Surah Saba Ayat 23 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾
[ سبأ: 23]
اور خدا کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا تو کہیں گے تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے۔ (فرشتے) کہیں گے کہ حق (فرمایا ہے) اور وہ عالی رتبہ اور گرامی قدر ہے
Surah Saba Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ( جن کے لئے اجازت ہوجائے ) کا مطلب ہے انبیا اور ملائکہ وغیرہ یعنی یہی سفارش کرسکیں گے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے کہ کسی اور کی سفارش فائدے مند ہی ہوگی، نہ انہیں اجازت ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب ہے، مستحقین شفاعت۔ یعنی انبیا علیہم السلام وملائکہ اور صالحین صرف ان ہی کے حق میں سفارش کرسکیں گے جو مستحقین شفاعت ہوں گے کیوں کہ اللہ کی طرف سے ان ہی کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، کسی اور کے لئے نہیں۔ ( فتح القدیر ) مطلب یہ ہوا کہ انبیا علیہم السلام، ملائکہ اور صالحین کے علاوہ وہاں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا اور یہ حضرات بھی سفارش اہل ایمان گناہ گاروں کے لئے ہی کرسکیں گے، کافر ومشرک اور اللہ کے باغیوں کے لئے نہیں۔ قرآن کریم نے دوسرے مقام پر ان دونوں نکتوں کی وضاحت فرما دی ہے۔ «مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلا بِإِذْنِهِ» ( البقرة: 255 ) اور «وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى» ( الأنبياء: 28 )۔
( 2 ) اس کے مختلف تفسیریں کی گئی ہیں ۔ابن جریر اور ابن کثیر نے حدیث کے روشنی میں اس کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کی بابت کلام ( وحی ) فرماتا ہے تو آسمان ہر موجود فرشتے ہیبت اور خوف سے کانپ اٹھتے ہیں اور ان پر بے ہوشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔یوش آنے پر وہ پوچھتے ہیں تو عرش بردار فرشتے دوسرے فرشتوں کو؎ اور وہ اپنے سے نیچے والے فرشتوں کو بتلاتے ہیں اور اس طرح خبر پہلے آسمان کے فرشتوں تک پہنچ ھاتی ہے ۔( ابن کثیر )فزع میں سلب ماخذ ہے یعنی جب گبتاھٹ دور کع دی جاتی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
وحدہ لاشریک بیان ہو رہا ہے کہ اللہ اکیلا ہے، واحد ہے، احد ہے، فرد ہے، صمد ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بےنظیر، لاشریک اور بےمثیل ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساتھی نہیں، مشیر نہیں، وزیر نہیں، مددگار و پیشی بان نہیں۔ پھر ضد کرنے والا اور خلاف کہنے والا کہاں ؟ جن جن کو پکارا کرتے و پکار کر دیکھ لو معلوم ہوجائے گا کہ ایک ذرے کے بھی مختار نہیں۔ محض بےبس اور بالکل محتاج و عاجز ہیں، نہ زمینیوں میں ان کی کچھ چلے نہ آسمانوں میں جیسے اور آیت میں ہے کہ وہ ایک کھجور کے چھلکے کے سی مالک نہیں اور یہی نہیں کہ انہیں خود اختیاری حکومت نہ ہو نہ سہی شرکت کے طور پر ہی ہو نہیں شرکت کے طور پر بھی نہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے کسی کام میں مدد لیتا ہے۔ بلکہ یہ سب کے سب فقیر محتاج ہیں اس کے در کے غلام اور اس کے بندے ہیں، اس کی عظمت وکبریائی عزت و بڑائی ایسی ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش بغیر اس کی رضامندی کے بغیر کرسکے اور آیت میں ہے ( وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَـيْــــًٔا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَرْضٰى 26 ) 53۔ النجم:26) ، یعنی آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لئے لب ہلا نہیں سکتے مگر جس کے لئے اللہ اپنی رضامندی سے اجازت دے دے۔ ایک اور جگہ فرمان ہے ( وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ 28 ) 21۔ الأنبیاء :28) ، وہ لوگ صرف ان کی شفاعت کرسکتے ہیں جن کے لئے اللہ کی رضامندی ہو وہ تو خود ہی اس کے خوف سے تھرا رہے ہیں۔ تمام اولاد آدم کے سردار سب سے بڑے شفیع اور سفارشی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بھی جب قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لئے تشریف لے آئیں گے کہ اللہ تعالیٰ آئے اور مخلوق کے فیصلے کرے اس وقت کی نسبت آپ فرماتے ہیں میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا اللہ جانتا ہے کہ کب تک سجدے میں پڑا رہو گا اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا اے محمد ﷺ اپنا سر اٹھایئے آپ بات کیجئے آپ کی بات سنی جائے گی آپ مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ آپ شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔ رب کی عظمت کا ایک اور مقام بیان ہو رہا ہے کہ جب وہ اپنی وحی میں کلام کرتا ہے اور آسمانوں کے مقرب فرشتے اسے سنتے ہیں تو ہیبت سے کانپ اٹھتے ہیں اور غشی والے کی طرح ہوجاتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ ہٹ جاتی ہے۔ فزع کی دوسری قرأت فرغ بھی آئی ہے مطلب دونوں کا ایک ہے۔ تو اب آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں کہ اس وقت رب کا کیا حکم نازل ہوا ؟ پس اہل عرش اپنے پاس والوں کو وہ اپنے پاس والوں کو یونہی درجہ بدرجہ حکم پہنچا دیتے ہیں بلا کم وکاست ٹھیک ٹھیک اسی طرح پہنچا دیتے ہیں۔ ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب سکرات کا وقت آتا ہے۔ اس وقت مشرک یہ کہتے ہیں اور اسی طرح قیامت کے دن بھی جب اپنی غفلت سے چونکیں گے اور ہوش و حواس قائم ہوجائیں گے اس وقت یہ کہیں گے کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ جواب ملے گا کہ حق فرمایا، حق فرمایا اور جس چیز سے دنیا میں بےفکر تھے آج اس کے سامنے پیش کردی جائے گی۔ تو دلوں سے گھبراہٹ دور کئے جانے کے یہ معنی ہوئے کہ جب آنکھوں پر سے پردہ اٹھا دیا جائے گا اس وقت سب شک و تکذیب الگ ہوجائیں گے۔ شیطانی وساوس دور ہوجائیں گے اس وقت رب کے وعدوں کی حقانیت تسلیم کریں گے اور اس کی بلندی اور بڑائی کے قائل ہوں گے۔ پس نہ تو موت کے وقت کا اقرار نفع دے نہ قیامت کے میدان کا اقرار فائدہ پہنچائے۔ لیکن امام ابن جریر کے نزدیک پہلی تفسیر ہی راحج ہے یعنی مراد اس سے فرشتے ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے اور اس کی تائید احادیث و آثار سے بھی ہوتی ہے۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ آسمان میں کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں اور رب کا کلام ایسا واقع ہوتا ہے جیسے اس زنجیر کی آواز جو پتھر پر بجائی جاتی ہو جب ہیبت کم ہوجاتی ہے۔ تو پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے اس وقت کیا فرمایا ؟ جواب ملتا ہے کہ جو فرمایا حق ہے اور وہ اعلی و کبیر ہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جو جنات فرشتوں کی باتیں سننے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں اور جو تہ بہ تہ ایک دوسروں کے اوپر ہیں وہ کوئی کلمہ سن لیتے ہیں اوپر والا نیچے والے کو وہ اپنے سے نیچے والے کو سنا دیتا ہے اور وہ کاہنوں کے کانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ ان کے پیچھے فوراً ان کے جلانے کو آگ کا شعلہ لپکتا ہے لیکن کبھی کبھی تو وہ اس کے آنے سے پہلے ہی ایک دوسرے کو پہنچا دتا ہے اور کبھی پہنچانے سے پہلے ہی جلا دیا جاتا ہے۔ کاہن اس ایک کلمے کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پھیلاتا ہے۔ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ اس کے مرید بن جاتے ہیں کہ دیکھو یہ بات اس کے کہنے کے مطابق ہی ہوئی مسند میں ہے حضور ﷺ ایک مرتبہ صحابہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور زبردستی روشنی ہوگئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ جاہلیت میں تمہارا خیال ان ستاروں کے ٹوٹنے کی نسبت کیا تھا ؟ انہوں نے کہا ہم اس موقعہ پر سمجھتے تھے کہ یا تو کوئی بہت بڑا آدمی پیدا ہوا یا مرا۔ زہری سے سوال ہوا کہ کیا جاہلیت کے زمانے میں بھی ستارے جھڑتے تھے ؟ کہا ہاں لیکن کم۔ آپ کی بعثت کے زمانے سے ان میں بہت زیادتی ہوگئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا سنو انہیں کسی کی موت وحیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ بات یہ ہے کہ جب ہمارا رب تبارک و تعالیٰ کسی امر کا آسمانوں میں فیصلہ کرتا ہے تو حاملان عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں پھر ساتویں آسمان والے پھر چھٹے آسمان والے یہاں تک کہ یہ تسبیح آسمان دنیا تک پہنچتی ہے۔ پھر عرش کے آس پاس کے فرشتے عرش کے اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ؟ وہ انہیں بتاتے ہیں پھر ہر نیچے والا اوپر والے سے دریافت کرتا ہے اور وہ اسے بتاتا ہے یہاں تک کہ آسمان اول والوں کو خبر پہنچتی ہے۔ کبھی اچک لے جانے والے جنات اسے سن لیتے ہیں تو ان پر یہ ستارے جھڑتے ہیں تاہم جو بات اللہ کو پہچانی منظور ہوتی ہے اسے وہ لے اڑتے ہیں اور اس کے ساتھ بہت کچھ باطل اور جھوٹ ملا کر لوگوں میں شہرت دیتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی امر کی وحی کرتا ہے تو آسمان مارے خوف کے کپکپا اٹھتے ہیں اور فرشتے ہیبت زدہ ہو کر سجدے میں گرپڑتے ہیں۔ سب سے پہلے حضرت جبرائیل ؑ سر اٹھاتے ہیں اور اللہ کا فرمان سنتے ہیں پھر ان کی زبانی اور فرشتے سنتے ہیں اور وہ کہتے جاتے ہیں کہ اللہ نے حق فرمایا وہ بلندی اور بڑائی والا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کا امین فرشتہ جس کی طرف ہو اسے پہنچا دیتا ہے۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ یہ اس وحی کا ذکر ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد نبیوں کے نہ ہونے کے زمانے میں بندہ رہ کر پھر ابتداء ختم المرسلین ﷺ پر نازل ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ابتدائی وحی کے بھی اس آیت کے تحت میں داخل ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن آیت اس کو اور سب کو شامل ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 23 { وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ } ” اور نہ نفع دے گی اس کے ہاں کوئی سفارش مگر اسی کے حق میں جس کے لیے اس نے اجازت دی ہو۔ “ { حَتّٰٓی اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ } ” یہاں تک کہ جب گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے ان کے دلوں سے “ یہ فرشتوں کا حال بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کو کوئی حکم بھیجتا ہے تو اس کی عظمت اور جلالت کی وجہ سے ان پر دہشت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ پھر جب ان سے اس دہشت کا اثر زائل کردیا جاتا ہے تو : { قَالُوْا مَاذَالا قَالَ رَبُّکُمْ } ” وہ پوچھتے ہیں تمہارے ربّ نے کیا فرمایا تھا ؟ “ { قَالُوا الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ } ” وہ کہتے ہیں کہ اُس نے جو کچھ فرمایا ہے وہ حق ہے ‘ اور وہ بہت بلند وبالا ‘ بہت بڑا ہے۔ “
ولا تنفع الشفاعة عنده إلا لمن أذن له حتى إذا فزع عن قلوبهم قالوا ماذا قال ربكم قالوا الحق وهو العلي الكبير
سورة: سبأ - آية: ( 23 ) - جزء: ( 22 ) - صفحة: ( 431 )Surah Saba Ayat 23 meaning in urdu
اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی بجز اُس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو حتیٰ کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو وہ (سفارش کرنے والوں سے) پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جواب دیا وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے اور وہ بزرگ و برتر ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور پیغمبروں پر سلام
- قٓ۔ قرآن مجید کی قسم (کہ محمد پیغمبر خدا ہیں)
- دیکھو تم ایسے (صاف دل) لوگ ہو کہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہو حالانکہ
- تو آپ کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے نکلیں اور خود ان
- عصر کی قسم
- اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی
- نوح نے کہا کہ اس کو خدا ہی چاہے گا تو نازل کرے گا۔ اور
- اے پیغمبر! کافروں اور منافقوں سے لڑو۔ اور ان پر سختی کرو۔ اور ان کا
- اور پیغمبر کہیں گے کہ اے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا
- (اے محمد! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں
Quran surahs in English :
Download surah Saba with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saba mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saba Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers