Surah Nisa Ayat 64 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ النساء کی آیت نمبر 64 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Nisa ayat 64 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾
[ النساء: 64]

Ayat With Urdu Translation

اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول (خدا) بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتے تو خدا کو معاف کرنے والا (اور) مہربان پاتے

Surah Nisa Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) مغفرت کے لئے بارگاہ الٰہی میں ہی توبہ واستغفار ضروری اور کافی ہے۔ لیکن یہاں ان کو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور تو بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتا۔ یہ اس لئے کہ چونکہ انہوں نے فعل خصومات ( جھگڑوں کے فیصلے ) کے لئے دوسروں کی طرف رجوع کرکے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کا استخفاف کیا تھا۔ اسلئے اس کے ازالے کے لئے آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے پاس آنے کی تاکید کی۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


اطاعت رسول ﷺ ہی ضامن نجات ہے مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے، حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں باذن اللہ سے یہ مراد ہے کہ اس کی توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے اس کی قدرت و مشیت پر موقوف ہے، جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ۚ حَتّٰى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ )آل عمران:152) یہاں بھی اذن سے مراد امر قدرت اور مشیت ہے یعنی اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں حضور ﷺ کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیکم یا رسول اللہ ﷺ میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھی باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ فطاب من طیبھن القاع والا کم نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان تمام میں سے بہترین ہستی، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے، پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں حضور ﷺ مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوش خبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے ( یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے، بلکہ آیت کا یہ حکم حضور ﷺ کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ جاءوک کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے واللہ اعلم۔ مترجم ) پھر اللہ تعالیٰ اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے ہے کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں آسکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے اس آخر الزمان افضل تر رسول کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ کے ہر حکم ہر فیصلے ہر سنت اور ہر حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے، دل کو اور جسم کو یکسر تابع رسول ﷺ نہ بنا دے۔ غرض جو بھی ظاہر و باطن چھوٹے بڑے کل امور میں حدیث رسول ﷺ کو اصل اصول سمجھے وہی مومن ہے۔ پس فرمان ہے کہ تیرے احکام کو یہ کشادہ دلی سے تسلیم کرلیا کریں اپنے دل میں پسندیدگی نہ لائیں تسلیم کلی تمام احادیث کے ساتھ رہے، نہ تو احادیث کے ماننے سے رکیں نہ انہیں بےاثر کرنے کے اسباب ڈھونڈیں نہ ان کے مرتبہ کی کسی اور چیز کو سمجھیں نہ ان کی تردید کریں نہ ان کا مقابلہ کریں نہ ان کے تسلیم کرنے میں جھگڑیں جیسے فرمان رسول ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے جسے میں لایا ہوں، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت زبیر ؓ کا کسی شخص سے نالیوں سے باغ میں پانی لینے کے بارے میں جھگڑا ہو پڑا تو حضور ﷺ نے فرمایا زبیر ؓ تم پانی پلا لو اس کے بعد پانی کو انصاری کے باغ میں جانے دو اس پر انصاری نے کہا ہاں یا رسول اللہ ﷺ یہ تو آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہوسکتا ہے اور فرمایا زبیر تم پانی پلا لو پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ باغ کی دیواروں تک پہنچ جائے پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو پہلے تو حضور ﷺ نے ایک ایسی صورت نکالی تھی کہ جس میں حضرت زبیر ؓ کو تکلیف نہ ہو اور انصاری کشادگی ہوجائے لیکن جب انصاری نے اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھا تو آپ نے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا حق دلوایا حضرت زبیر ؓ فرماتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے یہ ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا )النساء:65) اسی بارے میں نازل ہوئی ہے، مسند احمد کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ یہ انصاری ؓ بدری تھے اور روایت میں ہے دونوں میں جھگڑا یہ تھا کہ پانی کی نہر سے پہلے حضرت زبیر ؓ کا کھجوروں کا باغ پڑتا تھا پھر اس انصاری کا انصاری کہتے تھے کہ پانی دونوں باغوں میں ایک ساتھ آئے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ دونوں دعویدار حضرت زبیر ؓ اور حضرت حاطب بن ابو بلتہ ؓ تھے آپ کا فیصلہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے اونچے والا پانی پلا لے پھر نیچے والا۔ دوسری ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد میں آئے آپ نے فیصلہ کردیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا حضور ﷺ آپ ہمیں حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے ساراہی واقعہ کہہ سنایا حضرت عمر ؓ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے ؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کردیتا ہوں تھوڑی دیر میں تلوار تانے آگئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ حضرت ہمیں عمر ؓ کے پاس بھیج دیجئے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا اور کہا حضور ﷺ میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی، آپ نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کو بری کردیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہوجائے اس لئے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری ( وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ )النساء:66) جو آگے آتی ہے ( ابن ابی حاتم ) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے واللہ اعلم۔ دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول ﷺ کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے ؟ کہا یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب صدیق ؓ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو حضور ﷺ نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا حضرت عمر ؓ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا ( تفسیر حافظ ابو اسحاق )

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 63 اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰہُ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ ق فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاً م بَلِیْغًا یہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رض کو بری قرار دیا کہ اللہ کی طرف سے ان کی براءت آگئی ہے ‘ اور اسی دن سے ان کا لقب فاروققرار پایا ‘ یعنی حق و باطل میں فرق کردینے والا۔اب ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ اس سورة مبارکہ میں منافقت جو زیر بحث آئی ہے وہ تین عنوانات کے تحت ہے۔ منافقوں پر تین چیزیں بہت بھاری تھیں ‘ جن میں سے اوّلین رسول اللہ ﷺ کی اطاعت تھی۔ اور یہ بڑی نفسیاتی بات ہے۔ ایک انسان کے لیے دوسرے انسان کی اطاعت بڑا مشکل کام ہے۔ ہم جو رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے ایک ادارے institution کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ رسول ﷺ ‘ شخصاً ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ جبکہ ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ شخصاً موجود تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ ان کے بھی دو ہاتھ ہیں ‘ دو پاؤں ہیں ‘ دو آنکھیں ہیں ‘ لہٰذا بظاہر اپنے جیسے ایک انسان کی اطاعت ان پر بہت شاق تھی۔ جیسا کہ جماعتوں میں ہوتا ہے کہ امیر کی اطاعت بہت شاق گزرتی ہے ‘ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ امیر کی رائے پر چلنے کے لیے اپنی رائے کو پیچھے ڈالنا پڑتا ہے۔ جو صادق الایمان مسلمان تھے انہیں تو یہ یقین تھا کہ یہ محمد بن عبد اللہ جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں ‘ حقیقت میں محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور ہم ان کی اسی حیثیت میں ان پر ایمان لائے ہیں۔ لیکن جن کے دلوں میں یہ یقین نہیں تھا یا کمزور تھا ان کے لیے حضور ﷺ کی شخصی اطاعت بڑی بھاری اور بڑی کٹھن تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مواقع پر وہ کہتے تھے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اپنے پاس سے کہہ رہے ہیں۔ کیوں نہیں کوئی سورت نازل ہوجاتی ؟ کیوں نہیں کوئی آیت نازل ہوجاتی ؟ اور سورة محمد ﷺ اسی انداز میں نازل ہوئی ہے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ محمد ﷺ نے خود اپنی طرف سے اقدام کردیا ہے۔ اس پر اللہ نے کہا کہ لو پھر ہم قتال کی آیات نازل کردیتے ہیں۔ دوسری چیز جو ان پر کٹھن تھی وہ ہے قتال ‘ یعنی اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنا۔ ان کا حال یہ تھا کہ ع مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز ! تیسری کٹھن چیز ہجرت تھی۔ اس کا اطلاق منافقین مدینہ پر نہیں ہوتا تھا بلکہ مکہ اور ارد گرد کے جو منافق تھے ان پر ہوتا تھا۔ ان کا ذکر بھی آگے آئے گا۔ ظاہر ہے گھر بار اور خاندان والوں کو چھوڑ کر نکل جانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اب سب سے پہلے اطاعت رسول ﷺ ‘ کی اہمیت بیان کی جا رہی ہے :

وما أرسلنا من رسول إلا ليطاع بإذن الله ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاءوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما

سورة: النساء - آية: ( 64 )  - جزء: ( 5 )  -  صفحة: ( 88 )

Surah Nisa Ayat 64 meaning in urdu

(انہیں بتاؤ کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اگر تم گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو جب تک تم کو اجازت
  2. اور جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو اکڑ کر منہ پھیر لیتا
  3. (یعقوب نے) کہا جب تک تم خدا کا عہد نہ دو کہ اس کو میرے
  4. اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ان سے کہہ دو کہ تم اپنی جگہ عمل
  5. اور کافر کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی
  6. (اب) مزہ چکھ۔ تو بڑی عزت والا (اور) سردار ہے
  7. اور جب اُن میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل مدینہ (یہاں) تمہارے
  8. اور ہم نے ان پر (پتھروں کا) مینھ برسایا۔ سو دیکھ لو کہ گنہگاروں کا
  9. یہ لوگ کسی مومن کے حق میں نہ تو رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں
  10. الم

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
surah Nisa Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Nisa Bandar Balila
Bandar Balila
surah Nisa Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Nisa Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Nisa Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Nisa Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Nisa Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Nisa Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Nisa Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Nisa Fares Abbad
Fares Abbad
surah Nisa Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Nisa Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Nisa Al Hosary
Al Hosary
surah Nisa Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Nisa Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Thursday, November 21, 2024

Please remember us in your sincere prayers