Surah kahf Ayat 83 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا﴾
[ الكهف: 83]
اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں
Surah kahf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یہ مشرکین کے اس تیسرے سوال کا جواب ہے جو یہودیوں کے کہنے پر انہوں نے نبی ( صلى الله عليه وسلم ) سے کئے تھے، ذوالقرنین کے لفظی معنی دو سینگوں والے کے ہیں۔ یہ نام اس لئے پڑا کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے یا اس لئے کہ اس نے مشرق ومغرب دنیا کے دونوں کناروں پر پہنچ کر سورج کی قرن یعنی شعاع کا مشاہدہ کیا، بعض کہتے ہیں کہ اس کے سر پر بالوں کی دو لٹیں تھیں، قرن بالوں کی لٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی دو لٹوں دو مینڈھیوں یا دو زلفوں والا۔ قدیم مفسرین نے بالعموم اس کا مصداق سکندر رومی کو قرار دیا ہے جس کی فتوحات کا دائرہ مشرق ومغرب تک پھیلا ہوا تھا۔ لیکن جدید مفسرین جدید تاریخی معلومات کی روشنی میں اس سے اتفاق نہیں کرتے بالخصوص مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے اس پر جو داد تحقیق دی ہے اور اس شخص کی دریافت میں جو محنت و کاوش کی ہے، وہ نہایت قابل قدر ہے۔ ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے ( 1 )۔ کہ اس ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمران تھا، جس کو اللہ نے اسباب و وسائل کی فراوانی سے نوازا تھا۔
( 2 )۔ وہ مشرقی اور مغربی ممالک کو فتح کرتا ہوا، ایک ایسے پہاڑی درے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے۔
( 3 )۔ اس نے وہاں یاجوج ماجوج کا راستہ بند کرنے کے لئے ایک نہایت محکم بند تعمیر کیا۔ ( 4،5 ) وہ عادل، اللہ کو ماننے والا اور آخرت پر ایمان رکھنے والا تھا۔
( 6 )۔ وہ نفس پرست اور مال و دولت کا حریص نہیں تھا۔ مولانا مرحوم فرماتے ہیں کہ ان خصوصیات کا حامل صرف فارس کا وہ عظیم حکمران ہے جسے یونانی سائرس، عبرانی خورس، اور عرب کے خسرو کے نام سے پکارتے ہیں، اس کا دور حکمرانی 539 قبل مسیح ہے۔ نیز فرماتے ہیں1838ء میں سائرس کے ایک مجسّمے کا بھی انکشاف ہوا جس میں سائرس کا جسم، اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح پر نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔ ( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر ” ترجمان القرآن “ ج1، ص-399- 430، طبع قدیم ) واللہ اعلم بالصواب۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
کفار کے سوالات کے جوابات۔پہلے گزر چکا ہے کہ کفار مکہ نے اہل کتاب سے کہلوایا تھا کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ جو ہم محمد ﷺ سے دریافت کریں اور ان کے جواب آپ سے نہ بن پڑیں۔ تو انہوں نے سکھایا تھا کہ ایک تو ان سے اس شخص کا واقعہ پوچھو جس نے روئے زمین کی سیاحت کی تھی۔ دوسرا سوال ان سے ان نوجوانوں کی بہ نسبت کرو جو بالکل لا پتہ ہوگئے ہیں اور تیسرا سوال ان سے روح کی بابت کرو۔ ان کے ان سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ یہ بھی روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور ﷺ سے ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرنے کو آئی تھی۔ تو آپ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ تم اس لئے آئے ہو۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان فرمایا۔ اس میں ہے کہ وہ ایک رومی نوجوان تھا اسی نے اسکندریہ بنایا۔ اسے ایک فرشتہ آسمان تک چڑھالے گیا تھا اور دیوار تک لے گیا تھا اس نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے منہ کتوں جیسے تھے وغیرہ۔ لیکن اس میں بہت طول ہے اور بیکار ہے اور ضعف ہے اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔ دراصل یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں۔ تعجب ہے کہ امام ابو زرعہ رازی جیسے علامہ زماں نے اسے اپنی کتاب دلائل نبوت میں مکمل وارد کیا ہے۔ فی الواقع یہ ان جیسے بزرگ سے تو تعجب خیز چیز ہی ہے۔ اس میں جو ہے کہ یہ رومی تھا یہ بھی ٹھیک نہیں۔ اسکندر ثانی البتہ رومی تھا وہ قیلیس مفذونی کا لڑکا ہے جس سے روم کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور سکندر اول تو بقول ازرقی وغیرہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے میں تھا۔ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی بنا کے بعد طواف بیت اللہ کیا ہے۔ آپ پر ایمان لایا تھا، آپ کا تابعدار بنا تھا۔ انہی کے وزیر حضرت خضر ؑ تھے۔ اور سکندر ثانی کا وزیر ارسطاطالیس مشہور فلسفی تھا واللہ اعلم۔ اسی نے مملکت روم کی تاریخ لکھی یہ حضرت میسح ؑ سے تقریبا تین سو سال پہلے تھا اور سکندر اول جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ کے زمانے میں تھا جیسے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ جب حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ بنایا تو اس نے آپ کے ساتھ طواف کیا تھا اور اللہ کے نام بہت سی قربانیاں کی تھیں۔ ہم نے اللہ کے فضل سے ان کے بہت سے واقعات اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں ذکر کردیے ہیں۔ وہب کہتے ہیں یہ بادشاہ تھے چونکہ ان کے سر کے دونوں طرف تانبا رہتا تھا اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا گیا یہ وجہ بھی بتلائی گئی ہے کہ یہ روم کا اور فارس کا دونوں کا بادشاہ تھا۔ بعض کا قول ہے کہ فی الواقع اس کے سر کے دونوں طرف کچھ سنیگ سے تھے۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا یہ لوگ مخالف ہوگئے اور ان کے سر کے ایک جانب اس قدر مارا کہ یہ شہید ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کردیا قوم نے پھر سر کے دوسری طرف اسی قدر مارا جس سے یہ پھر مرگئے اس لئے انہیں ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مشرق سے مغرب کی طرف سیاحت کر آئے تھے اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا ہے۔ ہم نے اسے بڑی سلطنت دے رکھی تھی۔ ساتھ ہی قوت لشکر آلات حرب سب کچھ ہی دے رکھا تھا۔ مشرق سے مغرب تک اس کی سلطنت تھی عرب عجم سب اس کے ماتحت تھے۔ ہر چیز کا اسے علم دے رکھا تھا۔ زمین کے ادنی اعلیٰ نشانات بتلا دیے تھے۔ تمام زبانیں جانتے تھے۔ جس قوم سے لڑائی ہوتی اس کی زبان بول لیتے تھے ایک مرتبہ حضرت کعب احبار ؒ سے حضرت امیر معاویہ ؓ نے فرمایا تھا کیا تم کہتے ہو کہ ذوالقرنین نے اپنے گھوڑے ثریا سے باندھے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو سنئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم نے اسے ہر چیز کا سامان دیا تھا۔ حقیقت میں اس بات میں حق حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ ہے اس لئے بھی کہ حضرت کعب ؒ کو جو کچھ کہیں لکھا ملتا تھا روایت کردیا کرتے تھے گو وہ جھوٹ ہی ہو۔ اسی لئے آپ نے فرمایا ہے کہ کعب کا کذب تو با رہا سامنے آچکا ہے یعنی خود تو جھوٹ نہیں گھڑتے تھے لیکن جو روایت ملتی گو بےسند ہو بیان کرنے سے نہ چوکتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات جھوٹ، خرافات، تحریف، تبدیلی سے محفوظ نہ تھیں۔ بات یہ ہے کہ ہمیں ان اسرائیلی روایت کی طرف التفات کرنے کی بھی کیا ضرورت ؟ جب کہ ہمارے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر ﷺ کی سچی اور صحیح احادیث موجود ہیں۔ افسوس انہیں بنی اسرائیلی روایات نے بہت سی برائی مسلمانوں میں ڈال دی اور فساد پھیل گیا۔ حضرت کعب ؒ نے اس بنی اسرائیل کی روایت کے ثبوت میں قرآن کی اس آیت کا آخری حصہ جو پیش کیا ہے یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ تو بالکل ظاہربات ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اور ثریا پر پہنچنے کی طاقت نہی دی۔ دیکھئے بلقیس کے حق میں بھی قرآن نے یہی الفاظ کہے ہیں ( وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ 23۔ ) 27۔ النمل:23) وہ ہر چیز دی گئی تھی اس سے بھی مراد صرف اسی قدر ہے کہ بادشاہوں کے ہاں عموما جو ہوتا ہے وہ سب اس کے پاس بھی تھا اسی طرح حضرت ذوالقرنین کو اللہ نے تمام راستے اور ذرائع مہیا کردیے تھے کہ وہ اپنی فتوحات کو وسعت دیتے جائیں اور زمین سرکشوں اور کافروں سے خالی کراتے جائیں اور اس کی توحید کے ساتھ موحدین کی بادشاہت دنیا پر پھیلائیں اور اللہ والوں کی حکومت جمائیں ان کاموں میں جن اسباب کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب رب عزوجل نے حضرت ذوالقرنین کو دے رکھے تھے واللہ اعلم۔ حضرت علی ؓ سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ مشرق ومغرب تک کیسے پہنچ گئے ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو ان کے لئے مسخر کردیا تھا اور تمام اسباب انہیں مہیا کردیے تھے اور پوری قوت وطاقت دے دی تھی۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
اس رکوع میں ذوالقرنین کے بارے میں یہود مدینہ کے سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک اکثر مفسرین ذوالقرنین سے ناواقف تھے۔ چناچہ تیرہ سو سال تک عام طور پر سکندر اعظم ہی کو ذوالقرنین سمجھا جاتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں ذوالقرنین کی فتوحات کا ذکر جس انداز میں ہوا ہے یہ انداز سکندر اعظم کی فتوحات سے ملتا جلتا ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذوالقرنین کی سیرت کا وہ نقشہ جو قرآن نے پیش کیا ہے اس کی سکندر اعظم کی سیرت کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت ہی نہیں۔ بہرحال جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذوالقرنین قدیم ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس کا لقب تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایران کے علاقے میں دو الگ الگ خود مختار مملکتیں قائم تھیں۔ ایک کا نام پارس تھا جس سے ” فارس “ کا لفظ بنا ہے اور دوسرے کا نام ” مادا “ تھا۔ کیخورس یا سائرس نے ان دونوں مملکتوں کو ملا کر ایک ملک بنا دیا اور یوں سلطنت ایران کے سنہرے دور کا آغاز ہوا۔ دو مملکتوں کے فرمانروا ہونے کی علامت کے طور پر اس نے اپنے تاج میں دو سینگ لگا رکھے تھے اور اس طرح اس کا لقب ذوالقرنین دو سینگوں والا پڑگیا۔آیت 83 وَيَسْـــَٔـلُوْنَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ ۭ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاذوالقرنین کے بارے میں جدید تحقیق کو اہل علم کے حلقے میں متعارف کرانے کا سہرا مولانا ابو الکلام آزاد کے سر ہے۔ انہوں نے اپنی تفسیر ” ترجمان القرآن “ میں اس موضوع پر بہت تفصیل سے بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ قدیم ایران کا بادشاہ کیخورس یا سائرس ہی ذوالقرنین تھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی تحقیق کی بنیاد ان معلومات پر ہے جو شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایک کھدائی کے دوران دستیاب ہوئی تھیں۔ اس کھدائی کے دوران اس عظیم فاتح بادشاہ کا ایک مجسمہ بھی دریافت ہوا تھا اور مقبرہ بھی۔ اس کھدائی سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر رضا شاہ پہلوی نے اس کی ڈھائی ہزار سالہ برسی منانے کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ دریافت شدہ مجسمے کے سر پر جو تاج تھا اس میں دو سینگ بھی موجود تھے جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایران کا یہی بادشاہ کیخورس یا سائرس تھا جو تاریخ میں ذوالقرنین کے لقب سے مشہور ہے۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں نے خصوصی طور پر یہ سوال کیوں پوچھا تھا اور ذوالقرنین کی شخصیت میں ان کی اس دلچسپی کا سبب کیا تھا ؟ اس سوال کا جواب ہمیں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ملتا ہے۔ جب 87 قبل مسیح کے لگ بھک عراق کے بادشاہ بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کر کے یروشلم کو تباہ کیا تو اس شہر کی اکثریت کو تہ تیغ کردیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو وہ اپنی فوج کے ساتھ بابل Babilonia لے گیا جہاں یہ لوگ ڈیڑھ سو سال تک اسیری کی حالت میں رہے۔ جب ایران کے بادشاہ کیخورس یا سائرس آئندہ سطور میں انہیں ” ذوالقرنین “ ہی لکھاجائے گا نے ایران کو متحد کرنے کے بعد اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کیا تو سب سے پہلے عراق کو فتح کیا۔ مشرق وسطیٰ کے موجودہ نقشے کو ذہن میں رکھا جائے تو فلسطین ‘ اسرائیل شرق اردن مغربی کنارہ اور لبنان کے ممالک پر مشتمل پورے علاقے کو اس زمانے میں شام عرب یا شام اور اس سے مشرق میں واقع علاقے کو عراق عرب یا عراق کہا جاتا تھا جبکہ عراق کے مزید مشرق میں ایران واقع تھا۔ عراق پر قبضہ کرنے کے بعد ذوالقرنین نے بابل میں اسیر یہودیوں کو آزاد کردیا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ اپنے ملک واپس جا کر اپنا تباہ شدہ شہر یروشلم دوبارہ آباد کرلیں۔ چناچہ حضرت عزیر کی قیادت میں یہودیوں کا قافلہ بابل سے واپس یروشلم آیا۔ انہوں نے اپنے اس شہر کو پھر سے آباد کیا اور ہیکل سلیمانی کو بھی از سر نو تعمیر کیا۔ اس پس منظر میں یہودی ذوالقرنین کو اپنا محسن سمجھتے ہیں اور اسی سبب سے ان کے بارے میں انہوں نے حضور سے یہ سوال پوچھا تھا۔ذوالقرنین کی فتوحات کے سلسلے میں تین مہمات کا ذکر تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ ان مہمات میں ایران سے مغرب میں بحیرۂ روم Mediterranian تک پورے علاقے کی تسخیر ‘ مشرق میں بلوچستان اور مکران تک لشکرکشی اور شمال میں بحیرۂ خَزَر Caspian Sea اور بحیرۂ اسود Black Sea کے درمیانی پہاڑی علاقے کی فتوحات شامل ہیں۔ ذوالقرنین کا یہ سلسلہ فتوحات حضرت عمر کے دور خلافت کی فتوحات کے سلسلے سے مشابہ ہے۔ حضرت عمر کے دور میں بھی جزیرہ نمائے عرب سے مختلف سمتوں میں تین لشکروں نے پیش قدمی کی تھی ایک لشکر شام اور پھر مصر گیا تھا دوسرے لشکر نے عراق کے بعد ایران کو فتح کیا تھا جبکہ تیسرا لشکر شمال میں کوہ قاف Caucasus تک جا پہنچا تھا۔قدیم روایات میں ذوالقرنین کے بارے میں کچھ ایسی معلومات بھی ملتی ہیں کہ ابتدائی عمر میں وہ ایک چھوٹی سی مملکت کے شہزادے تھے۔ ان کے اپنے ملک میں کچھ ایسے حالات ہوئے کہ کچھ لوگ ان کی جان کے درپے ہوگئے۔ وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور کچھ عرصہ صحرا میں روپوش رہے۔ اسی عرصے کے دوران ان تک کسی نبی کی تعلیمات پہنچیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زرتشت ہی اللہ کے نبی ہوں اور انہی کی تعلیمات سے انہوں نے استفادہ کیا ہو۔ بہر حال قرآن نے ذوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے وہ ایک نیک اور صالح بندۂ مومن کا کردار ہے اور اس کردار کی خصوصیات تاریخی اعتبار سے اس زمانے کے کسی اور فاتح حکمران پر منطبق نہیں ہوتیں۔
ويسألونك عن ذي القرنين قل سأتلو عليكم منه ذكرا
سورة: الكهف - آية: ( 83 ) - جزء: ( 16 ) - صفحة: ( 302 )Surah kahf Ayat 83 meaning in urdu
اور اے محمدؐ، یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سناتا ہوں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جب کہ وہ ان (کے کناروں) پر بیٹھے ہوئے تھے
- اگر یہ لوگ سرکشی کریں تو (خدا کو بھی ان کی پروا نہیں) جو (فرشتے)
- خدا ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں
- اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کردیا اور سیدھے رستے پر نہ ڈالا
- اور جو شخص خدا پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان نہ لائے تو ہم
- جب ان کے پاس حق آیا تو اس کو بھی جھٹلا دیا سو ان کو
- کیا یہ کہ ایک دوسرے کو اسی بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ
- مگر جو ظالم ہیں بےسمجھے اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں تو جس کو خدا
- اور جب آسمان پھٹ جائے
- اور ان لوگوں نے خدا کے سوا اور معبود بنالئے ہیں تاکہ وہ ان کے
Quran surahs in English :
Download surah kahf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah kahf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter kahf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers