Surah hashr Ayat 9 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ حشر کی آیت نمبر 9 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah hashr ayat 9 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
[ الحشر: 9]

Ayat With Urdu Translation

اور (ان لوگوں کے لئے بھی) جو مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (یعنی مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے (اور) جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش (اور خلش) نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو۔ اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ مراد پانے والے ہیں

Surah hashr Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) ان سے انصار مدینہ مراد ہیں، جو مہاجرین کے مدینہ آنے سے قبل مدینے میں آباد تھے اور مہاجرین کے ہجرت کرکے آنے سے قبل، ایمان بھی ان کے دلوں میں قرار پکڑ چکا تھا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ مہاجرین کے ایمان لانے سے پہلے ، یہ انصار ایمان لاچکے تھے، کیونکہ ان کی اکثریت مہاجرین کے ایمان لانے کے بعد ایمان لائی ہے۔ یعنی مِنْ قَبْلِهِمْ کا مطلب مِنْ قَبْلِ هِجْرَتِهِمْ ہے۔ اور دَارٌ سے دَارُ الْهِجْرَةِ یعنی مدینہ مراد ہے۔
( 2 ) یعنی مہاجرین کو اللہ کا رسول ( صلى الله عليه وسلم ) جو کچھ دے، اس پر حسد اور انقباض محسوس نہیں کرتے ، جیسے مال فیء کا اولین مستحق بھی ان کو قرار دیا گیا۔ لیکن انصار نے برا نہیں منایا۔
( 3 ) یعنی اپنے مقابلے میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں۔ خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کے پاس ایک مہمان آیا، لیکن آپ ( صلى الله عليه وسلم ) کے گھر میں کچھ نہ تھا، چنانچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا، گھر جاکر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے۔ انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے۔ البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں۔ صبح جب وہ صحابی رسول اللہ ( صلى الله عليه وسلم ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ( صلى الله عليه وسلم ) نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ الآیہ ( صحيح بخاري ، تفسير سورة الحشر ) ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کرلے۔ ( صحيح البخاري ، كتاب النكاح )۔
( 4 ) حدیث میں ہے ” شُح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے انہیں خون ریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کر لیا “۔ ( صحيح مسلم ، كتاب البر ، تحريم الظلم )

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


مال فے کے حقدار اوپر بیان ہوا تھا کہ فے کا مال یعنی کافروں کا جو مال مسلمانوں کے قبضے میں میدان جنگ میں لڑے بھڑے بغیر آگیا ہو اس کے مالک رسول اللہ ﷺ ہیں پھر آپ یہ مال کسے دیں گے ؟ اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس کے حق دار وہ غریب مہاجر ہیں جنہوں نے اللہ کو رضامند کرنے کے لئے اپنی قوم کو ناراض کرلیا یہاں تک کہ انہیں اپنا وطن عزیز اور اپنے ہاتھ کا مشکلوں سے جمع کیا ہوا مال وغیرہ سب چھوڑ چھاڑ کر چل دینا پڑا، اللہ کے دین اور اس کے رسول ﷺ کی مدد میں برابر مشغول ہیں، اللہ کے فضل و خوشنودی کے متلاشی ہیں، یہی سچے لوگ ہیں جنہوں نے اپنا فعل اپنے قول کے مطابق کر دکھایا، یہ اوصاف سادات مہاجرین میں تھے ؓ۔ پھر انصار کی مدح بیان ہو رہی ہے اور ان کی فضیلت شرافت کرم اور بزرگی کا اظہار ہو رہا ہے، ان کی کشادہ دلی، نیک نفسی، ایثار اور سخاوت کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے ہی دارالہجرت مدینہ میں اپنی بود و باش رکھی اور ایمان پر قیام رکھا، مہاجرین کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ ایمان لا چکے تھے بلکہ بہت سے مہاجرین سے بھی پہلے یہ ایمان دار بن گئے تھے۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر یہ روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں اپنے بعد کے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین اولین کے حق ادا کرتا رہے، ان کی خاطر مدارت میں کمی نہ کرے اور میری وصیت ہے کہ انصار کے ساتھ بھی نیکی اور بھلائی کرے جنہوں نے مدینہ میں جگہ بنائی اور ایمان میں جگہ حاصل کی، ان کے بھلے لوگوں کی بھلائیاں قبول کرے اور ان کی خطاؤں سے درگذر اور چشم پوشی کرلے۔ ان کی شرافت طبعی ملاحظہ ہو کر جو بھی راہ اللہ میں ہجرت کر کے آئے یہ اپنے دل میں اسے گھر دیتے ہیں اور اپنا جان و مال ان پر سے نثار کرنا اپنا فخر جانتے ہیں، مسند احمد میں ہے کہ مہاجرین نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ ہم نے تو دنیا میں ان انصار جیسے لوگ نہیں دیکھے تھوڑے میں سے تھوڑا اور بہت میں سے بہت برابر ہمیں دے رہے ہیں، مدتوں سے ہمارا کل خرچ اٹھا رہے ہیں بلکہ ناز برداریاں کر رہے ہیں اور کبھی چہرے پر شکن بھی نہیں بلکہ خدمت کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، دیتے ہیں اور احسان نہیں رکھتے کام کاج خود کریں اور کمائی ہمیں دیں، حضور ﷺ ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے اعمال کا سارا کا سارا اجر انہی کو نہ مل جائے۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں جب تک تم ان کی ثناء اور تعریف کرتے رہو گے اور ان کے لئے دعائیں مانگتے رہو گے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے انصاریوں کو بلا کر فرمایا کہ میں بحرین کا علاقہ تمہارے نام لکھ دیتا ہوں، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ جب تک آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اتنا ہی نہ دیں ہم اسے نہ لیں گے آپ نے فرمایا اچھا اگر نہیں لیتے تو دیکھو آئندہ بھی صبر کرتے رہنا میرے بعد ایسا وقت بھی آئے گا کہ اوروں کو دیا جائے گا اور تمہیں چھوڑ دیا جائے گا، صحیح بخاری شریف کی اور حدیث میں ہے کہ انصاریوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمارے کھجوروں کے باغات ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں تقسیم کر دیجئے آپ نے فرمایا نہیں، پھر فرمایا سنو کام کاج بھی تم ہی کرو اور ہم سب کو تو پیداوار میں شریک رکھو، انصار نے جواب دیا یارسول اللہ ﷺ ہمیں یہ بھی بخوشی منظور ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ اپنے دلوں میں کوئی حسد ان مہاجرین کی قدر و منزلت اور ذکر و مرتبت پر نہیں کرتے، جو انہیں مل جائے انہیں اس پر رشک نہیں ہوتا، اسی مطلب پر اس حدیث کی دلالت بھی ہے جو مسند احمد میں حضرت انس ؓ کی روایت سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے، تھوڑی دیر میں ایک انصاری ؓ اپنے بائیں ہاتھ میں اپنی جوتیاں لئے ہوئے تازہ وضو کر کے آ رہے تھے داڑھی پر سے پانی ٹپک رہا تھا دوسرے دن بھی اسی طرح ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے یہی فرمایا اور وہی شخص اسی طرح آئے تیسرے دن بھی یہی ہوا حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص آج دیکھتے بھالتے رہے اور جب مجلس نبوی ختم ہوئی اور یہ بزرگ وہاں سے اٹھ کر چلے تو یہ بھی ان کے پیچھے ہو لئے اور انصاری سے کہنے لگے حضرت مجھ میں اور میرے والد میں کچھ بول چال ہوگئی ہے جس پر میں قسم کھا بیٹھا ہوں کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا پس اگر آپ مہربانی فرما کر مجھے اجازت دیں تو میں یہ تین دن آپ کے ہاں گذار دوں انہوں نے کہا بہت اچھا چناچہ حضرت عبداللہ ﷺ نے یہ تین راتیں ان کے گھر ان کے ساتھ گزاریں دیکھا کہ وہ رات کو تہجد کی لمبی نماز بھی نہیں پڑھتے صرف اتنا کرتے ہیں کہ جب آنکھ کھلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی بڑائی اپنے بستر پر ہی لیٹے لیٹے کرلیتے ہیں یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لئے اٹھیں ہاں یہ ضروری بات تھی کہ میں نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہیں سنا، جب تین راتیں گذر گئیں تو مجھے ان کا عمل بہت ہی ہلکا سا معلوم ہونے لگا اب میں نے ان سے کہا کہ حضرت دراصل نہ تو میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان کوئی ایسی باتیں ہوئی تھیں نہ میں نے ناراضگی کے باعث گھر چھوڑا تھا بلکہ واقعہ یہ ہوا کہ تین مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی شخص آ رہا ہے اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کی خدمت میں کچھ دن رہ کر دیکھوں تو سہی کہ آپ ایسی کونسی عبادتیں کرتے ہیں جو جیتے جی بہ زبان رسول ﷺ آپ کے جنتی ہونے کی یقینی خبر ہم تک پہنچ گئی چناچہ میں نے یہ بہانہ کیا اور تین رات تک آپ کی خدمت میں رہا تاکہ آپ کے اعمال دیکھ کر میں بھی ویسے ہی عمل شروع کر دوں لیکن میں نے تو آپ کو نہ تو کوئی نیا اور اہم عمل کرتے ہوئے دیکھا نہ عبادت میں ہی اوروں سے زیادہ بڑھا ہوا دیکھا اب جا رہا ہوں لیکن زبانی ایک سوال ہے کہ آپ ہی بتایئے آخر وہ کونسا عمل ہے جس نے آپ کو رسول اللہ ﷺ کی زبانی جنتی بنایا ؟ آپ نے فرمایا بس تم میرے اعمال تو دیکھ چکے ان کے سوا اور کوئی خاص پوشیدہ عمل تو ہے نہیں چناچہ میں ان سے رخصت ہو کر چلا تھوڑی ہی دور نکلا تھا جو انہوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا ہاں میرا ایک عمل سنتے جاؤ وہ یہ کہ میرے دل میں کبھی کسی مسلمان سے دھوکہ بازی، حسد اور بغض کا ارادہ بھی نہیں ہوا میں کبھی کسی مسلمان کا بد خواہ نہیں بنا، حضرت عبداللہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بس اب معلوم ہوگیا اسی عمل نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہر ایک کے بس کی نہیں۔ امام نسائی بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں اس حدیث کو لائے ہیں، غرض یہ ہے کہ ان انصار میں یہ وصف تھا کہ مہاجرین کو اگر کوئی مال وغیرہ دیا جائے اور انہیں نہ ملے تو یہ برا نہیں مانتے تھے، بنو نضیر کے مال جب مہاجرین ہی میں تقسیم ہوئے تو کسی انصاری نے اس میں کلام کیا جس پر آیت ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ للرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۘ ) 59۔ الحشر:7) اتری، آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارے مہاجر بھائی مال و اولاد چھوڑ کر تمہاری طرف آتے ہیں انصار نے کہا پھر حضور ﷺ ہمارا مال ان میں اور ہم میں برابر بانٹ دیجئے آپ نے فرمایا اس سے بھی زیادہ ایثار کرسکتے ہو ؟ انہوں نے کہا جو حضور ﷺ کا ارشاد ہو آپ نے فرمایا مہاجر کھیت اور باغات کا کام نہیں جانتے تم آپ اپنے مال کو قبضہ میں رکھو خود کام کرو خود باغات میں محنت کرو اور پیداوار میں انہیں شریک کردو انصار نے اسے بھی بہ کشادہ پیشانی منظور کرلیا۔ پھر فرماتا ہے کہ خود کو حاجت ہونے کے باوجود بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی حاجت کو مقدم رکھتے ہیں اپنی ضرورت خواہ باقی رہ جائے۔ لیکن دوسرے مسلمان کی ضرورت جلد پوری ہوجائے یہ ان کی ہر وقت کی خواہش ہے، ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ جس کے پاس کمی اور قلت ہو خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی صدقہ کرے اس کا صدقہ افضل اور بہتر ہے۔ یہ درجہ ان لوگوں کے درجہ سے بھی بڑھا ہوا ہے جن کا ذکر اور جگہ ہے کہ مال کی چاہت کے باوجود اسے راہ اللہ خرچ کرتے ہیں لیکن یہ لوگ تو خود اپنی حاجت ہوتے ہوئے صرف کرتے ہیں، محبت ہوتی ہے اور حاجت نہیں ہوتی اس وقت کا خرچ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا کہ خود کو ضرورت ہو اور پھر بھی راہ اللہ دے دینا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا صدقہ اسی قسم سے ہے کہ آپ نے اپنا کل مال لا کر اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے ڈھیر لگا دیا آپ نے پوچھا تبھی ابوبکر کچھ باقی بھی رکھ آئے ہو ؟ جواب دیا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو باقی رکھ آیا ہوں، اسی طرح وہ واقعہ ہے جو جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ اور ان کے ساتھیوں کو پیش آیا تھا کہ میدان جہاد میں زخم خوردہ پڑے ہوئے ہیں ریت اور مٹی زخموں میں بھر رہی ہے کہ کراہ رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں، سخت تیز دھوپ پڑ رہی ہے، پیاس کے مارے حلق چیخ رہا ہے، اتنے میں ایک مسلمان کندھے پر مشک لٹکائے آجاتا ہے اور ان مجروح مجاہدین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ لیکن ایک کہتا ہے اس دوسرے کو پلاؤ دوسرا کہتا ہے اس تیسرے کو پہلے پلاؤ وہ ابھی تیسرے تک پہنچا بھی نہیں کہ ایک شہید ہوجاتا ہے، دوسرے کو دیکھتا ہے کہ وہ بھی پیاسا ہی چل بسا، تیسرے کے پاس آتا ہے لیکن دیکھتا ہے کہ وہ بھی سوکھے ہونٹوں ہی اللہ سے جا ملا۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں سے خوش ہو اور انہیں بھی اپنی ذات سے خوش رکھے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ ﷺ میں سخت حاجت مند ہوں مجھے کچھ کھلوایئے آپ نے اپنے گھروں میں آدمی بھیجا لیکن تمام گھروں سے جواب ملا کہ حضور ﷺ ہمارے پاس خود کچھ نہیں یہ معلوم کر کے پھر آپ نے اور لوگوں سے کہا کہ کوئی ہے جو آج کی رات انہیں اپنا مہمان رکھے ؟ ایک انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا حضور ﷺ میں انہیں اپنا مہمان رکھوں گا چناچہ یہ لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا دیکھو یہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان ہیں آج گو ہمیں کچھ بھی کھانے کو نہ ملے لیکن یہ بھوکے نہ رہیں بیوی صاحبہ نے کہا آج گھر میں بھی برکت ہے بچوں کے لئے البتہ کچھ ٹکڑے رکھے ہوئے ہیں انصاری نے فرمایا اچھا بچوں کو تو بھلا پھسلا کر بھوکا سلا دو اور ہم تم دونوں اپنے پیٹ پر کپڑا باندھ کر فاقے سے رات گذار دیں گے، کھاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ مہمان یہ سمجھے کہ ہم کھا رہے ہیں اور دراصل ہم کھائیں گے نہیں۔ چناچہ ایسا ہی کیا صبح جب یہ شخص انصاری رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کے اور اس کی بیوی کے رات کے عمل سے اللہ تعالیٰ خوش ہوا اور ہنس دیا انہی کے بارے میں ( وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ ) 59۔ الحشر:9) نازل ہوئی، صحیح مسلم کی روایت ہے میں ان انصاری کا نام ہے حضرت ابو طلحہ ؓ۔ پھر فرماتا ہے جو اپنے نفس کی بخیلی حرص اور لالچ سے بچ گیا اس نے نجات پا لی۔ مسند احمد اور مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں لوگو ظلم سے بچو ! قیامت کے دن یہ ظلم اندھیرا بن جائے گا لوگو بخیلی اور حرص سے بچو یہی وہ چیز ہے جس نے تم سے پہلے لوگوں کو برباد کردیا اسی کی وجہ سے انہوں نے خونریزیاں کیں اور حرام کو حلال بنا لیا اور سند سے یہ بھی مروی ہے کہ فحش سے بچو۔ اللہ تعالیٰ فحش باتوں اور بےحیائی کے کاموں کو ناپسند فرماتا ہے، حرص اور بخیلی کی مذمت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اسی کے باعث اگلوں نے ظلم کئے فسق و فجور کئے اور قطع رحمی کی۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے اللہ کی راہ کا غبار اور جہنم کا دھواں کسی بندے کے پیٹ میں جمع ہو ہی نہیں سکتا اسی طرح بخیلی اور ایمان بھی کسی بندہ کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے، یعنی راہ اللہ کی گرد جس پر پڑی وہ جہنم سے آزاد ہوگیا اور جس کے دل میں بخیلی نے گھر کرلیا اس کے دل میں ایمان کی رہنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی، حضرت عبداللہ ؓ کے پاس آ کر ایک شخص نے کہا اے ابو عبدالرحمٰن میں تو ہلاک ہوگیا آپ نے فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا قرآن میں تو ہے جو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا دیا گیا اس نے فلاح پالی اور میں تو مال کو بڑا روکنے والا ہوں، خرچ کرتے ہوئے دل رکتا ہے آپ نے فرمایا اس کنجوسی کا ذکر اس آیت میں نہیں یہاں مراد بخیلی سے یہ ہے کہ تو اپنے کسی مسلمان بھائی کا مال ظلم سے کھاجائے، ہاں بخیلی بہ معنی کنجوسی بھی ہے بہت بری چیز ہے ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابو لہیاج اسدی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک صاحب صرف یہی دعا پڑھ رہے ہیں۔ ( دعا اللھم فی سخ نفسی ) الٰہی مجھے میرے نفس کی حرص و آڑ سے بچا لے آخر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا آپ صرف یہی دعا کیوں مانگ رہے ہیں ؟ اس نے کہا جب اس سے بچاؤ ہوگیا تو پھر نہ زنا کاری ہو سکے گی نہ چوری اور نہ کوئی برا کام اب جو میں نے دیکھا تو وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف تھے ؓ ( ابن جریر ) ایک حدیث میں ہے جس نے زکوٰۃ ادا کی اور مہمانداری کی اور اللہ کی راہ کے ضروری کاموں میں دیا وہ اپنے نفس کی بخیلی سے دور ہوگیا، پھر مال فے کے مستحقین لوگوں کی تیسری قسم کا بیان ہو رہا ہے کہ انصار اور مہاجر کے فقراء کے بعد ان کے تابع جو ان کے بعد کے لوگ ہیں ان میں سے مساکین بھی اس مال کے مستحق ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے سے اگلے باایمان لوگوں کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جیسے کہ سورة برات میں ہے ( وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ01000 )التوبة:100) یعنی اول اول سبقت کرنے والے مہاجر و انصار اور ان کے بعد کے وہ لوگ جو احسان میں ان کے متبع ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے خوش ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں یعنی یہ بعد کے لوگ ان اگلوں کے آثار حسنہ اور اوصاف جمیلہ کی اتباع کرنے والے اور انہیں نیک دعاؤں سے یاد رکھنے والے ہیں گویا ظاہر باطن ان کے تابع ہیں، اس دعا سے حضرت امام مالک ؒ نے کتنا پاکیزہ استدلال کیا ہے کہ رافضی کو مال فے سے امام وقت کچھ نہ دے کیونکہ وہ اصحاب رسول ﷺ کے لئے دعا کرنے کی بجائے انہیں گالیاں دیتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ان لوگوں کو دیکھو کس طرح قرآن کے خلاف کرتے ہیں قرآن حکم دیتا ہے کہ مہاجر و انصار کے لئے دعائیں کرو اور یہ گالیاں دیتے ہیں پھر یہی آیت آپ نے تلاوت فرمائی ( ابن ابی حاتم ) اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ میں نے تمہارے نبی ﷺ سے سنا ہے کہ یہ امت ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ ان کے پچھلے ان کے پہلوں کو لعنت کریں گے ( بغوی ) ابو داؤد میں ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا ( وَمَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَآ اَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّــطُ رُسُلَهٗ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ) 59۔ الحشر:6) میں جس مال فے کا بیان ہے وہ تو خاص رسول اللہ ﷺ کا ہے اسی طرح اس کے بعد کی ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ للرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۘ ) 59۔ الحشر:7) والی نے عام کردیا ہے تمام مسلمانوں کو اس میں شامل کرلیا ہے اب ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس کا حق اس مال میں نہ ہو سوائے تمہارے غلاموں کے، اس حدیث کی سند میں انتقطاع ہے، ابن جریر میں ہے حضرت عمر فاروق ؓ نے ( اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭفَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ 60؀ )التوبة:60) تک پڑھ کر فرمایا مال زکوٰۃ کے مستحق تو یہ لوگ ہیں پھر ( وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ 41؀ )الأنفال:41) والی پوری آیت کو پڑھ کر فرمایا مال غنیمت کے مستحق یہ لوگ ہیں پھر یہ ( مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ للرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ۘ ) 59۔ الحشر:7) پڑھ کر فرمایا مال فے کے مستحقین کو بیان فرماتے ہوئے اس آیت نے تمام مسلمانوں کو اس مال فے کا مستحق کردیا ہے، سب اس کے مستحق ہیں۔ اگر میں زندہ رہا تو تم دیکھو گے کہ گاؤں گوٹھوں کے چروا ہے کو بھی اس کا حصہ دوں گا جس کی پیشانی پر اس مال کے حاصل کرنے کے لئے پسینہ تک نہ آیا۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 9{ وَالَّذِیْنَ تَـبَـوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَـبْلِہِمْ } ” اور اس مال میں ان کا بھی حق ہے جو آباد تھے اپنے گھروں میں اور جن کے پاس ایمان بھی تھا ان مہاجرین کی آمد سے پہلے “ یہ انصارِ مدینہ کا ذکر ہے کہ مہاجرین کی آمد پر ان کا طرزعمل کیا تھا : { یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَـیْہِمْ } ” وہ محبت کرتے ہیں ان سے جنہوں نے ہجرت کی ان کی طرف “ مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ ان میں سے کسی کے دل میں قطعاً کوئی ایسا خیال نہیں آیا کہ ان لوگوں کے آنے سے ہماری آبادی بڑھ جائے گی اور ان کی ناداری و محرومی ہماری معیشت پر بوجھ بن جائے گی۔ { وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّـآ اُوْتُوْا } ” اور وہ نہیں پاتے اپنے سینوں میں کوئی حاجت اس بارے میں کہ جو کچھ ان مہاجرین کو دیا جاتا ہے “ انصارِ مدینہ کے دل اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے ایثار و قربانی کے اعلیٰ جذبات سے لبریز ہیں ‘ اور یہ جذبات ان کے دلوں میں اس دولت ایمان کے باعث پیدا ہوئے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بہرہ ور فرمایا ہے۔ یہ آیت دراصل انصارِ مدینہ کی تسکین وتشفی کے لیے ان کے جذبہ ایمان کو اپیل کرتے ہوئے نازل ہوئی تاکہ اگر ان میں سے کچھ لوگوں کے دلوں میں بنونضیر کے چھوڑے ہوئے مال سے متوقع حصہ نہ ملنے کے باعث کچھ ملال وغیرہ کے احساسات پیدا ہوئے ہوں تو وہ ختم ہوجائیں۔ { وَیُـؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَـوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌط } ” اور وہ تو خود پر ترجیح دیتے ہیں دوسروں کو خواہ ان کے اپنے اوپر تنگی ہو۔ “ ایثار کے معنی کسی کے لیے قربانی دینے اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کے ہیں۔ ظاہر ہے انصارِ مدینہ میں سے بھی سب لوگ دولت مند تو نہیں تھے ‘ ان میں بھی بہت سے لوگ نادار اور تنگ دست تھے ‘ لیکن ان میں سے ہر ایک نے اپنی احتیاج اور ضرورت کو پس پشت ڈال کر استطاعت بھر اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کی تھی۔ ان کے اسی جذبہ ایثار کا اعتراف یہاں اس آیت میں کیا گیا ہے۔ { وَمَنْ یُّـوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ } ” اور جو کوئی بھی بچالیا گیا اپنے جی کے لالچ سے تو وہی لوگ ہیں فلاح پانے والے۔ “ اب اس کے بعد جو آیت آرہی ہے وہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ حضرت عمر فاروق رض نے ایران ‘ عراق ‘ مصر ‘ شام وغیرہ کے مفتوحہ علاقوں کی زمینوں کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے اس آیت سے استدلال کیا تھا۔ ان علاقوں کی زمینیں بہت زرخیز ہیں ‘ خصوصی طور پر عراق اور شام کے درمیان صحرا میں واقع وہ علاقہ جو Fertile Crescent کہلاتا ہے ‘ اپنی زرخیزی کے اعتبار سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ جب یہ وسیع و عریض علاقے فتح ہوئے تو ان کی زرعی زمینوں کے نظم و نسق کا مسئلہ سامنے آیا۔ اس معاملے میں زیادہ تر صحابہ رض کی رائے یہ تھی کہ مال غنیمت کی تقسیم کے اصول کے مطابق پانچواں حصہ بیت المال کے لیے مختص کر کے باقی زمینیں ہر محاذ کے مجاہدین میں تقسیم کردی جائیں۔ البتہ حضرت عمر رض اس رائے سے متفق نہیں تھے۔ آپ کی رائے یہ تھی کہ ان ممالک کی زمینیں مال غنیمت کے بجائے مالِ فے کے زمرے میں آتی ہیں ‘ اس لیے ان پر مال فے کے قانون کا اطلاق ہونا چاہیے۔ اس نکتے کی مزید وضاحت یہ ہے کہ مال غنیمت صرف وہ مال ہے جو جنگ میں دشمن کو شکست دینے کے بعد عین محاذ جنگ سے مسلمان مجاہدین کے ہاتھ لگے۔ جیسے اسلحہ ‘ راشن ‘ بھیڑ بکریاں ‘ اونٹ گھوڑے ‘ جنگی قیدی وغیرہ۔ لیکن اگر کسی ایک جنگ کے نتیجے میں کوئی پورا ملک فتح ہوجائے جیسے ابراہیم لودھی پانی پت کے میدان میں بابر سے صرف ایک جنگ ہارا تو اس کے نتیجے میں پورے ہندوستان پر بابر کا قبضہ ہوگیا تو میدانِ جنگ سے باہر کی اراضی ‘ املاک اور آبادی کو مال فے شمار کیا جائے گا۔ حضرت عمر رض نے اس معاملے میں اگلی آیت کے ان الفاظ سے استدلال کیا تھا : { وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْ مِنْم بَعْدِہِمْ } ” اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے “۔ پچھلی آیات کے مضمون سے اس آیت کے ان الفاظ کا ربط یوں بنتا ہے کہ مال فے پر حق ہے اللہ و رسول ﷺ کا ‘ رسول اللہ ﷺ کے عزیز و اقارب کا ‘ غرباء و مساکین کا ‘ انصار و مہاجرین کا بحوالہ آیات 7 اور 8 اور ان لوگوں کا جو ان کے بعد آئیں گے۔ ان آیات کے سیاق وسباق میں حضرت عمر رض کا موقف یہ تھا کہ آج کے مال فے میں اس امت کے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کا بھی حق ہے اور اگر آج یہ زمینیں چندہزار مجاہدین میں تقسیم کردی گئیں تو بعد میں آنے والے مسلمان گویا اس حق سے محروم رہ جائیں گے۔ حضرت عمر رض کے اس استدلال سے بعض معتبر صحابہ رض نے اختلاف بھی کیا اور مذکورہ زمینوں کو مال غنیمت کے قانون کے تحت متعلقہ مجاہدین میں تقسیم کرنے پر اصرار کیا۔ اس اختلافِ رائے کے بعد حضرت عمر رض نے اس معاملے میں غور و خوض کے لیے اوس ‘ خزرج اور مہاجرین میں سے چند صحابہ رض پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دے دیا۔ کمیشن کے ارکان نے مسئلے سے متعلق مختلف آراء اور دیگر پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متفقہ طور پر جو فیصلہ دیا وہ حضرت عمر رض کی رائے کے عین مطابق تھا اور بعد میں اسی فیصلے پر تمام صحابہ رض کا اجماع ہوا۔ صحابہ رض کے اس اجماع یا فیصلے کے مطابق تمام مسلم ممالک کی اراضی دو اقسام میں بٹ گئی۔ جن علاقوں کے لوگ لڑے بھڑے بغیر ایمان لے آئے ان کی زمینیں ” عشری زمینیں “ ایسی زمین جو انفرادی ملکیت میں ہو اور اس کی پیداوار سے باقاعدہ ُ عشر وصول کیا جاتا ہو قرار پائیں۔ جبکہ بزور شمشیر فتح ہونے والے ممالک کی زمینوں کو ” خراجی زمینوں “ ایسی زمینیں جو بیت المال کی ملکیت ہوں اور ان کو کاشت کرنے والے لوگ اسلامی حکومت کو خراج ادا کریں کا درجہ دیا گیا۔ مثلاً مدینہ کو حضور ﷺ نے کسی جنگ کے نتیجے میں فتح نہیں کیا تھا بلکہ مدینہ کے لوگوں نے حضور ﷺ کو وہاں آنے کی خود دعوت دی تھی ‘ اس لیے اوس اور خزرج کی تمام زمینیں ” عشری “ قرار پائیں اور متعلقہ لوگوں کی انفرادی ملکیت میں ہی رہیں ‘ جبکہ ایران ‘ عراق ‘ مصر ‘ شام وغیرہ ممالک کی زمینیں خراجی زمینوں کی حیثیت سے اسلامی حکومت کی تحویل میں چلی گئیں۔ اس طرح حضرت عمر رض کے اجتہاد کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ زمین کی اجتماعی ملکیت collective ownership of land کا نظام متعارف ہوا۔ اس وقت مفتوحہ علاقوں کی زمینیں اگر مال غنیمت کی حیثیت سے چند ہزار مجاہدین میں تقسیم کردی جاتیں تو اسلامی حکومت کے تحت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جاگیرداری وجود میں آجاتی۔ اور پھر یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہ ہوتا بلکہ جس ملک کی اراضی و املاک پر مال غنیمت کے قانون کا اطلاق ہوتا اس ملک کی پوری آبادی کو جنگی قیدیوں کی حیثیت سے غلام اور لونڈیاں بنا کر تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی آتا۔ اسی قانون کے تحت پچھلی صدی تک ہندوستان کی زمینوں کے بارے میں بھی یہاں کے علماء کا اجماع تھا کہ یہاں کی تمام زمینیں خراجی ہیں اور اس حیثیت سے یہ زمینیں یہاں کے مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت ہیں اور یہ کہ ہندوستان میں کوئی عشری زمین نہیں ہے۔ اس کا ذکر ہندوستان کے عظیم مفسر و محدث قاضی ثناء اللہ پانی پتی رح نے فقہ کے مسائل سے متعلق اپنے رسالے ” مَالاَ بُدَّ مِنْہ “ میں بھی کیا ہے۔ قاضی صاحب موصوف بہت بڑے صوفی اور مفتی بھی تھے۔ ان کی لکھی ہوئی ” تفسیر مظہری “ جسے انہوں نے اپنے مرشد مرزا مظہر جانِ جاناں رح کے نام سے منسوب کیا ہے ‘ آج کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ قاضی صاحب کا مرتب کردہ مذکورہ رسالہ فقہ کے بنیادی اور ابتدائی مسائل پر مشتمل ہے اور برصغیر کے تمام عربی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس رسالے میں انہوں نے عشر سے متعلق مسائل شامل ہی نہیں کیے اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ جب ہندوستان میں کوئی عشری زمین ہے ہی نہیں اور عشر سے متعلق احکام کی تنفیذ و تعمیل کا کوئی امکان ہی نہیں تو ان مسائل کو لکھنے ‘ پڑھنے یا سمجھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس علاقے میں جب کبھی اسلامی حکومت قائم ہو تو نئے بندوبست اراضی کے تحت بڑے بڑے جاگیرداروں سے وہ زمینیں واپس لی جاسکتی ہیں جو ماضی کے بادشاہوں ‘ انگریز حکمرانوں اور سپہ سالاروں کی ” نظر کرم “ کے باعث انہیں عطا ہوئی تھیں۔

والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم يحبون من هاجر إليهم ولا يجدون في صدورهم حاجة مما أوتوا ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون

سورة: الحشر - آية: ( 9 )  - جزء: ( 28 )  -  صفحة: ( 546 )

Surah hashr Ayat 9 meaning in urdu

(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالحجرت میں مقیم تھے یہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اِن کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دیدیا جائے اُس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. (مسلمانو) تم پر (خدا کے رستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار
  2. اور موسٰی نے کہا کہ میرا پروردگار اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس
  3. اور اے قوم! اپنے پروردگار سے بخشش مانگو پھر اس کے آگے توبہ کرو۔ وہ
  4. (کافر) کہتے ہیں کیا ہم الٹے پاؤں پھر لوٹ جائیں گے
  5. اور کہتے ہیں اگر خدا چاہتا تو ہم ان کو نہ پوجتے۔ ان کو اس
  6. نعمت کے باغوں میں
  7. اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت
  8. مگر میں تو یہ کہتا ہوں کہ خدا ہی میرا پروردگار ہے اور میں اپنے
  9. اگر تمہیں آسودگی حاصل ہو تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر رنج پہنچے
  10. اور آسمان وزمین میں جو کچھ ہے سب خدا ہی کا ہے۔ اور خدا ہر

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah hashr with the voice of the most famous Quran reciters :

surah hashr mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter hashr Complete with high quality
surah hashr Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah hashr Bandar Balila
Bandar Balila
surah hashr Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah hashr Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah hashr Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah hashr Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah hashr Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah hashr Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah hashr Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah hashr Fares Abbad
Fares Abbad
surah hashr Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah hashr Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah hashr Al Hosary
Al Hosary
surah hashr Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah hashr Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Wednesday, December 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers