Surah Al Israa Ayat 85 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ اسراء کی آیت نمبر 85 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Al Israa ayat 85 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾
[ الإسراء: 85]

Ayat With Urdu Translation

اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے

Surah Al Israa Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) روح وہ لطیف شے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری ( صحيح بخاري، تفسير سورة بني إسرائيل ومسلم، كتاب صفة القيامة والجنة- والنار، باب سؤال اليهود النبي صلى الله عليه وسلم عن الروح ) آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا علم، اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے، اور یہ روح، جس کے بارے میں تم سے پوچھ رہے ہو، اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر ( حکم ) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


بخاری وغیرہ میں حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ مدینے کے کھیتوں میں جا رہے تھے آپ کے ہاتھ میں لکڑی تھی میں آپ کے ہمراہ تھا۔ یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ کو دیکھ کر آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ آؤ ان سے روح کی بابت سوال کریں۔ کوئی کہنے لگا اچھا، کسی نے کہا مت پوچھو۔ کوئی کہنے لگے تمہیں اس سے کیا نتیجہ کوئی کہنے لگا شاید کوئی جواب ایسا دیں جو تمہارے خلاف ہو۔ جانے دو نہ پوچھو۔ آخر وہ آئے اور حضرت سے سوال کیا اور آپ اپنی لکڑی پر ٹیک لگا کر ٹھہر گئے میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے خاموش کھڑا رہ گیا اس کے بعد آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ اس سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ پوری سورت مکی ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مکہ کی اتری ہوئی آیت سے ہی اس موقعہ پر مدینے کے یہودیوں کو جواب دینے کی وحی ہوئی ہو یا یہ کہ دوبارہ یہی آیت نازل ہوئی ہو۔ مسند احمد کی روایت سے بھی اس آیت کا مکہ میں اترنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قرشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کوئی مشکل سوال بتاؤ کہ ہم ان سے پوچھیں انہوں نے سوال سجھایا۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سرکش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے تورات ہمیں ملی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اسے بہت سی بھلائی مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت ( قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا01009 ) 18۔ الكهف :109) یعنی اگر تمام سمندروں کی سیاہی بن جائے اور اس سے کلمات الہٰی لکھنے شروع کئے جائیں تو یہ روشنائی سب خشک ہوجائے گی اور اللہ کے کلمات باقی رہ جائیں گے تو پھر تم اس کی مدد میں ایسے ہی اور بھی لاؤ۔ عکرمہ نے یہودیوں کے سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27؀ ) 31۔ لقمان:27) ، کا بیان فرمایا ہے یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمین اور روئے زمین کے سمندروں کی روشنائی اور ان کے ساتھ ہی ساتھ ایسے ہی اور سمندر بھی ہوں جب بھی اللہ کے علم کے مقابلہ میں بہت تھوڑی چیز ہے۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ عیہ نے ذکر کیا ہے کہ مکہ میں یہ آیت اتری کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو مدینے کے علماء یہود آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے سنا ہے آپ یوں کہتے ہیں کہ تمہیں تو بہت ہی کم عطا فرمایا گیا ہے اس سے مراد آپ کی قوم ہے یا ہم ؟ آپ نے فرمایا تم بھی اور وہ بھی۔ انہوں نے کہا سنو خود قرآن میں پڑھتے ہو کہ ہم کو توراۃ ملی ہے اور یہ بھی قرآن میں ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علم الہٰی کے مقابلے میں یہ بھی کم ہے۔ ہاں بیشک تمہیں اللہ نے اتنا علم دے رکھا ہے کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تمہیں بہت کچھ نفع ملے اور یہ آیت اتری ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27؀ ) 31۔ لقمان:27)۔ حضرت ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ یہودیوں نے حضور ﷺ سے روح کی بابت سوال کیا کہ اسی جسم کے ساتھ عذاب کیوں ہوتا ہے ؟ وہ تو اللہ کی طرف سے ہے چونکہ اس بارے میں کوئی آیت وحی آپ پر نہیں اتری تھی آپنے انہیں کچھ نہ فرمایا اسی وقت آپ کے پاس حضرت جبرائیل ؑ آئے اور یہ آیت اتری یہ سن کر یہودیوں نے کہا آپ کو اس کی خبر کس نے دی ؟ آپ نے فرمایا جبرائیل اللہ کی طرف سے یہ فرمان لائے وہ کہنے لگے وہ تو ہمارا دشمن ہے اس پر آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ 97؀ ) 2۔ البقرة :97) نازل ہوئی یعنی جبرائیل کے دشمن کا دشمن اللہ ہے اور ایسا شخص کافر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں روح سے مراد حضرت جبرائیل ؑ ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد ایک ایسا عظیم الشان فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کا ایک فرشتہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس سے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کو ایک لقمہ بنانے کو کہا جائے تو وہ بنا لے۔ اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اے اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے۔ یہ حدیث غریب ہے بلکہ منکر ہے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جس کے ستر ہزار منہ ہیں اور ہر منہ میں ستر ہزار زبانیں ہیں اور ہر زبان پر ستر ہزار لغت ہیں وہ ان تمام زبانوں سے ہر بولی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ اس کی ہر ایک تسبیح سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اور فرشتوں کے ساتھ اللہ کی عبادت میں قیامت تک اڑتا رہتا ہے۔ یہ اثر بھی عجیب و غریب ہے۔ واللہ اعلم۔ سہیلی کی روایت میں تو ہے کہ اس کے ایک لاکھ سر ہیں۔ اور ہر سر میں ایک لاکھ منہ ہیں اور ہر منہ میں ایک لاکھ زبانیں ہیں جن سے مختلف بولیوں میں وہ اللہ کی پاکی بیان کرتا رہتا ہے۔ یہ بھی کہا گاہے کہ مراد اس سے فرشتوں کی وہ جماعت ہے جو انسانی صورت پر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ وہ فرشتے ہیں کہ اور فرشتوں کو تو وہ دیکھتے ہیں لیکن اور فرشتے انہیں نہیں دیکھتے پس وہ فرشتوں کے لئے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے لئے یہ فرشتے۔ پھر فرماتا ہے کہ انہیں جواب دے کہ روح امر ربی ہے یعنی اس کی شان سے ہے اس کا علم صرف اسی کو ہے تم میں سے کسی کو نہیں تمہیں جو علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس وہ بہت ہی کم ہے مخلوق کو صرف وہی معلوم ہے جو اس نے انہیں معلوم کرایا ہے۔ خضر ؑ اور موسیٰ ؑ کے قصے میں آ رہا ہے کہ جب یہ دونوں بزرگ کشتی پر سوار ہو رہے تھے اس وقت ایک چڑیا کشتی کے تختے پر بیٹھ کر اپنی چونچ پانی میں ڈبو کر اڑ گئی تو جناب خضر نے فرمایا اے موسیٰ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم کے سامنے ایسا اور اتنا ہی ہے جتنا یہ چڑیا اس سمندر سے لے اڑی۔ ( او کما قال ) بقول سہیلی بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں ان کے سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ ان کا سوال ضد کرنے اور نہ ماننے کے طور پر تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب ہوگیا۔ مراد یہ ہے کہ روح شریعت الہٰی میں سے ہے تمہیں اس میں نہ جانا چاہے تم جان رہے ہو کہ اس کے پہچاننے کی کوئی طبعی اور علمی راہ نہیں بلکہ وہ شریعت کی جہت سے ہے پس تم شریعت کو قبول کرلو لیکن ہمیں تو یہ طریقہ خطرے سے خالی نظر نہیں آتا واللہ اعلم۔ پھر سہیلی نے اختلاف علماء بیان کیا ہے کہ روح نفس ہی ہے یا اس کے سوا۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے روح جسم میں مثل ہوا کے جاری ہے اور نہایت لطیف چیز ہے جیسے کہ درختوں کی رگوں میں پانی چڑھتا ہے اور فرشتہ جو روح ماں کے پیٹ میں بچے میں پھونکتا ہے وہ جسم کے ساتھ ملتے ہی نفس بن جاتی ہے اور جسم کی مدد سے وہ اچھی بری صفتیں اپنے اندر حاصل کرلیتی ہے یا تو ذکر اللہ کے ساتھ مطمئن ہونے والی ہوجاتی ہے یا برائیوں کا حکم کرنے والی بن جاتی ہے مثلا پانی درخت کی حیات ہے اس کے درخت سے ملنے کے باعث وہ ایک خاص بات اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے مثلا انگور پیدا ہوئے پھر ان کا پانی نکالا گیا یا شراب بنائی گئی پس وہ اصلی پانی اب جس صورت میں آیا اسے اصلی پانی نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح اب جسم کے اتصال کے بعد روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جاسکتا اسی طرح اسے نفس اس سے اور اس کے بدن کے ساتھ کے اتصال سے مرکب ہے۔ پس روح نفس ہے لیکن ایک وجہ سے نہ کہ تمام وجوہ سے۔ بات تو یہ دل کو لگتی ہے لیکن حقیقت کا علم اللہ ہی کو ہے۔ لوگوں نے اس بارے میں بہت کچھ کہا ہے اور بڑی بڑی مستقل کتابیں اس پر لکھی ہیں۔ اس مضمون پر بہترین کتاب حافظ ابن مندہ کی کتاب الروح ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًاروح کے بارے میں یہ سوال ان تین سوالات میں سے تھا جو ایک مرتبہ مدینہ کے یہودیوں نے قریش مکہ کے ذریعے رسول اللہ سے پوچھ بھیجے تھے۔ ان میں سے ایک سوال اصحاب کہف کے بارے میں تھا اور دوسرا ذوالقرنین کے بارے میں۔ ان دونوں سوالات کے تفصیلی جوابات سورة الكهف میں دیے گئے ہیں مگر روح کے متعلق سوال کا انتہائی مختصر جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔اس بارے میں یہاں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے اور عالم امر چونکہ عالم غیب ہے اس لیے اس کے بارے میں تم لوگ کچھ نہیں جان سکتے۔ انسان کے علم کا ذریعہ اس کے حواس ہیں اور اپنے ان حواس کے ذریعے وہ صرف عالم خلق کی چیزوں کے بارے میں جان سکتا ہے عالم غیب عالم امر تک اس کا علم رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ چناچہ عالم غیب کی باتوں کو اسے ویسے ہی ماننا ہوگا جیسے قرآن اور رسول کے ذریعے سے بتائی گئی ہوں۔ اسی کا نام ایمان بالغیب ہے جس کا ذکر قرآن مجید کے آغاز میں ہی کردیا گیا ہے : الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ البقرۃ قبل ازیں سورة الأعراف کی آیت 54 اور سورة النحل کی آیت 40 کی تشریح کے ضمن میں عالم خلق اور عالم امر کے بارے میں تفصیلی بحث کی جاچکی ہے۔ وہاں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ فرشتوں انسانی ارواح اور وحی کا تعلق عالم امر سے ہے۔

ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا

سورة: الإسراء - آية: ( 85 )  - جزء: ( 15 )  -  صفحة: ( 290 )

Surah Al Israa Ayat 85 meaning in urdu

یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں کہو "یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے"


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں
  2. اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم! خدا نے تم کو برگزیدہ کیا
  3. اور یہ کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس سے اہل زمین کے حق میں برائی
  4. اور تم تو ان کو سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہو
  5. تو ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایمان نہیں لاتے
  6. اور (کفر کرنے والوں کی) کوئی بستی نہیں مگر قیامت کے دن سے پہلے ہم
  7. یا جب ان کو عذاب کا ڈر پیدا ہوگیا ہو تو ان کو پکڑلے۔ بےشک
  8. اور (یہ) خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تم ان کو حکم
  9. جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں
  10. اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار کر کہیں گے کہ جو وعدہ ہمارے پروردگار نے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Al Israa with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Al Israa mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Israa Complete with high quality
surah Al Israa Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Al Israa Bandar Balila
Bandar Balila
surah Al Israa Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Al Israa Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Al Israa Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Al Israa Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Al Israa Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Al Israa Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Al Israa Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Al Israa Fares Abbad
Fares Abbad
surah Al Israa Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Al Israa Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Al Israa Al Hosary
Al Hosary
surah Al Israa Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Al Israa Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Tuesday, May 14, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب