Surah waqiah Ayat 75 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ﴾
[ الواقعة: 75]
ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم
Surah waqiah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) فَلا أُقْسِمُ میں ” لا “ زائد ہے جو تاکید کے لیے ہے۔ یا یہ زائد نہیں ہے۔ بلکہ ماقبل کی کسی چیز کی نفی کےلیے ہے۔ یعنی یہ قرآن کہانت یا شاعری نہیں ہے بلکہ میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن عزت والا ہے .
.
.
مَوَاقِعُ النُّجُومِ سے مراد ستاروں کے طلوع و غروب کی جگہیں اور ان کی منزلیں اور مدارہیں، بعض نے ترجمہ کیا ہے ” قسم کھاتا ہوں آیتوں کے اترنے کی پیغمبروں کے دلوں میں “ ( موضح القرآن ) یعنی نجوم، قرآن کی آیات اور مواقع، قلوب انبیا۔ بعض نے اس کا مطلب قرآن کا آہستہ آہستہ بتدریج اترنا اور بعض نے قیامت والے ستاروں کا جھڑنا مراد لیا ہے۔ ( ابن کثیر )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قرآن کا مقام حضرت ضحاک فرماتے ہیں اللہ کی یہ قسمیں کلام کو شروع کرنے کے لئے ہوا کرتی ہیں۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے۔ جمہور فرماتے ہیں یہ قسمیں ہیں اور ان میں ان چیزوں کی عظمت کا اظہار بھی ہے، بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں پر لا زائد ہے اور آیت ( انہ لقراٰن ) الخ جواب قسم ہے اور لوگ کہتے ہیں لا کو زائد بتانے کی کوئی وجہ نہیں کلام عرب کے دستور کے مطابق وہ قسم کے شروع میں آتا ہے، جبکہ جس چیز پر قسم کھائی جائے وہ منفی ہو، جیسے حضرت عائشہ کے اس قول میں ہے ( لا واللہ ما مست ید رسول اللہ ﷺ ید امراۃ قط ) یعنی اللہ کی قسم حضور ﷺ نے اپنا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے لگایا نہیں یعنی بیعت میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا۔ اسی طرح یہاں بھی لا قسم کے شروع میں مطابق قاعدہ ہے نہ کہ زائد۔ تو کلام کا مقصود یہ ہے کہ تمہارے جو خیالات قرآن کریم کی نسبت ہیں یہ جادو ہے یا کہانت ہے غلط ہیں۔ بلکہ یہ پاک کتاب کلام اللہ ہے۔ بعض عرب کہتے ہیں کہ لا سے ان کے کلام کا انکار ہے پھر اصل امر کا اثبات الفاظ میں ہے آیت ( فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ 75 ۙ ) 56۔ الواقعة :75) سے مراد قرآن کا بتدریج اترنا ہے، لوح محفوظ سے تو لیلہ القدر میں ایک ساتھ آسمان اول پر اترا آیا پھر حسب ضروت تھوڑا تھوڑا وقت بروقت اترتا رہا یہاں تک کہ کوئی بروسوں میں پورا اتر آیا۔ مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد ستاروں کے طلوع اور ظاہر ہونے کی آسمان کی جگہیں ہیں۔ مواقع سے مراد منازل ہیں۔ حسن فرماتے ہیں قیامت کے دن ان کا منتشر ہوجانا ہے۔ ضحاک فرماتے ہیں اس سے مراد وہ ستارے ہیں جن کی نسبت مشرکین عقیدہ رکھتے تھے کہ فلاں فلاں تارے کی وجہ سے ہم پر بارش برسی۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑی قسم ہے اس لئے کہ جس امر پر یہ قسم کھائی جا رہی ہے وہ بہت بڑا امر ہے یعنی یہ قرآن بڑی عظمت والی کتاب ہے معظم و محفوظ اور مضبوط کتاب میں ہے۔ جسے صرف پاک ہاتھ ہی لگتے ہیں یعنی فرشتوں کے ہاں یہ اور بات ہے کہ دنیا میں اسے سب کے ہاتھ لگتے ہیں۔ ابن مسعود کی قرأت میں ( مایمسہ ) ہے ابو العالیہ کہتے ہیں یہاں پاک سے مراد صاف فرمایا آیت ( وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ02100 ) 26۔ الشعراء:210) یعنی اسے نہ تو شیطان لے کر اترا ہیں نہ ان کے یہ لائق نہ ان کی یہ مجال بلکہ وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ ہیں۔ یہی قول اس آیت کی تفسیر میں دل کو زیادہ لگتا ہے۔ اوراقوال بھی اس کے مطابق ہوسکتے ہیں۔ فراء نے کہا ہے اس کا ذائقہ اور اس کا لطف صرف باایمان لوگوں کو ہی میسر آتا ہے۔ بعض کہتے ہیں مراد جنابت اور حدث سے پاک ہونا ہے گو یہ خبر ہے لیکن مراد اس سے انشاء ہے۔ اور قرآن سے مراد یہاں پر مصحف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان ناپاکی کی حالت میں قرآن کو ہاتھ نہ لگائے ایک حدیث میں ہے حضور ﷺ نے قرآن ساتھ لے کر حربی کافروں کے ملک میں جانے سے منع فرمایا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اسے دشمن کچھ نقصان پہنچائے ( مسلم ) نبی ﷺ نے جو فرمان حضرت عمرو بن حرم کو لکھ کردیا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک۔ ( موطا مالک ) مراسیل ابو داؤد میں ہے زہری فرماتے ہیں میں نے خود اس کتاب کو دیکھا ہے اور اس میں یہ جملہ پڑھا ہے کو اس روایت کی بہت سی سندیں ہیں لیکن ہر ایک قابل غور ہے واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہے کہ یہ قرآن شعرو سخن جادو اور فن نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی جانب سے اترا ہے، یہ سراسر حق ہے بلکہ صرف یہی حق ہے اس کے سوا اس کے خلاف جو ہے باطل اور یکسر مردود ہے۔ پھر تم ایسی پاک بات کیوں انکار کرتے ہو ؟ کیوں اس سے ہٹنا اور یکسو ہوجانا چاہتے ہو ؟ کیا اس کا شکر یہی ہے کہ تم اسے جھٹلاؤ ؟ قبیلہ ازد کے کلام میں رزق و شکر کے معنی میں آتا ہے۔ مسند کی ایک حدیث میں بھی رزق کا معنی شکر کیا ہے۔ یعنی تم کہتے ہو کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہمیں پانی ملا اور فلاں ستارے سے فلاں چیز۔ ابن عباس فرماتے ہیں ہر بارش کے موقعہ پر بعض لوگ کفریہ کلمات بک دیتے ہیں کہ بارش کا باعث فلاں ستارہ ہے۔ موطا میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں تھے رات کو بارش ہوئی، صبح کی نماز کے بعد حضور ﷺ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا جانتے بھی ہو آج شب تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ لوگوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول ﷺ کو معلوم۔ آپ نے فرمایا سنو یہ فرمایا کہ آج میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ کافر ہوگئے اور بہت سے ایماندار بن گئے۔ جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل و کرم سے پانی برسا وہ میری ذات پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں سے کفر کرنے والا ہوا۔ اور جس نے کہا فلاں فلاں ستارے سے بارش برسی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور اس ستارے پر ایمان لایا۔ مسلم کی حدیث میں عموم ہے کہ آسمان سے جو برکت نازل ہوتی ہے وہ بعض کے ایمان کا اور بعض کے کفر کا باعث بن جاتی ہے۔ ہاں یہ خیال رہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر نے حضرت عباس سے پوچھا تھا کہ ثریا ستارہ کتنا باقی ہے ؟ پھر کہا تھا کہ اس علم والوں کا خیال ہے کہ یہ اپنے ساقط ہوجانے کے ہفتہ بھر بعد افق پر نمودار ہوتا ہے چناچہ یہی ہوا بھی کہ اس سوال جواب اور استسقاء کو سات روز گزرے تھے جو پانی برسا۔ یہ واقعہ محمول ہے عادت اور تجربہ پر نہ یہ کہ اس ستارے میں ہے اور اس ستارے کو ہی اثر کا موجد جانتے ہوں۔ اس قسم کا عقیدہ تو کفر ہے ہاں تجربہ سے کوئی چیز معلوم کرلینا یا کوئی بات کہہ دینا دوسری چیز ہے، اس بارے کی بہت سی حدیثیں آیت ( مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ للنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمْسِكْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) 35۔ فاطر:2) کی تفسیر میں گزر چکی ہیں۔ ایک شخص کو حضور ﷺ نے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ فلاں ستارے کے اثر سے بارش ہوئی تو آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تو اللہ کی برسائی ہوئی ہے، یہ رزق الٰہی ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے لوگوں کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے اگر سات سال قحط سالی رہے اور پھر اللہ اپنے فضل و کرم سے بارش برسائے تو بھی یہ جھٹ سے زبان سے نکالنے لگیں گے کہ فلاں تارے نے برسایا۔ مجاہد فرماتے ہیں اپنی روزی تکذیب کو ہی نہ بنا لو یعنی یوں نہ کہو کہ فلاں فراخی کا سبب فلاں چیز ہے بلکہ یوں کہو کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس یہ بھی مطلب ہے اور یہ بھی کہ قرآن میں ان کا حصہ کچھ نہیں بلکہ ان کا حصہ یہی ہے کہ یہ اسے جھوٹا کہتے رہیں اور اسی مطلب کی تائید اس سے پہلے کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 75{ فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ } ” پس نہیں ! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔ “ بعض مفسرین نے مَوٰقِعِ النُّجُوم کی وضاحت شہاب ثاقب کے حوالے سے کی ہے ‘ حالانکہ شہاب ثاقب بالکل مختلف چیز ہے اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اسے شیاطین کو عالم بالا سے مار بھگانے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ موجودہ دور میں سائنس کی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے اس آیت کو نسبتاً بہتر طور پر سمجھاجا سکتا ہے ‘ اگرچہ ابھی بھی اس کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہوا۔ یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ حلال و حرام ‘ جائز و ناجائز ‘ فرائض اور دین کے عملی پہلو سے متعلق قرآنی احکام کی تفہیم و تعمیل کے حوالے سے ہمیں راہنمائی کے لیے ” دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو ! “ کے مصداق پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں ہماری نظری و عملی اطاعت کا کمال یہ ہوگا کہ ہم اپنے اسلاف کا دامن تھامے رکھیں اور صحابہ کرام کے اتباع کو لازم جانیں۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے خود کو محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں پہنچا دیں ‘ بقول اقبال : ؎ بمصطفیٰ ﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بائو نہ رسیدی تمام بولہبی است !البتہ دوسری طرف کائنات کی تخلیق ‘ کائنات میں زندگی کی ابتدا ‘ تاریخی حوالہ جات اور سائنس کے مختلف شعبوں سے متعلق قرآنی آیات کی تشریح و تعبیر کے لیے ہمیں ہر دور کے اجتماعی انسانی شعور اور دستیاب حقائق و معلومات کو مدنظر رکھنا چاہیے ‘ پھر جہاں مناسب معلوم ہو ان معلومات سے استفادہ بھی کرنا چاہیے اور جب ممکن نظر آئے تکلف سے اجتناب کرتے ہوئے فطری انداز میں قرآنی الفاظ و معانی کا زمینی حقائق کے ساتھ تطابق ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ ایسی آیات کا جو مفہوم آج سے ہزار سال پہلے سمجھا گیا تھا آج ہم اس مفہوم کو ماننے اور درست جاننے کے پابند نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ایسی آیات کا تعلق حکمت سے ہے ‘ کسی حکم سے نہیں ہے۔ چناچہ حکمت اور سائنس کے میدان میں تو نئے نئے افق تلاش کرنے کے لیے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے ‘ لیکن احکام اور دین کے عملی پہلو کو سمجھنے ‘ سمجھانے کے لیے ماضی سے تعلق جوڑنے اور حضور ﷺ کے فرمان مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ کو مشعل راہ بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب آیئے آیت زیر مطالعہ کو موجودہ دور کی سائنسی معلومات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ موجودہ دور میں سائنس دانوں نے کائنات کے اندر ایسے بیشمار بڑے بڑے اندھے غاروں کا کھوج لگایا ہے جو اپنے پاس سے گزرنے والی ہرچیز کو نگل جاتے ہیں۔ سائنس دانوں نے ان ” غاروں “ کو Black Holes کا نام دیا ہے۔ ایسے کسی ایک بلیک ہول کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے اندر ہمارے سورج سے کروڑوں گنا بڑے ستارے پلک جھپکنے میں غائب ہوجاتے ہیں ‘ بلکہ ایسے کروڑوں ستاروں پر مشتمل کہکشائیں بھی ایسے بلیک ہولز کے اندر گم ہو کر معدوم ہوجاتی ہیں۔ سائنسی تحقیقات سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ کائنات کے اندر مسلسل نئے نئے ستارے جنم لے رہے ہیں اور نئی نئی کہکشائیں وجود میں آرہی ہیں ‘ جبکہ ساتھ ہی ساتھ بیشمار کہکشائیں اپنے اَن گنت ستاروں کے ساتھ مسلسل بلیک ہولز کی نذر ہو کر معدوم ہو رہی ہیں۔ اگرچہ کائنات کے اسرار و رموز سے متعلق آج بھی انسان کی معلومات بہت محدود ہیں لیکن پھر بھی بلیک ہولز کے متعلق اب تک حاصل ہونے والی یہ معلومات بہت ہوشربا ہیں۔ اب اگر ہم اپنی زمین کی جسامت اور وسعت کا نقشہ ذہن میں رکھیں ‘ پھر اس کے مقابلے میں سورج کی جسامت کا اندازہ کریں ‘ پھر یہ تصور کریں کہ کائنات میں ہمارے سورج سے کروڑوں گنا بڑے اربوں کھربوں ستارے بھی موجود ہیں اور ان ستاروں کے درمیان اربوں نوری سالوں کے فاصلے ہیں ‘ پھر یہ تصور کریں کہ ایسے اَن گنت ستاروں پر مشتمل ان گنت کہکشائیں ہیں ‘ اور ان کہکشائوں کے درمیانی فاصلے بھی اسی تناسب سے ہیں۔ کہکشائوں اور ستاروں سے متعلق یہ تمام معلومات ذہن میں رکھ کر اگر ہم کائنات کے طول و عرض میں موجود لاتعداد بلیک ہولز کا تصور کریں اور پھر یہ نقشہ ذہن میں لائیں کہ ان میں سے ایک ایک بلیک ہول اتنا بڑا ہے کہ وہ اپنے پاس سے گزرنے والی کسی بڑی سے بڑی کہکشاں کو آنِ واحد میں ایسے نگل جاتا ہے کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا اور پھر ان بلیک ہولز کا اطلاق مَوٰقِعِ النُّجُوْم پر کریں تو شاید ہمیں کچھ کچھ اندازہ ہوجائے کہ اس آیت میں جس قسم کا ذکر ہوا ہے وہ کتنی بڑی قسم ہے۔
Surah waqiah Ayat 75 meaning in urdu
پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں تاروں کے مواقع کی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- یہ سب جمع ہو کر بھی تم سے (بالمواجہہ) نہیں لڑ سکیں گے مگر بستیوں
- اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو بنایا۔
- خدا ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے
- طلاق (صرف) دوبار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں
- اور کیا تمہیں موسیٰ (کے حال) کی خبر ملی ہے
- ہم نے ان (حوروں) کو پیدا کیا
- اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ زمین میں دو
- غرض جب طالوت فوجیں لے کر روانہ ہوا تو اس نے (ان سے) کہا کہ
- خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا
- کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات نہ کرسکے (خدا
Quran surahs in English :
Download surah waqiah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah waqiah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter waqiah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers