Surah Munafiqun Ayat 7 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ﴾
[ المنافقون: 7]
یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول خدا کے پاس (رہتے) ہیں ان پر (کچھ) خرچ نہ کرو۔ یہاں تک کہ یہ (خود بخود) بھاگ جائیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے خدا ہی کہ ہیں لیکن منافق نہیں سمجھتے
Surah Munafiqun Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ایک غزوے میں ( جسے اہل سیر غزوۂ مریسیع یا غزوۂ بنی المصطلق کہتے ہیں ) ایک مہاجر اور ایک انصاری کا جھگڑا ہوگیا، دونوں نے اپنی اپنی حمایت کے لیے انصار اور مہاجرین کو پکارا، جس پر عبداللہ بن ابی ( منافق ) نے انصار سے کہا کہ تم نے مہاجرین کی مدد کی اور اور ان کو اپنے ساتھ رکھا، اب دیکھ لو، اس کا نتیجہ سامنے آرہا ہے یعنی یہ اب تمہارا کھا کر تمہیں پر غرا رہے ہیں۔ ان کا علاج تو یہ ہے کہ ان پر خرچ کرنا بند کر دو، یہ اپنے آپ تتر بتر ہو جائیں گے۔ نیز اس نے یہ بھی کہا کہ ہم ( جو عزت والے ہیں ) ان ذلیلوں ( مہاجروں ) کو مدینے سے نکال دیں گے۔ حضرت زید بن ارقم ( رضي الله عنه ) نے یہ کلمات خبیثہ سن لیے اور انہوں نے رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کو آکر بتلایا، آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر پوچھا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ جس پر حضرت زید بن ارقم ( رضي الله عنه ) ، کو سخت ملال ہوا، اللہ تعالیٰ نے حضرت زید بن ارقم ( رضي الله عنه ) ، کی صداقت کے اظہار کے لیے سورۂ منافقون نازل فرما دی، جس میں ابن ابی کے کردار کو پوری طرح طشت ازبام کر دیا گیا۔ ( صحيح البخاري، تفسير سورة المنافقين )۔
( 2 ) مطلب یہ ہے کہ مہاجرین کا رازق اللہ تعالیٰ ہے اس لیے کہ رزق کے خزانے اسی کے پاس ہیں، وہ جس کو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے۔
( 3 ) منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ انصار اگر مہاجرین کی طرف دست تعاون دراز نہ کریں تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
منافقوں کی محرومی سعادت کے اسباب ملعون منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں پر جب ان سے سچے مسلمان کہتے ہیں کہ آؤ رسول کریم ﷺ تمہارے لئے استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاے گناہ معاف فرما دے گا تو یہ تکبر کے ساتھ سر ہلانے لگتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں اور رک جاتے ہیں اور اس بات کو حقارت کے ساتھ رد کردیتے ہیں، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اب ان کے لئے بخشش کے دروازے بند ہیں نبی کا استغفار بھی انہیں کچھ نفع نہ دے گا، بھلا ان فاسقوں کی قسمت میں ہدیات کہاں ؟ سورة براۃ میں بھی اسی مضمون کی آیت گذر چکی ہے اور وہیں اس کی تفسیر اور ساتھ ہی اس کے متعلق کی حدیثیں بھی باین کردی گئی ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ سفیان راوی نے اپنا منہ دائیں جانب پھیرلیا تھا اور غضب وتکبر کے ساتھ ترچھی آنکھ سے گھور کر دکھایا تھا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے اور سلف میں سے اکثر حضرات کا فرمان ہے کہ یہ سب کا سب بیان عبداللہ بن ابی بن سلول کا ہے جیسے کہ عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی قوم کا بڑا اور شریف شخص تھا جب نبی ﷺ جمعہ کے دن خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھتے تھے تو یہ کھڑا ہوجاتا تھا اور کہتا تھا لوگو یہ ہیں اللہ کے رسول ﷺ جو تم میں موجود ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارا کرام کیا اور تمہیں عزت دی اب تم پر فرض ہے کہ تم آپ کی مدد کرو اور آپ کی عزت و تکریم کرو آپ کا فرمان سنو اور جو فرمائیں بجا لاؤ یہ کہہ کر بیٹھ جایا کرتا تھا، احد کے میدان میں اس کا نفاق کھل گیا اور یہ وہاں سے حضور ﷺ کی کھلی نافرمانی کر کے تہائی لشکر کو لے کر مدینہ کو واپس لوٹ آیا جب رسول اللہ ﷺ غزوہ احد سے فارغ ہوئے اور مدینہ میں مع لاخیر تشریف لائے جمعہ کا دن آیا اور آپ منبر پر چڑھے تو حسب عادت یہ آج بھی کھڑا ہوا اور کہنا چاہتا ہی تھا کہ بعض صحابہ ادھر ادھر سے کھڑے ہوگئے اور اس کے کپڑے پکڑ کر کہنے لگے دشمن اللہ بیٹھ جا تو اب یہ کہنے کا منہ نہیں رکھتا تو نے جو کچھ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اب تو اس کا اہل نہیں کہ زبان سے جو جی میں آئے بک دے، یہ ناراض ہو کر لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا باہر نکل گیا اور کہتا جاتا تھا کہ گویا میں کسی بدیات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا میں تو اس کا کام اور مضبوط کرنے کے لئے کھڑا ہوا تھا جو چند اصحاب مجھ پر اچھل کر آگئے مجھے گھسیٹنے لگے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے گویا کہ میں کسی بڑی بات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا حالانکہ میری نیت یہ تھی کہ میں آپ کی باتوں کی تائید کروں انہوں نے کہا خیر اب تم واپس چلو ہم رسول اللہ ﷺ سے عرض کریں گے آپ تمہارے لئے اللہ سے بخشش چاہیں گے اس نے کہا مجھے کوئی ضرورت نہیں، حضرت فتادہ اور حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے واقعہ یہ تھا کہ اسی کی قوم کے ایک نوجوان مسلمان نے اس کی ایسی ہی چند بری باتیں رسول اللہ ﷺ تک پہنائی تھیں حضور ﷺ نے بلوایا تو یہ صاف انکار کر گیا اور قسمیں کھا گیا، انصاریوں نے صحابی کو ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور اسے جھوٹا سمجھا اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس منافق کی جھوٹی قسموں اور اس نوجوان صحابی کی سچائی کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا اب اس سے کہا گیا کہ تو چل اور رسول اللہ ﷺ سے استغفار کرا تو اس نے انکار کے لہجے میں سر ہلا دیا اور نہ گیا، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جس منزل میں اترتے وہاں سے کوچ نہ کرتے جب تک نماز نہ پڑھ لیں، غزوہ تبوک میں حضور ﷺ کو خبر پہنچی کہ عبداللہ بن ابی کہہ رہا ہے کہ ہم عزت والے ان ذلت والوں کو مدینہ پہنچ کر نکال دیں گے پس آپ نے آخری دن میں اترنے سے پہلے ہی کوچ کردیا اسے کہا گیا کہ حضور ﷺ کے پاس جا کر اپنی خطا کی معافی اللہ سے طلب کر اس کا بیان اس آیت میں ہے، اس کی اسناد سعید بن جبیر تک صحیح ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے اس میں نظر ہے بلکہ یہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول تو اس غزوہ میں تھا ہی نہیں بلکہ لشکر کی ایک جماعت کو لے کر یہ تو لوٹ گیا تھا، کتب سیرو مغازی کے مصنفین میں تو یہ مشہور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع یعنی غزوہ بنو المصطلق کا ہے چناچہ اس قصہ میں حضرت ممد بن حییٰ بن حبان اور حضرت عبداللہ بن ابوبکر اور حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ اس لڑائی کے موقعہ پر حضور ﷺ کا ایک جگہ قیام تھا، وہاں حضرت جھجاہ بن سعید غفاری اور حضرت سنان بن یزید کا پانی کے ازدہام پر کچھ جھگڑا ہوگیا جھجاہ حضرت عمر کے کارندے تھے، جھگڑے نے طول پکڑا سنان نے انصاریوں کو اپنی مدد کے لئے آواز دی اور جھجاہ نے مہاجرین کو اس وقت حضرت زید بن ارقم وغیرہ انصاری کی ایک جماعت عبداللہ بن ابی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اس نے جب یہ فریاد سنی تو کہنے لگا لو ہمارے ہی شہروں میں ان لوگوں نے ہم پر حملے شروع کردیئے اللہ کی قسم ہماری اور ان قریشویں کی مثال وہی ہے جو کسی نے کہا ہے کہ اپنے کتے کو مٹا تازہ کرتا کہ تجھے ہی کاٹے اللہ کی قسم اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو ہم ذی مقدور لوگ ان بےمقدروں کو وہاں سے نکال دیں گے پھر اس کی قوم کے جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے ان سے کہنے لگا یہ سب آفت تم نے خود اپنے ہاتھوں اپنے اوپر لی ہے تم نے انہیں اپنے شہر میں بسایا تم نے انہیں اپنے مال آدھوں آدھ حصہ دیا اب بھی اگر تم ان کی مالی امداد نہ کرو تو یہ خود تنگ آ کر مدینہ سے نکل بھاگیں گے حضرت زید بن ارقم ؓ نے یہ تمام باتیں سنیں آپ اس وقت بہت کم عمر تھے سیدھے سرکار نبوت میں حاضر ہوئے اور کل واقعہ بیان فرمایا اس وقت آپ کے پاسح ضرت عمر بن خطاب ؓ بھی بیٹیھ ہوئے تھے غضبناک ہو کر فرمانے لگے یا رسول اللہ ﷺ عباد بن بشیر کو حکم فرمایئے کہ اس کی گردن الگ کر دے حضور ﷺ نے فرمایا پھر تو لوگوں میں یہ مشہور ہوجائے گا کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کی گردنیں مارتے ہیں یہ ٹھیک نہیں جاؤ لوگوں میں کوچ کی منادی کردو، عبداللہ بن ابی کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی گفتگو کا علم آنحضرت ﷺ کو ہوگیا تو بہت سٹ پٹایا اور حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر معذرت اور حیلے حوالے تاویل اور تحریف کرنے لگا اور قسمیں کھا گیا کہ میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا، چونکہ یہ شخص اپنی قوم میں ذی عزت اور باوقعت تھا اور لوگ بھی کہنے لگے حضور ﷺ شاید اس بچے نے ہی غلطی کیہ و اسے وہم ہوگیا ہو واقعہ ثابت تو ہوتا نہیں، حضور ﷺ یہاں سے جلدی ہی کوچ کے وقت سے پہلے ہی تشریف لے چلے راستے میں حضرت اسید بن نضیر ؓ ملے اور آپ کی شان نبوت کے قابل با ادب سلام کیا پھر عرض کی کہ حضور ﷺ آج کیا بات ہے کہ وقت سے پہلے ہی جناب نے کوچ کیا حضور ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں ملوم نہیں کہ تمہارے ساتھی ابن ابی نے کیا کہا وہ کہتا ہے کہ مدینہ جا کر ہم عزیز ان ذلیلوں کو نکال دیں گے حضرت اسید نے کہا یا رسول اللہ ﷺ عزت والے آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے یا رسول اللہ ﷺ آپ اس کی ان باتوں کا خیال بھی نہ فرمایئے دراصل یہ بہت جلا ہوا ہے سنئے اہل مدینہ نے اسے سردار بنانے پر اتفاق کرلیا تھا تاج تیار ہو رہا تھا کہ اللہ رب اعلزت آپ کو لایا اس کے ہاتھ سے ملک نکل گیا پس یہ چراغ پا ہو رہا ہے، حضور ﷺ چلتے رہے، دوپہر کو ہی چل دیئے تھے شام ہوئی رات ہوئی صبح ہوئی یہاں تک کہ دھوپ میں تیزی آگئی تب آپ نے پڑاؤ کیا تاکہ لوگ اس بات میں پھر نہ الجھ جائیں، چونکہ تمام لوگ تھکے ہارے اور رات کے جاگے ہوئے تھے اترتے ہی سب سو گئے ادھر یہ سورت نازل ہوئی ( سیرۃ ابن اسحاق ) بیہقی میں ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے ایک مہاجر نے ایک انصار کو پتھر مار دیا اس پر بات بڑھ گئی اور دونوں نے اپنی اپنی جماعت سے فریاد کی اور انہیں پکارا حضور ﷺ سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا جاہلیت کی ہانک لگانے لگے اس فضول خراب عادت کو چھوڑو، عبداللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا اب مہاجر یہ کرنے لگ گئے اللہ کی قسم مدینہ پہنچتے ہی ہم ذی عزت ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے، اس وقت مدینہ شریف میں انصار کی تعداد مہاجرین سے بہت زیادہ تھی گو بعد میں مہاجرین بہت زیادہ ہوگئے تھے، حضرت عمر کو جب ابن ابی کے اس قول کا علم ہوا تو حضور ﷺ سے اس کے قتل کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ نے روک دیا، مسند احمد میں حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک میں میں نے جب اس منافق کا یہ قول حضور ﷺ کے سامنے بیان کیا اور اس نے آ کر انکار کیا اور قسمیں کھا گیا اس وقت میری قوم نے مجھے بہت کچھ برا کہا اور ہر طرح ملامت کی کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نہایت غمگین دل ہو کر وہاں سے چل دیا اور سخت رنج و غم میں تھا کہ حضور ﷺ نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیرا عذر نازل فرمایا ہے اور تیری سچائی ظاہر کی ہے اور یہ آیت اتری ھم الذین الخ یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں ہے، مسند احمد میں ہے حضرت زید بن ارقم کا یہ بیان اس طرح ہے کہ میں اسے چچا کے ساتھ ایک غزوے میں تھا اور میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ دونوں باتیں سنیں میں نے اپنے چچا سے بیان کیں اور میرے چچا نے حضور سے عرض کیں جب آپ نے اسے بلایا اس نے انکار کیا اور قسمیں کھا گیا۔ حضور ﷺ نے اسے سچا اور مجھے جھوٹا جانا میرے چچا نے بھی مجھے برا بھلا کہا مجھے اس قدر غم اور ندامت ہوئی کہ میں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ یہ سورت اتری اور آپ نے میری تصدیق کی اور مجھے یہ پڑھ سنائی۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ ایک سفر کے موقعہ پر جب صحابہ کو تنگی پہنچی تو اس نے انہیں کچھ دینے کی ممانعت کردی۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں اس لئے بلوایا کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں تو انہوں نے اس سے بھی منہ پھیرلیا، قرآن ریم نے انہیں ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں اس لئے کہا ہے کہ یہ لوگ اچھے جمیل جسم والے تھے، ترمذی وغیرہ میں حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور ﷺ کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ کچھ اعراب لوگ بھی تھے پانی کی جگہ وہ پہلے پہنچنا چاہتے تھے اسی طرح ہم بھی اسی کی کوشش میں رہتے تھے ایک مرتبہ ایک اعرابی نے جا کر پانی پر بضہ کر کے حوض پر کرلیا اور اس کے اردگرد پتھر رکھ دیئے اور اوپر سے چمڑا پھیلا دیا ایک انصاری نے آ کر اس حوض میں سے اپنے اونٹ کو پانی پلانا چاہا اس نے روکا انصاری نے پلانے پر زور دیا اس نے ایک لکڑی اٹھا کر انصاری کے سر پر ماری جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔ یہ چونکہ عبداللہ بن ابی کا ساتھی تھا سیدھا اس کے پاس آیا اور تمام ماجرا کہہ سنایا عبداللہ بہت بگڑا اور کہنے لگا ان اعرابیوں کو کچھ نہ دو یہ خود بھوکے مرتے بھاگ جائیں گے، یہ اعربای کھانے کے قوت رسول اللہ ﷺ کے پاس آجاتے تھے اور کھالیا کرتے تھے تو عبداللہ بن ابی نے کہا تم حضور ﷺ کا کھانا لے کر ایسے وقت جاؤ جب یہ لوگ نہ ہوں آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھالیں گے یہ رہ جائیں گے یونہی بھوکوں مرتے بھاگ جائیں گے اور اب ہم مدینہ جا کر ان کمینوں کو نکال باہر کریں گے، میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کا ردیف تھا اور میں نے یہ سب سنا اپنے چچا سے ذکر کیا چچا نے حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ نے اسے بلوایا یہ انکار کر گیا اور حلف اٹھا لیا حضور ﷺ نے اسے سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا قرار دیا میرے چچا میرے پاس آئے اور کہا تم نے یہ کیا حرکت کی ؟ حضور ﷺ تجھ پر ناراض ہوگئے اور تجھے جھوٹا جانا اور دیگر مسلمانوں نے بھی تجھے جھوٹا سمجھا مجھ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا سخت غم واندوہ کی حالت میں سر جھکائے میں حضور ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا تھوڑی ہی دیر گذری ہوگی کہ آپ میرے پاس آئے، میرا کان پکڑا، جب میں نے سر اٹھا کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ مسکرائے اور چل دیئے، اللہ کی قسم مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اگر دنیا کی ابدی زندگی مجھے مل جاتی جب بھی میں اتنا خوش نہ ہوسکتا تھا پھر حضرت صدیق اکبر ؓ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ آنحضرت ﷺ نے تم سے کیا کہا ؟ میں نے کہا ؟ فرمایا تو کچھ بھی نہیں مسکراتے ہوئے تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا بس پھر خوش ہو، آپ کے بعد ہی حضرت عمر فاروق ؓ تشریف لائے ہی سوال مجھ سے کیا اور میں نے یہی جواب دیا صبح کو سورة منافقون نازل ہوئی۔ دوسری روایت میں اس سورت کا منھا الذل تک پڑھنا بھی مروی ہے، عبداللہ بن لہیعہ اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی اسی حدیث کو مغازی میں بیان کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں خبر پہنچانے والے کا نام اوس بن اقرم ہے جو قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سے تھے، ممن ہے کہ حضرت زید بن ارقم نے بھی خبر پہنچائی ہو اور حضرت اوس نے بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی سے نام میں غلطیہو گئی ہو واللہ اعلم، ابنابی حاتم میں ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع کا ہے یہ وہ غزوہ ہے جس میں حضرت خالد ؓ کو بھیج کر حضور ﷺ نے مناۃ بت کو تڑوایا تھا جو قفا مثل اور سمندر کے درمیان تھا، اسی غزوہ میں دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا تھا ایک مہاجر تھا دوسرا قبیلہ بہز کا تھا اور قبیل بہز انصاریوں کا حلیف تھا بہزی نے انصاریوں کو اور مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی کچھ لوگ دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور جھگڑا ہنے لگا جب ختم ہوا تو منافق اور بیمار دل لوگ عبداللہ بن اب کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں تو تم سے بہت کچھ امیدیں تھیں تم ہمارے دشمنوں سے ہمارا بچاؤ تھے اب تو بیکار ہوگئے ہو، نفع کا خیال نہ نقصان کا تم نے ہی ان جلالیبکو اتنا چڑھا دیا کہ بات بات پر یہ ہم پر چڑھ دوڑیں، نئے مہاجرین کو یہ لوگ جلالیب کہتے تھے، اس دشمن اللہ نے جواب دیا کہ اب مدینے پہنچتے ہی ان سب کو وہاں سے دیس نکالا دیں گے، مالک بن وخشن جو منافق تھا اس نے کہا میں تو تمہیں پہلے ہی سے کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک کرنا چھوڑ دو خودبخود منتشر ہوجائیں گے یہ باتیں حضرت عمر ؓ نے سن لیں اور خدمت نبوی میں آ کر عرض کرنے لگے کہ اس بانی فتنہ عبداللہ بن ابی کا قصہ پاک کرنے کی مجھے اجازت دیجئے آپ نے فرمایا اچھا اگر اجازت دوں تو کیا تم اسے قتل کر ڈالو گے ؟ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اللہ کی قسم ابھی اپنے ہاتھ سے اس کی گردن ماروں گا، آپ نے فرمایا اچھا بیٹھ جاؤ اتنے میں حضرت اسید بن حفیر بھی یہی کہتے ہوئے آپ نے ان سے بھی یہی پوچھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا آپ نے انہیں بھی بٹھا لیا، پھر تھوڑی دیر گذری ہوگی کہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور وقت سے پہلے ہی لشکر نے کوچ کیا، وہ دن رات دوسری صبح برابر چلتے ہی رہے جب دھوپ میں تیزی آگئی، اترنے کو فرمایا، پھر دوپہر ڈھلتے ہی جلدی سے کوچ کیا اور اسی طرح چلتے رہے تیسرے دن صبح کو قفا مثل سے مدینہ شریف پہنچ گئے، حضرت عمر کو بلوایا ان سے پوچھا کہ کیا میں اس کے قتل کا تجھے حکم دیتا تو تو اسے مار ڈالتا ؟ " حضرت عمر نے عرض کیا یقیناً میں اس کا سرتن سے جدا کردیتا۔ آپ نے فرمایا اگر تو اسے اس دن قتل کر ڈالات تو بہت سے لوگوں کے ناک خاک آلودہ ہوجاتے میں اگر انہیں کہتا تو وہ بھی اسے مار ڈالنے میں تامل نہ کرتے پھر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ ملتا کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو بھی بےدردی کے ساتھ مار ڈالتا ہے اسی واقعہ کا بیان ان آیتوں میں ہے، یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سی ایسی عمدہ باتیں ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں، سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ جو پکے سچے مسلمان تھے اس واقعہ کے بعد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گذارش کی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے جو بکواس کی ہے اس کے بدلے آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اگر یونہی ہے تو اس کے قتل کا حکم آپ کسی اور کو نہ کیجئے میں خود جاتا ہوں اور ابھی اس کا سر آپ کے قدموں تلے ڈالتا ہوں، قسم اللہ کی قبیلہ خزرج کا ایک ایک شخص جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے احسان و سلوک اور محبت و عزت کرنے والا نہیں ( لیکن میں نے فرمان رسول ﷺ پر اپنے پیارے باپ کی گردن مارنے کو تیار ہوں ) اگر آپ نے کسی اور کو یہ حکم دیا اور اس نے اسے مارا تو مجھے ڈر ہے کہ کیں جوش انتقام میں میں اسے نہ مار بیٹھوں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ حرکت مجھ سے ہوگئی تو میں ایک کافر کے بدلے ایک مسلمان کو مار کر جہنمی بن جاؤں گا آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیجئے آپ نے فرمایا نہیں نہیں میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا ہم تو اس سے اور نرمی برتیں گے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے، حضرت عکرمہ اور حضرت ابنزید کا بیان ہے کہ جب حضور ﷺ اپنے لشکروں سمیت مدینے پہنچے تو اس منافق عبداللہ بن ابی کے لڑکے حضرت عبداللہ ؓ دینہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہوگئے تلوار کھینچ لی لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے یہاں تک کہ ان کا باپ آیا تو یہ فرمانے لگے پرے رہو، مدینہ میں نہ جاؤ اس نے کہا کیا بات ہے ؟ مجھے کیوں روک رہا ہے ؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو مدینہ میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اللہ کے رسول ﷺ تیرے لئے اجازت نہ دیں، عزت والے آپ ہی ہیں اور تو ذلیل ہے، یہ رک کر کھڑا ہوگیا یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ تشریف لائے آپ کی عادت مبارک تھی کہ لشکر کے آخری حصہ میں ہوتے تھے آپ کو دیکھ کر اس مناق نے اپنے بیٹے کی شکایت کی آپ نے ان سے پوچھا کہ اسے کیوں روک رکھا ہے ؟ انہوں نے کہا قسم ہے اللہ کی جب تک آپ کی اجازت نہ ہو یہ اندر نہیں جاسکتا چناچہ حضور ﷺ نے اجازت دی اب حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے دیا، مسند حمیدی میں ہے کہ آپ نے اپنے والد سے کہا جب تک تو اپنی زبان سے یہ نہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ عزت والے اور میں ذلیل تو مدینہ میں نہیں جاسکتا اور اس سے پہلے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں نے آج تک نگاہ اونچی کر کے ان کے چہرے کو بھی نہیں دیکھا لیکن آپ اگر اس پر ناراض ہیں تو مجھے حکم دیجئے ابھی اس کی گردن حاضر کرتا ہوں کسی اور کو اس کے قتل کا حکم نہ دیجئے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قتل کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا نہ دیکھ سکوں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 7{ ہُمُ الَّذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا } ” یہی ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مت خرچ کرو ان پر جو اللہ کے رسول ﷺ کے گرد جمع ہوگئے ہیں ‘ یہاں تک کہ یہ منتشر ہوجائیں۔ “ منافقین سمجھتے تھے کہ اگر اہل مدینہ مہاجر مسلمانوں پر خرچ کرنا بند کردیں گے تو چند ہی دنوں میں یہ ساری بھیڑ چھٹ جائے گی۔ یہی بات عبداللہ بن ابی نے متذکرہ بالا جھگڑے کے موقع پر انصارِ مدینہ سے کہی تھی۔ { وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰــکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَہُوْنَ۔ } ” حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے تو اللہ ہی کے ہیں ‘ لیکن منافقین اس حقیقت کا فہم نہیں رکھتے۔ “ یہاں آسمانوں اور زمین سے مرا دپوری کائنات ہے۔
هم الذين يقولون لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا ولله خزائن السموات والأرض ولكن المنافقين لا يفقهون
سورة: المنافقون - آية: ( 7 ) - جزء: ( 28 ) - صفحة: ( 555 )Surah Munafiqun Ayat 7 meaning in urdu
یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کے ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہو جائیں حالانکہ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے، مگر یہ منافق سمجھتے نہیں ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ان کا پروردگار ان کو اپنی رحمت کی اور خوشنودی کی اور بہشتوں کی خوشخبری
- یوسف اس بات کا خیال نہ کر۔ اور (زلیخا) تو اپنے گناہوں کی بخشش مانگ،
- اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم پیدا کئے کہ ان
- اور ابرہیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی
- خدا نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تو اے ارباب دانش
- تو تم (جادو کا) سامان اکھٹا کرلو اور پھر قطار باندھ کر آؤ۔ آج جو
- اور جب ان سے کہا جائے کہ آؤ رسول خدا تمہارے لئے مغفرت مانگیں تو
- اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔ اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے۔
- اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح اور لوگ ایمان لے آئے،
- جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہے
Quran surahs in English :
Download surah Munafiqun with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Munafiqun mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Munafiqun Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers