Surah kahf Ayat 65 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ کہف کی آیت نمبر 65 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah kahf ayat 65 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا﴾
[ الكهف: 65]

Ayat With Urdu Translation

(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا

Surah kahf Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس بندے سے مراد حضرت خضر ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں وضاحت ہے۔ خضر کے معنی سرسبز اور شاداب کے ہیں، یہ ایک مرتبہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ حصہ زمین ان کے نیچے سے سرسبز ہو کر لہلہانے لگا، اسی وجہ سے ان کا نام خضر پڑ گیا ( صحیح بخاری، تفسیر سورہ کہف )
( 2 ) رَحْمَۃ سے مراد مفسرین نے وہ خصوصی انعامات مراد لئے ہیں جو اللہ نے اپنے اس خاص بندے پر فرمائے اور اکثر مفسرین نے اس سے مراد نبوت لی ہے۔
( 3 ) اس سے علم نبوت کے علاوہ جس سے حضرت موسیٰ ( عليه السلام ) بھی بہرہ ور تھے، بعض تکوینی امور کا علم ہے جس اللہ تعالٰی نے صرف حضرت خضر کو نوازا تھا، حضرت موسیٰ ( عليه السلام ) کے پاس بھی وہ علم نہیں تھا۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض صوفیا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو، جو نبی نہیں ہوتے، علم الہام سے نوازتا ہے، جو بغیر استاد کے محض فیض کے سر چشمہ کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ باطنی علم، شریعت کے ظاہری علم سے، جو قرآن و حدیث کی صورت میں موجود ہے، مختلف بلکہ بعض دفعہ اس کے مخالف اور معارض ہوتا ہے لیکن استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ حضرت خضر کی بابت تو اللہ تعالٰی نے خود ان کے علم خاص دیئے جانے کی وضاحت کر دی ہے، جب کہ کسی اور کے لئے ایسی وضاحت کہیں نہیں اگر اس کو عام کر دیا جائے تو پھر ہر شعبدہ باز اس قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے، چنانچہ اس طبقے میں یہ دعوے عام ہی ہیں۔ اس لئے ایسے دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


حضرت موسیٰ ؑ اور اللہ کا ایک بندہ حضرت موسیٰ ؑ سے ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ایک بندہ دو دریا ملنے کی جگہ ہے اس کے پاس وہ علم ہے جو تمہیں حاصل نہیں آپ نے اسی وقت ان سے ملاقات کرنے کی ٹھان لی اب اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں کہ میں تو پہنچے بغیر دم نہ لوں گا۔ کہتے ہیں یہ دو سمندر ایک تو بحیرہ فارس مشرقی اور دوسرا بحیرہ روم مغربی ہے۔ یہ جگہ طنجہ کے پاس مغرب کے شہروں کے آخر میں ہے واللہ اعلم۔ تو فرماتے ہیں کہ گو مجھے قرنوں تک چلنا پڑے کوئی حرج نہیں۔ کہتے ہیں کہ قیس کے لغت میں برس کو حقت کعتے ہیں۔ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں۔ حقب سے مراد اسی برس ہیں مجاہد ؒ ستر برس کہتے ہیں۔ ابن عباس ؓ زمانہ بتلاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کو حکم ملا تھا کہ اپنے ساتھ نمک چڑھی ہوئی ایک مچھلی لیں جہاں وہ گم ہوجائے وہیں ہمارا بندہ ملے گا۔ یہ دونوں مچھلی کو ساتھ لئے چلے مجمع البحرین میں پہنچ گئے وہاں نہر حیات تھی وہیں دونوں لیٹ گئے اس نہر کے پانی کے چھینٹے مچھلی پر پڑے مچھلی ہلنے جلنے لگ گئی۔ آپ کے ساتھ حضرت یوشع ؑ کی زنبیل میں یہ مچھلی رکھی ہوئی تھی اور وہ سمندر کے کنارے تھا مچھلی نے سمندر کے اندر کود جانے کے لئے جست لگائی اور حضرت یوشع کی آنکھ کھل گئی مچھلی ان کے دیکھتے ہوئی پانی میں گئی اور پانی میں سیدھا سوراخ ہوتا چلا گیا پس جس طرح زمین میں سوراخ اور سرنگ بن جاتی ہے اسی طرح پانی میں جہاں سے وہ گئی سوراخ ہوگیا، ادھر ادھر پانی کھڑا ہوگیا اور وہ سوراخ بالکل کھلا ہوا رہا۔ پتھر کی طرح پانی میں چھید ہوگیا جہاں جس پانی کو لگتی ہوئی وہ مچھلی گئی وہاں کا وہ پانی پتھر جیسا ہوگیا اور وہ سوراخ بنتا چلا گیا۔ محمد بن اسحقاق مرفوعا لائے ہیں کہ حضور ﷺ اس بات کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پانی اس طرح ابتداء دنیا سے نہیں جما سوائے اس مچھلی کے چلے جانے کی جگہ کے ارد گرد کے پانی کے یہ نشان مثل سوراخ زمین کے برابر موسیٰ ؑ کے واپس پہنچنے تک باقی ہی رہے اس نشان کو دیکھتے ہی حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا اسی کی تلاش میں تو ہم تھے۔ جب مچھلی کو بھول کر یہ دونوں آگے بڑھے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک کا کام دونوں ساتھیوں کی طرف منسوب ہوا ہے۔ بھولنے والے صرف یوشع تھے۔ جیسے فرمان ہے آیت ( یخرج منہما اللولو والمرجان ) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ حالانکہ دو قولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لولو اور مرجان صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں جب وہاں سے ایک مرحلہ اور طے کر گئے تو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے ساتھی سے ناشتہ طلب کیا اور سفر کی تکلیف بھی بیان کی یہ تکلیف مقصود سے آگے نکل آنے کے بعد ہوئی۔ اس پر آپ کے ساتھی کو مچھلی کا چلا جانا یاد آیا اور کہا جس چٹان کے پاس ہم ٹھیرے تھے اس وقت میں مچھلی بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا بھی شیطان نے یاد سے ہٹا دیا۔ ابن مسعود ؓ کی قرأت ان اذکر لہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس مچھلی نے تو عجیب و غریب طور پر پانی میں اپنی راہ پکڑی۔ اسی وقت حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا لو اور سنو اسی جگہ کی تلاش میں ہم تھے تو وہ دونوں اپنے راستے پر اپنے نشانات قدم کے کھوج پر واپس لوٹے۔ وہاں ہمارے بندون میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی رحمت اور اپنے پاس کا علم عطا فرما رکھا تھا۔ یہ حضرت خضر ؑ ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر ؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے کہا کہ حضرت نوف کا خیال ہے کہ خضر ؑ سے ملنے والے موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا وہ دشمن رب جھوٹا ہے ہم سے ابی بن کعب ؓ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے انہوں نے سنا کہ حضرت موسیٰ ؑ کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ کر رہے تھے جو آپ سے سوال ہو کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں۔ تو چونکہ آب نے اس کے جواب میں یہ نہ فرمایا کہ اللہ جانے اس لئے رب کو یہ کلمہ ناپسند آیا، اسی وقت وحی آئی کہ ہاں مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا پھر پروردگار میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟ حکم ہوا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی رکھ لو اسے توشے دان میں ڈال لو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہیں وہ مل جائیں گے۔ تو آپ اپنے ساتھ اپنے ساتھی یوشع بن نون ؑ کو لے کر چلے پتھر کے پاس پہنچ کر اپنے سر اس پر رکھ کردو گھڑی سو رہے۔ مچھلی اس توشے دان میں تڑپی اور کود کر اس سے نکل گئی سمندر میں ایسی گئی جیسے کوئی سرنگ لگا کر زمین میں اتر گیا ہو پانی کا چلنا بہنا اللہ تعالیٰ نے موقوف کردیا اور طاق کی طرح وہ سوراخ باقی رہ گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ جب جا گے تو آپ کے ساتھی یہ ذکر آپ سے بھول گئے اسی وقت وہاں سے چل پڑے دن پورا ہونے کے بعد رات بھر چلتے رہے، صبح حضرت موسیٰ ؑ کو تھکان اور بھوک محسوس ہوئی اللہ نے جہاں جانے کا حکم دیا تھا جب تک وہاں سے آگے نہ نکل گئے تھکان کا نام تک نہ تھا اب اپ نے ساتھی سے کھانا مانگا اور تکلیف بیان کی اس وقت آپ کے ساتھی نے فرمایا کہ پتھر کے پاس جب ہم نے آرام لیا تھا وہیں اسی وقت مچھلی تو میں بھول گیا اور اس کے ذکر کو بھی شیطان نے بھلا دیا اور اس مچھلی نے تو سمندر میں عجیب طور پر اپنی راہ نکال لی۔ مچھلی کے لئے سرنگ بن گئی اور ان کے لیے حیرت کا باعث بن گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا اسی کی تو تلاش تھی، چناچہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے دونوں واپس ہوئے اسی پتھر کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے ہیں۔ آپ نے سلام کیا اس نے کہا تعجب ہے آپ کی سر زمین میں یہ سلام کہاں ؟ آپ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں انہوں نے پوچھا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ سکھائیں جو بھلائی آپ کو اللہ کی طرف سے سکھائی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا موسیٰ ؑ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ مجھے جو علم ہے وہ آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ مجھے نہیں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جداگانہ علم عطا فرما رکھا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ میں صبر کروں گا اور آپ کے کسی فرمان کی نافرمانی نہ کروں گا۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا اچھا اگر تم میرا ساتھ چاہتے ہو تو مجھ سے خود کسی بات کا سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں آپ تمہیں اس کی بابت خبردار کروں۔ اتنی باتیں طے کر کے دونوں ساتھ چلے دریا کے کنارے ایک کشتی تھی ان سے اپنے ساتھ لے جانے کی بات چیت کرنے لگے انہوں نے خضر ؑ کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ لئے دونوں کو سوار کرلیا کچھ ہی دور چلے ہوں گے جو حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا دیکھا کہ خضر ؑ چپ چاپ کشتی کے تختے کلہاڑے سے توڑ رہے ہیں حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا یہ کیا ؟ ان لوگوں نے تو ہمارے ساتھ احسان کیا بغیر کرایہ لئے کشتی میں سوار کیا اور آپ نے اس کے تختے توڑنے شروع کر دئیے جس سے تمام اہل کشتی ڈوب جائیں یہ تو بڑا ہی ناخوش گوار کام کرنے لگے۔ اسی وقت حضرت خصر ؑ نے فرمایا دیکھو میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ حضرت موسیٰ ؑ معذرت کرنے لگے کہ خطا ہوگئی بھولے سے پوچھ بیٹھا معاف فرمائیے اور سختی نہ کیئجے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں واقعی یہ پہلی غلطی بھول سے ہی تھی فرماتے ہیں کشتی کے ایک تختے پر ایک چڑیا آ بیٹھی اور سمندر میں چونچ ڈال کر پانی لے کر اڑ گئی، اس وقت حضرت خضر ؑ نے حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا میرے اور تیرے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہے جتنا پانی سے سمندر میں سے اس چڑیا کی چونچ نے کم کیا ہے۔ اب کشتی کنارے لگی اور ساحل پر دونوں چلنے لگے جو حضرت خضر ؑ کی نگاہ چند کھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی ان میں سے ایک بچے کا سر پکڑ کر حضرت خضر ؑ نے اس طرح مروڑ دیا کہ اسی وقت اس کا دم نکل گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ گھبرا گئے اور فرمانے لگے بغیر کسی قتل کے اس بچے کو آپ نے ناحق مار ڈالا ؟ آپ نے بڑا ہی منکر کام کیا حضرت خضر ؑ نے فرمایا دیکھو اسی کو میں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہاری ہماری نبھ نہیں سکتی اس وقت حضرت خضر ؑ نے پہلے سے زیادہ سختی کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا اچھا اب اگر میں کوئی سوال کر بیٹھوں تو بیشک آپ مجھے ابنے ساتھ نہ رکھنا یقینا اب آپ معذور ہوگئے، چناچہ پھر دونوں ہمراہ چلے ایک بستی والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا، وہیں ایک دیوار دیکھی جو جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی، اسی وقت حضرت خضر نے ہاتھ لگا کر اسے ٹھیک اور درست کردیا حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا خیال تو فرمائیے ہم یہاں آئے ان لوگوں سے کھانا طلب کیا انہوں نے نہ دیا مہمان نوازی کے خلاف کیا ان کا یہ کام تھا آپ ان سے اجرت لے سکتے تھے۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا یہ ہے مجھ میں اور تم میں جدائی اب میں تمہیں ان کاموں کی اصلیت بتلا دوں گا۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کاش کہ حضرت موسیٰ ؑ صبر سے کام لیتے تو ان دونوں کی اور بھی بہت سی باتیں ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی قرأت میں وکان ورائہم کے بدلے وکان امامہم ہے اور سفینۃ کے بعد صالحتہ کا لفظ بھی ہے اور واما الغلام کے بعد فکان کافرا کے لفظ بھی ہیں۔ اور سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ اس پتھر کے پاس حضرت موسیٰ ؑ رک گئے وہیں ایک چشمہ تھا جس کا نام نہر حیات تھا اس کا پانی جس چیز کو لگ جاتا ہے وہ زندہ ہوجاتی تھی۔ اس میں چڑیا کی چونچ کا پانی اس سمندر کے مقابلے میں، الخ۔ صحیح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے گھر میں ان کے پاس تھا آپ نے فرمایا کہ جس کو جو سوال کرنا ہو کرلے میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے کوفے میں ایک واعظ ہیں جن کا نام نوف ہے پھر پوری حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزری اس میں ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے اس خطبہ سے آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور دل نرم پڑگئے تھے، جب آپ جانے لگے تو ایک شخص آپ کے پاس پہنچا اور اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی طرف علم کو نہ لوٹایا اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ نے نشان طلب کیا تو ارشاد ہوا کہ ایک مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو جس جگہ اس میں روح پڑجائے وہیں پر آپ کی اس شخص سے ملاقات ہوگئی۔ چناچہ آپ نے مچھلی لی زنبیل میں رکھ لی اور اپنے ساتھی سے کہا آپ کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ جہاں مچھلی آپ کے پاس سے چلی جائے وہاں آپ مجھے خبر کردینا انہوں نے کہا یہ تو بالکل آسان سی بات ہے۔ ان کا نام یوشع بن نون تھا۔ لفتہ سے یہی مراد ہے۔ یہ دونوں بزرگ تر جگہ میں ایک درخت تلے تھے حضرت موسیٰ ؑ کو نیند آگئی تھی اور حضرت یوشع جاگ رہے تھے جو مچھلی کود گئی انہوں نے خیال کیا کہ جگانا تو ٹھیک نہیں جب آنکھ کھلے گی ذکر کر دوں گا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پانی میں جانے کے وقت جو سوراخ ہوگیا تھا اسے روای حدیث عمرو نے اپنے انگوٹھے اور اس کے پاس کی دونوں انگلیوں کا حلقہ کر کے دکھایا کہ اس طرح کا تھا جیسے پتھر میں ہوتا ہے۔ واپسی پر حضرت خضر سمندر کے کنارے سبز گدی بچھائے ملے ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے اس کا ایک سرا تو دونوں پیروں کے نیچے رکھا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سر تلے تھا، حضرت موسیٰ ؑ کے سلام پر آپ نے منہ کھولا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر ؑ نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں توراۃ موجود ہے وحی آسمان سے آرہی ہے کیا یہ بس نہیں ؟ اور میرا علم آپ کے لائق بھی نہیں اور نہ میں آپ کے علم کے قابل ہوں۔ اس میں ہے کہ کشتی کا تختہ توڑ کر آپ نے ایک تانت سے باندھ دیا تھا۔ پہلی دفعہ کا آپ کا سوال تو بھولے سے ہی تھا دوسری مربتہ کا بطور شرط کے تھا ہاں تیسری بار کا سوال قصدا علیحدگی کی وجہ سے تھا۔ اس میں ہے کہ لڑکوں میں ایک لڑکا تھا کافر ہوشیار اسے حضرت خضر نے لٹا کر چھری سے ذبح کردیا ایک قرأت میں زاکیتہ مسلمۃ بھی ہے۔ ورائہم کی قرأت امامہم بھی ہے اس ظالم بادشاہ کا نام اس میں ہدو بن بدو ہے اور جس بچے کو قتل کیا گیا تھا اس کا نام جیسور تھا کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے بدلے ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ خطبہ کر رہے تھے اور فرمایا کہ اللہ کو اور اس کے امر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ الخ یہ نوف کعب ؓ کی بیوی کے لڑکے کا قول تھا کہ جس موسیٰ کا ان آیتوں میں ذکر ہے یہ موسیٰ بن میشا تھے۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے جناب باری تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تیرے بندوں میں مجھ سے بڑا عالم کوئی ہو تو مجھے آگاہ فرما، اس میں ہے کہ نمک چڑھی ہوئی مچھلی آپ نے اپنے ساتھ رکھی تھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر ؑ نے فرمایا تم یہاں کیوں آئے ؟ آپ کو تو ابھی بنی اسرائیل میں ہی مشغول کار رہنا ہے اس میں ہے کہ چھپی ہوئی باتیں حضرت خضر ؑ کو معلوم کرائی جاتی تھیں تو آپنے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ٹھیر نہیں سکتے کیونکہ آپ تو ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور مجھے راز پر اطلاع ہوتی ہے، چناچہ شرط ہوگئی کہ گو آپ کیسا ہی خلاف دیکھیں لیکن لب نہ ہلائیں جب تک کہ حضرت خضر خود نہ بتلائیں۔ کہتے ہیں کہ یہ کشتی تمام کشتیوں سے مضبوط عمدہ اور اچھی تھی، وہ بچہ ایک بےمثل بچہ تھا بڑا حسین بڑا ہوشیار بڑا ہی طرار حضرت خضر نے اسے پکڑ کر پتھر اس کا سر کچل کر اسے مار ڈالا۔ حضرت موسیٰ خوف اللہ سے کانپ اٹھے کہ ننھا سا پیارا بےگناہ بچہ اس بےدردی سے بغیر کسی سبب کے حضرت خضر نے جان سے مار ڈالا۔ دیوار گرتی ہوئی دیکھ کر ٹھہر گئے پہلے تو اسے باقاعدہ گرایا اور پھر بہ آرام چننے بیٹھے۔ حضرت موسیٰ ؑ اکتا گئے کہ بیٹھے بٹھائے اچھا دھندا لے بیٹھے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس دیوار کے نیچے کا خانہ صرف علم تھا۔ اور روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ اور آپ کی قوم مصر پر غالب آگئی اور یہاں آ کر وہ با آرام رہنے سہنے لگے تو حکم الہٰی ہوا کہ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلاؤ۔ آپ خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کے احسانات بیان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ یہ نعمتیں عطا فرمائیں، آل فرعون سے اس نے تمہیں نجات دی، تمہارے دشمنوں کو غارت اور غرق کردیا، پھر تمہیں ان کی زمین کا مالک کردیا، تمہارے نبی سے باتیں کیں، اسے اپنے لیے پسند فرما لیا، اس پر اپنی محبت ڈال دی، تمہاری تمام حاجتیں پوری کیں، تمہارے نبی تمام زمین والوں سے افضل ہیں، اس نے تمہیں تورات عطا فرمائی۔ الغرض پورے زوروں سے اللہ کی بیشمار اور ان گنت نعمتیں انہیں یاد دلائیں اس پر ایک بنی اسرائیل نے کہا فی الواقع بات یہی ہے اے نبی اللہ کیا زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے بےساختہ فرمایا کہ نہیں ہے۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑ کو بھیجا کہ ان سے کہو کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں اپنا علم کہاں کہاں رکھتا ہوں ؟ بیشک سمندر کے کنارے پر ایک شخص ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت خضر ؑ ہیں پس حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ان کو میں دیکھ لوں وحی ہوئی کہ اچھا سمندر کے کنارے جاؤ وہاں تمہیں ایک مچھلی ملے گی اسے لے لو، اپنے ساتھی کو سونپ دو ، پھر کنارے چل دو جہاں تو مچھلی کو بھول جائے اور وہ تجھ سے گم ہوجائے وہیں تو میرے اس نیک بندے کو پائے گا حضرت موسیٰ ؑ جب چلتے چلتے تھک گئے تو اپنے ساتھ سے جو ان کا غلام تھا مچھلی کے بارے میں سوال کیا اس نے جواب دیا کہ جس پتھر کے پاس ہم ٹھہرے تھے وہیں میں مچھلی کو بھول گیا اور تجھ سے ذکر کرنا شیطان نے بالکل بھلا دیا میں نے دیکھا کہ مچھلی تو گویا سرنگ بناتی ہوئی دریا میں جا رہی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ بھی اپنی لکڑی سے پانی کو چیرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لئے مچھلی جہاں سے گزرتی تھی اس کے دونوں طرف کا پانی پتھر بن جاتا تھا اس سے بھی اللہ کے نبی سخت متعجب ہوئے اب مچھلی ایک جزیرے میں آپ کو لے گئی الخ۔ ابن عباس ؓ اور حر بن قیس میں اختلاف تھا کہ موسیٰ ؑ کے یہ صاحب کون تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بلا کر اپنا اختلاف بیان کیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی وہ حدیث بیان کی جو تقریبا اوپر گزر چکی ہے۔ اس میں سائل کے سوال کے الفاظ یہ ہیں کہ کیا آپ اس شخص کا ہونا بھی جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم والا ہو ؟

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 65 فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے اپنے خاص خزانۂ فیض سے اسے خصوصی علم عطا کر رکھا تھا۔ ” علم لدنی “ کی اصطلاح یہیں سے اخذ کی گئی ہے۔ لَدُن کے معنی قریب یا نزدیک کے ہیں۔ چناچہ علم لدنی سے مراد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت سے کسی کو عطا کر دے۔ یعنی ایک علم تو وہ ہے جو انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعے سے باقاعدہ محنت و مشقت کے عمل سے گزر کر حاصل کرتا ہے جیسے مدارس عربیہ میں صرف و نحو تفسیر و حدیث اور فقہ وغیرہ علوم حاصل کیے جاتے ہیں یا سکول و کالج میں متداول عمرانی و سائنسی علوم سیکھے جاتے ہیں لیکن علم کی ایک قسم وہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ براہ راست کسی انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو اس کی تحصیل کے لیے کوئی مشقت وغیرہ بھی نہیں اٹھانی پڑتی۔

فوجدا عبدا من عبادنا آتيناه رحمة من عندنا وعلمناه من لدنا علما

سورة: الكهف - آية: ( 65 )  - جزء: ( 15 )  -  صفحة: ( 301 )

Surah kahf Ayat 65 meaning in urdu

اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور دن کی جب اُسے چمکا دے
  2. بھلا جب روح گلے میں آ پہنچتی ہے
  3. دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے
  4. اور جب (قرآن) اُن کو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم
  5. (اچھا) تو اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کے پروردگار کے بھیجے
  6. اور اپنی لاٹھی ڈال دو۔ جب اُسے دیکھا تو (اس طرح) ہل رہی تھی گویا
  7. کہہ دو اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ اور میں تو کھول کھول کر
  8. تمہارے پروردگار کی قسم! ہم ان کو جمع کریں گے اور شیطانوں کو بھی۔ پھر
  9. جس روز صور پھونکا جائے گا اور ہم گنہگاروں کو اکھٹا کریں گے اور ان
  10. بلکہ قیامت ان پر ناگہاں آ واقع ہوگی۔ اور ان کے ہوش کھو دے گی۔

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah kahf with the voice of the most famous Quran reciters :

surah kahf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter kahf Complete with high quality
surah kahf Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah kahf Bandar Balila
Bandar Balila
surah kahf Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah kahf Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah kahf Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah kahf Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah kahf Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah kahf Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah kahf Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah kahf Fares Abbad
Fares Abbad
surah kahf Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah kahf Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah kahf Al Hosary
Al Hosary
surah kahf Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah kahf Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers