Surah Maidah Ayat 89 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾
[ المائدة: 89]
خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو
Surah Maidah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) قَسَمٌ جس کو عربی میں حَلْفٌ یا يَمِينٌ کہتے ہیں جن کی جمع أَحْلافٌ اور ایمان ہے، تین قسم کی ہیں۔ لَغْوٌ، غَمُوسٌ اور مُعَقَّدَةٌ، لَغْوٌ: وہ قسم ہے جو انسان بات بات میں عادتًا بغیر ارادہ اور نیت کے کھاتا رہتا ہے۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ غَمُوسٌ: وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دھوکہ اور فریب دینے کے لئے کھائے۔ یہ کبیرہ گناہ بلکہ اکبر الکبائر ہے۔ لیکن اس پر کفارہ نہیں۔ مُعَقَّدَةٌ: وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لئے ارادۃً اورنیتہً کھائے ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس کا وہ کفارہ ہے جو آگے آیت میں بیان کیا جا رہا ہے۔
( 2 ) اس کھانے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے، اس لئے اختلاف ہے۔ البتہ امام شافعی نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے، جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے، ایک مد ( تقریباً 10/ چھٹانک ) فی مسکین خوراک قرار دی ہے۔ کیونکہ نبی ( صلى الله عليه وسلم ) نے اس شخص کو کفارۂ جماع ادا کرنے کے لئے 15 صاع کھجوریں دی تھیں، جنہیں ساٹھ مسکینوں پر تقسیم کرنا تھا۔ ایک صاع میں 4 مد ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لئے دس مد ( یعنی سوا چھ سیر یا چھ کلو ) خوراک کفارہ ہوگی۔ ( ابن کثیر )
( 3 ) لباس کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ بظاہر مراد جوڑا ہے جس میں انسان نماز پڑھ سکے۔ بعض علماء خوراک اور لباس دونوں کے لئے عرف کو معتبر قرار دیتے ہیں۔ ( حاشیہ ابن کثیر، تحت آیت زیر بحث )
( 4 ) بعض علماء قتل خطا کی دیت پر قیاس کرتے ہوئے لونڈی، غلام کے لئے ایمان کی شرط عائد کرتے ہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں، آیت میں عموم ہے مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے۔
( 5 ) یعنی جس کو مذکورہ تینوں چیزوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے، یہ روزے اس کی قسم کا کفارہ ہو جائیں گے۔ بعض علماء پےدرپے روزے رکھنے کے قائل ہیں اور بعض کے نزدیک دونوں طرح جائز ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
غیر ارادی قسمیں اور کفارہ لعو قسمیں کیا ہوتی ہیں ؟ ان کے کیا احکام ہیں ؟ یہ سب سورة بقرہ کی تفسیر میں بالتفصیل بیان کرچکے ہیں اس لئے یہاں ان کے دوہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد اللہ۔ مقصد یہ ہے کہ روانی کلام میں انسان کے منہ سے بغیر قصد کے جو قسمیں عادۃ نکل جائیں وہ لغو قسمیں ہیں۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے، مذاق میں قسم کھا بیٹھنا، اللہ کی نافرمانی کے کرنے پر قسم کھا بیٹھنا، زیادتی گمان کی بنا پر قسم کھا بیٹھنا بھی اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے۔ غصے اور عضب میں، نسیان اور بھول چوک سے کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیزوں میں قسم کھا بیٹھنا مراد ہے، اس قوم کی دلیل میں آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ) 5۔ المائدة:87) کو پیش کیا جاتا ہے، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ لغو قسموں سے مراد بغیر قصد کی قسمیں ہیں اور اس کی دلیل ( ولکن یواخذ کم بما عقدتم الایمان ہے یعنی جو قسمیں بالقصد اور بالعزم ہوں ان پر گرفٹ ہے اور ان پر کفارہ ہے۔ کفارہ دس مسکینوں کا کھانا جو محتاج فقیر ہوں جن کے پاس بقدر کفایت کے نہ ہو اوسط درجے کا کھانا جو عموماً گھر میں کھایا جاتا ہو وہی انہیں کھلا دینا۔ مثلاً دودھ روٹی، گھی روٹی، زیتون کا تیل روٹی، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی خوراک بہت اعلی ہوتی ہے بعض لوگ بہت ہی ہلکی غذا کھاتے ہیں تو نہ وہ ہو نہ یہ ہو، تکلف بھی نہ ہو اور بجل بھی نہ ہو، سختی اور فراخی کے درمیان ہو، مثلاً گوشت روٹی ہے، سرکہ اور روٹی ہے، روٹی اور کھجوریں ہیں۔ جیسی جس کی درمیانی حثییت، اسی طرح قلت اور کثرت کے درمیان ہو۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ صبح شام کا کھانا، حسن اور محمد بن خفیہ کا قول ہے کہ دس مسکینوں کو ایک ساتھ بٹھا کر روٹی گوشت کھلا دینا کافی ہے یا اپنی حیثیت کے مطابق روٹی کسی اور چیز سے کھلا دینا، بعض نے کہا ہے ہر مسکین کو آدھا صاع گہیوں کھجوریں وغیرہ دے دینا، امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ گہیوں تو آدھا صاع کافی ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز کا پورا صاع دے دے۔ ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے ایک صاع کھجوروں کا کفارے میں ایک ایک شخص کو دیا ہے اور لوگوں کو بھی یہی حکم فرمایا ہے لیکن جس کی اتنی حثییت نہ ہو وہ آدھا صاع گہیوں کا دے دے، یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے لیکن اس کا ایک راوی بالکل ضعیف ہے جس کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے۔ در قطنی نے اسے متروک کہا ہے اس کا نام عمر بن عبداللہ ہے، ابن عباس کا قول ہے کہ ہر مسکین کو ایک مد گہیوں مع سالن کے دے دے، امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں لیکن سالن کا ذکر نہیں ہے اور دلیل ان کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رمضان شریف کے دن میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو ایک کمتل (خاص پیمانہ ) میں سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا نے کا حکم حضور ﷺ نے دیا تھا اس میں پندرہ صاع آتے ہیں تو ہر مسکین کے لئے ایک مد ہوا۔ ابن مدویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قسم کے کفارے میں گہیوں کا ایک مد مقرر کیا ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ نضیر بن زرارہ کوفی کے بارے میں امام ابو حاتم رازی کا قول ہے کہ وہ مجہول ہے گو اس سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے اور امام ابن حبان نے اسے ثقہ کہا ہے واللہ اعلم، پھر ان کے استاد عمری بھی ضعیف ہیں، امام احمد بن حنبل ؒ کا فرمان ہے کہ گہیوں کا ایک مد اور باقی اناج کے دو مد دے۔ واللہ اعلم ( یہ یاد رہے کہ صاع انگریزی اسی روپے بھر کے سیر کے حساب سے تقریباً پونے تین سیر کا ہوتا ہے اور ایک صاع کے چار مد ہوتے ہیں واللہ اعلم، مترجم ) یا ان دس کو کپڑا پہنانا، امام شافعی کا قول ہے کہ ہر ایک کو خواہ کچھ ہی کپڑا دے دے جس پر کپڑے کا اطلاق ہوتا ہو کافی ہے، مثلاً کرتہ ہے، پاجامہ ہے، تہمد ہے، پگڑی ہے یا سر پر لپیٹنے کا رومال ہے۔ پھر امام صاحب کے شاگردوں میں سے بعض تو کہتے ہیں ٹوپی بھی کافی ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ ناکافی ہے، کافی کہنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین سے جب اس کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ فرماتے ہیں اگر کوئی وفد کسی امیر کے پاس آئے اور وہ انہیں ٹوپیاں دے تو عرب تو یہی کہیں گے کہ قد کسوا انہیں کپڑے پہنائے گئے۔ لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ محمد بن زبیر ضعیف ہیں واللہ اعلم۔ موزے پہنانے کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جائز نہیں۔ امام مالک اور امام احمد فرماتے ہیں کہ کم سے کم اتنا اور ایسا کپڑا ہو کہ اس میں نماز جائز ہوجائے مرد کو دیا ہے تو اس کی اور عورت کو دیا ہے تو اس کی۔ واللہ اعلم۔ ابن عباس فرماتے ہیں عباہو یا شملہ ہو۔ مجاہد فرماتے ہیں۔ ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک کپڑا ہو اور اس سے زیادہ جو ہو۔ غرض کفارہ قسم میں ہر چیز سوائے جانگئے کے جائز ہے۔ بہت سے مفسرین فرماتے ہیں ایک ایک کپڑا ایک ایک مسکین کو دے دے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے ایسا کپڑا جو پورا کار آمد ہو مثلاً لحاف چادر وغیرہ نہ کہ کرتہ دوپٹہ وغیرہ ابن سیرن اور حسن دو دو کپڑے کہتے ہیں، سعید بن مسیب کہتے ہیں عمامہ جسے سر پر باندھے اور عبا جسے بدن پر پہنے۔ حضرت ابو موسیٰ قسم کھاتے ہیں پھر اسے توڑتے ہیں تو دو کپڑے بحرین کے دے دیتے ہیں۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر مسکین کیلئے ایک عبا، یہ حدیث عریب ہے، یا ایک غلام کا آزاد کرنا، امام ابوحنیفہ تو فرماتے ہیں کہ یہ مطلق ہے کافر ہو یا مسلمان، امام شافعی اور دوسرے بزرگان دین فرماتے ہیں اس کا مومن ہونا ضروری ہے کیونکہ قتل کے کفارے میں غلام کی آزادی کا حکم ہے اور وہ مقید ہے کہ وہ مسلمان ہونا چاہے، دونوں کفاروں کا سبب چاہے جدا گانہ ہے لیکن وجہ ایک ہی ہے اور اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضرت معاویہ بن حکم اسلمی کے ذمے ایک گردن آزاد کرنا تھی وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ ایک لونڈی لئے ہوئے آئے۔ حضور نے اس سیاہ فام لونڈی سے دریافت فرمایا کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا آسمان میں پوچھا ہم کون ہیں ؟ جواب دیا کہ آپ رسول ﷺ ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد کرو یہ ایماندار عورت ہے۔ پس ان تینوں کاموں میں سے جو بھی کرلے وہ قسم کا کفارہ ہوجائے گا اور کافی ہوگا اس پر سب کا اجماع ہے۔ قرآن کریم نے ان چیزوں کا بیان سب سے زیادہ آسان چیز سے شروع کیا ہے اور بتدریج اوپر کو پہنچایا ہے۔ پس سب سے سہل کھانا کھلانا ہے۔ پھر اس سے قدرے بھاری کپڑا پہنانا ہے اور اس سے بھی زیادہ بھاری غلام کو آزاد کرنا ہے۔ پس اس میں ادنی سے اعلی بہتر ہے۔ اب اگر کسی شخص کو ان تینون میں سے ایک کی بھی قدرت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔ سعید بن جبیر اور حسن بصری سے مروی ہے کہ جس کے پاس تین درہم ہوں وہ تو کھانا کھلا دے ورنہ روزے رکھ لے اور بعض متاخرین سے منقول ہے کہ یہ اس کے لئے ہے جس کے پاس ضروریات سے فاضل چیز نہ ہو معاش وغیرہ پونجی کے بعد جو فالتو ہو اس سے کفارہ ادا کرے، امام ابن جرید فرماتے ہیں جس کے پاس اس دن کے اپنے اور اپنے بال بچوں کے کھانے سے کچھ بچے اس میں سے کفارہ ادا کرے، قسم کے توڑنے کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے واجب ہیں یا مستحب ہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ واجب نہیں، امام شافعی نے باب الایمان میں اسے صاف لفظوں میں کہا ہے امام مالک کا قول بھی یہی ہے کیونکہ قرآن کریم میں روزوں کا حکم مطلق ہے تو خواہ پے در پے ہوں خواہ الگ الگ ہوں تو سب پر یہ صادق آتا ہے جیسے کہ رمضان کے روزوں کی قضا کے بارے میں آیت ( فعدۃ من ایام اخر ) فرمایا گیا ہے وہاں بھی پے در پے کی یا علیحدہ علیحدہ کی قید نہیں اور حضرت امام شافعی نے کتاب الام میں ایک جگہ صراحت سے کہا ہے کہ قسم کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے چاہئیں یہی قول خفیہ اور حنابلہ کا ہے۔ اس لئے کہ حضرت ابی بن کعب وغیرہ سے مروی ہے کہ ان کی قرأت آیت ( فصیام ثلثتہ ایام متتابعات ) ہے ابن مسعود سے بھی یہی قرأت مروی ہے، اس صورت میں اگرچہ اس کا متواتر قرأت ہونا ثابت نہ ہو۔ تاہم خبر واحد یا تفسیر صحابہ سے کم درجے کی تو یہ قرأت نہیں پس حکماً " یہ بھی مرفوع ہے۔ ابن مردویہ کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضرت حذیفہ نے پوچھا یا رسول اللہ ہمیں اختیار ہے آپ نے فرمایا ہاں، تو اختیار پر ہے خواہ گردن آزاد کر خواہ کپڑا پہنا دے خواہ کھانا کھلا دے اور جو نہ پائے وہ پے در پے تین روزے رکھ لے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جب قسم کھا کر توڑ دو تو یہ کفارہ ہے لیکن تمہیں اپنی قسموں کی حفاظت کرنی چاہیے انہیں بغیر کفارے کے نہ چھوڑنا چاہیے اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 89 لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ قسموں کے سلسلے میں سورة البقرہ آیت 225 میں ہدایات گزر چکی ہیں ‘ اب یہاں اس ضمن میں آخری حکم آ رہا ہے۔ یعنی ایسی قسمیں جو بغیر کسی ارادے کے کھائی جاتی ہیں ‘ ان پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ جیسے واللہ ‘ باللہ وغیرہ کا تکیہ کلام کے طور پر استعمال عربوں کی خاص عادت تھی اور آج بھی ہے۔ ظاہر ہے اس کو سن کر کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ شخص باقاعدہ قسم کھارہا ہے۔ تو ایسی صورت میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج۔عَقَّدْتُّم عقد سے باب تفعیل ہے۔ یعنی پورے اہتمام کے ساتھ ایک بات طے کی گئی اور اس پر کسی نے قسم کھائی۔ اب اگر ایسی قسم ٹوٹ جائے یا اس کو توڑنا مقصودہو تو اس کا کفّارہ ادا کرنا ہوگا۔فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ط یعنی اگر کسی کے پاس ان تینوں میں سے کوئی صورت بھی موجود نہ ہو ‘ کوئی شخص خود فقیر اور مفلس ہو ‘ اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھ لے۔ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ ط یعنی جب کسی صحیح معاملے میں بالارادہ قسم کھائی جائے تو اسے پورا کیا جائے ‘ اور اگر کسی وجہ سے قسم توڑنے کی نوبت آجائے تو اسے توڑنے کا باقاعدہ کفارہ دیا جائے۔کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ اب شراب اور جوئے کے بارے میں بھی آخری حکم آ رہا ہے۔
لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم ولكن يؤاخذكم بما عقدتم الأيمان فكفارته إطعام عشرة مساكين من أوسط ما تطعمون أهليكم أو كسوتهم أو تحرير رقبة فمن لم يجد فصيام ثلاثة أيام ذلك كفارة أيمانكم إذا حلفتم واحفظوا أيمانكم كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تشكرون
سورة: المائدة - آية: ( 89 ) - جزء: ( 7 ) - صفحة: ( 122 )Surah Maidah Ayat 89 meaning in urdu
تم لوگ جو مہمل قسمیں کھا لیتے ہو اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو اُن پر ضرور تم سے مواخذہ کرے گا (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو، یا انہیں کپڑے پہناؤ، یا ایک غلام آزاد کرو، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھا کر توڑ دو اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- جس شخص کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور وہ
- اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے)
- (یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے۔ اور تم خدا کی
- تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
- کہو کہ اے اہل کتاب! تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو سوا اس
- خدا تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اس تک تمہاری
- سو جب ہم نے ان سے عذاب کو دور کردیا تو وہ عہد شکنی کرنے
- یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے چارپایوں کے فائدے کے لیے (کیا)
- (اے پیغمبر) کہہ دو کہ لوگو! میں تم کو کھلم کھلا نصیحت کرنے والا ہوں
- جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا کیا تم مجھے مال سے
Quran surahs in English :
Download surah Maidah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Maidah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Maidah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers