Surah Nisa Ayat 82 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا﴾
[ النساء: 82]
بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے
Surah Nisa Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس میں غور وتدبر کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کی صداقت جانچنے کے لئے ایک معیار بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا ( جیسا کہ کفار کا خیال ہے ) تو اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض وتناقص ہوتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کوئی چھوٹی سی کتاب نہیں ہے۔ ایک ضخیم اور مفصّل کتاب ہے، جس کا ہر حصہ اعجاز وبلاغت میں ممتاز ہے۔ حالانکہ انسان کی بنائی ہوئی بڑی تصنیف میں زبان کا معیار اور اس کی فصاحت وبلاغت قائم نہیں رہتی۔ دوسرے، اس میں پچھلی قوموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ جنہیں اللہ علاّم الغیوب کے سوا کوئی اور بیان نہیں کر سکتا۔ تیسرے ان حکایات وقصص میں نہ باہمی تعارض وتضاد ہے اور نہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی جزئیہ قرآن کی کسی اصل سے ٹکراتا ہے۔ حالانکہ ایک انسان گزشتہ واقعات بیان کرے تو تسلسل کی کڑیاں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات میں تعارض وتضاد واقع ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم کے ان تمام انسانی کوتاہیوں سے مبرّا ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ یقیناً کلام الٰہی ہے جو اس نے فرشتے کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ( صلى الله عليه وسلم ) پر نازل فرمایا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کتاب اللہ میں اختلاف نہیں ہمارے دماغ میں فتور ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ قرآن کو غور و فکر تامل و تدبر سے پڑھیں اس سے تغافل نہ برتیں، بےپرواہی نہ کریں اس کے مستحکم مضامین اس کے حکمت بھرے احکام اس کے فصیح وبلیغ الفاظ پر غور کریں، ساتھ یہ خبر دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب اختلاف، اضطراب، تعارض اور تضاد سے پاک ہے اس لئے کہ حکم وحمید اللہ کا کلام ہے وہ خود حق ہے اور اسی طرح اس کا کلام بھی سراسر حق ہے، چناچہ اور جگہ فرمایا ( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا ) 47۔ محمد:24) یہ لوگ کیوں قرآن میں غور و خوض نہیں کرتے ؟ کیا ان کے دلوں پر سنگین قفل لگ گئے ہیں، پھر فرماتا ہے اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہ ہوتا جیسے کہ مشرکین اور منافقین کا زعم ہے یہ اگر یہ فی الحقیقت کسی کا اپنی طرف سے وضع کیا ہوا ہوتا یا کوئی اور اس کا کہنے والا ہوتا تو ضروری بات تھی کہ اس میں انسانی طبائع کے مطابق اختلاف ملتا، یعنی ناممکن ہے کہ انسانی اضطراب و تضاد سے مبرا ہو لازماً یہ ہوتا کہ کہیں کچھ کہا جاتا اور کہیں کچھ اور یہاں ایک بات کہی تو آگے جا کر اس کے خلاف بھی کہہ گئے۔ چناچہ عالموں کا قول بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہے ہیں ہم اس پر ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں یعنی محکم اور متشابہ کو محکم کی طرف لوٹا دیتے ہیں اور ہدایت پالیتے ہیں اور جن کے دلوں میں کجی ہے بدنیتی ہے وہ محکم متشابہ کی طرف موڑ توڑ کر کے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے صحیح مزاج والوں کی تعریف کی اور دوسری قسم کے لوگوں کی برائی بیان فرمائی عمرو بن شعیب سے مروی ہے عن ابیہ عن جدہ والی حدیث میں ہے کہ میں ہے کہ میں اور میرے بھائی ایک ایسی مجلس میں شامل ہوئے کہ اس کے مقابلہ میں سرخ اونٹوں کا مل جانا بھی اس کے پاسنگ برابر بھی قیمت نہیں رکھتا ہم دونوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ کے دروازے پر چند بزرگ صحابہ کھڑے ہوئے ہیں ہم ادب کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گئے ان میں قرآن کریم کی کسی آیت کی بابت مذاکرہ ہو رہا تھا جس میں اختلافی مسائل بھی تھے آخر بات بڑھ گئی اور زور زور سے آپس میں بات چیت ہونے لگی رسول اللہ ﷺ اسے سن کر سخت غضبناک ہو کر باہر تشریف لائے چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا ان پر مٹی ڈالتے ہوئے فرمانے لگے خاموش رہو تم سے اگلی امتیں اسی باعث تباہ و برباد ہوگئیں، کہ انہوں نے اپنے انبیاء سے اختلاف کیا اور کتاب اللہ کی ایک آیت کو دوسری آیت کے خلاف سمجھایاد رکھو قرآن کی کوئی آیت دوسری آیت کے خلاف اسے جھٹلانے والی نہیں بلکہ قرآن کی ایک ایک آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے تم جسے جان لو عمل کرو جسے نہ معلوم کرسکو اس کے جاننے والے کے لئے چھوڑ دو۔ دوسری آیت میں ہے کہ صحابہ تقدیر کے بارے میں مباحثہ کر رہے تھے، راہی کہتے ہیں کہ کاش کہ میں اس مجلس میں نہ بیٹھتا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ میں دوپہر کے وقت حاضر حضور ہوا تو بیٹھا ہی تھا کہ ایک آیت کے بارے میں دو شخصوں کے درمیان اختلاف ہوا ان کی آوازیں اونچی ہوئیں تو آپ نے فرمایا تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا باعث صرف ان کا کتاب اللہ کا اختلاف کرنا ہی تھا ( مسند احمد )۔ پھر ان جلد باز لوگوں کو روکا جا رہا ہے جو کسی امن یا خوف کی خبر پاتے ہی بےتحقیق بات ادھر سے ادھر تک پہنچا دیتے ہیں حالانکہ ممکن ہے وہ بالکل ہی غلط ہو، صحیح مسلم شریف میں ہے جو شخص کوئی بات بیان کرے اور وہ گمان کرتا ہو کہ یہ غلط ہے وہ بھی جھوٹوں میں کا ایک جھوٹا ہے، یہاں پر ہم حضرت عمر ؓ والی روایت کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ جب انہیں یہ خبری پہنچا کہحضور ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو آپ اپنے گھر سے چلے مسجد میں آئے یہاں بھی لوگوں کو یہی کہتے سنا تو بذات خود رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے اور خود آپ سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے ؟ کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ؟ آپ نے فرمایا غلط ہے چناچہ فاروق اعظم نے اللہ کی بڑائی بیان کی۔ صحیح مسلم میں ہے کہ پھر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر بہ آواز بلند فرمایا لوگو رسول مقبول ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پس حضرت عمر ؓ وہ ہیں جنہوں نے اس معاملہ کی تحقیق کی۔ علمی اصطلاح میں استنباط کہتے ہیں کسی چیز کو اس کے منبع اور مخزن سے نکالنا مثلاً جب کوئی شخص کسی کان کو کھود کر اس کے نیجے سے کوئی چیز نکالے تو عرب کہتے ہیں " استنبط الرجل " پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو تم سب کے سب سوائے چند کامل ایمان والوں کے شیطان کے تابعدار بن جاتے ایسے موقعوں پر محاورۃ معنی ہوتے ہیں کہ تم کل کے کل شامل ہو چناچہ عرب کے ایسے شعر بھی ہیں۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 82 اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط یہ قرآن پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں ‘ لیکن اس پر غور و فکر نہیں کرتے۔ نمازیں تو وہ پڑھتے تھے۔ اس وقت جو بھی منافق تھا اسے نماز تو پڑھنی پڑتی تھی ‘ ورنہ اس کو مسلمان نہ مانا جاتا۔ آج تو مسلمان مانے جانے کے لیے نماز ضروری نہیں ہے ‘ اس وقت تو ضروری تھی۔ بلکہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تو پہلی صف میں ہوتا تھا اور جمعہ کے روز تو خاص طور پر خطبے سے پہلے کھڑے ہو کر اعلان کرتا تھا کہ لوگو ان کی بات توجہ سے سنو ‘ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ گویا اپنی چودھراہٹ کے اظہار کے لیے یہ انداز اختیار کرتا۔ تو وہ نمازیں پڑھتے تھے ‘ قرآن سنتے تھے ‘ لیکن قرآن پر تدبر نہیں کرتے تھے۔ قرآن ان کے سروں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ یا ان کے ایک کان سے داخل ہو کر دوسرے کان سے نکل جاتا تھا۔ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا ۔اس پر غور کرو ‘ یہ بہت مربوط کلام ہے۔ اس کا پورا فلسفہ منطقی طور پر بہت مربوط ہے ‘ اس کے اندر کہیں کوئی تضاد نہیں ہے۔
أفلا يتدبرون القرآن ولو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا
سورة: النساء - آية: ( 82 ) - جزء: ( 5 ) - صفحة: ( 91 )Surah Nisa Ayat 82 meaning in urdu
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- تو (اے گروہ جن وانس) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ
- کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ
- اور کہنے لگے کہ جب ہم زمین میں ملیامیٹ ہوجائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا
- کہ خندقوں (کے کھودنے) والے ہلاک کر دیئے گئے
- اور جو پرہیزگار ہیں ان کی (سعادت اور) کامیابی کے سبب خدا ان کو نجات
- وہ پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے اور (مشرک) جو اس کے ساتھ شریک کرتے
- آج میں نے اُن کو اُن کے صبر کا بدلہ دیا، کہ وہ کامیاب ہوگئے
- اور اس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے
- خدا نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو اور ڈرنا مت۔ ہم اس کو ابھی اس
- کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اسی طرح کے سوال کرو، جس
Quran surahs in English :
Download surah Nisa with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Nisa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Nisa Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers