Surah Anfal Ayat 68 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ انفال کی آیت نمبر 68 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Anfal ayat 68 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾
[ الأنفال: 68]

Ayat With Urdu Translation

اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا

Surah Anfal Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ لکھی ہوئی بات کیا تھی؟ بعض نے کہا کہ اس سے مال غنیمت کی حلت مراد ہے یعنی چونکہ یہ نوشتۂ تقدیر تھا کہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت حلال ہوگا، اس لئے تم نے فدیہ لے کر ایک جائز کام ہی کیا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تمہیں عذاب عظیم پہنچتا ۔ بعض نے اہل بدر کی مغفرت اس سےمراد لی ہے، بعض نے رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کی موجودگی کو عذاب سے مانع ہونا مراد لیا ہے وغیرہ۔ ( تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر )

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


اسیران بدر اور مشورہ مسند امام احمد میں ہے کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول مقبول ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اللہ نے انہیں تمہارے قبضے میں دے دیا ہے بتاؤ کیا ارادہ ہے ؟ حضرت عمر بن خطاب نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں آپ نے ان سے منہ پھیرلیا پھر فرمایا اللہ نے تمہارے بس میں کردیا ہے یہ کل تک تمہارے بھائی بند ہی تھے۔ پھر حضرت عمر نے کھڑے ہو کر اپنا جواب دوہرایا آپ نے پھر منہ پھیرلیا اور پھر وہی فرمایا اب کی دفعہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ ہماری رائے میں تو آپ ان کی خطا سے درگزر فرما لیجئے اور انہیں فدیہ لے کر آزاد کیجئے اب آپ کے چہرے سے غم کے آثار جاتے رہے عفو عام کردیا اور فدیہ لے کر سب کو آزاد کردیا اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری۔ اسی صورت کے شروع میں ابن عباس کی روایت گذر چکی ہے صحیح مسلم میں بھی اسی جیسی حدیث ہے کہ بدر کے دن آپ نے دریافت فرمایا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ ﷺ کی قوم کے ہیں، آپ والے ہیں انہیں زندہ چھوڑا جائے ان سے توبہ کرالی جائے گی عجب کہ کل اللہ کی ان پر مہربانی ہوجائے لیکن حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ ﷺ کو جھٹلانے والے آپ ﷺ کو نکال دینے والے ہیں حکم دیجئے کہ ان کی گردنیں ماری جائیں۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا یارسول اللہ ﷺ اسی میدان میں درخت بکثرت ہیں آگ لگوا دیجئے اور انہیں جلا دیجئے آپ خاموش ہو رہے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا اور اٹھ کر تشریف لے گئے لوگوں میں بھی ان تینوں بزرگوں کی رائے کا ساتھ دینے والے ہوگئے اتنے میں آپ ﷺ پھر تشریف لائے اور فرمانے لگے بعض دل نرم ہوتے ہوتے دودھ سے بھی زیادہ نرم ہوجاتے ہیں اور بعض دل سخت ہوتے ہوتے پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ اے ابوبکر تمہاری مثال آنحضرت ابراہیم ؑ جیسی ہے کہ اللہ سے عرض کرتے ہیں کہ میرے تابعدار تو میرے ہیں ہی لیکن مخالف بھی تیری معافی اور بخشش کے ماتحت ہیں اور تمہاری مثال حضرت عیسیٰ ؑ جیسی ہے جو کہیں گے یا اللہ اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے اور اے عمر تمہاری مثال حضرت نوح ؑ جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم پر بددعا کی کہ یا اللہ زمین پر کسی کافر کو بستا ہوا باقی نہ رکھ۔ سنو تمہیں اس وقت احتیاج ہے ان قیدیوں میں سے کوئی بھی بغیر فدیئے کے رہا نہ ہو ورنہ ان کی گردنیں ماری جائیں۔ اس پر ابن مسعود ؓ نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ ﷺ سہیل بن بیضا کو اس سے مخصوص کرلیا جائے اس لیے وہ اسلام کا ذکر کیا کرتا تھا اس پر حضور ﷺ خاموش ہوگئے واللہ میں سارا دن خوف زدہ رہا کہ کہیں مجھ پر آسمان سے پتھر نہ برسائے جائیں یہاں تک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مگر سہیل بن بیضا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے یہ حدیث ترمذی مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ ان قیدیوں میں عباس بھی تھے انہیں ایک انصاری نے گرفتار کیا تھا انصار کا خیال تھا کہ اسے قتل کردیں آپ کو بھی یہ حال معلوم تھا آپ ﷺ نے فرمایا رات کو مجھے اس خیال سے نیند نہیں آئی۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا اگر آپ ﷺ اجازت دیں تو میں انصار کے پاس جاؤں آپ ﷺ نے اجازت دی حضرت عمر انصار کے پاس آئے اور کہا عباس کو چھوڑ دو انہوں نے جواب دیا واللہ ہم اسے نہ چھوریں آپ نے فرمایا گو رسول اللہ ﷺ کی رضامندی اسی میں ہو ؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ اب انہیں لے جائیں ہم نے بخوشی چھوڑا۔ اب حضرت عمر نے ان سے کہا کہ عباس اب ملسمان ہوجاؤ واللہ تمہارے اسلام لانے سے مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے بھی زیادہ خوشی ہوگی اس لیے کہ رسول للہ ﷺ تمہارے اسلام لانے سے خوش ہوجائیں گے ان قیدیوں کے بارے میں حضور ﷺ نے ابوبکر سے مشورہ لیا تو آپ نے تو فرمایا یہ سب ہمارے ہی کنبے قبیلے کے لوگ ہیں انہیں چھوڑ دیجئے حضرت عمر سے جب مشورہ لیا تو آپ نے جواب دیا کہ ان سب کو قتل کردیا جائے۔ آخر آپ نے فدیہ لے کر انہیں آزاد کیا۔ حضرت علی فرماتے ہیں حضرت جبرائیل ؑ آئے اور فرمایا کہ اپنے صحابہ کو اختیار دیجئے کہ وہ ان دو باتوں میں سے ایک کو پسند کرلیں اگر چاہیں تو فدیہ لے لیں اور اگر چاہیں تو ان قیدیوں کو قتل کردیں لیکن یہ یاد رہے کہ فدیہ لینے کی صورت میں اگلے سال ان میں اتنے ہی شہید ہوں گے۔ صحابہ نے کہا ہمیں یہ منطور ہے اور ہم فدیہ لے کر چھوڑیں گے ( ترمذی نسائی وغیرہ ) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے۔ ان بدری قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے صحابیو اگر چاہو تو انہیں قتل کردو اور اگر چاہو ان سے زر فدیہ وصول کر کے انہیں رہا کردو لیکن اس صورت میں اتنے ہی آدمی تمہارے شہید کئے جائیں گے۔ پس ان ستر شہیدوں میں سب سے آخر حضرت ثاب بین قیس ؓ تھے جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے ؓ یہ روایت حضرت عبیدہ سے مرسلا بھی مروی ہے واللہ اعلم۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کی کتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت سے حلال نہ لکھا ہوا ہوتا اور جب تک ہم بیان نہ فرما دیں تب تک عذاب نہیں کیا کرتے ایسا دستور ہمارا نہ ہوتا تو جو مال فدیہ تم نے لیا اس پر تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا اسی طرح پہلے سے اللہ طے کرچکا ہے کہ کسی بدری صحابی کو وہ عذاب نہیں کرے گا۔ ان کے لیے مغفرت کی تحریر ہوچکی ہے۔ ام الکتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت کی حلت لکھی جا چکی ہے۔ پس مال غنیمت تمہارے لیے حلال طیب ہے شوق سے کھاؤ پیو اور اپنے کام میں لاؤ۔ پہلے لکھا جا چکا تھا کہ اس امت کے لیے یہ حلال ہے یہی قول امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے اور اسی کی شہادت بخاری مسلم کی حدیث سے ملتی ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں مہینے بھر کے فاصلے تک میری مدد رعب سے کی گئی۔ میرے لیے پوری زمین مسجد پاکی اور نماز کی جگہ بنادی گئی مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہ تھیں، مجھے شفاعت عطا فرمائی گئی ہر نبی خاصتہ اپنی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا لیکن میں عام لوگوں کی طرف پیغمبر ﷺ بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں کسی سیاہ سر والے انسان کے لیے میرے سوا غنیمت حلال نہیں کی گئی۔ پس صحابہ نے ان بدری قیدیوں سے فدیہ لیا اور ابو داؤد میں ہے ہر ایک سے چار سو کی رقم بطور تاوان جنگ کے وصول کی گئی۔ پس جمہور علماء کرام کا مذہب یہ ہے کہ امام وقت کو اختیار ہے کہ اگر چاہے قیدی کفار کو قتل کر دے، جیسے بنو قریضہ کے قدیوں کے ساتھ حضور ﷺ نے کیا۔ اگر چاہے بدلے کا مال لے کر انہیں چھوڑ دے جیسے کہ بدری قیدیوں کے ساتھ حضور ﷺ نے کیا یا مسلمان قیدیوں کے بدلے چھوڑ دے جیسے کہ حضور ﷺ نے قبیلہ سلمہ بن اکوع کی ایک عورت اس کی لڑکی مشرکوں کے پاس جو مسلمان قیدی تھے ان کے بدلے میں دیا اور اگر چاہے انہیں غلام بنا کر رکھے۔ یہی مذہب امام شافعی کا اور علماء کرام کی ایک جماعت کا ہے۔ گو اوروں نے اس کا خلاف بھی کیا ہے یہاں اسکی تفصیل کی جگہ نہیں۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 68 لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔اس سے مراد سورة محمد ﷺ کا وہ حکم ہے آیت 4 جو بہت پہلے نازل ہوچکا تھا۔ اس کی تفصیل ہم ان شاء اللہ سورة محمد ﷺ کے مطالعے کے دوران پڑھیں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حکم کی تعبیر interpretation میں کس طرح فدیہ لینے کی گنجائش نکالی تھی۔ یہ دراصل قانون کی تشریح و تعبیر کا معاملہ ہے۔ جیسا کہ سورة الزمر کی آیت 18 میں ارشاد ہے : الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ ط یعنی وہ لوگ جو کسی بات کو سن کر پیروی کرتے ہیں اس میں سے بہترین کی اور اس کے اعلیٰ ترین درجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ اس قانون کی تعبیر میں بھی ایسے ہی ہوا۔ چونکہ مذکورہ حکم کے اندر یہ گنجائش یا رعایت موجود تھی اس لیے حضور ﷺ نے اپنی طبیعت کی نرمی کے سبب اس کو اختیار فرما لیا۔ آیت زیر نظر کے اندر سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے کہ سورة محمد ﷺ میں نازل شدہ حکم میں رعایت کی یہ گنجائش موجود تھی ‘ اسی لیے تو اس حکم کا حوالہ دے کر فرمایا گیا کہ اگر وہ حکم پہلے نازل نہ ہوچکا ہوتا تو جو بھی تم نے فدیہ وغیرہ لیا ہے اس کے باعث تم پر بڑا عذاب آتا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ اور حضرت ابوبکر رض اس آیت کے نزول کے بعد روتے رہے ہیں۔ بہر حال اس فیصلے میں کسی صریح حکم کی خلاف ورزی نہیں تھی اور جو بھی رائے اختیار کی گئی تھی وہ اجتہادی تھی اور آپ ﷺ نے اجتہاد کے ذریعے اس حکم میں سے نرمی اور رعایت کا ایک پہلو اختیار کرلیا تھا۔

لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما أخذتم عذاب عظيم

سورة: الأنفال - آية: ( 68 )  - جزء: ( 10 )  -  صفحة: ( 185 )

Surah Anfal Ayat 68 meaning in urdu

اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. (محمد مصطفٰےﷺ) ترش رُو ہوئے اور منہ پھیر بیٹھے
  2. اگر یہ لوگ سرکشی کریں تو (خدا کو بھی ان کی پروا نہیں) جو (فرشتے)
  3. کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا (کاعذاب) بادل کے
  4. پھر درد زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں کہ
  5. اور بدن جھلس کر سیاہ کردے گی
  6. جب عیسیٰؑ نے ان کی طرف سے نافرمانی اور (نیت قتل) دیکھی تو کہنے لگے
  7. اور ہم جو پیغمبروں کو بھیجا کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ (لوگوں کو
  8. اور (اس طرح) اس (شخص) کو (ان کی) پیداوار (ملتی رہتی) تھی تو (ایک دن)
  9. کہ اِل یاسین پر سلام
  10. اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں میری تدبیر (بڑی) مضبوط ہے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Anfal with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Anfal mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Anfal Complete with high quality
surah Anfal Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Anfal Bandar Balila
Bandar Balila
surah Anfal Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Anfal Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Anfal Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Anfal Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Anfal Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Anfal Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Anfal Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Anfal Fares Abbad
Fares Abbad
surah Anfal Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Anfal Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Anfal Al Hosary
Al Hosary
surah Anfal Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Anfal Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers