Surah Saffat Ayat 84 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾
[ الصافات: 84]
جب وہ اپنے پروردگار کے پاس (عیب سے) پاک دل لے کر آئے
Surah Saffat UrduTafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اب بھی سنبھل جاؤ۔ ابراہیم ؑ بھی نوح کے دین پر تھے، انہی کے طریقے اور چال چلن پر تھے۔ اپنے رب کے پاس سلامت دل لے گئے یعنی توحید والا جو اللہ کو حق جانتا ہو۔ قیامت کو آنے والی مانتا ہو۔ مردوں کو دوبارہ جینے والا سمجھتا ہو۔ شرک وکفر سے بیزار ہو، دوسروں پر لعن طعن کرنے والا نہ ہو۔ خلیل اللہ نے اپنی تمام قوم سے اور اپنے سگے باپ سے صاف فرمایا کہ یہ تم کس کی پوجا پاٹ کررہے ہو ؟ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت چھوڑ دو اپنے ان جھوٹ موٹھ کے معبودوں کی عبادت چھوڑ دو۔ ورنہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ کیا کچھ نہ کریگا اور تمہیں کیسی کچھ سخت ترین سزائیں دیگا ؟
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 84{ اِذْ جَآئَ رَبَّہٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ } ” جب وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا قلب ِسلیم کے ساتھ۔ “ توحید کی معرفت کے حوالے سے انسان کی فطر تِ سلیمہ اور عقل سلیم کا ذکر قرآن حکیم کے اس مطالعے کے دوران اس سے پہلے بھی متعدد بار ہوچکا ہے۔ فطرت کا تعلق چونکہ روح سے ہے اور روح کا مسکن قلب انسانی ہے اس لیے یوں سمجھ لیں کہ فطرتِ سلیمہ اور قلب سلیم انسان کی ایک ہی کیفیت کا نام ہے۔ یعنی انسانی دل کی وہ کیفیت جس میں اس کی روح اور فطرت اپنی اصلی حالت میں ہو ‘ اس کے اصل خدوخال صحیح سلامت ہوں ‘ اس پر غفلت اور مادیت کے پردے نہ پڑچکے ہوں اور وہ مسخ perverted نہ ہوچکی ہو۔ انسانی فطرت کی اس کیفیت کے لیے صوفیاء ” سیر الی اللہ “ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ایک انسان ایسے قلب سلیم کے ساتھ جب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو عقل سلیم کی روشنی میں اسے توحید کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر وہ اس سے آگے بڑھ کر ” معاد “ یعنی آخرت کے فلسفے کی تہہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس حوالے سے میں قبل ازیں متعدد بار سورة الفاتحہ کا حوالہ بھی دے چکا ہوں کہ سورة الفاتحہ ایک ایسے ہی انسان کی فطرت کی پکار ہے جو اللہ اور توحید کی معرفت بھی حاصل کرچکا ہے ‘ آخرت کی اہمیت و ضرورت کا بھی قائل ہوچکا ہے اور اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا ہے کہ ” اللہ کی بندگی “ ہی اصل طریقہ زندگی ہے ‘ مگر اسے یہ نہیں معلوم کہ اللہ کی بندگی کیسے کی جائے۔ حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے بہت سے ایسے ” موحدین “ مکہ میں موجود تھے۔ مثلاً حضرت عمر کے بہنوئی حضرت سعید رض کے والد زید ایک ایسے ہی موحد تھے جو کعبے کے پردوں سے لپٹ کر دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں صرف تیری بندگی کرنا چاہتا ہوں ‘ مگر میں نہیں جانتا کہ تیری بندگی کیسے کروں۔ سورة الفاتحہ کے نظم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی فطرتِ سلیمہ ہی کی پکار ہے جس کو قرآن نے { اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } کے الفاظ عطا کیے ہیں۔ یعنی فطرتِ سلیمہ کا حامل ایک انسان اپنی عقل سلیم کی مدد سے { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } تک پہنچ گیا۔ یعنی اس نے اللہ کو پہچان لیا ہے اور اس کے لیے شکر و ثنا کے جذبات کی کو نپلیں بھی اس کے دل میں پھوٹ پڑی ہیں۔ اس نے اپنے اللہ اور اپنے رب کو ایک { الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ } ذات کے طور پر بھی پہچان لیا ہے ‘ اسے { مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ } کا عرفان بھی حاصل ہوگیا ہے۔ گویا اس کی فطرتِ سلیمہ نے نہ صرف اسے آخرت کے احتساب کی ضرورت اور منطق بھی سمجھا دی ہے ‘ بلکہ یہ لطیف نکتہ بھی اس کے دل میں بٹھا دیا ہے کہ وہی اللہ جو ربّ العالمین ہے ‘ جس کی رحمت اور مہربانی سے اس کائنات کی ایک ایک چیز قائم ہے ‘ وہی اللہ احتساب اور بدلے کے دن کا مالک بھی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر گویا اس کی زبان بےاختیار { اِیَّاکَ نَعْبُدُ َواِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ } کا اقرار کرتی ہے ‘ مگر اس سے آگے اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اس کی فطرتِ سلیمہ اس راستے پر اسے صرف اسی مقام تک راہنمائی فراہم کرسکتی تھی اور اس کی عقل سلیم کی پرواز بس یہیں تک تھی۔ اس سے آگے نور وحی کی راہنمائی درکار ہے۔ چناچہ اس کے منہ میں یہ دعائیہ الفاظ ڈال دیے گئے : { اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } کہ اے اللہ ! اے ربّ العالمین ! اب تو خودہماری دستگیری فرما ! ہمیں اپنی بندگی کی ہدایت بھی دے اور اس رستے پر چلنے کے لیے مدد اور توفیق بھی مرحمت فرما ‘ تاکہ ہم تیری بندگی کا حق ادا کرسکیں۔ اس دعا کے جواب میں پھر قرآن کی صورت میں اسے یہ راہنمائی مہیاکر دی گئی۔
Surah Saffat Ayat 84 meaning in urdu
جب وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی
- اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے
- ہم اُن کے حالات تم سے صحیح صحیح بیان کرتے ہیں۔ وہ کئی جوان تھے
- بھلا تم لوگ دنیا کی زندگی میں تو ان کی طرف سے بحث کر لیتے
- اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کتاب کا نازل کیا جانا تمام جہان کے
- یہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے
- اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو
- اور ان پر صبح سویرے ہی اٹل عذاب آ نازل ہوا
- اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا اور اگر
- کیا ہم نے ان سے ٹھٹھا کیا ہے یا (ہماری) آنکھیں ان (کی طرف) سے
Quran surahs in English :
Download surah Saffat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Saffat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saffat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers