Surah Al Hajj Ayat 78 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ﴾
[ الحج: 78]
اور خدا (کی راہ) میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی (کسی بات) میں تنگی نہیں کی۔ (اور تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اُسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں۔ اور تم لوگوں کے مقابلے میں شاہد اور نماز پڑھو اور زکوٰة دو اور خدا کے دین کی (رسی کو) پکڑے رہو۔ وہی تمہارا دوست ہے۔ اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے
Surah Al Hajj Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) اس جہاد سے مراد بعض نے وہ جہاد اکبر لیا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفار و مشرکین سے کیا جاتا ہے اور بعض نے ادائے امر الٰہی کی بجاآوری، کہ اس میں بھی نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور بعض نے ہر وہ کوشش مراد لی ہے جو حق اور صداقت کے غلبے اور باطل کی سرکوبی اور مغلوبیت کے لئے کی جائے۔
( 2 ) یعنی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس کا متحمل نفس انسانی نہ ہو، ( ورنہ تھوڑی بہت محنت و مشقت تو ہر کام میں ہی اٹھانی پڑتی ہے ) بلکہ پچھلی شریعتوں کے بعض سخت احکام بھی اس نے منسوخ کر دیئے علاوہ ازیں بہت سی آسانیاں مسلمانوں کو عطا کر دیں جو پچھلی شریعتوں میں نہیں تھیں۔
( 3 ) عرب حضرت اسماعیل ( عليه السلام ) کی اولاد سے تھے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم ( عليه السلام ) عربوں کے باپ تھے اور غیر عرب بھی حضرت ابراہیم ( عليه السلام ) کو ایک بزرگ شخصیت کے طور پر اسی طرح احترام کرتے تھے، جس طرح بیٹے باپ کا احترام کرتے ہیں، اس لئے وہ تمام ہی لوگوں کے باپ تھے، علاوہ ازیں پیغمبر اسلام کے ( عرب ہونے کے ناطے سے ) حضرت ابراہیم ( عليه السلام ) باپ تھے، اس لئے امت محمدیہ کے بھی باپ ہوئے، اس لئے کہا گیا، یہ دین اسلام، جسے اللہ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے، تمہارے باپ ابراہیم ( عليه السلام ) کا دین ہے، اسی کی پیروی کرو۔
( 4 ) هو کا مرجع بعض کے نزدیک حضرت ابراہیم ( عليه السلام ) ہیں یعنی نزول قرآن سے پہلے تمہارا نام مسلم بھی حضرت ابراہیم ( عليه السلام ) ہی نے رکھا ہے اور بعض کے نزدیک، مرجع اللہ تعالٰی ہے۔ یعنی اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔
( 5 ) یہ گواہی، قیامت والے دن ہوگی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیت 143کا حاشیہ۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
سورة حج کو دوسجدوں کی فضلیت حاصل ہے اس دوسرے سجدے کے بارے میں دو قول ہیں۔ پہلے سجدے کی آیت کے موقعہ پر ہم نے وہ حدیث بیان کردی ہے جس میں ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا " سورة حج کو دو سجدوں سے فضیلت دی گئی جو یہ سجدے نہ کرے وہ یہ پڑھے ہی نہیں "۔ پس رکوع سجدہ عبادت اور بھلائی کا حکم کرکے فرماتا ہے۔ امت مسلمہ کو سابقہ امتوں پر فضیلت اپنے مال، جان اور اپنی زبان سے راہ اللہ میں جہاد کرو اور حق جہاد ادا کرو۔ جیسے حکم دیا ہے کہ اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے، اسی نے تمہیں برگزیدہ اور پسندیدہ کرلیا ہے۔ اور امتوں پر تمہیں شرافت و کرامت عزت و بزرگی عطا فرمائی۔ کامل رسول اور کامل شریعت سے تمہیں سربرآوردہ کیا، تمہیں آسان، سہل اور عمدہ دین دیا۔ وہ احکام تم پر نہ رکھے وہ سختی تم پر نہ کی وہ بوجھ تم پر نہ ڈالے جو تمہارے بس کے نہ ہوں جو تم پر گراں گزریں۔ جنہیں تم بجا نہ لاسکو۔ اسلام کے بعد سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ تاکید والا، رکن نماز ہے۔ اسے دیکھئے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہوں تو چار رکعت فرض اور پھر اگر سفر ہو تو وہ بھی دو ہی رہ جائیں۔ اور خوف میں تو حدیث کے مطابق صرف ایک ہی رکعت وہ بھی سواری پر ہو تو اور پیدل ہو تو، روبہ قلبہ ہو تو اور دوسری طرف توجہ ہو تو، اسی طرح یہی حکم سفر کی نفل نماز کا ہے کہ جس طرف سواری کا منہ ہو پڑھ سکتے ہیں۔ پھر نماز کا قیام بھی بوجہ بیماری کے ساقط ہوجاتا ہے۔ مریض بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹے لیٹے ادا کرلے۔ اسی طرح اور فرائض اور واجبات کو دیکھو کہ کس قدر ان میں اللہ تعالیٰ نے آسانیاں رکھی ہیں۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے میں یک طرفہ اور بالکل آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں۔ جب آپ نے حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ ؓ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو فرمایا تھا تو خوشخبری سنانا، نفرت نہ دلانا، آسانی کرنا سختی نہ کرنا اور بھی اس مضمون کی بہت سی حدیثیں ہیں۔ ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ تمہارے دین میں کوئی تنگی وسختی نہیں۔ ابن جریر ؒ فرماتے ہیں ملتہ کا نصب بہ نزع خفض ہے گویا اصل میں کملتہ ابیکم تھا۔ اور ہوسکتا ہے کہ الزموا کو محذوف مانا جائے اور ملتہ کو اس کا مفعول قرار دیا جائے۔ اس صورت میں یہ اسی آیت کی طرح ہوجائے گا دینا قیما الخ، اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے، ابراہیم ؑ سے پہلے۔ کیونکہ ان کی دعا تھی کہ ہم دونوں باپ بیٹوں کو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو مسلمان بنادے۔ لیکن امام ابن جریر ؒ فرماتے ہیں یہ قول کچھ جچتا نہیں کہ پہلے سے مراد حضرت ابراہیم ؑ کے پہلے سے ہو اس لئے کہ یہ تو ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اس امت کا نام اس قرآن میں مسلم نہیں رکھا۔ " پہلے سے " کے لفظ کے معنی یہ ہیں کہ پہلی کتابوں میں ذکر میں اور اس پاک اور آخری کتاب میں۔ یہی قول حضرت مجاہد ؒ وغیرہ کا ہے اور یہی درست ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے اس امت کی بزرگی اور فضیلت کا بیان ہے ان کے دین کے آسان ہونے کا ذکر ہے۔ پھر انہیں دین کی مزید رغبت دلانے کے لئے بتایا جارہا ہے کہ یہ دین وہ ہے جو ابراہیم خلیل اللہ ؑ لے کر آئے تھے پھر اس امت کی بزرگی کے لئے اور انہیں مائل کرنے کے لئے فرمایا جارہا ہے کہ تمہارا ذکر میری سابقہ کتابوں میں بھی ہے۔ مدتوں سے انبیاء کی آسمانی کتابوں میں تمہارے چرچے چلے آرہے ہیں۔ سابقہ کتابوں کے پڑھنے والے تم سے خوب آگاہ ہیں پس اس قرآن سے پہلے اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلم ہے اور خود اللہ کا رکھا ہوا ہے۔ نسائی میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ " جو شخص جاہلیت کے دعوے اب بھی کرے ( یعنی باپ دادوں پر حسب نسب پر فخر کرے دوسرے مسلمانوں کو کمینہ اور ہلکا خیال کرے ) وہ جہنم کا ایندھن " ہے۔ کسی نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ اگرچہ وہ روزے رکھتا ہو ؟ اور نمازیں بھی پڑھتا ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو۔ یعنی مسلمین، مومنین اور عباد اللہ۔ سورة بقرہ کی آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ 21 ۙ ) 2۔ البقرة :21) کی تفسیر میں ہم اس حدیث کو بیان کرچکے ہیں۔ پھر فرماتا ہے ہم نے تمہیں عادل عمدہ بہتر امت اسلئے بنایا ہے اور اس لئے تمام امتوں میں تمہاری عدالت کی شہرت کردی ہے کہ تم قیامت کے دن اور لوگوں پر شہادت دو۔ تمام اگلی امتیں امت محمد ﷺ کی بزرگی اور فضیلت کا اقرار کریں گی۔ کہ اس امت کو اور تمام امتوں پر سرداری حاصل ہے اس لئے ان کی گواہی اس پر معتبر مانی جائے گی۔ اس بارے میں کہ اس کے رسولوں نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچایا ہے، وہ تبلیغ کا فرض ادا کرچکے ہیں اور خود رسول ﷺ امت پر شہادت دیں گے کہ آپ نے انہیں دین پہنچا دیا اور حق رسالت ادا کردیا۔ اس بابت جتنی حدیثیں ہیں اور اس بارے کی جتنی تفسیر ہے وہ ہم سب کی سب سورة بقرہ کے سترھویں رکوع کی آیت ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا01403 ) 2۔ البقرة :143) کی تفسیر میں لکھ آئے ہیں۔ اس لئے یہاں اسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں وہیں دیکھ لی جائے۔ وہیں حضرت نوح ؑ اور ان کی امت کا واقعہ بھی بیان کردیا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان نعمت کا شکریہ تمہیں ضرور ادا کرنا چاہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ جو اللہ کے فرائض تم پر ہیں انہیں شوق خوشی سے بجا لاؤ خصوصا نماز اور زکوٰۃ کا پورا خیال رکھو۔ جو کچھ اللہ نے واجب کیا ہے اسے دلی محبت سے بجالاؤ اور جو چیزیں حرام کردیں ہیں اس کے پاس بھی نہ پھٹکو۔ پس نماز جو خالص رب کی ہے اور زکوٰۃ جس میں رب کی عبادت کے علاوہ مخلوق کے ساتھ احسان بھی ہے کہ امیر لوگ اپنے مال کا ایک حصہ فقیروں کو خوشی خوشی دیتے ہیں۔ ان کا کام چلتا ہے دل خوش ہوجاتا ہے۔ اس میں بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے بہت آسانی ہے حصہ کم بھی ہے اور سال بھر میں ایک ہی مرتبہ۔ زکوٰۃ کے کل احکام سورة توبہ کی آیت زکوٰۃ ( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 60 ) 9۔ التوبة:60) کی تفسیر میں ہم نے بیان کردئے ہیں وہیں دیکھ لئے جائیں۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اللہ پر پورا بھروسہ رکھو، اسی پر توکل کرو، اپنے تمام کاموں میں اس کی امداد طلب کیا کرو، ہر وقت اعتماد اس پر رکھو، اسی کی تائید پر نظریں رکھو۔ وہ تمہارا مولیٰ ہے، تمہارا حافظ ہے ناصر ہے، تمہیں تمہارے دشمنوں پر کامیابی عطا فرمانے والا ہے، وہ جس کا ولی بن گیا اسے کسی اور کی ولایت کی ضرورت نہیں، سب سے بہتر والی وہی ہے سب سے بہتر مددگار وہی ہے، تمام دنیا گو دشمن ہوجائے لیکن وہ سب قادر ہے اور سب سے زیادہ قوی ہے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت وہیب بن ورد سے مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم اپنے غصے کے وقت تو مجھے یاد کرلیا کر۔ میں بھی اپنے غضب کے وقت تجھے معافی فرما دیا کروں گا۔ اور جن پر میرا عذاب نازل ہوگا میں تجھے ان میں سے بچا لونگا۔ برباد ہونے والوں کے ساتھ تجھے برباد نہ کروں گا۔ اے ابن آدم جب تجھ پر ظلم کیا جائے تو صبروضبط سے کام لے، مجھ پر نگاہیں رکھ، میری مدد پر بھروسہ رکھ میری امداد پر راضی رہ، یاد رکھ میں تیری مدد کروں یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تو آپ اپنی مدد کرے۔ ( اللہ تعالیٰ ہمیں بھلائیوں کی توفیق دے اپنی امداد نصیب فرمائے آمین ) واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
ہُوَ اجْتَبٰٹکُمْ ” اب نبوت محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم ہوچکی ہے۔ آئندہ جبرائیل علیہ السلام کسی کے پاس وحی لے کر نہیں آئیں گے۔ انہوں نے جو وحی پہچانی تھی پہنچا دی ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام محمد ﷺ نے تم لوگوں تک پہنچا دیے ہیں۔ اب ان احکام کو ‘ اس دعوت کو تمام نوع انسانی تک پہنچانے کے لیے اللہ نے تمہارا انتخاب کیا ہے۔ تمام انسانوں میں سے تمہیں چن لیا گیا ہے ‘ اس عظیم الشان مشن کے لیے تمہارا سلیکشن ہوگیا ہے۔ چناچہ تم اپنے نصیب پر فخر کرو اور اس کام میں لگ جاؤ۔ ہُوَ سَمّٰٹکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ لا ”اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو ”مسلم “ کا خطاب دیا ہے اور تمہارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام نے بھی تمہارا یہی نام رکھا تھا۔ سورة البقرة ‘ آیت 128 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَص ” پروردگار ! ہمیں بھی اپنا فرمانبردار مسلم بنا کر رکھیو اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت مسلمہ اٹھائیو ! “لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ج ” یہ وہی مضمون ہے جو سورة البقرة کی آیت 143 میں آیا ہے : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط ”اور اے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول ﷺ تم پر گواہ ہو “۔ صرف یہ فرق ہے کہ وہاں پہلے امت کا ذکر ہے اور پھر رسول کا ‘ جبکہ یہاں پہلے رسول اور بعد میں امت کا ذکر ہے۔ پس اے اہل ایمان ! اس ذمہ داری کو اچھی طرح سے سمجھ لو اور اب بسم اللہ کرو ! قدم آگے بڑھاؤ ! اور دیکھو تمہارا سب سے پہلا قدم کون سا اٹھنا چاہیے : فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا باللّٰہِ ط ” اللہ تمہارا حمایتی اور پشت پناہ ہے ‘ تم اس کے دامن سے وابستہ ہوجاؤ۔ہُوَ مَوْلٰٹکُمْج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ ””مولیٰ “ کے مفہوم میں آقا ‘ حمایتی ‘ پشت پناہ ‘ ملجا و ماویٰ اور مرجع کے معانی شامل ہیں۔اس رکوع کے مضامین بہت اہم ہیں ‘ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس کے اہم نکات ایک دفعہ پھر ذہن میں تازہ کرلیے جائیں۔ اس رکوع میں پہلا سبق توحید سے متعلق ہے اور اس کالب لباب یہ ہے کہ ایک انسان کا مطلوب حقیقی ‘ محبوب حقیقی اور مقصود اصلی صرف اور صرف اللہ ہی ہو۔ اس کے بعد دوسرا نکتہ رسالت سے متعلق ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت تک رسالت کا سلسلہ صرف دو واسطوں پر مشتمل تھا ‘ یعنی رسول ملک اور رسول بشر۔ لیکن اب دورمحمدی ﷺ میں ایک تیسرے واسطے کا اضافہ کیا گیا اور امت مسلمہ کو بھی ایک مستقل کڑی کے طور پر رسالت کے سلسلۃ الذہب سنہری زنجیر میں منسلک کردیا گیا ہے۔ اس ذمہ داری کے لیے امت مسلمہ کے انتخاب کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس رکوع آیت 78 میں ہُوَ اجْتَبٰٹکُمْ کے الفاظ سے کیا ہے ‘ جبکہ قبل ازیں آیت 75 میں رسول ملک اور رسول بشر کے لیے ” اِصطِفاء “ کا لفظ استعمال ہوا ہے : اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط۔ اِصْطِفاء اور اِجْتِباء دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے آپس میں ملتے جلتے ہیں اور خود حضور ﷺ کے لیے محمد مصطفیٰ اور احمد مجتبیٰ بھی مستعمل ہیں۔ اس رکوع کا تیسرا مضمون ” شہادت علی الناس “ کے بارے میں ہے۔ اس ضمن میں سورة الحج کی آیت 78 کے الفاظ کی سورة البقرة کی آیت 143 کے الفاظ سے بہت قریبی مشابہت ہے ‘ بلکہ دونوں مقامات پر الفاظ ایک جیسے ہیں ‘ صرف ترتیب کا فرق ہے۔ سورة البقرة کی آیت 143 کے الفاظ یہ ہیں : لِتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط جبکہ سورة الحج کی آیت 78 میں الفاظ کی ترتیب یوں ہے : لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِج مضمون اور الفاظ کے اعتبار سے جو نسبت ان دو آیات کی آپس میں ہے بالکل وہی نسبت سورة النساء کی آیت 135 کے ان الفاظ : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ کی سورة المائدۃ کی آیت 8 کے ان الفاظ : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِز کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے امت مسلمہ پر شہادت علی الناس اور پیغام رسالت کی دعوت و تبلیغ کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ‘ جس کے بارے میں قیامت کے دن بہت سخت جواب دہی ہوگی۔ اس جواب دہی کے بارے میں سورة الأعراف کی یہ آیت بہت واضح ہے : فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ چناچہ وہاں امت مسلمہ سے بحیثیت مجموعی جواب طلبی ہوگی کہ تم لوگوں نے اپنی اس ذمہ داری کو کس حد تک نبھایا تھا ؟ یعنی جو دین تم لوگوں تک آخری نبی ﷺ کے ذریعے پہنچا تھا کیا تم لوگوں نے اسے پوری نوع انسانی تک پہنچا دیا تھا ؟ اور اگر یہ ذمہ داری امت نے کماحقہ پوری نہیں کی ہوگی تو پوری امت بحیثیت مجموعی مجرم قرار پائے گی۔ اور چونکہ آج امت مسلمہ مجموعی طور پر اپنی اس ذمہ داری کا حق ادا نہیں کر رہی ہے اس لیے اپنے اسی جرم کی پاداش میں اجتماعی طور پر ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔ اور بقول علامہ اقبالؔ آج اس کی کیفیت یہ ہے کہ : ع حمیت نام تھا جس کا ‘ گئی تیمور کے گھر سے !دنیا کی ذلت و خواری کی یہی سزا اس سے پہلے بنی اسرائیل کو ان کے اجتماعی جرائم کی پاداش میں مل چکی ہے ‘ جس کا ذکر سورة البقرة کی آیت 61 میں اس طرح آیا ہے : وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط۔ اس لیے کہ اجتماعی جرائم کی سزا قوموں کو دنیا میں ہی دے دی جاتی ہے۔ اُمت مسلمہ اجتماعی طور پر تو اس سلسلے میں قصور وار ہے ہی ‘ مگر اخروی محاسبے کے دوران ہر شخص اپنی انفرادی حیثیت میں بھی جواب دہ ہوگا۔ چناچہ اس کے لیے ہم میں سے ہر شخص کو فکر مندہونا چاہیے کہ وہ اپنے اوپر عائد ہونے والے اس فرض کو کس حد تک نبھا رہا ہے اور قیامت کے دن اس نے اس سلسلے میں کیا جواب دینا ہے۔ کیا وہ اپنی دنیا کی زندگی میں صرف دولت کمانے اور جائیدادیں بنانے کے ایک کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں پڑا رہا یا اس نے دعوت قرآن اور تبلیغ دین کے فریضہ کو ادا کرنے کی بھی کوشش کی اور اپنی دولت ‘ صلاحیتوں اور جان کی قربانیوں کے ذریعے استطاعت بھر اس کام میں بھی اپنا حصہ ڈالا ؟
وجاهدوا في الله حق جهاده هو اجتباكم وما جعل عليكم في الدين من حرج ملة أبيكم إبراهيم هو سماكم المسلمين من قبل وفي هذا ليكون الرسول شهيدا عليكم وتكونوا شهداء على الناس فأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة واعتصموا بالله هو مولاكم فنعم المولى ونعم النصير
سورة: الحج - آية: ( 78 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 341 )Surah Al Hajj Ayat 78 meaning in urdu
اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام "مسلم" رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- ابراہیم نے کہا کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے ہو
- اور تم ان سے اس (خیر خواہی) کا کچھ صلا بھی تو نہیں مانگتے۔ یہ
- دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے۔ اور اس (کی پیداوار) میں کسی طرح کی کمی
- کیوں جھوٹ (بنا کر) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو؟
- یا ان کے اعمال کے سبب ان کو تباہ کردے۔ اور بہت سے قصور معاف
- پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر
- اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰة کا حکم کرتے تھے اور اپنے پروردگار
- اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنایا
- اور جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے
- جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لئے (سراسر) لذت ہوگی
Quran surahs in English :
Download surah Al Hajj with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Hajj mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Hajj Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers