Surah Al Israa Ayat 60 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا﴾
[ الإسراء: 60]
جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارا پروردگار لوگوں کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور جو نمائش ہم نے تمہیں دکھائی اس کو لوگوں کے لئے آرمائش کیا۔ اور اسی طرح (تھوہر کے) درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی۔ اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو ان کو اس سے بڑی (سخت) سرکشی پیدا ہوتی ہے
Surah Al Israa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی لوگ اللہ کے غلبہ و تصرف میں ہیں اور جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ جو وہ چاہیں گے، یا مراد اہل مکہ ہیں کہ وہ اللہ کے زیر اقتدار ہیں، آپ بےخوفی سے تبلیغ رسالت کیجئے، وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ یا جنگ بدر اور فتح مکہ کے موقع پر جس طرح اللہ نے کفار مکہ کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا، اس کو واضح کیا جارہا ہے۔
( 2 ) صحابہ و تابعین( رضي الله عنهم ) نے اس رویا کی تفسیر عینی رؤیت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے، جو بہت سے کمزور لوگوں کے لئے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہوگئے۔ اور درخت سے مراد زَقُّومٌ ( تھوہر ) کا درخت ہے، جس کا مشاہدہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے شب معراج، جہنم میں کیا۔ الْمَلْعُونَةَ سے مراد، کھانے والوں پر یعنی جہنمیوں پر لعنت۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے کہ «إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ، طَعَامُ الأَثِيمِ» ( الدخان:44,43 )۔ ” زقوم کا درخت، گناہ گاروں کا کھانا ہے “۔
( 3 ) یعنی کافروں کے دلوں میں جو خبث و عناد ہے، اس کی وجہ سے، نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے، ان کی سرکشی و طغیانی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مقصد معراج اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے رسول ؑ کو تبلیغ دین کی رغبت دلا رہا ہے اور آپ کے بچاؤ کی ذمہ داری لے رہا ہے کہ سب لوگ اسی کی قدرت تلے ہیں، وہ سب پر غالب ہے، سب اس کے ماتحت ہیں، وہ ان سب سے تجھے بچاتا رہے گا۔ جو ہم نے تجھے دکھایا وہ لوگوں کے لیے ایک صریح آزمائش ہے۔ یہ دکھانا معراج والی رات تھا، جو آپ کی آنکھوں نے دیکھا۔ نفرتی درخت سے مراد زقوم کا درخت ہے۔ بہت سے تابعین اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا، مشاہدہ تھا جو شب معراج میں کرایا گیا تھا۔ معراج کی حدیثیں بہت پوری تفصیل کے ساتھ اس سورت کے شروع میں بیان ہوچکی ہیں۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ معراج کے واقعہ کو سن کے بہت سے مسلمان مرتد ہوگئے اور حق سے پھرگئے کیونکہ ان کی عقل میں یہ نہ آیا تو اپنی جہالت سے اسے جھوٹا جانا اور دین کو چھوڑ کر بیٹھے۔ ان کے برخلاف کامل ایمان والے اپنے یقین میں اور بڑھ گئے اور ان کے ایمان اور مضبوط ہوگئے۔ ثابت قدمی اور استقلال میں زیادہ ہوگئے۔ پس اس واقعہ کو لوگوں کی آزمائش اور ان کے امتحان کا ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کردیا۔ حضور ﷺ نے جب خبر دی اور قرآن میں آیت اتری کہ دوزخیوں کو زقوم کا درخت کھلایا جائے گا اور آپ نے اسے دیکھا بھی تو کافروں نے اسے سچ نہ مانا اور ابو جہل ملعون مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا لاؤ کجھور اور مکھن لاؤ اور اس کا زقوم کرو یعنی دونوں کو ملا دو اور خب شوق سے کھاؤ بس یہی زقوم ہے، پھر اس خوراک سے گھبرانے کے کیا معنی ؟ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد بنو امیہ ہیں لیکن یہ قول بالکل ضعیف اور غریب ہے۔ پہلے قول کے قائل وہ تمام مفسر ہیں جو اس آیت کو معراج کے بارے میں مانتے ہیں۔ جیسے ابن عباس مسروق، ابو مالک، حسن بصری وغیرہ۔ سہل بن سعید کہتے ہیں حضور ﷺ نے فلاں قبیلے والوں کو اپنے منبر پر بندروں کی طرح ناچتے ہوئے دیکھا اور آپ کو اس سے بہت رنج ہوا پھر انتقال تک آپ پوری ہنسی سے ہنستے ہوئے نہیں دکھائی دئے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ ( ابن جریر ) لیکن یہ سند بالکل ضعیف ہے۔ محمد بن حسن بن زبالہ متروک ہے اور ان کے استاد بھی بالکل ضعیف ہیں۔ خود امام ابن جریر ؒ کا پسندید قول بھی یہی ہے کہ مراد اس سے شب معراج ہے اور شجرۃ الزقوم ہے کیونکہ مفسرین کا اس پر اتفاق ہے۔ ہم کافروں کو اپنے عذابوں وغیرہ سے ڈرا رہے ہیں لیکن وہ اپنی ضد، تکبر، ہٹ دھرمی اور بےایمانی میں اور بڑھ رہے ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 60 وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاط بالنَّاسِ قرآن حکیم کی بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ‘ مثلاً : وَّاللّٰہُ مِنْ وَّرَآءِہِمْ مُّحِیْطٌ البروج ” اور اللہ ان کا ہر طرف سے احاطہ کیے ہوئے ہے “۔ یہ لوگ جب ایسی آیات سنتے ہیں تو ڈرنے کی بجائے فضول بحث پر اتر آتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے ؟ کہاں ہے اللہ ؟ ہمارا احاطہ کیوں کر ہوا ہے ؟اگر فلسفیانہ پہلو سے دیکھا جائے تو اس آیت میں ” حقیقت و ماہیت وجود “ کے موضوع سے متعلق اشارہ پایا جاتا ہے جو فلسفے کا مشکل ترین مسئلہ ہے اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا نہیں ہے یعنی ایک وجود خالق کا ہے وہ ہر جگہ ہر آن موجود ہے اور ایک وجود مخلوق یعنی اس کائنات کا ہے۔ اب خالق و مخلوق کے مابین ربط کیا ہے ؟ اس سلسلے میں کچھ لوگ ” ہمہ اوست “ Pantheism کے قائل ہوگئے۔ ان کے خیال کے مطابق یہ کائنات ہی خدا ہے خدا نے ہی کائنات کا روپ دھار لیا ہے جیسے خدا خود ہی انسانوں کا روپ دھار کر ” اوتار “ کی صورت میں زمین پر آجاتا ہے۔ یہ بہت بڑا کفر اور شرک ہے۔ دوسری طرف اگر یہ سمجھیں کہ اللہ کا وجود اس کائنات میں نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کا وجود کہیں الگ ہے اور وہ نعوذ باللہ کہیں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیں بس اس قدر سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کا وجودمطلق Absolute ہے۔ وہ حدود وقیود زمان و مکان کسی سمت یا جہت کے تصور سے ماوراء وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ یہاں پر لفظ ” رؤیا “ خواب کے معنی میں نہیں آیا بلکہ اس سے رُؤیت بصری مراد ہے۔ انسان اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھتا ہے اس پر بھی ” رؤیا “ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شب معراج میں حضور کو جو مشاہدات کرائے تھے اور جو نشانیاں آپ کو دکھائی تھیں ان کی تفصیل جب کفار مکہ نے سنی تو یہ معاملہ ان کے لیے ایک فتنہ بن گیا۔ وہ نہ صرف خود اس کے منکر ہوئے ‘ بلکہ اس کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر انہوں نے پوری شد و مد سے یہ پرچار شروع کردیا کہ محمد پر جنون کے اثرات ہوچکے ہیں معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ اس زمانے میں جب مکہ سے بیت المقدس پہنچنے میں پندرہ دن لگتے تھے یہ دعویٰ انتہائی ناقابل یقین معلوم ہوتا تھا کہ کوئی شخص راتوں رات نہ صرف بیت المقدس سے ہو آیا ہے بلکہ آسمانوں کی سیر بھی کر آیا ہے۔ چناچہ انہوں نے موقع غنیمت سمجھ کر اس موضوع کو خوب اچھالا اور مسلمانوں سے بڑھ چڑھ کر بحث مباحثے کیے۔ اس طرح نہ صرف یہ بات کفار کے لیے فتنہ بن گئی بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی ایک آزمائش قرار پائی۔ جب یہی ناقابل یقین بات ان لوگوں نے حضرت ابوبکر سے کی اور آپ سے تبصرہ چاہا تو آپ نے بلا توقف جواب دیا کہ اگر واقعی حضور نے ایسا فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے کیونکہ جب میں یہ مانتا ہوں کہ آپ کے پاس آسمانوں سے ہر روز فرشتہ آتا ہے تو مجھے آپ کا یہ دعویٰ تسلیم کرنے میں آخر کیونکر تامل ہوگا کہ آپ راتوں رات آسمانوں کی سیر کر آئے ہیں ! اسی بلا تامل تصدیق کی بنا پر اس دن سے حضرت ابوبکر کا لقب ” صدیق اکبر “ قرار پایا۔ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ اسی طرح جب قرآن میں زقوم کے درخت کا ذکر آیا اور اس کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ اس درخت کی جڑیں جہنم کی تہہ میں ہوں گی الصافات : 64 اور وہاں سے یہ جہنم کی آگ میں پروان چڑھے گا تو یہ بات بھی ان لوگوں کے لیے فتنے کا باعث بن گئی۔ بجائے اس کے کہ وہ لوگ اسے اللہ کی قدرت سمجھ کر تسلیم کرلیتے الٹے اس بات پر تمسخر اور استہزا کرنے لگے کہ آگ کے اندر بھلا درخت کیسے پیدا ہوسکتے ہیں ؟ انہیں کیا معلوم کہ یہ اس عالم کی بات ہے جس کے طبعی قوانین اس دنیا کے طبعی قوانین سے مختلف ہوں گے اور جہنم کی آگ کی نوعیت اور کیفیت بھی ہماری دنیا کی آگ سے مختلف ہوگی۔وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًاقرآن میں یہ سب باتیں انہیں خبردار کرنے کے لیے نازل ہوئی ہیں مگر یہ ان لوگوں کی بد بختی ہے کہ اللہ کی آیات سن کر ڈرنے اور ایمان لانے کی بجائے وہ مزید سرکش ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی سرکشی میں روز بروز مزید اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔
وإذ قلنا لك إن ربك أحاط بالناس وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس والشجرة الملعونة في القرآن ونخوفهم فما يزيدهم إلا طغيانا كبيرا
سورة: الإسراء - آية: ( 60 ) - جزء: ( 15 ) - صفحة: ( 288 )Surah Al Israa Ayat 60 meaning in urdu
یاد کرو اے محمدؐ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے اِن لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے، اِس کو اور اُس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے اِن لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا ہم اِنہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں، مگر ہر تنبیہ اِن کی سر کشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور اے قوم! میں اس (نصیحت) کے بدلے تم سے مال وزر کا خواہاں نہیں
- جب انہوں نے (اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو) ڈالا تو موسیٰ نے کہا کہ جو
- اور یہ بستیاں (جو ویران پڑی ہیں) جب انہوں نے (کفر سے) ظلم کیا تو
- اور اگر یہ چاہیں کہ تم کو فریب دیں تو خدا تمہیں کفایت کرے گا۔
- اور جنہوں نے برے کام کئے تو برائی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا۔ اور ان
- نٓ۔ قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم
- اور اس (جان بلب) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے
- جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے ان کو خدا بہشتوں میں جن
- یہ کہ کوئی شخص دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
- اور فرعون نے کہا کہ ہامان میرے لئے ایک محل بناؤ تاکہ میں (اس پر
Quran surahs in English :
Download surah Al Israa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Israa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Israa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers