Surah juma Ayat 2 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾
[ الجمعة: 2]
وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں ان ہی میں سے (محمدﷺ) کو پیغمبر (بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور اس ے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے
Surah juma Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) أُمِّيِّينَ سے مراد عرب ہیں جن کی اکثریت ان پڑھ تھی۔ ان کے خصوصی ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کی رسالت دوسروں کے لیے نہیں تھی، لیکن چونکہ اولین مخاطب وہ تھے، اس لیے اللہ کا ان پر یہ زیادہ احسان تھا۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قرآن حکیم آفاقی کتاب ہدایت ہے اور ہر جگہ بھی فرمایا ہے کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی ہو تمام مخلوق خاہ آسمان کی ہو، خواہ زمین کی، اس کی تعریفوں اور پاکیزگیوں کے بیان میں مصروف و مشغول ہے، وہ آسمان و زمین کا بادشاہ اور ان دونوں میں اپنا پورا تصرف اور اٹل حکم جاری کرنے والا ہے، وہ تمام نقصانات سے پاک اور بےعیب ہے، تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے، وہ عزیز و حکیم ہے۔ اس کی تفسیر کئی بار گذر چکی ہے۔ امیون سیم راد عرب ہیں۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے۔ الخ، یعنی تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا ؟ اور وہ مسلمان ہوجائیں تو وہ راہ راست پر ہیں اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لئے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لئے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے۔ جیسے اور جگہ ہے وانہ لذکر لک ولقومک یعنی یہ تیرے لئے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لئے بھی، یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان الوں کے لئے نصیحت ہے اسی طرح اور جگہ فرمان ہے ( ترجمعہ ) اپنے قرابت دار اور کنبہ والوں کو ڈرا دے، یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے، ارشاد باری ہے۔ ( ترجمہ ) لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) یعنی اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے، اسی طرح قرآن کی بات فرمایا ( ترجمہ ) تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے، اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں، جن سے صاف ثابت ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ ( ترجمہ ) سورة انعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کرچکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں فالحمد اللہ یہاں یہ فرمانا کہ ان پڑھوں یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجا اس لئے ہے کہ حضرت خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہوجائے، آپ نے اہل مکہ کے لئے دعا ماگنی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیجے جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائی، انہیں پاکیگی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جبکہ مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی سوائے چند اہل کتاب کے جو حضرت عیسیٰ کے سچے دین پر قائم تھے اور افراط تفریط سے الگ تھی باقی تمام دنیا دین حق کو بھلا بیٹھی تھی اور اللہ کی نامرضی کے کاموں میں مبتلا تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا، آپ نے ان ان پڑھ کو اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ سنائیں انہیں پاکیزگی سکھائی اور کتاب و حکمت کا معلم بنادیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے، سنئے عرب حضرت ابراہیم کے دین کے دعویدار تھے لیکن حالت یہ تھی کہ اصل دین کو خورد برد کرچکے تھے اس میں اس قدر تبدل تغیر کردیا تھا کہ توحید شرک سے اور یقین شک سے بدل چکا تھا ساتھ ہی بہت سی اپنی ایجاد کردہ بدعتیں دین اللہ میں شامل کردی تھیں، اسی طرح اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں کو بدل دیا تھا ان میں تحریف کرلی تھی اور متغیر کردیا تھا ساتھ ہی معنی میں بھی الٹ پھیر کرلیا تھا پس اللہ پاک نے حضرت محمد ﷺ کو عظیم الشان شریعت اور کامل مکمل دین دے کر دنیا والوں کی طرف بھیجا کہ اس فساد کی آپ اصلاح کریں، اہل دنیا کو اصل احکام الٰہی پہنچائیں اللہ کی مرضی اور نامرضی کے احکام لوگوں کو معلوم کرا دیں، جنت سے قریب کرنے والے عذاب سے نجات دلوانے والے تمام اعمال بتائیں، ساری مخلوق کے ہادی بنیں اصول و فروق سب سکھائیں، کوئی چھوٹی بڑی بات باقی نہ چھوڑیں۔ تمام تر شکوک و شبہات سب کے دور کردیں اور اس دین پر لوگوں کو ڈال دیں جن میں ہر بھلائی موجود ہو، اس بلند وبالا خدمت کے لئے آپ میں وہ برتریاں اور بزرگیاں جمع کردیں جمع کردیں جو نہ آپ سے پہلے کسی میں تھیں نہ آپ کے بعد کسی میں ہو سکیں، اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود وسلام نازل فرماتا رہے آمین ! دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ سے صحیح بخاری شریف میں مروی ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ پر سورة جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا کہ اخرین منھم سے کیا مراد ہے تین مرتبہ حضور ﷺ سے سوال ہوا تب آپ نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسی ؓ کے سر پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پالیتے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حضور ﷺ کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لئے مخصوص نہیں کیونکہ آپ نے اس آیت کی تفسیم میں فارس والوں کو فرمایا۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے۔ حضرت مجاہد وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی رب کے سوا کے جو لوگ حضور ﷺ پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے، پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی آنحضرت ﷺ کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا، یہ خاص اللہ کا فضل ہے، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 2{ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق } ” وہی تو ہے جس نے اٹھایا امیین میں ایک رسول ان ہی میں سے ‘ جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیات اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے کتاب و حکمت کی۔ “{ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَـبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ } ” اور یقینا اس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں تھے۔ “ اس سورت کی یہ آیت انقلابِ نبوی ﷺ کے اساسی منہاج کے حوالے سے اسی طرح اہم ہے جس طرح سورة الصف کی آیت 9 تکمیلی منہاج کے اعتبار سے اہم ہے۔ سورة الصف کی مذکورہ آیت میں حضور ﷺ کا مقصد ِبعثت بیان ہوا ہے تو آیت زیر مطالعہ میں آپ ﷺ کے فرائض منصبی کا ذکر ہے۔ سورة الصف کی وہ آیت اپنی اہمیت کی وجہ سے قرآن مجید میں تین مرتبہ سورۃ الصف کے علاوہ سورة التوبة ‘ آیت 33 اور سورة الفتح ‘ آیت 28 کے طور پر آئی ہے ‘ تو اس آیت میں مذکور ” انقلابِ نبوی ﷺ کا اساسی منہاج “ قرآن حکیم میں چار مرتبہ سورۃ الجمعہ کی اس آیت کے علاوہ سورة البقرة کی آیات 129 ‘ 151 اور سورة آل عمران کی آیت 164 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ کے اساسی منہج کے عناصر ِاربعہ بیان کیے گئے ہیں : 1 تلاوتِ آیات 2 تزکیہ 3 تعلیم کتاب 4 تعلیم حکمت۔ اس آیت کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس میں مطلوبہ انقلاب کی تیاری اور اس کے لیے مردانِ کار کی فراہمی کا مکمل طریقہ اور نصاب بیان کردیا گیا ہے کہ ان کی تعلیم ‘ تربیت ‘ تذکیر ‘ ان کا تزکیہ ‘ ان کا انذار سب کچھ قرآن کریم کے ذریعے سے ہوگا۔ حضور ﷺ نے لوگوں کو قرآن مجید سنانا شروع کیا توسلیم الفطرت لوگ قرآن کی مقناطیسی تاثیر کی وجہ سے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس کی طرف کھنچے چلے آئے۔ کسی نے فوراً ہی لبیک کہہ دیا ‘ کوئی قدرے تامل کے بعد راغب ہوا اور کسی نے نسبتاً زیادہ دیر بعد فیصلہ کیا۔ چناچہ جس طرح دودھ کو بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے بالکل اسی طرح مکہ کی آبادی کو بارہ سال کے عرصے میں آیات ِقرآن کی تلاوت کے ذریعے سے بار بار جھنجھوڑکر تمام سلیم الفطرت زندہ ارواح کے حامل افراد کو چھانٹ کر الگ کرلیا گیا۔ پھر ان منتخب افراد کا تزکیہ بھی قرآن مجید کی تلاوت سے ہی ہوا۔ قرآن مجید بلاشبہ { شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا } یونس : 57 ہے۔ جیسے جیسے یہ کلام ان لوگوں کے سینوں میں اترتا گیا دلوں کی بیماریاں دور ہوتی چلی گئیں۔ یہاں پر یہ اہم نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ دل کی بیماریاں تو بیشمار ہیں لیکن ان تمام بیماریوں کو اگر کوئی ایک نام یا کوئی ایک عنوان دیا جائے تو وہ ” حب ِدُنیا “ ہے۔ حب ِدُنیا کی گندگی جب کسی دل کے اندر ڈیرہ جما لیتی ہے تو اس کے تعفن سے نت نئی بیماریاں جنم لیتی چلی جاتی ہیں ‘ جبکہ خود حب دنیا کے جراثیم کو غذا انسان کی سوچ اور اس کے نظریے سے ملتی ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کا انداز اور اس کی دوڑ دھوپ کا رخ اس کا نظریہ متعین کرتا ہے۔ چناچہ قرآن مجید کی تعلیم کے ذریعے ان لوگوں کے نظریات درست ہوگئے تو حب دنیا سمیت تمام باطنی بیماریوں کی گویا جڑ کٹ گئی اور برے اعمال و خصائل ان کی شخصیات سے ایسے غائب ہوگئے جیسے موسم خزاں میں درختوں سے ّپتے جھڑ جاتے ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ اس آیت میں حضور ﷺ کے جن فرائض منصبی کا ذکر ہوا ہے ان میں ” تعلیم حکمت “ کا تعلق عام لوگوں سے نہیں ہے ‘ بلکہ یہ حضور ﷺ کی تعلیم و تربیت کا شعبہ تخصص area of specialization ہے۔ ہر کوئی اس میدان کا شہسوار نہیں بن سکتا۔ ارشادِ خداوندی ہے : { یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط } البقرۃ : 269 ” وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔ اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر ِکثیر عطا ہوگیا “۔۔۔۔ بہرحال یہ آیت ہم پر یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ حضور ﷺ کے منہج انقلاب میں آلہ دعوت اور آلہ انقلاب قرآن مجید ہے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو دعوت بھی قرآن کے ذریعے دی۔ ان کی تذکیر وتبشیر کے لیے بھی قرآن پر ہی انحصار کیا۔ پھر اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کا تزکیہ بھی قرآن سے ہی ہوا اور ان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بھی قرآن ہی بنا۔ آپ ﷺ نے قرآن کی بنیاد پر 23 سال کے مختصر عرصے میں انسانی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب برپا کر کے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظام عدل و قسط کو بالفعل نافذ کردیا۔ اس کے بعد پوری دنیا میں دین کو غالب کرنے کا مشن امت کے سپرد کر کے آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ یہ مشن منتقل کرتے ہوئے بھی حضور ﷺ نے امت کو جو وصیت کی تھی وہ بھی قرآن کے بارے میں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابَ اللّٰہِ 1 ” میں تمہارے درمیان وہ شے چھوڑے جا رہا ہوں کہ جسے تم مضبوطی سے تھام لو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب ! “ چناچہ آج ہمارے لیے بلکہ تاقیامِ قیامت ہر زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن مجید گویا محمد رسول اللہ ﷺ کے قائم مقام ہے۔ اس حیثیت میں یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے کئی گنا بڑا معجزہ ہے۔ عصائے موسیٰ علیہ السلام تو صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں معجزہ تھا ‘ آپ علیہ السلام کے بعد تو وہ معجزہ نہیں رہا۔ اگر آج بھی وہ کہیں موجود ہے ‘ جیسا کہ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس محفوظ ہے ‘ تو اس کی حیثیت بس ایک لاٹھی کی سی ہے۔ اس کے برعکس حضور ﷺ کا معجزئہ رسالت یعنی قرآن مجید قیامت تک کے لیے معجزہ ہے اور ہر اس شخص کے لیے معجزہ ہے جو اس کا حق پہچانے اور ادا کرے۔ اس حوالے سے میرا ایمان تو حق الیقین کی حد تک ہے کہ اگر کوئی شخص خلوص و اخلاص کے ساتھ قرآن مجید میں ایسی ” محنت “ کرے کہ قرآن اس کو possess کرلے تو پھر اسے دنیا کی ہرچیز بےوقعت نظر آئے گی اور قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں اس کا دل نہیں لگے گا۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہم دنیا بھر کے علوم سیکھتے ہیں مگر اس قدر عربی نہیں سیکھ سکتے جس سے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھا جاسکے۔ اس لیے کہ یہ نہ تو ہماری ترجیح ہے اور نہ ہی اس کے لیے ہمارے پاس وقت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو نظر انداز کرنے کا ہمارا یہ انداز حیرت انگیز حد تک جسارت آمیز ہے۔ اس حوالے سے ذرا قرآن کی یہ وعید بھی سنیے : { اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْھِنُوْنَ - وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّــکُمْ تُـکَذِّبُوْنَ۔ } الواقعۃ کہ اے اللہ کے بندو ! ذرا سوچو تو ! کیا تم اس عظیم الشان کلام کے بارے میں مداہنت کرتے ہو ؟ اور کیا اس کی تکذیب کو تم نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے ؟ قرآن مجید تو ظاہر ہے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہے۔ یہ آیات اپنے نزول کے وقت تو مشرکین مکہ سے مخاطب تھیں ‘ جبکہ آج ان کے مخاطب ہم ہیں۔ وہ لوگ تو نظریاتی طور پر قرآن مجید کو اللہ کا کلام نہیں مانتے تھے اور اپنی زبانوں سے اس کی تکذیب کرتے تھے ‘ جبکہ آج ہم اپنی زبانوں سے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کرنے کے بعد اپنے عمل سے اس کی تکذیب کر رہے ہیں۔ مقامِ عبرت ہے ! قرآن مجید کی طرف تو پلٹ کر دیکھنے کے لیے بھی ہمارے پاس وقت نہیں جبکہ دنیا کے حقیر مفادات کے لیے ہم دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ کیا ہمیں اسی لیے پیدا کیا گیا تھا ؟ یہی سوال تھا جس نے ابراہیم بن ادھم رح کی زندگی بدل دی تھی۔ ابراہیم بن ادھم رح بادشاہ کی حیثیت سے غفلت اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ایک دن شکار کھیلنے میں مصروف تھے کہ انہوں نے ایک آواز سنی : یَااِبْرَاھِیْمُ اَلِھٰذَا خُلِقْتَ اَمْ لِھٰذَا اُمِرْتَ ؟ کہ اے ابراہیم ذرا سوچو ! کیا تمہیں اسی کام کے لیے پیدا کیا گیا تھا ؟ اور کیا تمہیں اسی کام کا حکم ہوا تھا ؟ اللہ جانے یہ کسی فرشتے کی آواز تھی یا ان کے اپنے دل کی صدا۔ بہرحال جو بھی صورت حال تھی ‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بات ان کے دل میں گھر کرگئی اور ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔
هو الذي بعث في الأميين رسولا منهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين
سورة: الجمعة - آية: ( 2 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 553 )Surah juma Ayat 2 meaning in urdu
وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود اُنہی میں سے اٹھایا، جو اُنہیں اُس کی آیات سناتا ہے، اُن کی زندگی سنوارتا ہے، اور اُن کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور یہ کہ میرا سیدھا رستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور اور
- کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم بنجر زمین کی طرف پانی رواں کرتے ہیں
- وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر
- اور اے قوم میرا کیا (حال) ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا
- اور اس کو ان کے بدلہ لینے کا کچھ بھی ڈر نہیں
- اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو
- (اور قوم) لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا
- تو ان لوگوں نے ان کو جھٹلایا، پس سائبان کے عذاب نے ان کو آ
- اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کر رہے ہیں
- (یوسف نے کہا کہ میں نے) یہ بات اس لیے (پوچھی ہے) کہ عزیز کو
Quran surahs in English :
Download surah juma with the voice of the most famous Quran reciters :
surah juma mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter juma Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers