Surah al imran Ayat 64 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾
[ آل عمران: 64]
کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں
Surah al imran Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) کسی بت کو نہ صلیب کو، نہ آک کو اور نہ کسی اور چیز کو، بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔
( 2 ) یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر علیہما السلام کی ربوبیت ( رب ہونے ) کا جو عقیدہ گھڑ رکھا ہے یہ غلط ہے، وہ رب نہیں ہیں انسان ہی ہیں۔ دوسرا، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے اپنے احبار ورہبان کو حلال وحرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے، یہ بھی ان کو رب بنانا ہے جیسا کہ آیت اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ اس پر شاہد ہے، یہ بھی صحیح نہیں ہے، حلال وحرام کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے۔ ( ابن کثیر وفتح القدیر )
( 3 ) صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے اس آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اور اسے کہاکہ تو مسلمان ہو جائے گا تو تجھے دہرا اجر ملے گا، ورنہ ساری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔ ” فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ، يَؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الأَرِيسِيِّينَ “( صحيح بخاري، كتاب بدء الوحي نمبر ) ” اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا۔ اسلام لے آ، اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر دے گا۔ لیکن اگر تو نے قبول اسلام سے اعراض کیا تو رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہی ہو گا “۔ کیونکہ رعایا کے عدم قبول اسلام کاسبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت میں مذکور تین نکات یعنی ( 1 ) صرف اللہ کی عبادت کرنا۔
( 2 ) اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔
( 3 ) اورکسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا وہ کلمۂ سواء ہے جس پر اہل کتاب کو اتحاد کی دعوت دی گئی۔ لہٰذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان ہی تین نکات اور اس کلمۂ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس وبنیاد بنانا چاہئے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
یہودیوں اور نصرانیوں سے خطاب یہودیوں نصرانیوں اور انہی جیسے لوگوں سے یہاں خطاب ہو رہا ہے، کلمہ کا اطلاق مفید جملے پر ہوتا ہے، جیسے یہاں کلمہ کہہ کر پھر سوآء الخ کے ساتھ اس کی تعریف یوں کی گئی ہے۔ سواء کے معنی عدل و انصاف جیسے ہم کہیں ہم تم برابر ہیں، پھر اس کی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ایک اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی بت کو نہ پوجیں صلیب، تصویر، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نہ آگ کو نہ اور کسی چیز کو بلکہ تنہا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں، یہی عبادت تمام انبیاء کرام کی تھی، جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 21۔ الأنبياء:25) یعنی تجھ سے پہلے جس جس رسول کو ہم نے بھیجا سب کی طرف یہی وحی کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کیا کرو اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) 16۔ النحل:36) یعنی ہر امت میں رسول بھیج کر ہم نے یہ اعلان کروایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا سب سے بچو۔ پھر فرماتا ہے کہ آپس میں بھی ہم اللہ جل جلالہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب بنائیں، ابن جریج فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ایک دوسرے کی اطاعت نہ کریں۔ عکرمہ فرماتے ہیں کسی کو سوائے اللہ تعالیٰ کے سجدہ نہ کریں، پھر اگر یہ لوگ اس حق اور عدل دعوت کو بھی قبول نہ کریں تو انہیں تم اپنے مسلمان ہونے کا گواہ بنا لو، ہم نے بخاری کی شرح میں اس واقعہ کا مفصل ذکر کردیا ہے جس میں ہے کہ ابو سفیان جبکہ دربار قیصر میں بلوائے گئے اور شاہ قیصر روم نے حضور ﷺ کے نسب کا حال پوچھا تو انہیں کافر اور دشمن رسول ﷺ ہونے کے باوجود آپ کی خاندانی شرافت کا اقرار کرنا پڑا اور اسی طرح ہر سوال کا صاف اور سچا جواب دینا پڑا یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا اور فتح مکہ سے پہلے کا ہے اسی باعث قیصر کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ ( یعنی رسول اللہ ﷺ بدعہدی کرتے ہیں ؟ ابو سفیان نے کہا نہیں کرتے لیکن اب ایک معاہدہ ہمارا ان سے ہوا ہے نہیں معلوم اس میں وہ کیا کریں ؟ یہاں صرف یہ مقصد ہے کہ ان تمام باتوں کے بعد حضور ﷺ کا نامہ مبارک پیش کیا جاتا ہے جس میں بسم اللہ کے بعد یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ خط محمد ﷺ کی طرف سے ہے جو اللہ کے رسول ہیں ﷺ ہرقل کی طرف جو روم کا شاہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو اسے جو ہدایت کا تابعدار ہو اس کے بعد اسلام قبول کر سلامت رہے گا، اسلام قبول کر اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر دے گا اور اگر تو نے منہ موڑا تو تمام رئیسوں کے گناہوں کا بوجھ تجھ پر پڑے گا پھر یہی آیت لکھی تھی، امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس سورت یعنی سورة آل عمران کو شروع سے لے کر " اننی " سے کچھ اوپر تک آیتیں وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، امام زہری فرماتے ہیں سب سے پہلے جزیہ انہی لوگوں نے ادا کیا ہے اور اس بات میں بھی مطلقاً اختلاف نہیں ہے کہ آیت جزیہ فتح مکہ کے بعد اتری ہے پس یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے تو پھر فتح سے پہلے حضور ﷺ نے اپنے خط میں ہرقل کو یہ آیت کیسے لکھی ؟ اس کے جواب کئی ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ ممکن ہے یہ آیت دو مرتبہ اتری ہو اول حدیبیہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد، دوسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے شروع سورت سے لے کر اس آیت تک وفد نجران کے بارے میں اتری ہو یا یہ آیت اس سے پہلے اتر چکی ہو اس صورت میں ابن اسحاق کا یہ فرمانا کہ اسی کے اوپر کی کچھ آیتیں اسی وفد کے بارے میں اتری ہیں یہ محفوظ نہ ہو کیونکہ ابو سفیان والا واقعہ سراسر اس کے خلاف ہے، تیسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وفد نجران حدیبیہ سے پہلے آیا ہو اور انہوں نے جو کچھ دینا منظور کیا ہو یہ صرف مباہلہ سے بچنے کے لئے بطور مصالحت کے ہو نہ کہ جزیہ دیا ہو اور یہ اتفاق کی بات ہو کہ آیت جزیہ اس واقعہ کے بعد اتری جس سے اس کا اتفاقاً الحاق ہوگیا۔ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن حجش ؓ نے بدر سے پہلے غزوے کے مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور پانچواں حصہ باقی رکھ کر دوسرے حصے لشکر میں تقسیم کردیئے، پھر اس کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کی آیتیں بھی اسی کے مطابق اتریں اور یہی حکم ہوا۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ احتمال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خط میں جو ہرقل کو بھیجا اس میں یہ بات اسی طرح بطور خود لکھی ہو پھر آنحضرت کے الفاظ ہی میں وحی نازل ہوئی ہو جیسے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پردے کے حکم کے بارے میں اسی طرح آیت اتری، اور بدوی قیدیوں کے بارے میں انہی کے ہم خیال فرمان باری نازل ہوا اسی طرح منافقوں کا جنازہ پڑھنے کی بابت بھی انہی کی بات قائم رکھی گئی، چناچہ مقام ابراہیم کے مصلے بنانے سے متعلق بھی اسی طرح وحی نازل ہوئی اور آیت (عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا ) 66۔ التحريم:5) بھی انہی کے خیال سے متعلق آیت اتری، پس یہ آیت بھی اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ہی اتری ہو، یہ بہت ممکن ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
سورة آل عمران کے نصف اوّل کا تیسرا حصہ 38 آیات 64 تا 101 پر مشتمل ہے اور یہ سورة البقرة کے نصفِ اوّل کے تیسرے حصے رکوع 15 تا 18 سے بہت مشابہ ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ‘ بیت اللہ کا ذکر ‘ اہل کتاب کو دعوت ایمان اور تحویل قبلہ کا حکم ہے۔ کم و بیش وہی کیفیت یہاں ملتی ہے۔ فرمایا :آیت 64 قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ یہاں اہل کتاب کے صیغۂ خطاب میں یہود و نصاریٰ دونوں کو جمع کرلیا گیا ‘ جبکہ سورة البقرة میں یٰبَنِیْ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ کے صیغۂ خطاب میں زیادہ تر گفتگو یہود سے تھی۔ یہاں ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ تھا اور گویا صرف نصرانیوں سے خطاب تھا ‘ اب اہل کتاب دونوں کے دونوں مخاطب ہیں کہ ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے مابین یکساں مشترک اور متفق علیہ ہے۔ وہ کیا ہے ؟اَلاَّ نَعْبُدَ الاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا وَّلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط یہود و نصاریٰ نے اپنے احبارو رہبان کا یہ اختیار تسلیم کرلیا تھا کہ وہ جس چیز کو چاہیں حلال قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں حرام ٹھہرا دیں۔ یہ گویا ان کو رب مان لینے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ سورة التوبۃ میں فرمایا گیا : اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ آیت 31۔ مشہور سخی حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم رض جو پہلے عیسائی تھے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قرآن کہتا ہے : انہوں نے اپنے احبارو رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا۔ حالانکہ ہم نے تو انہیں رب کا درجہ نہیں دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : أَمَا اِنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَھُمْ وَلٰکِنَّھُمْ اِذَا اَحَلُّوْا لَھُمْ شَیْءًا اسْتَحَلُّوْہُ وَاِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْھِمْ شَیْءًا حَرَّمُوْہُ 1وہ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ‘ لیکن جب وہ ان کے لیے کسی شے کو حلال قرار دیتے تو وہ اسے حلال مان لیتے اور جب وہ کسی شے کو حرام قرار دے دیتے تو وہ اسے حرام مان لیتے۔چنانچہ حلت و حرمت کا اختیار صرف اللہ کا ہے ‘ اور جو کوئی اس حق کو اختیار کرتا ہے وہ گویا رب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اب یہ ساری قانون سازی جو شریعت کے خلاف کی جا رہی ہے یہ حقیقت کے اعتبار سے ان لوگوں کی جانب سے خدائی کا دعویٰ ہے جو ان قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ‘ اور جو وہاں پہنچنے کے لیے بےتاب ہوتے ہیں اور اس کے لیے کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر تو پہلے سے یہ طے ہوجائے کہ کوئی قانون سازی کتاب و سنت کے منافی نہیں ہوسکتی تو پھر آپ جایئے اور وہاں جا کر قرآن و سنت کے دائرے کے اندر اندر قانون سازی کیجیے۔ لیکن اگر یہ تحدید نہیں ہے اور محض اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی ہو رہی ہے تو یہ شرک ہے۔ اہل کتاب سے کہا گیا کہ توحید ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک عقیدہ ہے۔ اس طرح انہیں غور و فکر کی دعوت دی گئی کہ وہ موازنہ کریں کہ اس قدر مشترک کے معیار پر اسلام پورا اترتا ہے یا یہودیت اور نصرانیت ؟فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔ہم نے تو اللہ کی اطاعت قبول کرلی ہے اور ہم متذکرہ بالا تینوں باتوں پر قائم رہیں گے۔ آپ کو اگر یہ پسند نہیں تو آپ کی مرضی !
قل ياأهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم ألا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون
سورة: آل عمران - آية: ( 64 ) - جزء: ( 3 ) - صفحة: ( 58 )Surah al imran Ayat 64 meaning in urdu
کہو، "اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے" اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اسی نے الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا
- عٓسٓقٓ
- اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارے پیغمبر (آخرالزماں) آ گئے ہیں کہ جو کچھ تم
- وہاں ان کے لئے میوے اور جو چاہیں گے (موجود ہوگا)
- یہ ہدایت (کی کتاب) ہے۔ اور جو لوگ اپنے پروردگار کی آیتوں سے انکار کرتے
- تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ۔ اور تم
- اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ (عجیب
- تو جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے وہ (بہشت کے) باغ میں
- اس کا ساتھی (شیطان) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ
- موسیٰ نے کہا آپ کے لئے (مقابلے کا) دن نو روز (مقرر کیا جاتا ہے)
Quran surahs in English :
Download surah al imran with the voice of the most famous Quran reciters :
surah al imran mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter al imran Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers