Surah hashr Ayat 8 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ حشر کی آیت نمبر 8 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah hashr ayat 8 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ﴾
[ الحشر: 8]

Ayat With Urdu Translation

(اور) ان مفلسان تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دیئے گئے ہیں (اور) خدا کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور خدا اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں۔ یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں

Surah hashr Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اس میں مال فیء کا ایک صحیح ترین مصرف بیان کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی مہاجرین کی فضیلت، ان کے اخلاص اور ان کی راست بازی کی وضاحت ہے، جس کے بعد ان کے ایمان میں شک کرنا، گویا قرآن کا انکار ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


مال فے کے حقدار اوپر بیان ہوا تھا کہ فے کا مال یعنی کافروں کا جو مال مسلمانوں کے قبضے میں میدان جنگ میں لڑے بھڑے بغیر آگیا ہو اس کے مالک رسول اللہ ﷺ ہیں پھر آپ یہ مال کسے دیں گے ؟ اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس کے حق دار وہ غریب مہاجر ہیں جنہوں نے اللہ کو رضامند کرنے کے لئے اپنی قوم کو ناراض کرلیا یہاں تک کہ انہیں اپنا وطن عزیز اور اپنے ہاتھ کا مشکلوں سے جمع کیا ہوا مال وغیرہ سب چھوڑ چھاڑ کر چل دینا پڑا، اللہ کے دین اور اس کے رسول ﷺ کی مدد میں برابر مشغول ہیں، اللہ کے فضل و خوشنودی کے متلاشی ہیں، یہی سچے لوگ ہیں جنہوں نے اپنا فعل اپنے قول کے مطابق کر دکھایا، یہ اوصاف سادات مہاجرین میں تھے ؓ۔ پھر انصار کی مدح بیان ہو رہی ہے اور ان کی فضیلت شرافت کرم اور بزرگی کا اظہار ہو رہا ہے، ان کی کشادہ دلی، نیک نفسی، ایثار اور سخاوت کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے ہی دارالہجرت مدینہ میں اپنی بود و باش رکھی اور ایمان پر قیام رکھا، مہاجرین کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ ایمان لا چکے تھے بلکہ بہت سے مہاجرین سے بھی پہلے یہ ایمان دار بن گئے تھے۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر یہ روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں اپنے بعد کے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین اولین کے حق ادا کرتا رہے، ان کی خاطر مدارت میں کمی نہ کرے اور میری وصیت ہے کہ انصار کے ساتھ بھی نیکی اور بھلائی کرے جنہوں نے مدینہ میں جگہ بنائی اور ایمان میں جگہ حاصل کی، ان کے بھلے لوگوں کی بھلائیاں قبول کرے اور ان کی خطاؤں سے درگذر اور چشم پوشی کرلے۔ ان کی شرافت طبعی ملاحظہ ہو کر جو بھی راہ اللہ میں ہجرت کر کے آئے یہ اپنے دل میں اسے گھر دیتے ہیں اور اپنا جان و مال ان پر سے نثار کرنا اپنا فخر جانتے ہیں، مسند احمد میں ہے کہ مہاجرین نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ ہم نے تو دنیا میں ان انصار جیسے لوگ نہیں دیکھے تھوڑے میں سے تھوڑا اور بہت میں سے بہت برابر ہمیں دے رہے ہیں، مدتوں سے ہمارا کل خرچ اٹھا رہے ہیں بلکہ ناز برداریاں کر رہے ہیں اور کبھی چہرے پر شکن بھی نہیں بلکہ خدمت کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، دیتے ہیں اور احسان نہیں رکھتے کام کاج خود کریں اور کمائی ہمیں دیں، حضور ﷺ ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے اعمال کا سارا کا سارا اجر انہی کو نہ مل جائے۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں جب تک تم ان کی ثناء اور تعریف کرتے رہو گے اور ان کے لئے دعائیں مانگتے رہو گے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انصاریوں کو بلا کر فرمایا کہ میں بحرین کا علاقہ تمہارے نام لکھ دیتا ہوں، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم اسے نہ لیں گے آپ نے فرمایا اچھا اگر نہیں لیتے تو دیکھو آئندہ بھی صبر کرتے رہنا میرے بعد ایسا وقت بھی آئے گا کہ اوروں کو دیا جائے گا اور تمہیں چھوڑ دیا جائے گا، صحیح بخاری شریف کی اور حدیث میں ہے کہ انصاریوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمارے کھجوروں کے باغات ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کر دیجئے آپ نے فرمایا نہیں، پھر فرمایا سنو کام کاج بھی تم ہی کرو اور ہم سب کو تو پیداوار میں شریک رکھو، انصار نے جواب دیا یارسول اللہ ﷺ ہمیں یہ بھی بخوشی منظور ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ اپنے دلوں میں کوئی حسد ان مہاجرین کی قدر و منزلت اور ذکر و مرتبت پر نہیں کرتے، جو انہیں مل جائے انہیں اس پر رشک نہیں ہوتا، اسی مطلب پر اس حدیث کی دلالت بھی ہے جو مسند احمد میں حضرت انس ؓ کی روایت سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے، تھوڑی دیر میں ایک انصاری ؓ اپنے بائیں ہاتھ میں اپنی جوتیاں لئے ہوئے تازہ وضو کر کے آ رہے تھے داڑھی پر سے پانی ٹپک رہا تھا دوسرے دن بھی اسی طرح ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے یہی فرمایا اور وہی شخص اسی طرح آئے تیسرے دن بھی یہی ہوا حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص آج دیکھتے بھالتے رہے اور جب مجلس نبوی ختم ہوئی اور یہ بزرگ وہاں سے اٹھ کر چلے تو یہ بھی ان کے پیچھے ہو لئے اور انصاری سے کہنے لگے حضرت مجھ میں اور میرے والد میں کچھ بول چال ہوگئی ہے جس پر میں قسم کھا بیٹھا ہوں کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا پس اگر آپ مہربانی فرما کر مجھے اجازت دیں تو میں یہ تین دن آپ کے ہاں گذار دوں انہوں نے کہا بہت اچھا چناچہ حضرت عبداللہ ﷺ نے یہ تین راتیں ان کے گھر ان کے ساتھ گزاریں دیکھا کہ وہ رات کو تہجد کی لمبی نماز بھی نہیں پڑھتے صرف اتنا کرتے ہیں کہ جب آنکھ کھلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی بڑائی اپنے بستر پر ہی لیٹے لیٹے کرلیتے ہیں یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لئے اٹھیں ہاں یہ ضروری بات تھی کہ میں نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہیں سنا، جب تین راتیں گذر گئیں تو مجھے ان کا عمل بہت ہی ہلکا سا معلوم ہونے لگا اب میں نے ان سے کہا کہ حضرت دراصل نہ تو میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان کوئی ایسی باتیں ہوئی تھیں نہ میں نے ناراضگی کے باعث گھر چھوڑا تھا بلکہ واقعہ یہ ہوا کہ تین مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی شخص آ رہا ہے اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں کچھ دن رہ کر دیکھوں تو سہی کہ آپ ایسی کونسی عبادتیں کرتے ہیں جو جیتے جی بہ زبان رسول ﷺ آپ کے جنتی ہونے کی یقینی خبر ہم تک پہنچ گئی چناچہ میں نے یہ بہانہ کیا اور تین رات تک آپ کی خدمت میں رہا تاکہ آپ کے اعمال دیکھ کر میں بھی ویسے ہی عمل شروع کر دوں لیکن میں نے تو آپ کو نہ تو کوئی نیا اور اہم عمل کرتے ہوئے دیکھا نہ عبادت میں ہی اوروں سے زیادہ بڑھا ہوا دیکھا اب جا رہا ہوں لیکن زبانی ایک سوال ہے کہ آپ ہی بتایئے آخر وہ کونسا عمل ہے جس نے آپ کو رسول اللہ ﷺ کی زبانی جنتی بنایا ؟ آپ نے فرمایا بس تم میرے اعمال تو دیکھ چکے ان کے سوا اور کوئی خاص پوشیدہ عمل تو ہے نہیں چناچہ میں ان سے رخصت ہو کر چلا تھوڑی ہی دور نکلا تھا جو انہوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا ہاں میرا ایک عمل سنتے جاؤ وہ یہ کہ میرے دل میں کبھی کسی مسلمان سے دھوکہ بازی، حسد اور بغض کا ارادہ بھی نہیں ہوا میں کبھی کسی مسلمان کا بد خواہ نہیں بنا، حضرت عبداللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بس اب معلوم ہوگیا اسی عمل نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہر ایک کے بس کی نہیں۔ امام نسائی بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں اس حدیث کو لائے ہیں، غرض یہ ہے کہ ان انصار میں یہ وصف تھا کہ مہاجرین کو اگر کوئی مال وغیرہ دیا جائے اور انہیں نہ ملے تو یہ برا نہیں مانتے تھے، بنو نضیر کے مال جب مہاجرین ہی میں تقسیم ہوئے تو کسی انصاری نے اس میں کلام کیا جس پر آیت ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ للرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۘ ) 59۔ الحشر:7) اتری، آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے مہاجر بھائی مال و اولاد چھوڑ کر تمہاری طرف آتے ہیں انصار نے کہا پھر حضور ﷺ ہمارا مال ان میں اور ہم میں برابر بانٹ دیجئے آپ نے فرمایا اس سے بھی زیادہ ایثار کرسکتے ہو ؟ انہوں نے کہا جو حضور ﷺ کا ارشاد ہو آپ نے فرمایا مہاجر کھیت اور باغات کا کام نہیں جانتے تم آپ اپنے مال کو قبضہ میں رکھو خود کام کرو خود باغات میں محنت کرو اور پیداوار میں انہیں شریک کردو انصار نے اسے بھی بہ کشادہ پیشانی منظور کرلیا۔ پھر فرماتا ہے کہ خود کو حاجت ہونے کے باوجود بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی حاجت کو مقدم رکھتے ہیں اپنی ضرورت خواہ باقی رہ جائے۔ لیکن دوسرے مسلمان کی ضرورت جلد پوری ہوجائے یہ ان کی ہر وقت کی خواہش ہے، ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ جس کے پاس کمی اور قلت ہو خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی صدقہ کرے اس کا صدقہ افضل اور بہتر ہے۔ یہ درجہ ان لوگوں کے درجہ سے بھی بڑھا ہوا ہے جن کا ذکر اور جگہ ہے کہ مال کی چاہت کے باوجود اسے راہ اللہ خرچ کرتے ہیں لیکن یہ لوگ تو خود اپنی حاجت ہوتے ہوئے صرف کرتے ہیں، محبت ہوتی ہے اور حاجت نہیں ہوتی اس وقت کا خرچ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا کہ خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی راہ اللہ دے دینا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا صدقہ اسی قسم سے ہے کہ آپ نے اپنا کل مال لا کر اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے ڈھیر لگا دیا آپ نے پوچھا تبھی ابوبکر کچھ باقی بھی رکھ آئے ہو ؟ جواب دیا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو باقی رکھ آیا ہوں، اسی طرح وہ واقعہ ہے جو جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ اور ان کے ساتھیوں کو پیش آیا تھا کہ میدان جہاد میں زخم خوردہ پڑے ہوئے ہیں ریت اور مٹی زخموں میں بھر رہی ہے کہ کراہ رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، سخت تیز دھوپ پڑ رہی ہے، پیاس کے مارے حلق چیخ رہا ہے، اتنے میں ایک مسلمان کندھے پر مشک لٹکائے آجاتا ہے اور ان مجروح مجاہدین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ لیکن ایک کہتا ہے اس دوسرے کو پلاؤ دوسرا کہتا ہے اس تیسرے کو پہلے پلاؤ وہ ابھی تیسرے تک پہنچا بھی نہیں کہ ایک شہید ہوجاتا ہے، دوسرے کو دیکھتا ہے کہ وہ بھی پیاسا ہی چل بسا، تیسرے کے پاس آتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ وہ بھی سوکھے ہونٹوں ہی اللہ سے جا ملا۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں سے خوش ہو اور انہیں بھی اپنی ذات سے خوش رکھے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ ﷺ میں سخت حاجت مند ہوں مجھے کچھ کھلوایئے آپ نے اپنے گھروں میں آدمی بھیجا لیکن تمام گھروں سے جواب ملا کہ حضور ﷺ ہمارے پاس خود کچھ نہیں یہ معلوم کر کے پھر آپ نے اور لوگوں سے کہا کہ کوئی ہے جو آج کی رات انہیں اپنا مہمان رکھے ؟ ایک انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا حضور ﷺ میں انہیں اپنا مہمان رکھوں گا چناچہ یہ لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا دیکھو یہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان ہیں آج گو ہمیں کچھ بھی کھانے کو نہ ملے لیکن یہ بھوکے نہ رہیں بیوی صاحبہ نے کہا آج گھر میں بھی برکت ہے بچوں کے لئے البتہ کچھ ٹکڑے رکھے ہوئے ہیں انصاری نے فرمایا اچھا بچوں کو تو بھلا پھسلا کر بھوکا سلا دو اور ہم تم دونوں اپنے پیٹ پر کپڑا باندھ کر فاقے سے رات گذار دیں گے، کھاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ مہمان یہ سمجھے کہ ہم کھا رہے ہیں اور دراصل ہم کھائیں گے نہیں۔ چناچہ ایسا ہی کیا صبح جب یہ شخص انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کے اور اس کی بیوی کے رات کے عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوا اور ہنس دیا انہی کے بارے میں ( وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ ) 59۔ الحشر:9) نازل ہوئی، صحیح مسلم کی روایت ہے میں ان انصاری کا نام ہے حضرت ابو طلحہ ؓ۔ پھر فرماتا ہے جو اپنے نفس کی بخیلی حرص اور لالچ سے بچ گیا اس نے نجات پا لی۔ مسند احمد اور مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں لوگو ظلم سے بچو ! قیامت کے دن یہ ظلم اندھیرا بن جائے گا لوگو بخیلی اور حرص سے بچو یہی وہ چیز ہے جس نے تم سے پہلے لوگوں کو برباد کردیا اسی کی وجہ سے انہوں نے خونریزیاں کیں اور حرام کو حلال بنا لیا اور سند سے یہ بھی مروی ہے کہ فحش سے بچو۔ اللہ تعالیٰ فحش باتوں اور بےحیائی کے کاموں کو ناپسند فرماتا ہے، حرص اور بخیلی کی مذمت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اسی کے باعث اگلوں نے ظلم کئے فسق و فجور کئے اور قطع رحمی کی۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے اللہ کی راہ کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی بندے کے پیٹ میں جمع ہو ہی نہیں سکتا اسی طرح بخیلی اور ایمان بھی کسی بندہ کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے، یعنی راہ اللہ کی گرد جس پر پڑی وہ جہنم سے آزاد ہوگیا اور جس کے دل میں بخیلی نے گھر کرلیا اس کے دل میں ایمان کی رہنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی، حضرت عبداللہ ؓ کے پاس آ کر ایک شخص نے کہا اے ابو عبدالرحمٰن میں تو ہلاک ہوگیا آپ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا قرآن میں تو ہے جو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا دیا گیا اس نے فلاح پالی اور میں تو مال کو بڑا روکنے والا ہوں، خرچ کرتے ہوئے دل رکتا ہے آپ نے فرمایا اس کنجوسی کا ذکر اس آیت میں نہیں یہاں مراد بخیلی سے یہ ہے کہ تو اپنے کسی مسلمان بھائی کا مال ظلم سے کھاجائے، ہاں بخیلی بہ معنی کنجوسی بھی ہے بہت بری چیز ہے ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابو لہیاج اسدی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک صاحب صرف یہی دعا پڑھ رہے ہیں۔ ( دعا اللھم فی سخ نفسی ) الٰہی مجھے میرے نفس کی حرص و آڑ سے بچا لے آخر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا آپ صرف یہی دعا کیوں مانگ رہے ہیں ؟ اس نے کہا جب اس سے بچاؤ ہوگیا تو پھر نہ زنا کاری ہو سکے گی نہ چوری اور نہ کوئی برا کام اب جو میں نے دیکھا تو وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف تھے ؓ ( ابن جریر ) ایک حدیث میں ہے جس نے زکوٰۃ ادا کی اور مہمانداری کی اور اللہ کی راہ کے ضروری کاموں میں دیا وہ اپنے نفس کی بخیلی سے دور ہوگیا، پھر مال فے کے مستحقین لوگوں کی تیسری قسم کا بیان ہو رہا ہے کہ انصار اور مہاجر کے فقراء کے بعد ان کے تابع جو ان کے بعد کے لوگ ہیں ان میں سے مساکین بھی اس مال کے مستحق ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے سے اگلے باایمان لوگوں کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جیسے کہ سورة برات میں ہے ( وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ01000 )التوبة:100) یعنی اول اول سبقت کرنے والے مہاجر و انصار اور ان کے بعد کے وہ لوگ جو احسان میں ان کے متبع ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے خوش ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں یعنی یہ بعد کے لوگ ان اگلوں کے آثار حسنہ اور اوصاف جمیلہ کی اتباع کرنے والے اور انہیں نیک دعاؤں سے یاد رکھنے والے ہیں گویا ظاہر باطن ان کے تابع ہیں، اس دعا سے حضرت امام مالک ؒ نے کتنا پاکیزہ استدلال کیا ہے کہ رافضی کو مال فے سے امام وقت کچھ نہ دے کیونکہ وہ اصحاب رسول ﷺ کے لئے دعا کرنے کی بجائے انہیں گالیاں دیتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ان لوگوں کو دیکھو کس طرح قرآن کے خلاف کرتے ہیں قرآن حکم دیتا ہے کہ مہاجر و انصار کے لئے دعائیں کرو اور یہ گالیاں دیتے ہیں پھر یہی آیت آپ نے تلاوت فرمائی ( ابن ابی حاتم ) اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ میں نے تمہارے نبی ﷺ سے سنا ہے کہ یہ امت ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ ان کے پچھلے ان کے پہلوں کو لعنت کریں گے ( بغوی ) ابو داؤد میں ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ) 59۔ الحشر:6) میں جس مال فے کا بیان ہے وہ تو خاص رسول اللہ ﷺ کا ہے اسی طرح اس کے بعد کی ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ للرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۘ ) 59۔ الحشر:7) والی نے عام کردیا ہے تمام مسلمانوں کو اس میں شامل کرلیا ہے اب ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس کا حق اس مال میں نہ ہو سوائے تمہارے غلاموں کے، اس حدیث کی سند میں انتقطاع ہے، ابن جریر میں ہے حضرت عمر فاروق ؓ نے ( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 60؀ )التوبة:60) تک پڑھ کر فرمایا مال زکوٰۃ کے مستحق تو یہ لوگ ہیں پھر ( وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ 41؀ )الأنفال:41) والی پوری آیت کو پڑھ کر فرمایا مال غنیمت کے مستحق یہ لوگ ہیں پھر یہ ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ للرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ۘ ) 59۔ الحشر:7) پڑھ کر فرمایا مال فے کے مستحقین کو بیان فرماتے ہوئے اس آیت نے تمام مسلمانوں کو اس مال فے کا مستحق کردیا ہے، سب اس کے مستحق ہیں۔ اگر میں زندہ رہا تو تم دیکھو گے کہ گاؤں گوٹھوں کے چروا ہے کو بھی اس کا حصہ دوں گا جس کی پیشانی پر اس مال کے حاصل کرنے کے لئے پسینہ تک نہ آیا۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 8{ لِلْفُقَرَآئِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ } ” یہ خاص طور پر اُن تنگ دست مہاجرین کے لیے ہے جو نکال دیے گئے اپنے گھروں اور اپنے اموال سے “ { یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ ط } ” وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مدد کر رہے ہیں۔ “ { اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ۔ } ” یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔ “ یہاں سورة الحدید کی آیت 25 کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِط } یعنی حق و باطل کی کشمکش سے دراصل اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے ظاہر کردینا چاہتا ہے کہ کون لوگ غیب میں ہونے کے باوجود اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کے لیے جاں بکف ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں نہ صرف مال فے کی تقسیم کے حوالے سے فقراء مہاجرین کی ترجیح واضح کردی گئی بلکہ ان کی بےلوث قربانیوں کی تصدیق و توثیق بھی فرما دی گئی کہ یہ لوگ صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر گھروں سے نکلے ہیں۔ اب چونکہ ان کے پاس اپنی بنیادی ضروریات کے لیے بھی کچھ نہیں تو مال فے کی تقسیم میں ان کے لیے خصوصی حصہ رکھا جائے گا۔

للفقراء المهاجرين الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم يبتغون فضلا من الله ورضوانا وينصرون الله ورسوله أولئك هم الصادقون

سورة: الحشر - آية: ( 8 )  - جزء: ( 28 )  -  صفحة: ( 546 )

Surah hashr Ayat 8 meaning in urdu

(نیز وہ مال) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں یہی راستباز لوگ ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. یوسف نے دعا کی کہ پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس
  2. تاکہ جو ہم نے اُن کو بخشا ہے اُس کی ناشکری کریں اور فائدہ اٹھائیں
  3. وہ بولے کیا تم ہی یوسف ہو؟ انہوں نے کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں۔
  4. جو شخص خدا کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور
  5. کہ جو چیز تم پسند کرو گے وہ تم کو ضرور ملے گی
  6. پھر اگر وہ (خدا کی) پاکی بیان نہ کرتے
  7. وہ بہت سے تو اگلے لوگوں میں سے ہوں گے
  8. اور ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بڑی مصیبت سے نجات
  9. اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں
  10. جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) خدا کے رستے سے روکا وہ رستے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah hashr with the voice of the most famous Quran reciters :

surah hashr mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter hashr Complete with high quality
surah hashr Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah hashr Bandar Balila
Bandar Balila
surah hashr Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah hashr Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah hashr Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah hashr Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah hashr Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah hashr Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah hashr Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah hashr Fares Abbad
Fares Abbad
surah hashr Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah hashr Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah hashr Al Hosary
Al Hosary
surah hashr Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah hashr Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Sunday, December 22, 2024

Please remember us in your sincere prayers