Surah Al Anbiya Ayat 79 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ﴾
[ الأنبياء: 79]
تو ہم نے فیصلہ (کرنے کا طریق) سلیمان کو سمجھا دیا۔ اور ہم نے دونوں کو حکم (یعنی حکمت ونبوت) اور علم بخشا تھا۔ اور ہم نے پہاڑوں کو داؤد کا مسخر کردیا تھا کہ ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور جانوروں کو بھی (مسخر کردیا تھا اور ہم ہی ایسا) کرنے والے تھے
Surah Al Anbiya Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں، دوسرے شخص کے کھیت میں رات کو جا گھسیں اور اس کی کھیتی چر چگئیں۔ حضرت داؤد ( عليه السلام ) نے جو پیغمبر کے ساتھ حکمران بھی تھے فیصلہ دیا کہ بکریاں، کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہو جائے۔ حضرت سلیمان ( عليه السلام ) نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں، وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیتی بکری والے کے سپرد کر دی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اور دیکھ بھال کرکے، اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں آجائے جو بکریوں چرنے سے پہلے تھی تو کھیتی، کھیتی والے کو اور بکریاں، بکری والے کو واپس کر دی جائیں۔ پہلے فیصلے کے مقابل میں دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس میں کسی کو بھی اپنی چیز سے محروم ہونا نہیں پڑا۔ جب کہ پہلے فیصلے میں بکری والے اپنی بکریوں سے محروم کر دیئے گئے تھے۔ تاہم اللہ نے حضرت داؤد ( عليه السلام ) کی بھی تعریف کی اور فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کو ( یعنی داؤد عليه السلام اور سلیمان عليه السلام دونوں کو ) علم و حکمت سے نوازا تھا۔ بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ کسی ایک معاملے میں دو الگ الگ ( متضاد ) فیصلہ کرنے والے دو منصف، بیک وقت دونوں مصنفین ہو سکتے، ان میں ضرور ایک مصیب ( درست فیصلہ کرنے والا ) ہوگا اور دوسرا غلطی کر کے غلط فیصلہ کرنے والا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ غلطی سے غلط فیصلہ کرنے سے گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اسے ایک اجر ملے گا۔ کما فی الحدیث ( فتح القدیر )۔
( 2 ) اس سے مراد یہ نہیں کہ پہاڑ ان کی تسبیح کی آواز سے گونج اٹھتے تھے ( کیونکہ اس میں تو کوئی اعجاز ہی باقی نہیں رہتا )، ہر کہ و مہ کی اونچی آواز سے پہاڑوں میں گونج پیدا ہوسکتی ہے۔ بلکہ مطلب حضرت داود ( عليه السلام ) کی تسبیح کے ساتھ پہاڑوں کا بھی تسبیح پڑھان ہے۔ نیز یہ مجازاً نہیں حقیقتاً تھا۔
( 3 ) یعنی پرندے بھی داؤد ( عليه السلام ) کی سوز آواز سن کر اللہ کی تسبیح کرنے لگتے،والطیر یا تو مفتوح ہے اور اس کا عطف الجبال پر ہے یا پھر یہ مرفوع ہے اور خبر محذاوف کا مبتدا ہے یعنی والطیر مسخرات۔ مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی داؤد ( عليه السلام ) کے لئے مسخر کر دیئے گئے تھے ( فتح القدیر )
( 4 ) یعنی یہ تفہیم، ابتائے حکم اور تسخی، ان سب کے کرنے والے ہم ہی تھے، اس لئے ان میں کسی کو تعجب کرنے کی یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
ایک ہی مقدمہ میں داؤد ؑ اور سلیمان ؑ کے مختلف فیصلے۔ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں یہ کھیتی انگور کی تھی جس کے خوشے لٹک رہے تھے نفشت کے معنی ہیں رات کے وقت جانوروں کے چرنے کے۔ اور دن کے وقت چرنے کو عربی میں ہمل کہتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں اس باغ کو بکریوں نے بگاڑ دیا، حضرت داؤد ؑ نے یہ فیصلہ کیا کہ باغ کے نقصان کے بدلے یہ بکریاں باغ والے کو دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان ؑ نے یہ فیصلہ سن کر عرض کی کہ اے اللہ کے نبی ؑ اس کے سوا بھی فیصلے کی کوئی صورت ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا ؟ جواب دیا کہ بکریاں باغ والے کے حوالے کردی جائیں وہ ان سے فائدہ اٹھاتا رہے اور باغ بکری والے کو دے دیا جائے یہ اس میں انگور کی بیلوں کی خدمت کرے یہاں تک کہ بیلیں ٹھیک ٹھاک ہوجائیں انگور لگیں اور پھر اسی حالت پر آجائیں جس پر تھے تو باغ والے کو اس کا باغ سونپ دے اور باغ والا اسے اس کی بکریاں سونپ دے۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ ہم نے اس جھگڑے کا صحیح فیصلہ حضرت سلیمان ؑ کو سمجھا دیا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں حضرت داؤد ؑ کا یہ فیصلہ سن کر بکریوں والے اپنا سا منہ لے کر صرف کتوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے واپس جا رہے تھے حضرت سلیمان ؑ نے انہیں دیکھ کر دریافت کیا کہ تمہارا فیصلہ کیا ہوا ؟ انہوں نے خبردی تو آپ نے فرمایا اگر میں اس جگہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ دیتا بلکہ کچھ اور فیصلہ کرتا حضرت داؤد ؑ کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے انہیں بلوایا اور پوچھا کہ بیٹے تم کیا فیصلہ کرتے ؟ آپ نے وہی اوپر والا فیصلہ سنایا۔ حضرت مسروق ؒ فرماتے ہیں ان بکریوں نے خوشے اور پتے سب کھالئے تھے۔ تو حضرت داؤد ؑ کے فیصلے کے خلاف حضرت سلیمان ؑ نے فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کی بکریاں باغ والوں کو دے دی جائیں اور یہ باغ انہیں سونپا جائے جب تک باغ اپنی اصلی حالت پر آئے تب تک بکریوں کے بچے اور ان کا دودھ اور ان کا کل نفع باغ والوں کا۔ پھر ہر ایک کو ان کی چیز سونپ دی جائے۔ قاضی شریح ؒ کے پاس بھی ایک ایسا ہی جھگڑا آیا تو آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دن کو بکریوں نے نقصان پہنچایا ہے تب تو کوئی معاوضہ نہیں۔ اور اگر رات کو نقصان پہنچایا ہے تو بکریوں والے ضامن ہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت برا بن عازب ؓ کی اونٹنی کسی باغ میں چلی گئی اور وہاں باغ کا بڑا نقصان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ باغ والوں پر دن کے وقت باغ کی حفاظت ہے اور جو نقصان جانوروں سے رات کو ہو اس کا جرمانہ جانور والوں پر ہے اس حدیث میں علتیں نکالی گئی ہیں اور ہم نے کتاب الاحکام میں اللہ کے فضل سے اس کی پوری تفصیل بیان کردی ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ایاس بن معاویہ ؒ سے جب کہ قاضی بننے کی درخواست کی گئی تو وہ حسن ؒ کے پاس آئے اور روئے۔ پوچھا گیا کہ ابو سعید آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ اگر قاضی نے اجتہاد کیا پھر غلطی کی وہ جہنمی ہے اور جو خواہش نفس کی طرف جھک گیا وہ بھی جہنمی ہے ہاں جس نے اجتہاد کیا اور صحت پر پہنچ گیا وہ جنت میں پہنچا۔ حضرت حسن یہ سن کر فرمانے لگے سنو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی قضاۃ کا ذکر فرمایا ہے ظاہر ہے کہ انبیاء ( علیہم السلام ) اعلیٰ منصب پر ہوتے ہیں، ان کے قول سے ان لوگوں کی باتیں رد ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کی تعریف تو بیان فرمائی ہے لیکن حضرت داؤد ؑ کی مذمت بیان نہیں فرمائی۔ پھر فرمانے لگے سنو تین باتوں کا عہد اللہ تعالیٰ نے قاضیوں سے لیا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ منصفین شرع دینوی نفع کی وجہ سے بدل نہ دیں، دوسرے یہ کہ اپنے دلی ارادوں اور خواہشوں کے پیچھے نہ پڑجائیں، تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ( يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاس بالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ 26 ) 38۔ ص :26) یعنی اے داؤد ہم نے تجھے زمین کا خلیفہ بنایا ہے تو لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کرتا رہ خواہش کے پیچے نہ پڑ کہ اللہ کی راہ سے بہک جائے۔ اور ارشاد ہے آیت ( فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44 ) 5۔ المآئدہ :44) لوگوں سے نہ ڈرو مجھی سے ڈرتے رہا کرو اور فرمان ہے آیت ( وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا وَاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ 41 ) 2۔ البقرة :41) میری آیتوں کو معمولی نفع کی خاطر بیچ نہ دیا کرو۔ میں کہتا ہوں انبیاء ( علیہم السلام ) کی معصومیت میں اور ان کی منجانب اللہ ہر وقت تائید ہوتے رہنے میں تو کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ رہے اور لوگ تو صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جب حاکم اجتہاد اور کوشش کرے پھر صحت تک بھی پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ملتا ہے اور جب پوری کوشش کے بعد بھی غلطی کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ یہ حدیث صاف بتلا رہی ہے کہ حضرت ایاس ؒ کو جو وہم تھا کہ باوجود پوری جدوجہد کے بھی خطا کرجائے تو دوزخی ہے یہ غلط ہے، واللہ اعلم۔ سنن کی اور حدیث میں ہے قاضی تین قسم کے ہیں ایک جنتی دو جہنمی اور جس نے حق کو معلوم کرلیا اور اسی سے فیصلہ کیا وہ جنتی۔ اور جس نے جہالت کے ساتھ فیصلہ کیا وہ جہنمی اور جسنے حق کو جانتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دیا وہ بھی جہنمی۔ قرآن کریم کے بیان کردہ اس واقعے کے قریب ہی وہ قصہ ہے جو مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں دو عورتیں تھیں جن کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے بھیڑیا آکر ایک بچے کو اٹھا لے گیا اب ہر ایک دوسری سے کہنے لگی کہ تیرا بچہ گیا اور جو ہے وہ میرا بچہ ہے۔ آخر یہ قصہ حضرت داؤد ؑ کے سامنے پیش ہوا۔ آپ نے بڑی عورت کو ڈگری دے دی کہ یہ بچہ تیرا ہے یہ یہاں سے نکلیں راستے میں حضرت سلیمان ؑ تھے آپ نے دونوں کو بلایا اور فرمایا چھری لاؤ میں اس لڑکے کے دو ٹکڑے کرکے آدھا آدھا دونوں کو دے دیتا ہوں اس پر بڑی تو خاموش ہوگئی لیکن چھوٹی نے ہائے واویلا شروع کردیا کہ اللہ آپ پر رحم کرے آپ ایسا نہ کیجئے یہ لڑکا اسی بڑی کا ہے اسی کو دے دیجئے۔ حضرت سلیمان ؑ معاملے کو سمجھ گئے اور لڑکا چھوٹی عورت کو دلادیا۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے امام نسائی ؒ نے اس پر باب باندھا ہے کہ حاکم کو جائز ہے کہ اپنا فیصلہ اپنے دل میں رکھ کر حقیقت کو معلوم کرنے کے لئے اس کے خلاف کچھ کہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابن عساکر میں ہے کہ ایک خوبصورت عورت سے ایک رئیس نے ملنا چاہا لیکن عورت نے نہ مانا اسی طرح تین اور شخصوں نے بھی اس سے بدکاری کا ارادہ کیا لیکن وہ باز رہی۔ اس پر وہ رؤسا خار کھا گئے اور آپس میں اتفاق کرکے حضرت داؤد ؑ کی عدالت میں جاکر سب نے گواہی دی کہ وہ عورت اپنے کتے سے ایسا کام کرتی ہے چاروں کے متفقہ بیان پر حکم ہوگیا کہ اسے رجم کردیا جائے۔ اسی شام کو حضرت سلیمان ؑ اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر خود حاکم بنے اور چار لڑکے ان لوگوں کی طرح آپ کے پاس اس مقدمے کو لائے اور ایک عورت کی نسبت یہی کہا۔ حضرت سلیمان ؑ نے حکم دیا ان چاروں کو الگ الگ کردو۔ پھر ایک کو اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ اس کتے کا رنگ کیسا تھا ؟ اس نے کہا سیاہ۔ پھر دوسرے کو تنہا بلایا اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سرخ۔ تیسرے نے کہا خاکی۔ چوتھے نے کہا سفید آپ نے اسی وقت فیصلہ دیا کہ عورت پر یہ نری تہمت ہے اور ان چاروں کو قتل کردیا جائے۔ حضرت داؤد ؑ کے پاس بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا۔ آپ نے اسی وقت فی الفور ان چاروں امیروں کو بلایا اور اسی طرح الگ الگ ان سے اس کتے کا رنگ کی بابت سوال کیا۔ یہ گڑبڑا گئے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا۔ آپ کو ان کا جھوٹ معلوم ہوگیا اور حکم فرمایا کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ حضرت داؤد ؑ کو وہ نورانی گلا عطا فرمایا گیا تھا اور آپ ایسی خوش آوازی اور خلوص کے ساتھ زبور پڑھتے تھے کہ پرند بھی اپنی پرواز چھوڑ کر تھم جاتے تھے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے لگتے تھے اسی طرح پہاڑ بھی۔ ایک روایت میں ہے کہ رات کے وقت حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ تلاوت قرآن کریم کررہے تھے رسول اللہ ﷺ ان کی میٹھی رسیلی اور خلوص بھری آواز سن کر ٹھہر گئے اور دیر تک سنتے رہے پھر فرمانے لگے یہ تو آل داؤد کی آوازوں کی شیرینی دیئے گئے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو جب معلوم ہوا تو فرمانے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حضور ﷺ میری قرأت سن رہے ہیں تو میں اور بھی اچھی طرح پڑھتا۔ حضرت ابو عثمان نہدی ؓ فرماتے ہیں میں نے تو کسی بہتر سے بہتر باجے کی آواز میں بھی وہ مزہ نہیں پایا جو حضرت موسیٰ اشعری ؓ کی آواز میں تھا۔ پس اتنی خوش آوازی کو حضور ﷺ نے حضرت داؤد ؑ کی خوش آوازی کا ایک حصہ قرار دیا۔ اب سمجھ لیجئے کہ خود داؤد ؑ کی آواز کیسی ہوگی ؟ پھر اپنا ایک اور احسان بتاتا ہے کہ حضرت داؤد ؑ کو زرہیں بنانی ہم نے سکھا دی تھیں۔ آپ کے زمانے سے پہلے بغیر کنڈلوں اور بغیر حلقوں کی زرہ بنتی تھیں۔ کنڈلوں دار اور حلقوں والی زرہیں آپ نے ہی بنائیں۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ہم نے حضرت داؤد ؑ کے لئے لوہے کو نرم کردیا تھا کہ وہ بہترین زرہ تیار کریں اور ٹھیک انداز سے ان میں حلقے بنائیں۔ یہ زرہیں میدان جنگ میں کام آتی تھیں۔ پس یہ نعمت وہ تھی جس پر لوگوں کو اللہ کی شکرگزاری کرنی چاہے۔ ہم نے زورآور ہوا کو حضرت سلیمان ؑ کے تابع کردیا تھا جو انہیں ان کے فرمان کے مطابق برکت والی زمین یعنی ملک شام میں پہنچا دیتی تھی۔ ہمیں ہر چیز کا علم ہے۔ آپ اپنے تخت پر مع اپنے لاؤ لشکر اور سامان اسباب کے بیٹھ جاتے تھے۔ پھر جہان جانا چاہتے ہوا آپ کو آپ کے فرمان کے مطابق گھڑی بھر میں وہاں پہنچا دیتی۔ تخت کے اوپر سے پرند پر کھولے آپ پر سایہ ڈالتے جیسے فرمان ہے آیت ( فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَاۗءً حَيْثُ اَصَابَ 36ۙ ) 38۔ ص :36) یعنی ہم نے ہوا کو ان کا تابع کردیا کہ جہان پہنچنا چاہتے ان کے حکم کے مطابق اسی طرف نرمی سے لے چلتی۔ صبح شام مہینہ مہینہ بھر کی راہ کو طے کرلیتی۔ حضرت سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ چھ ہزار کرسی لگائی جاتی۔ آپ کے قریب مومن انسان بیٹھتے ان کے پیچھے مومن جن ہوتے۔ پھر آپ کے حکم سے سب پر پرند سایہ کرتے پھر حکم کرتے تو ہوا آپ کو لے چلتی۔ عبداللہ بن عبید بن عمیر ؒ فرماتے ہیں حضرت سلیمان ؑ کو حکم دیتے وہ مثل بڑے تودے کے جمع ہوجاتی گویا پہاڑ ہے پھر اس کے سب سے بلند مکان پر فرش افروز ہونے کا حکم دیتے پھر پہردار گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے فرش پر چڑھ جاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ آپ کو بلندی پر لے جاتی آپ اس وقت سرنیچا کرلیتے دائیں بائیں بالکل نہ دیکھتے اس میں آپ کی تواضع اور اللہ کی شکر گزاری مقصود ہوتی تھی۔ کیونکہ آپ کو اپنی فروتنی کا علم تھا۔ پھر جہاں آپ حکم دیتے وہیں ہوا آپ کو اتار دیتی۔ اسی طرح سرکش جنات بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے قبضے میں کردیئے تھے جو سمندروں میں غوطے لگا کرموتی اور جواہر وغیرہ نکال لایا کرتے تھے اور بھی بہت سے کام کاج کرتے تھے جیسے فرمان ہے آیت ( وَالشَّيٰطِيْنَ كُلَّ بَنَّاۗءٍ وَّغَوَّاصٍ 37ۙ ) 38۔ ص :37) ہم نے سرکش جنوں کو ان کا ماتحت کردیا تھا جو معمار تھے اور غوطہ خور۔ اور ان کے علاوہ اور شیاطین بھی ان کے ماتحت تھے جو زنجیروں میں بندھے رہتے تھے اور ہم ہی سلیمان کے حافظ ونگہبان تھے کوئی شیطان انہیں برائی نہ پہنچا سکتا تھا بلکہ سب کے سب ان کے ماتحت فرماں بردار اور تابع تھے کوئی ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکتا تھا کی آپ کی حکمرانی ان پر چلتی تھی جسے چاہتے قید کرلیتے جسے چاہتے آزاد کردیتے اسی کو فرمایا کہ اور جنات تھے جو جکڑے رہا کرتے تھے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 79 فَفَہَّمْنٰہَا سُلَیْمٰنَج ”فیصلے کے وقت حضرت سلیمان علیہ السلام بھی شہزادے کی حیثیت سے دربار میں موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقدمے کا ایک حکیمانہ حل ان کے ذہن میں ڈال دیا۔ چناچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس مسئلے کا حل یہ بتایا کہ بکریاں عارضی طور پر کھیتی والے کو دے دی جائیں ‘ وہ ان کے دودھ وغیرہ سے فائدہ اٹھائے۔ دوسری طرف بکریوں کے مالک کو حکم دیا جائے کہ وہ اس کھیتی کو دوبارہ تیار کرے۔ اس میں ہل چلائے ‘ بیج ڈالے ‘ آبپاشی وغیرہ کا بندوبست کرے۔ پھر جب فصل پہلے کی طرح تیار ہوجائے تو اسے اس کے مالک کے سپرد کر کے وہ اپنی بکریاں واپس لے لے۔وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ ط ”حضرت داؤد علیہ السلام کی آواز بہت اچھی تھی۔ اسی لیے لحن داؤدی کا تذکرہ آج بھی ضرب المثل کے انداز میں ہوتا ہے۔ چناچہ جب حضرت داؤد علیہ السلام اپنی دلکش آواز میں زبور کے مزامیر اللہ کی حمد کے نغمے الاپتے تو پہاڑ بھی وجد میں آکر آپ علیہ السلام کی آواز میں آواز ملاتے تھے اور اڑتے ہوئے پرندے بھی ایسے مواقع پر ان کے ساتھ شریک ہوجاتے تھے۔وَکُنَّا فٰعِلِیْنَ ”ظاہر ہے یہ سب اللہ ہی کی قدرت کے عجائبات تھے۔
ففهمناها سليمان وكلا آتينا حكما وعلما وسخرنا مع داود الجبال يسبحن والطير وكنا فاعلين
سورة: الأنبياء - آية: ( 79 ) - جزء: ( 17 ) - صفحة: ( 328 )Surah Al Anbiya Ayat 79 meaning in urdu
اُس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمانؑ کو سمجھا دیا، حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا داؤدؑ کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخّر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے، اِس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے
- غرض انہوں نے اس کو بڑی نشانی دکھائی
- ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر (قرین انصاف) کس کی شہادت ہے کہہ
- نوح نے کہا کہ پروردگار میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا
- اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا
- اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو
- مومنو! خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو۔ امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ
- جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو۔ یہاں تک کہ
- (اے محمدﷺ) یہ ہم تم کو (خدا کی) آیتیں اور حکمت بھری نصیحتیں پڑھ پڑھ
- اور جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے
Quran surahs in English :
Download surah Al Anbiya with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Al Anbiya mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Anbiya Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers