Surah Zariyat Ayat 9 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ﴾
[ الذاريات: 9]
اس سے وہی پھرتا ہے جو (خدا کی طرف سے) پھیرا جائے
Surah Zariyat Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی نبی ( صلى الله عليه وسلم ) پر ایمان لانے سے، یا حق سےیعنی بعث وتوحید سے یا مطلب ہے مذکورہ اختلاف سے وہ شخص پھیر دیا گیا جسے اللہ نے اپنی توفیق سے پھیر دیا، پہلے مفہوم میں ذم ہے۔ دوسرے میں مدح۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
خلیفۃ المسلمین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوفے کے منبر پر چڑھ کر ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ قرآن کریم کی جس آیت کی بابت اور جس سنت رسول ﷺ کی بابت تم کوئی سوال کرنا چاہتے ہو کرلو۔ اس پر ابن الکواء نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ ( ذاریات ) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہوا، پوچھا ( حاملات ) سے ؟ فرمایا ابر۔ کہا ( جاریات ) سے ؟ فرمایا کشتیاں، کہا ( مقسمات ) سے ؟ فرمایا فرشتے اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے۔ بزار میں ہے ( صبیغ ) تمیمی امیر المومنین حضرت عمر کے پاس آیا اور کہا بتاؤ ( ذاریات ) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہوا۔ اور اسے اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہوا نہ ہوتا تو میں کبھی یہ مطلب نہ کہتا۔ پوچھا ( مقسمات ) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا فرشتے اور اسے بھی میں نے حضور ﷺ سے سن رکھا ہے۔ پوچھا ( جاریات ) سے کیا مطلب ہے ؟ فرمایا کشتیاں۔ یہ بھی میں نے اگر رسول اللہ ﷺ سے نہ سنا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا۔ پھر حکم دیا کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں چناچہ اسے درے مارے گئے اور ایک مکان میں رکھا گیا جب زخم اچھے ہوگئے تو بلوا کر پھر کوڑے پٹوائے، اور سوار کرا کر حضرت ابو موسیٰ کو لکھ بھیجا کہ یہ کسی مجلس میں نہ بیٹھنے پائے کچھ دنوں بعد یہ حضرت موسیٰ کے پاس آئے اور بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر انہیں یقین دلایا کہ اب میرے خیالات کی پوری اصلاح ہوچکی اب میرے دل میں بد عقیدگی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ چناچہ حضرت ابو موسیٰ نے جناب امیر المومنین کی خدمت میں اس کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ میرا خیال ہے کہ اب وہ واقعی ٹھیک ہوگیا ہے۔ اس کے جواب میں دربار خلافت سے فرمان پہنچا کہ پھر انہیں مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے۔ امام ابوبکر بزار فرماتے ہیں اس کے دو راویوں میں کلام ہے پس یہ حدیث ضعیف ہے۔ ٹھیک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ حدیث بھی موقوف ہے یعنی حضرت عمر کا اپنا فرمان ہے مرفوع حدیث نہیں۔ امیر المومنین نے اسے جو پٹوایا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بد عقیدگی آپ پر ظاہر ہوچکی تھی اور اس کے یہ سوالات ازروئے انکار اور مخالفت کے تھے واللہ اعلم۔ صبیغ کے باپ کا نام عسل تھا اور اس کا یہ قصہ مشہور ہے جسے پورا پورا حافظ ابن عساکر لائے ہیں۔ یہی تفسیر حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر حضرت مجاہد حضرت صعید بن جبیر حضرت حسن حضرت قتادہ حضرت سدی وغیرہ سے مروی ہے۔ امام ابن جریر اور امام ابن ابی حاتم نے ان آیتوں کی تفسیر میں اور کوئی قول وارد ہی نہیں کیا حاملات سے مراد ابر ہونے کا محاورہ اس شعر میں بھی پایا جاتا ہے۔ واسلمت نفسی لمن اسلمت لہ المزن تحمل عذباز لالا یعنی میں اپنے آپ کو اس اللہ کا تابع فرمان کرتا ہوں جس کے تابع فرمان وہ بادل ہیں جو صاف شفاف میٹھے اور ہلکے پانی کو اٹھا کرلے جاتے ہیں جاریات سے مراد بعض نے ستارے لئے ہیں جو آسمان پر چلتے پھرتے رہتے ہیں یہ معنی لینے میں یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہوگی۔ اولًا ہوا پھر بادل پھر ستارے پھر فرشتے۔ جو کبھی اللہ کا حکم لے کر اترتے ہیں کبھی کوئی سپرد کردہ کام بجا لانے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ چونکہ یہ سب قسمیں اس بات پر ہیں کہ قیامت ضرور آنی ہے اور لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اس لئے ان کے بعد ہی فرمایا کہ تمہیں جو وعدہ دیا جاتا ہے وہ سچا ہے اور حساب کتاب جزا سزا ضرور واقع ہونے والی ہے۔ پھر آسمان کی قسم کھائی جو خوبصورتی رونق حسن اور برابری والا ہے بہت سے سلف نے یہی معنی ( حبک ) کے بیان کئے ہیں حضرت ضحاک وغیرہ فرماتے ہیں کہ پانی کی موجیں، ریت کے ذرے، کھیتیوں کے پتے ہوا کے زور سے جب لہراتے ہیں اور پر شکن لہرائے دار ہوجاتے ہیں اور گویا ان میں راستے پڑجاتے ہیں اسی کو حبک کہتے ہیں، ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تمہارے پیچھے کذاب بہکانے والا ہے اس کے سر کے بال پیچھے کی طرف سے حبک حبک ہیں یعنی گھونگر والے۔ ابو صالح فرماتے ہیں حبک سے مراد شدت والا خصیف کہتے ہیں مراد خوش منظر ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں اس کی خوبصورتی اس کے ستارے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں اس سے مراد ساتواں آسمان ہے ممکن ہے آپ کا مطلب یہ ہو کہ قائم رہنے والے ستارے اس آسمان میں ہیں اکثر علماء ہیئت کا بیان ہے کہ یہ آٹھویں آسمان میں ہیں جو ساتویں کے اوپر ہے واللہ اعلم ان تمام اقوال کا ماحصل ایک ہی ہے یعنی حسن و رونق والا آسمان۔ اس کی بلندی، صفائی، پاکیزگی، بناوٹ کی عمدگی، اس کی مضبوطی، اس کی چوڑائی اور کشادگی، اس کا ستاروں کا جگمگانا، جن میں سے بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ٹھہرے ہوئے ہیں اس کا سورج اور چاند جیسے سیاروں سے مزین ہونا یہ سب اس کی خوبصورتی اور عمدگی کی چیزیں ہیں پھر فرماتا ہے اے مشرکو تم اپنے ہی اقوال میں مختلف اور مضطرب ہو تم کسی صحیح نتیجے پر اب تک خود اپنے طور پر بھی نہیں پہنچے ہو۔ کسی رائے پر تمہارا اجتماع نہیں، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان میں سے بعض تو قرآن کو سچا جانتے تھے بعض اس کی تکذیب کرتے تھے۔ پھر فرماتا ہے یہ حالت اسی کی ہوتی ہے جو خود گمراہ ہو۔ وہ اپنے ایسے باطل اقوال کی وجہ سے بہک اور بھٹک جاتا ہے صحیح سمجھ اور سچا علم اس سے فوت ہوجاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيْمِ01603 ) 37۔ الصافات:163) یعنی تم لوگ مع اپنے معبودان باطل کے سوائے جہنمی لوگوں کے کسی کو بہکا نہیں سکتے حضرت ابن عباس اور سدی فرماتے ہیں اس سے گمراہ وہی ہوتا ہے جو خود بہکا ہوا ہو۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس سے دور وہی ہوتا ہے جو بھلائیوں سے دور ڈال دیا گیا ہے حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں قرآن سے وہی ہٹتا ہے جو اسے پہلے ہی سے جھٹلانے پر کم کس لئے ہو پھر فرماتا ہے کہ بےسند باتیں کہنے والے ہلاک ہوں یعنی جھوٹی باتیں بنانے والے جنہیں یقین نہ تھا جو کہتے تھے کہ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں حضرت معاذ بھی اپنے خطبے میں یہی فرماتے تھے، یہ دھوکے والے اور بدگمان لوگ ہیں پھر فرمایا جو لوگ اپنے کفر و شک میں غافل اور بےپرواہ ہیں۔ یہ لوگ ازروئے انکار پوچھتے ہیں کہ جزا کا دن کب آئے گا ؟ اللہ فرماتا ہے اس دن تو یہ آگ میں تپائے جائیں گے جس طرح سونا تپایا جاتا ہے یہ اس میں جلیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ جلنے کا مزہ چکھو۔ اپنے کرتوت کے بدلے برداشت کرو۔ پھر ان کی اور زیادہ حقارت کے لئے ان سے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا یہی ہے جس کی جلدی مچا رہے تھے کہ کب آئے گا کب آئے گا، واللہ اعلم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 9{ یُّـؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِکَ۔ } ” اس سے وہی پھیرا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ہے۔ “ تم میں سے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو وحی کے اس پیغام کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے اور جزا و سزا کے متعلق مختلف باتیں بناتے رہتے ہیں۔ حالانکہ جزاو سزا کا معاملہ ایک بدیہی حقیقت ہے اور اس کو تسلیم کرنے سے وہی شخص باز رہے گا جو راندئہ درگاہ ہے اور خیر وسعادت کے راستوں سے پھیر دیا گیا ہے۔
Surah Zariyat Ayat 9 meaning in urdu
اُس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں اور ان کے درمیان اور بہت سی جماعتوں
- کیا تم کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین
- یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ
- اور وہ انہیں لکھنا (پڑھنا) اور دانائی اور تورات اور انجیل سکھائے گا
- اور جو گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے
- اور اس سے پہلے کہ تم پر ناگہاں عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی
- اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے)
- اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو
- تاکہ سچ کہنے والوں سے اُن کی سچائی کے بارے میں دریافت کرے اور اس
- اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ
Quran surahs in English :
Download surah Zariyat with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Zariyat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Zariyat Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers