Surah Ankabut Ayat 60 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَكَأَيِّن مِّن دَابَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾
[ العنكبوت: 60]
اور بہت سے جانور ہیں جو اپنا رزق اُٹھائے نہیں پھرتے خدا ہی ان کو رزق دیتا ہے اور تم کو بھی۔ اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
Surah Ankabut Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) كَأَيِّنْ میں کاف تشبیہ کا ہے اور معنی ہیں کتنے ہی یا بہت سے۔
( 2 ) کیونکہ اٹھا کر لے جانے کی ان میں ہمت ہی نہیں ہوتی، اسی طرح وہ ذخیرہ بھی نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ ہے کہ رزق کسی خاص جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اللہ کا رزق اپنی مخلوق کے لئے عام ہے وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نےہجرت کو جانے والے صحابہ ( رضي الله عنهم ) کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا، نیز تھوڑے ہی عرصے کے بعد انہیں عرب کے متعدد علاقوں کا حکمران بنا دیا۔ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ.
( 3 ) یعنی کمزور ہے یا طاقت ور، اسباب ووسائل سے بہرہ ور ہے یا بے بہرہ، اپنے وطن میں ہے یا مہاجر اور بے وطن، سب کا روزی رساں وہی اللہ ہے جو چیونٹی کو زمین کے کونوں کھدروں میں، پرندوں کو ہواؤں میں اور مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کو سمندر کی گہرائیوں میں روزی پہنچاتا ہے۔ اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ فقر وفاقہ کا ڈر ہجرت میں رکاوٹ نہ بنے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمام مخلوقات کی روزی کا ذمے دار ہے۔
( 4 ) وہ جاننے والا ہے تمہارے اعمال وافعال کو اور تمہارے ظاہر وباطن کو، اس لئے صرف اسی سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے مت ڈرو! اسی کی اطاعت میں سعادت وکمال ہے اور اس کی معصیت میں شقاوت ونقصان۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مہاجرین کے لیے انعامات الٰہی اللہ تبارک وتعالیٰ اس آیت میں ایمان والوں کو ہجرت کا حکم دیتا ہے کہ جہاں وہ دین کو قائم نہ رکھ سکتے ہوں وہاں سے اس جگہ چلے جائیں جہاں ان کے دین میں انہیں آزادی رہے اللہ کی زمین بہت کشادہ ہے جہاں وہ فرمان اللہ کے ماتحت اللہ کی عبادت و توحید بجالاسکیں وہاں چلے جائیں۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تمام شہر اللہ کے شہر ہیں اور کل بندے اللہ کے غلام ہیں جہاں تو بھلائی پاسکتا ہو وہیں قیام کر چناچہ صحابہ اکرام پر جب مکہ شریف کی رہائش مشکل ہوگئی تو وہ ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تاکہ امن وامان کے ساتھ اللہ کے دین پر قیام کرسکیں وہاں کے سمجھدار دیندار بادشاہ اصحمہ نجاشی نے ان کی پوری تائید ونصرت کی اور وہاں وہ بہت عزت اور خوشی سے رہے سہے۔ پھر اس کے بعد بااجازت الٰہی دوسرے صحابہ نے اور خود حضور ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ بعد ازاں فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک مرنے والا اور میرے سامنے حاضر ہونے والا ہے۔ تم خواہ کہیں ہو موت کے نیچے سے نجات نہیں پاسکتے پس تمہیں زندگی بھر اللہ کی اطاعت میں اور اس کے راضی کرنے میں رہنا چاہئے تاکہ مرنے کے بعد اللہ کے ہاں جاکر عذاب میں نہ پھنسو۔ ایماندار نیک اعمال لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت عدن کی بلندی وبالا منزلوں میں پہنچائے گا۔ جن کے نیچے قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ کہیں صاف شفاف پانی کی کہیں شراب طہور کی کہیں شہد کی کہیں دودھ کی۔ یہ چشمیں خود بخود جہاں چاہیں بہنے لگیں گے۔ یہ وہاں رہیں گے نہ وہاں سے نکالیں جائیں نہ ہٹائے جائیں گے نہ وہ نعمتیں ختم ہونگی نہ ان میں گھاٹا آئے گا۔ مومنوں کے نیک اعمال پر جنتی بالا خانے انہیں مبارک ہوں۔ جنہوں نے اپنے سچے دین پر صبر کیا اور اللہ کی طرف ہجرت کی۔ اس کے دشمنوں کو ترک کیا اپنے اقرباء اور اپنے گھر والوں کو راہ اللہ میں چھوڑا اس کی نعمتوں اور اس کے انعامات کی امید پر دنیا کے عیش و عشرت پر لات ماردی۔ ابن ابی حاتم میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بنائے ہیں جو کھانا کھلائیں خوش کلام نرم گو ہوں۔ روزے نماز کے پابند ہوں اور راتوں کو جبکہ لوگ سوتے ہوئے ہوں۔ یہ نمازیں پڑھتے ہوں اور اپنے کل احوال میں دینی ہوں یا دنیوی اپنے رب پر کامل بھروسہ رکھتے ہوں۔ پھر فرمایا کہ رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تقیسم کیا ہوا رزق عام ہے اور ہر جگہ جو جہاں ہو اسے وہ وہیں پہنچ جاتا ہے۔ مہاجرین کے رزق میں ہجرت کے بعد اللہ نے وہ برکتیں دیں کہ یہ دنیا کے کناروں کے مالک ہوگئے اور بادشاہ بن گئے فرمایا کہ بہت سے جانور ہیں جو اپنے رزق کے جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اللہ کے ذمہ ان کی روزیاں ہیں۔ پروردگار انہیں ان کے رزق پہنچا دیتا ہے۔ تمہارا رازق بھی وہی ہے وہ کسی بھی صورت اپنی مخلوق کو نہیں بھولتا۔ چینٹیوں کو ان کے سوراخوں میں پرندوں کو آسمان و زمین کے خلا میں مچھلیوں کو پانی میں وہی رزق پہنچاتا ہے۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ) 11۔ ھود :6) یعنی کوئی جانور روئے زمین پر ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو وہی ان کے ٹھہرنے اور رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے یہ سب اس کی روشن کتاب میں موجود ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں میں رسول ﷺ کے ساتھ چلا آپ مدینے کے باغات میں سے ایک باغ میں گئے۔ اور گری پڑی ردی کھجوریں کھول کھول کر صاف کرکے کھانے لگے۔ مجھ سے بھی کھانے کو فرمایا۔ میں نے کہا حضور ﷺ مجھ سے تو یہ ردی کجھوریں نہیں کھائی جائیں گی۔ آپ نے فرمایا لیکن مجھے تو یہ بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ چوتھے دن کی صبح ہے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا اور نہ کھانے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے کھانا ملا ہی نہیں۔ سنو اگر میں چاہتا تو اللہ سے دعا کرتا اور اللہ مجھے قیصر وکسریٰ کا ملک دے دیتا۔ اے ابن عمر تیرا کیا حال ہوگا جبکہ تو ایسے لوگوں میں ہوگا جو سال سال بھر کے غلے وغیرہ جمع کرلیاکریں گے۔ اور ان کا یقین اور توکل بالکل بودا ہوجائے گا۔ ہم ابھی تو وہیں اسی حالت میں تھے جو آیت ( وکاین الخ ) ، نازل ہوئی۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل نے مجھے دنیا کے خزانے جمع کرنے کا اور خواہشوں کے پیچھے لگ جانے کا حکم نہیں کیا جو شخص دنیا کے خزانے جمع کرے اور اس سے باقی والی زندگی چاہے وہ سمجھ لے کہ باقی رہنے والی حیات تو اللہ کے ہاتھ ہے۔ دیکھو میں تو نہ دینار ودرہم جمع کروں نہ کل کے لئے آج روزی کا ذخیرہ جمع کر رکھوں۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کا راوی ابو العطوف جزی ضعیف ہے۔ یہ مشہور ہے کہ کوے کے بچے جب نکلتے ہیں تو ان کے پر وبال سفید ہوتے ہیں یہ دیکھ کر کوا ان سے نفرت کرکے بھاگ جاتا ہے کچھ دنوں کے بعد ان پروں کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے تب ان کے ماں باپ آتے ہیں اور انہیں دانہ وغیرہ کھلاتے ہیں ابتدائی ایام میں جبکہ ماں باپ ان چھوٹے بچوں سے متنفر ہو کر بھاگ جاتے ہیں اور ان کے پاس بھی نہیں آتے اس وقت اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے مچھر ان کے پاس بھیج دیتا ہے وہی ان کی غذا بن جاتے ہیں۔ عرب کے شعراء نے اسے نظم بھی کیا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ سفر کرو تاکہ صحت اور روزی پاؤ اور حدیث میں ہے کہ سفر کرو تاکہ صحت و غنیمت ملے۔ اور حدیث میں ہے کہ سفر کرو نفع اٹھاؤ گے روزے رکھو تندرست رہو گے جہاد کرو غنیمت ملے گی۔ ایک اور روایت میں ہے جد والوں اور آسانی والوں کے ساتھ سفر کرو۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا اور ان کی حرکات و سکنات کو جاننے والا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 60 وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَاز ” تمہارے رزق کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ خود ہے ‘ لہٰذا اس کے لیے تم اللہ پر توکلّ کرو اور اس کے سوا کسی اور کی طرف مت دیکھو۔ دنیا میں کبھی کسی کے بارے میں ایسا مت سوچو کہ وہ ناراض ہوگیا تو تمہاری ضروریات کا کیا بنے گا۔متی کی انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کا جو وعظ پہاڑی کا وعظ نقل ہوا ہے اس میں یہ مضمون بڑے خوبصورت انداز میں بیان ہوا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کو ٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سو سن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کا تتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند ملبسّ نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو ‘ تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اس لیے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کو تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لیے آپ فکر کرلے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔ “ متی ‘ باب 6 : 25۔ 34 ‘ بحوالہ تدبر قرآن ‘ جلد پنجم ‘ ص 60اس ضمن میں یہ نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ توکل اور ایمان ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی شخص کا اللہ پر ایمان جس قدر پختہ ہوگا ‘ اسی قدر اس کا اس پر توکل بھی مضبوط ہوگا اور اگر ایمان کمزور ہوگا تو پھر توکل بھی کمزور پڑجائے گا۔اَللّٰہُ یَرْزُقُہَا وَاِیَّاکُمْز وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ”وہ ہر حاجت مند کی التجا کو سنتا ہے ‘ اسے ہر ایک کی ضرورت کا علم ہے ‘ وہ اپنے ہر بندے کے حالات سے باخبر رہتا ہے ‘ کیا اسے خبر نہ ہوگی کہ میرا فلاں بندہ اس وقت بھوکا ہے ؟ کیا اسے معلوم نہ ہوگا کہ میرا فلاں وفادار تمام اسباب کو ٹھکرا کر مجھ پر توکلّ کیے بیٹھا ہے ؟ بلاشبہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس نے کس محتاج کی حاجت روائی کا کیا بندوبست کرنا ہے اور کس بندے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کسے وسیلہ بنانا ہے۔ اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ پھر مشرکین مکہ کی طرف ہے۔
وكأين من دابة لا تحمل رزقها الله يرزقها وإياكم وهو السميع العليم
سورة: العنكبوت - آية: ( 60 ) - جزء: ( 21 ) - صفحة: ( 403 )Surah Ankabut Ayat 60 meaning in urdu
کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ اُن کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی ہے، وہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں
- مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہوں اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے
- پھر فرشتوں کی قسم جو وحی لاتے ہیں
- اور میں نے تم کو انتخاب کرلیا ہے تو جو حکم دیا جائے اسے سنو
- اور ہم نے کوئی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس کے لئے نصیحت کرنے والے
- (یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا
- اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو چنگھاڑ (کی صورت میں عذاب) نے
- (وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے
- ہاں اگر کوئی چوری سے سننا چاہے تو چمکتا ہوا انگارہ اس کے پیچھے لپکتا
- اور اس دن کی جس کا وعدہ ہے
Quran surahs in English :
Download surah Ankabut with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Ankabut mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Ankabut Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers