Surah kahf Ayat 85 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ کہف کی آیت نمبر 85 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah kahf ayat 85 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿فَأَتْبَعَ سَبَبًا﴾
[ الكهف: 85]

Ayat With Urdu Translation

تو اس نے (سفر کا) ایک سامان کیا

Surah kahf Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) دوسرے سبب کے معنی راستے کے کئے گئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل سے مزید وسائل تیار اور مہیا کئے، جس طرح اللہ کے پیدا کردہ لوہے سے مختلف قسم کے ہتھیار اور اسی طرح دیگر خام مواد سے بہت سی اشیاء بنائی جاتی ہیں۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


ذوالقرنین کا تعارف۔ذوالقرنین ایک راہ لگ گئے زمین کی ایک سمت یعنی مغربی دانب کوچ کردیا۔ جو نشانات زمین پر تھے ان کے سہارے چل کھڑے ہوئے۔ جہاں تک مغربی رخ چل سکتے تھے چلتے رہے یہاں تک کہ اب سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچ گے۔ یہ یاد رہے کہ اس سے مراد آسمان کا وہ حصہ نہیں جہاں سورج غروب ہوتا ہے کیونکہ وہاں تک تو کسی کا جانا ناممکن ہے۔ ہاں اس رخ جہاں تک زمین پر جانا ممکن ہے۔ حضرت ذوالقرنین پہنچ گئے۔ اور یہ جو بعض قصے مشہور ہیں کہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ سے بھی آپ تجاوز کر گئے اور سورج مدتوں ان کی پشت پر غروب ہوتا رہا یہ بےبنیاد باتیں ہیں اور عموما اہل کتاب کی خرافات ہیں اور ان میں سے بھی بددینوں کی گھڑنت ہیں اور محض دروغ بےمروغ ہیں۔ الغرض جب انتہائے مغرب کی سمت پہنچ گئے تو یہ معلوم ہوا کہ گویا بحر محیط میں سورج غروب ہو رہا ہے۔ جو بھی کسی سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو غروب ہوتے ہوئے دیکھے گا تو بظاہر یہی منظر اس کے سامنے ہوگا کہ گویا سورج پانی میں ڈوب رہا ہے۔ حالانکہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس سے الگ کبھی نہیں ہوتا حمئۃ یا تو مشتق ہے حماۃ سے یعنی چکنی مٹی۔ آیت قرآنی ( وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 28؀ ) 15۔ الحجر:28) میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ یہی مطلب ابن عباس ؓ سے سن کر حضرت نافع نے سنا کہ حضرت کعب ؒ فرماتے تھے تم ہم سے زیادہ قرآن کے عالم ہو لیکن میں تو کتاب میں دیکھتا ہوں کہ وہ سیاہ رنگ مٹی میں غائب ہوجاتا تھا۔ ایک قرأت میں فی عین حامیۃ ہے یعنی گرم چشمے میں غروب ہونا پایا۔ یہ دونوں قرأتیں مشہور ہیں اور دونوں درست ہیں خواہ کوئی سی قرأت پڑھے اور ان کے معنی میں بھی کوئی تفاوت نہیں کیونکہ سورج کی نزدیکی کی وجہ سے پانی گرم ہو اور وہاں کی مٹی کے سیاہ رنگ کی وجہ سے اس کا پانی کیچڑ جیسا ہی ہو۔ حضور ﷺ نے ایک مرتبہ سورج کو غروب ہوتے دیکھ کر فرمایا اللہ کی بھڑکی آگ میں اگر اللہ کے حکم سے اس کی سوزش کم نہ ہوجاتی تو یہ تو زمین کی تمام چیزوں کو جھلس ڈالتا۔ اس کی صحت میں نظر ہے بلکہ مرفوع ہونے میں بھی بہت ممکن ہے کہ یہ عبداللہ بن عمرو کا اپنا کلام ہو اور ان دو تھیلوں کی کتابوں سے لیا گیا ہو جو انہیں یرموک سے ملے تھے واللہ اعلم۔ ابن حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ نے سورة کہف کی یہی آیت تلاوت فرمائی تو آپ نے ( عین حامیۃ ) پڑھا اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم تو حمئۃ پڑھتے ہیں۔ حضرت معاویہ ؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے پوچھا آپ کس طرح پڑھتے ہیں انہوں نے جواب دیا جس طرح آپ نے پڑھا۔ اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا میرے گھر میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ حضرت معاویہ ؓ نے حضرت کعب ؒ کے پاس آدمی بھیجا کہ بتلاؤ سورج کہاں غروب ہوتا ہے ؟ تورات میں اس کے متعلق کچھ ہے ؟ حضرت کعب ؒ نے جواب دیا کہ اسے عربیت والوں سے پوچھنا چاہئے، وہی اس کے پورے عالم ہیں۔ ہاں تورات میں تو میں یہ پاتا ہوں کہ وہ پانی اور مٹی میں یعنی کیچڑ میں چھپ جاتا ہے اور مغرب کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ یہ سب قصہ سن کرا بن حاضر نے کہا اگر میں اس وقت ہوتا تو آپ کی تائید میں تبع کے وہ دو شعر پڑھ دیتا جس میں اس نے ذو القرنین کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرق ومغرب تک پہنچا کیونکہ اللہ کے حکم نے اسے ہر قسم کے سامان مہیا فرمائے تھے اس نے دیکھا کہ سورج سیاہ مٹی جیسے کیچڑ میں غروب ہوتا نظر آتا ہے۔ ابن عباس ؓ نے پوچھا اس شعر میں تین لفظ ہیں خلب، ثاط اور حرمد۔ ان کے کیا معنی ہیں ؟ مٹی، کیچڑا اور سیاہ۔ اسی وقت حضرت عبداللہ ؓ نے اپنے غلام سے یا کسی اور شخص سے فرمایا یہ جو کہتے ہیں لکھ لو۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ سے سورة کہف کی تلاوت حضرت کعب ؒ نے سنی اور جب آپ نے حمئۃ پڑھا تو کہا کہ واللہ جس طرح تورات میں ہے اسی طرح پڑھتے ہوئے میں نے آپ ہی کو سنا تورات میں بھی یہی ہے کہ وہ سیاہ رنگ کیچڑ میں ڈوبتا ہے وہیں ایک شہر تھا جو بہت بڑا تھا اس کے بارہ ہزار دروازے تھے اگر وہاں شور غل نہ ہو تو کیا عجب کہ ان لوگوں کو سورج کے غروب ہونے کی آواز تک آئے وہاں ایک بہت بڑی امت کو آپ نے بستا ہوا پایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بستی والوں پر بھی انہیں غلبہ دیا اب ان کے اختیار میں تھا کہ یہ ان پر جبر وظلم کریں یا ان میں عدل وانصاف کریں۔ اس پر ذوالقرنین نے اپنے عدل و ایمان کا ثبوت دیا اور عرض کیا کہ جو اپنے کفر و شرک پر اڑا رہے گا اسے تو ہم سزا دیں گے قتل و غارت سے یا یہ کہ تانبے کے برتن کو گرم آگ کر کے اس میں ڈال دیں گے کہ وہیں اس کا مرنڈا ہوجائے یا یہ کہ سپاہیوں کے ہاتھوں انہیں بدترین سزائیں کرائیں گے واللہ اعلم۔ اور پھر جب وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت تر اور دردناک و عذاب کرے گا۔ اس سے قیامت کے دن کا بھی ثبوت ہوتا ہے۔ اور جو ایمان لائے ہماری توحید کی دعوت قبول کرلے اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت سے دست برداری کرلے اسے اللہ اپنے ہاں بہترین بدلہ دے گا اور خودہم بھی اس کی عزت افزائی کریں گے اور بھلی بات کہیں گے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


اس رکوع میں ذوالقرنین کے بارے میں یہود مدینہ کے سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اکثر مفسرین ذوالقرنین سے ناواقف تھے۔ چناچہ تیرہ سو سال تک عام طور پر سکندر اعظم ہی کو ذوالقرنین سمجھا جاتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں ذوالقرنین کی فتوحات کا ذکر جس انداز میں ہوا ہے یہ انداز سکندر اعظم کی فتوحات سے ملتا جلتا ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذوالقرنین کی سیرت کا وہ نقشہ جو قرآن نے پیش کیا ہے اس کی سکندر اعظم کی سیرت کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں۔ بہرحال جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذوالقرنین قدیم ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس کا لقب تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایران کے علاقے میں دو الگ الگ خود مختار مملکتیں قائم تھیں۔ ایک کا نام پارس تھا جس سے ” فارس “ کا لفظ بنا ہے اور دوسرے کا نام ” مادا “ تھا۔ کیخورس یا سائرس نے ان دونوں مملکتوں کو ملا کر ایک ملک بنا دیا اور یوں سلطنت ایران کے سنہرے دور کا آغاز ہوا۔ دو مملکتوں کے فرمانروا ہونے کی علامت کے طور پر اس نے اپنے تاج میں دو سینگ لگا رکھے تھے اور اس طرح اس کا لقب ذوالقرنین دو سینگوں والا پڑگیا۔آیت 83 وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ ۭ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاذوالقرنین کے بارے میں جدید تحقیق کو اہل علم کے حلقے میں متعارف کرانے کا سہرا مولانا ابو الکلام آزاد کے سر ہے۔ انہوں نے اپنی تفسیر ” ترجمان القرآن “ میں اس موضوع پر بہت تفصیل سے بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ قدیم ایران کا بادشاہ کیخورس یا سائرس ہی ذوالقرنین تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی تحقیق کی بنیاد ان معلومات پر ہے جو شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایک کھدائی کے دوران دستیاب ہوئی تھیں۔ اس کھدائی کے دوران اس عظیم فاتح بادشاہ کا ایک مجسمہ بھی دریافت ہوا تھا اور مقبرہ بھی۔ اس کھدائی سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر رضا شاہ پہلوی نے اس کی ڈھائی ہزار سالہ برسی منانے کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ دریافت شدہ مجسمے کے سر پر جو تاج تھا اس میں دو سینگ بھی موجود تھے جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایران کا یہی بادشاہ کیخورس یا سائرس تھا جو تاریخ میں ذوالقرنین کے لقب سے مشہور ہے۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں نے خصوصی طور پر یہ سوال کیوں پوچھا تھا اور ذوالقرنین کی شخصیت میں ان کی اس دلچسپی کا سبب کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب ہمیں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ملتا ہے۔ جب 87 قبل مسیح کے لگ بھک عراق کے بادشاہ بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کر کے یروشلم کو تباہ کیا تو اس شہر کی اکثریت کو تہ تیغ کردیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو وہ اپنی فوج کے ساتھ بابل Babilonia لے گیا جہاں یہ لوگ ڈیڑھ سو سال تک اسیری کی حالت میں رہے۔ جب ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس آئندہ سطور میں انہیں ” ذوالقرنین “ ہی لکھاجائے گا نے ایران کو متحد کرنے کے بعد اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا تو سب سے پہلے عراق کو فتح کیا۔ مشرق وسطیٰ کے موجودہ نقشے کو ذہن میں رکھا جائے تو فلسطین ‘ اسرائیل شرق اردن مغربی کنارہ اور لبنان کے ممالک پر مشتمل پورے علاقے کو اس زمانے میں شام عرب یا شام اور اس سے مشرق میں واقع علاقے کو عراق عرب یا عراق کہا جاتا تھا جبکہ عراق کے مزید مشرق میں ایران واقع تھا۔ عراق پر قبضہ کرنے کے بعد ذوالقرنین نے بابل میں اسیر یہودیوں کو آزاد کردیا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر اپنا تباہ شدہ شہر یروشلم دوبارہ آباد کرلیں۔ چناچہ حضرت عزیر کی قیادت میں یہودیوں کا قافلہ بابل سے واپس یروشلم آیا۔ انہوں نے اپنے اس شہر کو پھر سے آباد کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی از سر نو تعمیر کیا۔ اس پس منظر میں یہودی ذوالقرنین کو اپنا محسن سمجھتے ہیں اور اسی سبب سے ان کے بارے میں انہوں نے حضور سے یہ سوال پوچھا تھا۔ذوالقرنین کی فتوحات کے سلسلے میں تین مہمات کا ذکر تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ ان مہمات میں ایران سے مغرب میں بحیرۂ روم Mediterranian تک پورے علاقے کی تسخیر ‘ مشرق میں بلوچستان اور مکران تک لشکرکشی اور شمال میں بحیرۂ خَزَر Caspian Sea اور بحیرۂ اسود Black Sea کے درمیانی پہاڑی علاقے کی فتوحات شامل ہیں۔ ذوالقرنین کا یہ سلسلہ فتوحات حضرت عمر کے دور خلافت کی فتوحات کے سلسلے سے مشابہ ہے۔ حضرت عمر کے دور میں بھی جزیرہ نمائے عرب سے مختلف سمتوں میں تین لشکروں نے پیش قدمی کی تھی ایک لشکر شام اور پھر مصر گیا تھا دوسرے لشکر نے عراق کے بعد ایران کو فتح کیا تھا جبکہ تیسرا لشکر شمال میں کوہ قاف Caucasus تک جا پہنچا تھا۔قدیم روایات میں ذوالقرنین کے بارے میں کچھ ایسی معلومات بھی ملتی ہیں کہ ابتدائی عمر میں وہ ایک چھوٹی سی مملکت کے شہزادے تھے۔ ان کے اپنے ملک میں کچھ ایسے حالات ہوئے کہ کچھ لوگ ان کی جان کے درپے ہوگئے۔ وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور کچھ عرصہ صحرا میں روپوش رہے۔ اسی عرصے کے دوران ان تک کسی نبی کی تعلیمات پہنچیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زرتشت ہی اللہ کے نبی ہوں اور انہی کی تعلیمات سے انہوں نے استفادہ کیا ہو۔ بہر حال قرآن نے ذوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے وہ ایک نیک اور صالح بندۂ مومن کا کردار ہے اور اس کردار کی خصوصیات تاریخی اعتبار سے اس زمانے کے کسی اور فاتح حکمران پر منطبق نہیں ہوتیں۔

فأتبع سببا

سورة: الكهف - آية: ( 85 )  - جزء: ( 16 )  -  صفحة: ( 303 )

Surah kahf Ayat 85 meaning in urdu

اس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا) سر و سامان کیا


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. وہی تو ہے جو (ماں کے پیٹ میں) جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے
  2. اور گھنے گھنے باغ
  3. کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں
  4. وہ بولے کہ ہم بڑے زورآور اور سخت جنگجو ہیں اور حکم آپ کے اختیار
  5. وہ دل پسند عیش میں ہو گا
  6. ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اور تم کو قیامت کے دن تمہارے
  7. ان کے علم کی انتہا یہی ہے۔ تمہارا پروردگار اس کو بھی خوب جانتا ہے
  8. (وہ قصہ بھی یاد کرو) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا
  9. (یہ خدا نے) اس لیے (کیا) کہ کافروں کی ایک جماعت کو ہلاک یا انہیں
  10. خدا ہی تو رزق دینے والا زور آور اور مضبوط ہے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah kahf with the voice of the most famous Quran reciters :

surah kahf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter kahf Complete with high quality
surah kahf Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah kahf Bandar Balila
Bandar Balila
surah kahf Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah kahf Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah kahf Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah kahf Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah kahf Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah kahf Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah kahf Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah kahf Fares Abbad
Fares Abbad
surah kahf Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah kahf Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah kahf Al Hosary
Al Hosary
surah kahf Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah kahf Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers