Surah kahf Ayat 104 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا﴾
[ الكهف: 104]
وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں
Surah kahf Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی اعمال ان کے ایسے ہیں جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہیں، لیکن بزم خویش سمجھتے یہ ہیں کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ اس سے مراد کون ہیں؟ بعض کہتے ہیں، یہود وانصار ہیں، بعض کہتے ہیں مخالفین اور دیگر اہل بدعت ہیں، بعض کہتے ہیں کہ مشرکین ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جس میں ہر وہ فرد اور گروہ شامل ہے جس کے اندر مذکورہ صفات ہوں گی۔ آگے ایسے ہی لوگوں کی بابت مزید وعیدیں بیان کی جا رہی ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
عبادت واطاعت کا طریقہ۔حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے ان کے صاحبزادے مصعب نے سوال کیا کہ کیا اس آیت سے مراد خارجی ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مراد اس سے یہود و نصاری ہیں۔ یہودیوں نے آنحضرت ﷺ کو جھٹلایا اور نصرانیوں نے جنت کو سچا نہ جانا اور کہا کہ وہاں کھانا پینا کچھ نہیں۔ خارجیوں نے اللہ کے وعدے کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیا۔ پس حضرت سعد ؓ خارجیوں کو فاسق کہتے تھے۔ حضرت علی ؓ وغیرہ فرماتے ہیں اس سے مراد خارجی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود و نصاری وغیرہ کفار کو شامل ہے، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں ہے کیونکہ آیت عام ہے جو بھی اللہ کی عبادت واطاعت اس طریقے سے بجالائے جو طریقہ اللہ کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اعمال سے خوش ہو اور سمجھ رہا ہے کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کرلیا ہے میرے نیک اعمال اللہ کے پسند یدہ ہیں اور مجھے ان پر اجرو ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے آیت مکی ہے اور ظاہر ہے کہ مکہ میں یہود و نصاری مخاطب نہ تھے۔ اور خارجیوں کا تو اس وقت تک وجود بھی نہ تھا۔ پس ان بزرگوں کا یہی مطلب ہے کہ آیت کے عام الفاظ ان سب کو اور ان جیسے اور سب کو شامل ہیں۔ جیسے سورة غاشیہ میں ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل وخوار ہوں گے جو دنیا میں بہت محنت کرنے والے بلکہ اعمال سے تھکے ہوئے تھے اور سخت تکلیفیں اٹھائے ہوتے تھے آج وہ باوجود ریاضت و عبادت کے جہنم واصل ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیے جائیں گے۔ اور آیت میں ہے ( وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا 23 ) 25۔ الفرقان:23) ان کے تمام کئے کرائے اعمال کو ہم نے آگے بڑھ کر ردی اور بیکار ردی کردیا۔ اور آیت میں ہے کافروں کی اعمال کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پیاسا ریت کے تودے کو پانی کا دریا سمجھ رہا ہو لیکن جب پاس آتا ہے تو ایک بوند پانی کی نہیں پاتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے طور پر عبادت ریاضت تو کرتے رہے اور دل میں بھی سمجھتے رہے کہ ہم بہت کچھ نیکیاں کر رہے ہیں اور وہ مقبول اور اللہ کے پسندیدہ ہیں لیکن چونکہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ تھیں، نبیوں کے فرمان کے مطابق نہ تھیں اس لئے بجائے مقبول ہونے کے مردود ہوگئیں اور بجائے محبوب ہونے کے مبغوض ہوگئے۔ اس لئے وہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے رہے اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کے تمام تر ثبوت ان کے سامنے تھے لیکن انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور مانے ہی نہیں۔ ان کا نیکی کا پلڑا باکل خالی رہے گا۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے قیامت کے دن ایک موٹا تازہ بڑا بھاری آدمی آئے گا لیکن اللہ کے نزدیک اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا پھر آپ نے فرمایا اگر تم چاہو اس آیت کی تلاوت کرلو ( فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا01005 ) 18۔ الكهف :105) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے بہت زیادہ کھانے پینے والے موٹے تازے انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے لایا جائے گا لیکن اس کا وزن اناج کے ایک دانے کے برابر بھی نہ ہوگا۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ بزار میں ہے ایک قریشی کافر اپنے حلے میں اتراتا ہوا حضور ﷺ کے سامنے سے گزرا تو آپ نے حضرت بریدہ ؓ سے فرمایا یہ ان میں سے ہے جن کا کوئی وزن قیامت کے دن اللہ کے پاس نہ ہوگا۔ مرفوع حدیث کی طرح حضرت کعب کا قول بھی مروی ہے۔ یہ بدلہ ہے ان کے کفر کا، اللہ کی آیتوں کا اور اس کے رسولوں کو ہنسی مذاق میں اڑانے کا۔ اور ان کے نہ ماننے بلکہ انہیں جھٹلانے کا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 104 اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَاایسے لوگ جنہیں آخرت مطلوب ہی نہیں ان کی ساری تگ و دو اور سوچ بچار دنیا کمانے کے لیے ہے۔ آخرت کے لیے انہوں نے نہ تو کبھی کوئی منصوبہ بندی کی اور نہ ہی کوئی محنت۔ بس برائے نام اور موروثی مسلمانی کا بھرم رکھنے کے لیے کبھی کوئی نیک کام کرلیا کبھی نماز بھی پڑھ لی اور کبھی روزہ بھی رکھ لیا۔ مگر اللہ کو اصل میں ان سے مقصود و مطلوب کیا ہے ؟ اس بارے میں انہوں نے کبھی سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ایسے لوگوں کو ان کی محنت کا صلہ حسب مشیت الٰہی دنیا ہی میں مل جاتا ہے جبکہ آخرت میں ان کے لیے سوائے جہنم کے اور کچھ نہیں۔ اس مضمون کا ذروۂ سنام سورة بنی اسرائیل کی یہ آیات ہیں : مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا ” جو کوئی طلب گار بنتا ہے جلدی والی دنیا کا تو ہم اس کو جلدی دے دیتے ہیں اس میں جو کچھ ہم چاہتے ہیں جس کے لیے چاہتے ہیں پھر ہم مقرر کردیتے ہیں اس کے لیے جہنم وہ داخل ہوگا اس میں ملامت زدہ دھتکارا ہوا۔ اور جو کوئی آخرت کا طلبگار ہو اور کوشش کرے اس کے لیے اس کی سی کوشش اور وہ مؤمن بھی ہو تو وہی لوگ ہوں گے جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی “۔ چناچہ نجات اخروی کا امیدوار بننے کے لیے ہر بندۂ مسلمان کو واضح طور پر اپنا راستہ متعین کرنا ہوگا کہ وہ طالب دنیا ہے یا طالب آخرت ؟ جہاں تک دنیا میں رہتے ہوئے ضروریات زندگی کا تعلق ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک و بد سب کی پوری ہو رہی ہیں : كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا بنی اسرائیل ” ہم سب کو مدد پہنچائے جا رہے ہیں ان کو بھی اور ان کو بھی آپ کے رب کی عطا سے اور آپ کے رب کی عطا رکی ہوئی نہیں ہے “۔ لہٰذا انسان کو اپنی ضروریات زندگی کے حصول کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنا چاہیے۔ اس نے انسان کو دنیا میں زندہ رکھنا ہے تو وہ اس کے کھانے پینے کا بندو بست بھی کرے گا : وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ الطلاق : 3 ” وہ اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا “۔ چناچہ ایک بندۂ مؤمن کو چاہیے کہ فکر دنیا سے بےنیاز ہو کر آخرت کو اپنا مطلوب و مقصود بنائے اور ان لوگوں کے راستے پر نہ چلے جنہوں نے سرا سر گھاٹے کا سودا کیا ہے جن کی ساری محنت اور تگ و دو دنیا کی زندگی ہی میں گم ہو کر رہ گئی ہے :وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًاایسے لوگ اپنے کاروبار کی ترقی جائیدادوں میں اضافے اور دیگر مادی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ ان کی محنتیں روز بروز نتیجہ خیز اور کوششیں بار آور ہو رہی ہیں۔
الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا وهم يحسبون أنهم يحسنون صنعا
سورة: الكهف - آية: ( 104 ) - جزء: ( 16 ) - صفحة: ( 304 )Surah kahf Ayat 104 meaning in urdu
وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گر پڑتا ہے وہ سیدھے رستے پر
- اور بہت سی بستیاں ہیں کہ ہم نے ان کو تباہ کر ڈالا کہ وہ
- اور خدا ہی نے تم میں سے تمہارے لیے عورتیں پیدا کیں اور عورتوں سے
- جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے
- کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا
- پوچھو کہ یہ بہتر ہے یا بہشت جاودانی جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ ہے۔ یہ
- اور تکلف سے پہاڑوں میں تراش خراش کر گھر بناتے ہو
- کہیں گے بلکہ تم ہی کو خوشی نہ ہو۔ تم ہی تو یہ (بلا) ہمارے
- مومنو! خدا کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ
- خدا تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اس تک تمہاری
Quran surahs in English :
Download surah kahf with the voice of the most famous Quran reciters :
surah kahf mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter kahf Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers