Surah Qasas Ayat 77 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾
[ القصص: 77]
اور جو (مال) تم کو خدا نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی خدا نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو۔ اور ملک میں طالب فساد نہ ہو۔ کیونکہ خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
Surah Qasas Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی اپنے مال کو ایسی جگہوں اور راہوں پر خرچ کر، جہاں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، اس سے تیری آخرت سنورے گی اور وہاں اس کا تجھے اجر وثواب ملے گا۔
( 2 ) یعنی دنیا کے مباحات پر بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کر۔ مباحات دنیا کیا ہیں؟ کھانا پینا، لباس، گھر اور نکاح وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح تجھ پر تیرے رب کا حق ہے، اسی طرح تیرے اپنے نفس کا، بیوی بچوں کا اور مہمانوں وغیرہ کا بھی حق ہے، ہر حق والے کو اس کا حق دے۔
( 3 ) اللہ نے تجھے مال دے کر تجھ پر احسان کیا ہے تو مخلوق پر خرچ کرکے ان پر احسان کر۔
( 4 ) یعنی تیرا مقصد زمین میں فساد پھیلانا نہ ہو۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے بجائے بدسلوکی مت کر، نہ معصیتوں کا ارتکاب کر کہ ان تمام باتوں سے فساد پھیلتا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
قارون مروی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ ؑ کے چچا کا لڑکا تھا۔ اس کا نسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور موسیٰ ؑ کا نسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہیث۔ ابن اسحاق کی تحقیق یہ کہ یہ حضرت موسیٰ ؑ کا چچا تھا۔ لیکن اکثر علماء چچاکا لڑکا بتاتے ہیں۔ یہ بہت خوش آواز تھا، تورات بڑی خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے۔ لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ اللہ کا دشمن بھی منافق ہوگیا تھا۔ چونکہ بہت مال دار تھا اس لئے بھول گیا تھا اور اللہ کو بھول بیٹھا تھا۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی۔ اس کے بہت خزانے تھے۔ ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے ساتھ خچروں پر لادی جاتیں تو اس کے لئے ساٹھ پنج کلیاں خچر مقرر ہوتے، واللہ اعلم۔ قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑ نہیں اس قدر غرور نہ کر اللہ کا ناشکرا نہ ہو، ورنہ اللہ کی محبت سے دور ہوجاؤ گے۔ قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو اللہ کی نعمتیں تیرے پاس ہیں انہیں اللہ کی رضامندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں بھی تیرا حصہ ہوجائے۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش و عشرت کر ہی نہیں۔ نہیں اچھا کھا، پی، پہن اوڑھ جائز نعمتوں سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حلال چیزیں برت لیکن جہاں اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو نہ بھول وہاں اللہ کے حق بھی فراموش نہ کر۔ تیرے نفس کا بھی حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے۔ ہر حق دار کا حق ادا کر اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل ڈال اللہ کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آجا۔ اللہ فسادیوں سے محبت نہیں رکھتا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 77 وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰٹک اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ ” یہ دولت اللہ ہی کی دی ہوئی ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ اس کے راستے میں خرچ کر کے اپنے لیے توشۂ آخرت جمع کرنے کی کوشش کرو۔ اس ضمن میں سورة التوبة کی آیت 111 کے یہ الفاظ بھی مد نظر رہیں : اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ ط ”یقیناً اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی ‘ اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ “ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا ” کسی دولت مند شخص کے لیے یہ تیسری نصیحت ہے کہ جو دولت اللہ نے تمہیں دے رکھی ہے اس میں سے اپنی ذات پر بھی خرچ کرو۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے قارون بہت کنجوس تھا۔ اسے بس دولت جمع کرنے ہی کی فکر تھی ‘ دولت کو خرچ کرنے سے وہ گھبراتا تھا ‘ حتیٰ کہ اپنی ذاتی ضروریات کو بھی نظر انداز کردیتا تھا۔ اس سلسلے میں سورة الأعراف آیت 32 کے ان الفاظ میں بہت واضح راہنمائی موجود ہے : قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ط ”اے نبی ﷺ ! ان سے کہیں کہ کس نے حرام کی ہے وہ زینت جو اللہ نے نکالی ہے اپنے بندوں کے لیے ؟ اور کس نے حرام کی ہیں پاکیزہ چیزیں کھانے کی ؟ “ یعنی ایک خوشحال آدمی کو اچھا کھانے اور اچھا پہننے سے کس نے منع کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو رہبانیت اختیار کرنے کا حکم تو نہیں دیا ‘ بلکہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ اعتدال کی روش کو پسند فرماتے ہیں۔ چناچہ سورة الفرقان کی آیت 67 میں ” عباد الرحمن “ کے اوصاف میں سے ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے : وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔ ” اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں ‘ بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے “۔ بہر حال آیت زیر مطالعہ میں اس حکم کے ذریعے اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بغیر اپنے وسائل میں سے اپنی اور اپنے متعلقین کی ضروریات پر خرچ کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں چوتھی نصیحت یہ دی گئی ہے : وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ ” اللہ نے تمہیں دولت دی ہے تو یہ اللہ کا تم پر بہت بڑا احسان ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ تم بھی لوگوں پر احسان کرو اور اپنے بیگانے کی تفریق و تخصیص کیے بغیر غریبوں ‘ مسکینوں اور محتاجوں کی مدد کو اپنا شعار بناؤ۔ اس سلسلے میں سورة المعارج میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی ہے : وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّآءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ”اور وہ لوگ جن کے اموال میں ایک مقررہ حصہ ہے ‘ سائلوں اور ناداروں کا “۔ اور اب پانچویں نصیحت :وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ ” اپنے سیاق وسباق کے حوالے سے یہ بہت اہم ہدایت ہے۔ وہ کون سا فساد تھا جس میں قارون ملوث تھا ؟ یہ سمجھنے کے لیے مصر کے اس ماحول کا تصور کریں جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام دن رات ہمہ تن کار نبوت اور فرائضِ رسالت کی ادائیگی میں لگے ہوئے تھے۔ اس معاشرے کے کچھ لوگ تو آپ علیہ السلام کا ساتھ دے رہے تھے اور اس کام میں آپ علیہ السلام کا ہاتھ بٹانے کی کوشش میں تھے ‘ جبکہ کچھ دوسرے لوگ آپ علیہ السلام کی راہ میں روڑے اٹکانے اور آپ علیہ السلام کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ اس معاشرے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے جو خیر پیدا کرنا چاہتا تھا ‘ قارون اور اس کے گروہ کے لوگ مختلف حربوں سے اس خیر کا راستہ روکنے کی کوشش میں مصروف تھے ‘ اور یہی وہ ”فساد فی الارض “ ہے جس کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم رسول اللہ ﷺ کے مدنی دور کا جائزہ لیں تو مدینہ کے منافقین بھی آپ ﷺ کے مشن کے خلاف اسی طرح کی منفی سرگرمیوں میں مصروف عمل تھے۔ ان کی مفسدانہ سازشوں کا ذکر سورة البقرة میں اس طرح کیا گیا ہے : وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِلا قالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۔ اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار ! بلاشبہ وہی ہیں فساد کرنے والے ‘ لیکن وہ شعور نہیں رکھتے “۔ چناچہ کسی دینی جماعت یا تحریک کی اصلاحی اور انقلابی کوششوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اور ایسی جماعت کے نظم کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں کرنا گویا ” فساد فی الارض “ کے زمرے میں آتا ہے اور اللہ کو ایسے مفسد لوگ پسند نہیں ہیں۔ یعنی دین کی سربلندی کے لیے کی جانے والی کوشش کا حصہ بنو ‘ نہ کہ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرو۔ مندرجہ بالا ہدایات کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ انہیں ایک مرتبہ پھر سے دہرایا جائے : 1 لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ ” اپنی دولت پر اتراؤ مت ‘ یقیناً اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “ 2 وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰٹک اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ ” اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے دار آخرت حاصل کرنے کی کوشش کرو “ 3 وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا ” اور تم دنیا سے اپنا حصہ مت بھولو “ 4 وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ ” اور لوگوں کے ساتھ احسان کرو ‘ جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے “ 5 وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ ” اور زمین میں فساد مت مچاؤ ‘ یقیناً اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ “
وابتغ فيما آتاك الله الدار الآخرة ولا تنس نصيبك من الدنيا وأحسن كما أحسن الله إليك ولا تبغ الفساد في الأرض إن الله لا يحب المفسدين
سورة: القصص - آية: ( 77 ) - جزء: ( 20 ) - صفحة: ( 394 )Surah Qasas Ayat 77 meaning in urdu
جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا"
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- کہہ دو کہ بھلا دیکھو تو اگر اس کا عذاب تم پر (ناگہاں) آجائے رات
- اور ہم نے ہر اُمت کے لئے قربانی کا طریق مقرر کردیا ہے تاکہ جو
- اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا تو لائیں
- کہ وہی (مظفرو) منصور ہیں
- اے گروہِ جن وانس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے
- (اے پیغمبر) ان کے سوا اور عورتیں تم کو جائز نہیں اور نہ یہ کہ
- اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو
- اور (خدائے) پاک (ذات) کا ذکر کرتے رہتے ہیں
- ان کے قصے میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ (قرآن) ایسی بات نہیں ہے
- اور حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم
Quran surahs in English :
Download surah Qasas with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Qasas mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Qasas Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers