Surah baqarah Ayat 75 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 75 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah baqarah ayat 75 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿۞ أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾
[ البقرة: 75]

Ayat With Urdu Translation

(مومنو) کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے) قائل ہو جائیں گے، (حالانکہ) ان میں سے کچھ لوگ کلامِ خدا (یعنی تورات) کو سنتے، پھر اس کے سمجھ لینے کے بعد اس کو جان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں

Surah baqarah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اہل ایمان سے خطاب کرکے یہودیوں کی بابت کہا جارہا ہے کہ کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے، درآں حالیکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فریق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی میں جانتے بوجھتے تحریف ( لفظی ومعنوی ) کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے، یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعاً امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات، یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے، وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علماومشائخ بھی بدقسمتی سے قرآن وحدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔ ( دیکھیے سورۂ نساء آیت 77 کا حاشیہ )

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


یہودی کردار کا تجزیہ اس گمراہ قوم یہود کے ایمان سے اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ناامید کر رہے ہیں جب ان لوگوں نے اتنی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی اپنے دل سخت پتھر جیسے بنا لئے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن کر سمجھ کر پھر بھی اس کی تحریف اور تبدیلی کر ڈالی تو ان سے تم کیا امید رکھتے ہو ؟ ٹھیک اس آیت کی طرح اور جگہ فرمایا ( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً )المائدة:13) یعنی ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دئے یہ اللہ کے کلام کو رد و بدل کر ڈالا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ سننے کو فرمایا اس سے مراد حضرت موسیٰ کے صحابیوں کی وہ جماعت ہے جنہوں نے آپ سے اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سننے کی درخواست کی تھی اور جب وہ پاک صاف ہو کر روزہ رکھ کر حضرت موسیٰ کے ساتھ طور پہاڑ پر پہنچ کر سجدے میں گرپڑے تو اللہ تعالیٰ نے انیں اپنا کلام سنایا جب یہ واپس آئے اور نبی اللہ حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بنی اسرائیل میں بیان کرنا شروع کیا تو ان لوگوں نے اس کی تحریف اور تبدیلی شروع کردی۔ سدی فرماتے ہیں ان لوگوں نے توراۃ میں تحریف کی تھی یہی عام معنی ٹھیک ہیں جس میں وہ لوگ بھی شامل ہوجائیں گے اور اس بدخصلت والے دوسرے یہودی بھی۔ قرآن میں ہے فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ یعنی مشرکوں میں سے کوئی اگر تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سنے بلکہ قرآن سنے تو یہاں بھی کلام اللہ سے مراد توراۃ ہے۔ یہ تحریف کرنے والے اور چھپانے والے ان کے علماء تھے آنحضرت ﷺ کے جو اوصاف ان کی کتاب میں تھے ان سب میں انہوں نے تاویلیں کر کے اصل مطلب دور کردیا تھا اسی طرح حلال کو حرام، حرام کو حلال، حق کو باطل، باطل کو حق لکھ دیا کرتے تھے۔ قرآن میں ہے آیت ( وَقَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بالَّذِيْٓ اُنْزِلَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْٓا اٰخِرَهٗ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ )آل عمران:72) یعنی اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا ایمان والوں پر جو اترا ہے اس پر دن کے شروع حصہ میں ایمان لاؤ پھر آخر میں کفر کرو تاکہ خود ایمان والے بھی اس دین سے پھرجائیں۔ یہ لوگ اس فریب سے یہاں کے راز معلوم کرنا اور انہیں اپنے والوں کو بتانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ چالاکی نہ چلی اور یہ راز اللہ نے کھول دیا جب یہ یہاں ہوتے اور اپنا ایمان اسلام و ظاہر کرتے تو صحابہان سے پوچھتے کیا تمہاری کتاب میں حضور ﷺ کی بشارت وغیرہ نہیں ؟ وہ اقرار کرتے۔ جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو وہ انہیں ڈانٹتے اور کہتے اپنی باتیں ان سے کہہ کر کیوں ان کی اپنی مخالفت کے ہاتھوں میں ہتھیار دے رہے ہو ؟ مجاہد فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے قریظہ والے دن یہودیوں کے قلعہ تلے کھڑے ہو کر فرمایا اے بندر اور خنزیر اور طاغوت کے کے عابدوں کے بھائیو ! تو وہ آپس میں کہنے لگے یہ ہمارے گھر کی باتیں انہیں کس نے بتادیں خبردار اپنی آپس کی خبریں انہیں نہ دو ورنہ انہیں اللہ کے سامنے تمہارے خلاف دلائل میسر آجائیں گے اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گو تم چھپاؤ لیکن مجھ سے تو کوئی چیز چھپ نہیں سکتی تم جو چپکے چپکے اپنوں سے کہتے ہو کہ اپنی باتیں ان تک نہ پہنچاؤ اور اپنی کتاب کی باتیں کو چھپاتے ہو تو میں تمہارے اس برے کام سے بخوبی آگاہ ہوں۔ تم جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو۔ تمہارے اس اعلان کی حقیقت کا علم بھی مجھے اچھی طرح ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


اب تک ہم نے سورة البقرة کے آٹھ رکوع اور ان پر مستزاد تین آیات کا مطالعہ مکمل کیا ہے۔َ سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کے ساتھ خطاب کا سلسلہ سورة البقرة کے دس رکوعوں پر محیط ہے۔ یہ سلسلہ پانچویں رکوع سے شروع ہوا تھا اور پندرہویں رکوع کے آغاز تک چلے گا۔ اس سلسلۂ خطاب کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس میں سے پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے اور وہ بہت فیصلہ کن ہے ‘ جبکہ اگلے رکوع سے اسلوب کلام تبدیل ہوگیا ہے اور تہدید اور دھمکی کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ پانچواں رکوع اس پورے سلسلۂ خطاب میں بمنزلۂ فاتحہ بہت اہم ہے اور جو بقیہ نو 9 رکوع ہیں ان کے آغاز و اختتام پر بریکٹ کا انداز ہے کہ دو آیتوں سے بریکٹ شروع ہوتی ہے اور انہی دو آیتوں پر بریکٹ ختم ہوتی ہے ‘ جبکہ پانچویں رکوع کے مضامین اس پورے سلسلۂ خطاب سے ضرب کھا رہے ہیں۔ ان رکوعوں میں بنی اسرائیل کے خلاف ایک مفصل فرد قرارداد جرم عائد کی گئی ہے ‘ جس کے نتیجے میں وہ اس منصب جلیلہ سے معزول کردیے گئے جس پر دو ہزار برس سے فائز تھے اور ان کی جگہ پر اب نئی امت مسلمہ یعنی امت محمد ﷺ کا اس منصب پر تقرر عمل میں آیا اور اس مسند نشینی کی تقریب Installation Ceremony کے طور پر تحویل قبلہ کا معاملہ ہوا۔ یہ ربط کلام اگر سامنے نہ رہے تو انسان قرآن مجید کی طویل سورتوں کو پڑھتے ہوئے کھو جاتا ہے کہ بات کہاں سے چلی تھی اور اب کدھر جا رہی ہے۔ ان نو رکوعوں کے مضامین میں کچھ تو تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات بیان ہوئے ہیں کہ تم نے یہ کیا ‘ تم نے یہ کیا ! لیکن ان واقعات کو بیان کرتے ہوئے بعض ایسے عظیم ابدی حقائق اور Universal Truths بیان ہوئے ہیں کہ ان کا تعلق کسی وقت سے ‘ کسی قوم سے یا کسی خاص گروہ سے نہیں ہے۔ وہ تو ایسے اصول ہیں جنہیں ہمّ سنت اللہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کائنات میں ایک تو قوانین طبیعیہ Physical Laws ہیں ‘ جبکہ ایک Moral Laws ہیں جو اللہ کی طرف سے اس دنیا میں کارفرما ہیں۔ سورة البقرة کے زیر مطالعہ نو رکوعوں میں تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات کے بیان کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایسی آیات آتی ہیں جو اس سلسلۂ کلام کے اندر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں درحقیقت موجودہ امت مسلمہ کے لیے راہنمائی پوشیدہ ہے۔ مثال کے طور پر اس سلسلۂ خطاب کے دوران آیت 61 میں وارد شدہ یہ الفاظ یاد کیجیے : وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ق وَبَآءُ ‘ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط ” اور ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے “۔ معلوم ہوا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک مسلمان امت جس پر اللہ کے بڑے فضل ہوئے ہوں ‘ اسے بڑے انعام و اکرام سے نوازا گیا ہو ‘ اور پھر وہ اپنی بےعملی یا بدعملی کے باعث اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوجائے اور ذلتّ و مسکنت اس پر تھوپ دی جائے۔ یہ ایک ابدی حقیقت ہے جو ان الفاظ میں بیان ہوگئی۔ امت مسلمہ کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا آج ہم تو اس مقام پر نہیں پہنچ گئے ؟دوسرا اسی طرح کا مقام گزشتہ آیت 74 میں گزرا ہے ‘ جہاں ایک عظیم ابدی حقیقت بیان ہوئی ہے :ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط ” پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس سب کے بعد ‘ پس اب تو وہ پتھروں کی مانند ہیں ‘ بلکہ سختی میں ان سے بھی شدید تر ہیں گویا اسی امت مسلمہ کا یہ حال بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دل اتنے سخت ہوجائیں کہ سختی میں پتھروں اور چٹانوں کو مات دے جائیں۔ حالانکہ یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں فرمایا : وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ع ”ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا ! “ البتہ یہاں ایک بات واضح رہے کہ اس قساوت قلبی میں پوری امت مبتلا نہیں ہوا کرتی ‘ بلکہ اس کیفیت میں امت کے قائدین مبتلا ہوجاتے ہیں اور امت مسلمہ کے قائدین اس کے علماء ہوتے ہیں۔ چناچہ سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہ خرابی ان میں درآتی ہے۔ اس لیے کہ باقی لوگ تو پیروکار ہیں ‘ ان کے پیچھے چلتے ہیں ‘ ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب کے پڑھنے والے اور اس کے جاننے والے ہیں۔ لیکن جو لوگ جان بوجھ کر اللہ کی کتاب میں تحریف کر رہے ہوں اور جانتے بوجھتے حق کو پہچان کر اس کا انکار کر رہے ہوں انہیں تو پتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ! درحقیقت یہ سزا ان پر آتی ہے۔ یہ بات ان آیات میں جو آج ہم پڑھنے چلے ہیں ‘ بہت زیادہ واضح ہوجائے گی اِن شاء اللہ۔ فرمایا :آیت 75 اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ عام مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ یہود دین اسلام کی مخالفت نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ مشرکین مکہ تو دین توحید سے بہت دور تھے ‘ رسالت کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا ‘ کوئی کتاب ان کے پاس تھی ہی نہیں۔ جبکہ یہود تو اہل کتاب تھے ‘ حاملین تورات تھے ‘ موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے تھے ‘ توحید کے علمبردار تھے اور آخرت کا بھی اقرار کرتے تھے۔ چناچہ عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ انہیں توٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ ‘ کی دعوت کو جھٹ پٹ مان لینا چاہیے۔ تو مسلمانوں کے دلوں میں یہود کے بارے میں جو حسن ظن تھا ‘ یہاں اس کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمانو ! تمہیں بڑی طمع ہے ‘ تمہاری یہ خواہش ہے ‘ آرزو ہے ‘ تمناّ ہے ‘ تمہیں توقع ہے کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے۔وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ “ ظاہر بات ہے وہ گروہ ان کے علماء ہی کا تھا۔ عام آدمی تو اللہ کی کتاب میں تحریف نہیں کرسکتا۔اب اگلی آیت میں بڑی عجیب بات سامنے آرہی ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے درمیان منافقین موجود تھے اسی طرح یہود میں بھی منافقین تھے۔ یہود میں سے کچھ لوگ ایسے تھے کہ جب ان پر حق منکشف ہوگیا تو اب وہ اسلام کی طرف آنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے لیے اپنے خاندان کو ‘ گھر بار کو ‘ اپنے کاروبار کو اور اپنے قبیلے کو چھوڑنا بھی ممکن نہیں تھا ‘ جبکہ قبیلوں کی سرداری ان کے علماء کے پاس تھی۔ ایسے لوگوں کے دل کچھ کچھ اہل ایمان کے قریب آ چکے تھے۔ ایسے لوگ جب اہل ایمان سے ملتے تھے تو کبھی کبھی وہ باتیں بھی بتا جاتے تھے جو انہوں نے علماء یہود سے نبی آخرالزمان ﷺ اور ان کی تعلیمات کے بارے میں سن رکھی تھیں کہ تورات ان کی گواہی دیتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ اپنے ” شیاطین “ یعنی علماء کے پاس جاتے تھے تو وہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے کہ بیوقوفو ! یہ کیا کر رہے ہو ؟ تم انہیں یہ باتیں بتا رہے ہو تاکہ اللہ کے ہاں جا کر وہ تم پر حجت قائم کریں کہ انہیں پتا تھا اور پھر بھی انہوں نے نہیں مانا !

أفتطمعون أن يؤمنوا لكم وقد كان فريق منهم يسمعون كلام الله ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه وهم يعلمون

سورة: البقرة - آية: ( 75 )  - جزء: ( 1 )  -  صفحة: ( 11 )

Surah baqarah Ayat 75 meaning in urdu

اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور اُن کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مال کا اور اس
  2. اور جو بات پکار کی جائے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو تم پوشیدہ
  3. اور مجھے معلوم نہ ہو کہ میرا حساب کیا ہے
  4. (یعنی) بہشت جاودانی (میں) جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے (اور
  5. کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار
  6. کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے سودا ہے (نہیں) بلکہ وہ ان کے پاس حق
  7. تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو؟
  8. دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ
  9. آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ اور سب امور اسی کی طرف رجوع
  10. سیدھے رستے پر

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
surah baqarah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah baqarah Bandar Balila
Bandar Balila
surah baqarah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah baqarah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah baqarah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah baqarah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah baqarah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah baqarah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah baqarah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah baqarah Fares Abbad
Fares Abbad
surah baqarah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah baqarah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah baqarah Al Hosary
Al Hosary
surah baqarah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah baqarah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, May 10, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب