات سینے کا شق کیا جانا اور سینہ کو راز اللہ کا گنجینہ بنادینا۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ؓ بڑی دلیری سے رسول اللہ ﷺ سے وہ باتیں پوچھ لیا کرتے تھے جسے دوسرے نہ پوچھ سکتے تھے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ امر نبوت میں سب سے پہلے آپ نے کیا دیکھا ؟ آپ سنبھل بیٹھے اور فرمانے لگے ابوہریرہ میں دس سال کچھ ماہ کا تھا جنگل میں کھڑا تھا کہ میں نے اوپر آسمان کی طرف سے کچھ آواز سنی کہ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا ہے کیا یہ وہی ہیں ؟ اب دو شخص میرے سامنے آئے جن کے منہ ایسے منور تھے کہ میں نے ایسے کبھی نہیں دیکھے اور ایسی خوشبو آرہی تھی کہ میرے دماغ نے ایسی خوشبو کبھی نہیں سونگھی اور ایسے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ میں نے کبھی کسی پر ایسے کپڑے نہیں دیکھے اور آکر انہوں نے میرے دونوں بازو تھام لئے لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی میرے بازو تھامے ہوئے ہے۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ انہیں لٹا دو چناچہ اس نے لٹا دیا لیکن اس میں بھی نہ مجھے تکلیف ہوئی نہ برا محسوس ہوا۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا ان کا سینہ شق کرو چناچہ میرا سینہ چیر دیا لیکن نہ تو مجھے اس میں کچھ دکھ ہوا اور نہ میں نے خود دیکھا پھر کہا اس میں سے غل و غش، حسد و بغض سب نکال دو ، چناچہ اس نے ایک خون بستہ جیسی کوئی چیز نکالی اور اسے پھینک دیا پھر اس نے کہا اس میں رافت و رحمت رحم و کرم بھر دو پھر ایک چاندی جیسی چیز جتنی نکالی تھی اتنی ڈال دی پھر میرے دائیں پاؤں کا انگوٹھا ہلا کر کہا جائیے اور سلامتی سے زندگی گزارئیے اب میں چلا تو میں نے دیکھا کہ ہر چھوٹے پر میرے دل میں شفقت ہے اور ہر بڑے پر رحمت ہے ( مسند احمد ) پھر فرمان ہے کہ ہم نے تیرا بوجھ اتار دیا۔ یہ اسی معنی میں ہے کہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے۔ جس بوجھ نے تیری کمر سے آواز نکلوا دی تھی یعنی جس نے تیری کمر کو بوجھل کردیا تھا۔ ہم نے تیرا ذکر بلند کیا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یعنی جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہاں تیرا ذکر کیا جائے گا جیسے اشہدان لا الہ اللہ واشہد ان محمد ارسول اللہ۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کردیا کوئی خطیب کوئی واعظ کوئی کلمہ گو کوئی نمازی ایسا نہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اور آپ کی رسالت کا کلمہ نہ پڑھتا ہو۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور ﷺ کے پاس حضرت جبرائیل آئے اور فرمایا کہ میرا اور آپ کا رب فرماتا ہے کہ میں آپ کا ذکر کس طرح بلند کروں ؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی کو پورا علم ہے فرمایا جب میں ذکر کیا جاؤں تو آپ کا بھی ذکر کیا جائے گا، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے ایک سوال کیا لیکن نہ کرتا تو اچھا ہوتا میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے نبیوں میں سے کسی کے لیے تو نے ہوا کو تابعدار کردیا تھا کسی کے ہاتھوں مردوں کو زندہ کردیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کیا تجھے میں نے یتیم پا کر جگہ نہیں دی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا راہ گم کردہ پاکر میں نے تجھے ہدایت نہیں کی ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا فقیر پاکر غنی نہیں بنادیا ؟ میں نے کہا بیشک فرمایا کیا میں نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا ؟ کیا میں نے تیرا ذکر بلند نہیں کیا ؟ میں نے کہا بیشک کیا ہے۔ ابو نعیم دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب میں فارغ ہوا اس چیز سے جس کا حکم مجھے میرے رب عزوجل نے کیا تھا آسمان اور زمین کے کام سے تو میں نے کہا اللہ مجھ سے پہلے جتنے انبیاء ہوئے اب سب کی تو نے تکریم کی، ابراہیم کو خلیل بنایا، موسیٰ کو کلیم بنایا داؤد کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا، سلیمان کے لیے ہواؤں اور شیاطین کو بھی تابعدار بنایا اور عیسیٰ کے ہاتھ پر مردے زندہ کرائے، پس میرے لیے کیا کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا میں نے تجھے ان سب سے افضل چیز نہیں دی کہ میرے ذکر کے ساتھ ہی تیرا ذکر بھی کیا جاتا ہے اور میں نے تیری امت کے سینوں کو ایسا کردیا کہ وہ قرآن کو قرأت سے پڑھتے ہیں۔ یہ میں نے کسی اگلی امت کو نہیں دیا اور میں نے تجھے اپنے عرش کے خزانوں میں سے خزانہ دیا جو لاحول ولا قوت الا باللہ العلی العظیم ہے ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں کہ اس سے مر اس اذان ہے یعنی اذان میں آپ کا ذکر ہے جس طرح حضرت حسان کے شعروں میں ہے۔ اغر علیہ للنبوۃ خاتم من اللّٰہ من نور یلوح ویشھد وضم الالہ اسم النبی اسمہ اذا قال فی الخمس الموذن اشھد وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذو العرش محمود وھذا محمد یعنی اللہ تعالیٰ نے مہر نبوت کو اپنے پاس کا ایک نور بنا کر آپ پر ثبت فرمایا جو آپ کی رسالت کی گواہ ہے اپنے نام کے ساتھ اپنے نبی کا نام ملا لیا جبکہ پانچویں وقت اشھد کہتا ہے آپ کی عزت و جلال کے اظہار کے لیے اپنے نام میں سے آپ کا نام نکالا دیکھو وہ عرش والا محمود ہے اور آپ محمد ہیں ﷺ اور لوگ کہتے ہیں کہ اگلوں پچھلوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر بلند کیا اور تمام انبیاء ( علیہم السلام ) سے روز میثاق میں عہد لیا گیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی آپ پر ایمان لانے کا حکم کریں پھر آپ کی امت میں آپ کے ذکر کو مشہور کیا کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جائے، صرصری نے کتنی اچھی بات بیان فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ فرضوں کی اذان صحیح نہیں ہوتی مگر آپ کے پیارے اور میٹھے نام سے جو پسند یدہ اور اچھے منہ سے ادا ہو۔ اور فرماتے ہیں کہ تم نہیں دبکنے کہ ہماری اذان اور ہمارا فرض صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ آپ کا ذکر باربار اس میں نہ آئے، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ تکرار اور تاکید کے ساتھ دو دو دفعہ فرماتا ہے کہ سختی کے ساتھ آسانی دشواری کے ساتھ سہولت ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے سامنے ایک پتھر تھا پس لوگوں نے کہا اور سختی آئے اور اس پتھر پر گھس جائے تو آسانی ہی آئے گی اور اسی میں جائے گی۔ اور اسے نکال لائے گی اس پر یہ آیت اتری۔ مسند بزار حم میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہا گردشواری اس پتھر میں داخل ہوجائے تو آسانی آکر اسے نکالے گی، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی، یہ حدیث عائز بن شریح حضرت انس سے روایت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ابو حاتم راضی کا فیصلہ ہے کہ ان کی حدیث میں ضعف ہے اور ابن مسعود سے یہ موقوف مروی ہے۔ حضرت حسن فرماتے ہیں لوگ کہتے تھے کہ ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی، حضرت حسن ابن جریر میں مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک دن شادان اور فرحاں آئے اور ہنستے ہوئے فرمانے لگے ہرگز ایک دشواری پر دو نرمیوں پر غالب نہیں آسکتی۔ پھر اس آیت کی آپ نے تلاوت کی، یہ حدیث مرسل ہے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو خوش خبری سنائی کہ دو آسانیوں پر ایک سختی غالب نہیں آسکتی۔ مطلب یہ ہے کہ عسرہ کے لفظ کو تو دونوں جگہ معرفہ لائے ہیں تو وہ مفرد ہوا اور یسر کے لفظ کو نکرہ لائے ہیں تو وہ متعدد ہوگیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ معونتہ یعنی امداد الٰہی بقدر معونتہ یعنی تکلیف کے آسمان سے نازل ہوتی ہے یعنی صبر مصیبت کی مقدار پر نازل ہوتا ہے حضرت امام شافعی فرماتے ہیں صبر اجمیلا ما اقرب الفرجا من راقب اللّٰہ فی الامر نجا من صدق اللّٰہ لم ینلہ اذی ومن رجاہ یکون حیث رجا یعنی اچھا صبر آسانیوں سے کیا ہی قریب ہے ؟ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ لحاظ رکھنے والا، نجات یافتہ ہے، اللہ تعالیٰ کی باتوں کی تصدیق کرنے والے کو کوئی ایذاء نہیں پہنچتی اس سے بھلائی کی امید رکھنے والا اسے اپنی امید کے ساتھ ہی پاتا ہے۔ حضرت ابو حاتم سجستانی ؒ کے اشعار ہیں کہ جب مایوسی دل پر قبضہ کرلیتی ہے اور سینہ باوجود کشادگی کے تنگ ہوجاتا ہے تکلیفیں گھیر لیتی ہیں اور مصیبتیں ڈیرہ جما لیتی ہیں کوئی چارہ سجھائی نہیں دیتا اور کوئی تدبیر نجات کارکردگی نہیں ہوتی اس وقت اچانک اللہ کی مدد آپہنچتی ہے۔ اور وہ دعاؤں کا سننے والا باریک بین اللہ اس سختی کو آسانی سے اور اس تکلیف کو راحت میں بدل دیتا ہے۔ تنگیاں جب کہ بھر پور آپڑی ہیں پروردگار معا وسعتیں نازل فرما کر نقصن کو فائدے سے بدل دیتا ہے کسی اور شاعر نے کہا ہے :ولرب نازل یضیق بہ الفتی ذرھا وعند اللّٰہ منھا المخرج کملت فلما : ستحلت حلقا تھا فرجت وکان یظنھا لا تفرج یعنی بہت سی ایسی مصیبتیں انسان پر نازل ہوتی ہیں جن سے وہ تنگ دل ہوجاتا ہے حالانکہ اللہ کے پاس ان سے چھٹکارا بھی ہے جب یہ مصیبتیں کامل ہوجاتی ہیں اور اس زنجیر کے حلقے، مضبوط ہوجاتے ہیں اور انسان گمان کرنے لگتا ہے کہ بھلا یہ کیا ہٹیں گی کہ اچانک اس رحیم و کریم اللہ کی شفقت بھری نظریں پڑتی ہیں اور اس مصیبت کو اس طرح ودر کرتا ہے کہ گویا آئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد ارشاد باری ہوتا ہے کہ جب تو دینوی کاموں سے اور یہاں کے اشغال سے فرصت پائے تو ہماری عبادتوں میں لگ جا اور فارغ البال ہو کر دلی توجہ کے ساتھ ہمارے سامنے عاجزی میں لگ جا، اپنی نیت خالص کرلے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری جناب کی طرف متوجہ ہوجا۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ کھاناسامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو اور حدیث میں ہے کہ جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کرلو۔ حضرت مجاہد اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لیے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور مشغولیت کے ساتھ رب کی طرف توجہ کر۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں یعنی دعا کر، زید بن اسلم اور ضحاک فرماتے ہیں جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا، ثوری فرماتے ہیں اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ۔ سورة الم نشرح کی تفسیر اللہ کے فضل و کرم سے ختم ہوئی۔ فالحمد اللہ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 6{ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ } ” یقینا مشکل ہی کے ساتھ آسانی ہے۔ “ یہ سورت دراصل مشکلات القرآن میں سے ہے۔ آیت 2 میں جس بوجھ کا ذکر ہوا ہے اس کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا گیا ہے کہ اس میں حضور ﷺ کی دعوت و تبلیغ کی مشقتوں اور لوگوں کی طرف سے پہنچائی جانے والی اذیتوں کی طرف اشارہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رائے صرف جزوی طور پر درست ہے اس لیے کہ یہ سورت بالکل ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ اس زمانے میں حضور ﷺ کی مشکلات کا ابھی آغاز ہو رہا تھا اور بعد کے زمانے میں آپ ﷺ کو نسبتاً بہت زیادہ مشکل مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ مثلاً شعب ابی طالب میں تین سال کی قید کا واقعہ اس سورت کے نزول کے بعد پیش آیا اور اس کے بعد ہی آپ ﷺ کو یوم طائف اور یوم احد جیسے گھمبیر حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ دعوت و تبلیغ اور آپ ﷺ کے فریضہ رسالت سے متعلقہ مشکلات بھی اس سورت کے نزول کے بعد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں ‘ بلکہ بڑھتی ہی چلی گئیں۔ اس لیے یہ حقیقت تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہاں جس بوجھ کے اتار دینے کا ذکر ہوا ہے وہ اصل میں کوئی اور بوجھ تھا۔ اس بوجھ کی کیفیت کے بارے میں جاننے کے لیے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ پیغمبروں کو اپنے قرب خاص کی نعمت سے نوازتا ہے۔ چناچہ قرب خاص کی لذت سے آشنا ہوجانے کے بعد انبیاء و رسل - کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت اسی کیفیت میں گزاریں۔ لیکن وہاں سے حکم ملتا ہے کہ جائو خلق خدا تک میرا پیغام پہنچائو اور انہیں ہدایت کا راستہ دکھائو ! مثلاً اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کو ہِ طور پر اپنے قرب خاص سے نوازا اور آپ علیہ السلام سے کلام فرمایا تو اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش تو یہی ہوگی کہ وہ سدا اسی کیفیت میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مکالمے اور مخاطبے کی لذت سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ لیکن اس کے فوراً بعد آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا : { اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی۔ } طٰہٰ ” اب جائو فرعون کی طرف ‘ وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے ! “ ظاہر ہے فریضہ رسالت کی ادائیگی کوئی آسان کام تو نہیں۔ اس بارے میں اصل حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پیغمبروں کی دعوت کے جواب میں لوگوں کی طرف سے بےاعتنائی برتی جاتی تھی اور طنز و تمسخر کے تیر برسائے جاتے تھے ‘ حتیٰ کہ جسمانی اذیت پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔ الغرض اس راستے میں تو ہر قدم پر مخالفت اور ہر موڑ پر تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چناچہ ایسی صورت حال میں پیغمبروں کو دوہری مشکل کا سامنا رہا ہے یعنی ایک طرف قرب و حضوری کی خصوصی کیفیت سے باہر آنے کا ملال اور دوسری طرف لوگوں کے رویے کے باعث دل پر تکدر کا بوجھ۔ کہاں وہ قرب ِخاص کا کیف و سرور اور کہاں یہ مشقت بھری مصروفیات۔ روح اور طبیعت کا میلان تو ظاہر ہے اسی طرف ہوگا کہ وہی خلوت ہو ‘ وہی حضوری ہو اور وہی کیف و سرور ہو۔ غالبؔ نے اپنی زبان اور اپنے انداز میں محبوب کی قربت کے حوالے سے انسان کی اس کیفیت اور خواہش کی ترجمانی یوں کی ہے : ؎دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت ‘ کہ رات دن بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے ! اس صورت حال یا کیفیت کو علامہ اقبال کے بیان کردہ اس واقعہ کے حوالہ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال اپنے خطبات چوتھے لیکچر میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالقدوس گنگوہی - دنیا ومافیہا سے بیخبر مراقبے کی کیفیت میں بیٹھے تھے۔ اسی اثنا میں انہیں اقامت کی آواز سنائی دی۔ آپ رح فوراً نماز کے لیے کھڑے تو ہوگئے مگر جھنجھلا کر کہا : ” حضوری سے نکال کر دربانی میں کھڑا کردیا ! “ اب ظاہر ہے حضوری کی کیفیت میں تو اور ہی لذت تھی جبکہ نماز میں جماعت کا نظم ملحوظ رکھنے کی پابندی ہے اور ہر صورت میں امام کی اقتداضروری ہے۔ فرض کریں مقتدی کو تلاوت سننے میں لذت محسوس ہو رہی ہے اور وہ مزید سننا چاہتا ہے لیکن یہاں وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے جب امام قراءت ختم کر کے رکوع میں جائے گا تو اسے اس کی اقتدا کرنا ہوگی۔ اگر وہ دیر تک سجدہ میں ہی پڑے رہنا چاہتا ہے تو بھی اسے اپنا سجدہ مختصر کر کے امام کی اقتدا میں سر اٹھانا ہوگا۔ اس تمہیدی وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اب آپ حضور ﷺ کی اس کیفیت کا تصور کیجیے جب حضور ﷺ رات کی تنہائی میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ اس وقت آپ ﷺ کی روح کیسی کیسی قربتوں اور رفعتوں سے آشنا ہوتی ہوگی اور آپ ﷺ کے قلب مبارک پر کیسے کیسے انوار و تجلیات کی بارش ہوتی ہوگی۔ پھر صبح کو جب آپ ﷺ اہل مکہ کے درمیان جا کر ان سے شاعر ‘ مجنون ‘ کذاب نعوذ باللہ جیسے القابات سنتے ہوں گے اور ان کے تمسخر بھرے جملوں کا سامنا کرتے ہوں گے تو آپ ﷺ اپنی طبیعت میں کیسا تکدر اور کیسی کو فت محسوس کرتے ہوں گے۔ چناچہ حضور ﷺ کے لیے اصل معاملہ یہ تھا کہ ” عروج “ قربِ خاص کی لذت کے بعد ” نزول “ کا مرحلہ آپ ﷺ پر بہت شاق گزرتا تھا۔ اور یہی وہ ” بوجھ “ تھا جو آپ ﷺ کی کمر کو دہرا کیے دے رہا تھا۔ البتہ رفتہ رفتہ آپ ﷺ کا مزاج جب اس معمول کا خوگر ہوگیا تو اس بوجھ کے احساس میں کمی واقع ہوتی گئی۔ پھر جب روز بروز اہل ایمان کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی تو دعوت و تحریک کی مصروفیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے تسکین کا سامان پیدا فرما دیا۔ بہرحال یہاں پر یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ فریضہ رسالت کی انجام دہی کے لیے عروج اور نزول ان کیفیات کے لیے صوفیاء کے ہاں ” سیر الی اللہ “ اور ” سیر عن اللہ “ کی اصطلاحات بھی معروف ہیں کی دونوں کیفیات کا بیک وقت باہم متوازی چلنا ضروری ہے۔ اس نکتہ لطیف کو مولانا روم نے بارش کی مثال سے بہت موثر انداز میں سمجھایا ہے۔ مولانا کی بیان کردہ اس حکایت کا خلاصہ یہ ہے کہ سمندر سے بخارات کی شکل میں بالکل صاف اور پاکیزہ پانی فضا میں پہنچتا ہے۔ بارش برستی ہے تو یہ صاف پانی فضا کی کدورتوں کو بھی صاف کرتا ہے ‘ زمین کی گندگیوں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر سمندر میں ڈال دیتا ہے اور اس کے بعد سمندر سے پھر بخارات بن کر صاف اور پاکیزہ حالت میں بارش کے لیے فضا میں پہنچ جاتا ہے۔ اس مثال کو حضور ﷺ کی ذات پر منطبق کرتے ہوئے یوں سمجھیں کہ حضور ﷺ کو ” سیر الی اللہ “ قیام اللیل اور خلوت کی مناجات وغیرہ کے ذریعے روحانی ترفع حاصل ہوتا۔ پھر جب آپ ﷺ ” سیر عن اللہ “ کی صورت میں معاشرے کی طرف رجوع فرماتے تو آپ ﷺ کی رحمت اور روحانیت لوگوں پر بارش کی طرح برستی اور راستے میں آنے والی تمام ظاہری و باطنی آلائشوں اور کدورتوں کو دھو ڈالتی۔ اسی دوران لوگوں کی مخالفت اور گھٹیا حرکات کے باعث آپ ﷺ کی ” روحانیت “ میں کچھ تکدر بھی پیدا ہوتا ‘ جسے ” سیر الی اللہ “ کے اگلے مرحلے میں صاف کردیا جاتا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا۔ یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ نتائج کے اعتبار سے تو دعوت و تبلیغ کی مصروفیات بھی ” سیر الی اللہ “ ہی کے زمرے میں آتی ہیں لیکن عملی طور پر اس کی کیفیت بظاہر ” سیر عن اللہ “ جیسی ہے۔ جیسے نماز کی حالت میں انسان کا رخ اللہ کی طرف ہوتا ہے لیکن ایک داعی جب نماز سے فارغ ہو کر تبلیغ کے لیے نکلتا ہے تو بظاہر اس کی پشت اللہ کی طرف ہوتی ہے اور رُخ لوگوں کی طرف ہوتا ہے۔
Surah alam nashrah Ayat 6 meaning in urdu
بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- بھلا لوگوں نے جو زمین کی چیزوں سے (بعض کو) معبود بنا لیا ہے (تو
- (اے پیغمبر) کہہ دو کہ لوگو! میں تم کو کھلم کھلا نصیحت کرنے والا ہوں
- دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ جو احکام
- کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو
- حالانکہ اس نے تم کو طرح طرح (کی حالتوں) کا پیدا کیا ہے
- اور جو کچھ انہوں نے کیا، (ان کے) اعمال ناموں میں (مندرج) ہے
- کہو کہ تم خدا کے سوا ایسی چیز کی کیوں پرستش کرتے ہو جس کو
- پھر (قیامت کے دن تمام) لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائے
- بےشک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تو جو شخص خانہٴ
- اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکوں سے کہیں گے
Quran surahs in English :
Download surah alam nashrah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah alam nashrah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter alam nashrah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers