Surah An Nahl Ayat 90 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿۞ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾
[ النحل: 90]
خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو
Surah An Nahl Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) عدل کے مشہور معنی انصاف کرنے کے ہیں۔ یعنی اپنوں اور بیگانوں سب کے ساتھ انصاف کیا جائے، کسی کے ساتھ دشمنی یا عناد یا محبت یا قرابت کی وجہ سے، انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ ایک دوسرے معنی اعتدال کے ہیں یعنی کسی معاملے میں بھی زیادتی یا کمی کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی۔ کیونکہ دین میں زیادتی کا نتیجہ حد سے زیادہ گزر جانا ہے، جو سخت خراب ہے اور کمی، دین میں کوتاہی ہے یہ بھی ناپسندیدہ ہے۔ احسان کے ایک معنی حسن سلوک، عفو ودرگزر اور معاف کر دینے کے ہیں۔ دوسرے معنی تفضل کے ہیں یعنی حق واجب سے زیادہ دینا یا عمل واجب سے زیادہ عمل کرنا۔ مثلا کسی کام کی مزدوری سو روپے طے ہے لیکن دیتے وقت ۱۰،۲۰ روپے زیادہ دے دینا، طے شدہ سو روپے کی ادائیگی حق واجب ہے اور یہ عدل ہے۔ مزید ۱۰،۲۰ روپے یہ احسان ہے۔ عدل سے بھی معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے لیکن احسان سے مزید خوش گواری اور اپنائیت و فدائیت کے جذبات نشو ونما پاتے ہیں۔ اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نوافل کا اہتمام، عمل واجب سے زیادہ عمل جس سے اللہ کا قرب خصوصی حاصل ہوتا ہے۔ احسان کے ایک تیسرے معنی اخلاص عمل اور حسن عبادت ہے، جس کو حدیث میں «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ» ” اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ” إِيَتَاءِ ذِي الْقُرْبَى “ ( رشتے داروں کا حق ادا کرنا یعنی ان کی امداد کرنا ہے ) اسے حدیث میں صلہ رحمی کہا گیا ہے اور اس کی نہایت تاکید احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ عدل واحسان کے بعد اس کا الگ سے ذکر یہ بھی صلہ رحمی کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔ ” فحشاء “ سے مراد بے حیائی کے کام ہیں۔ آج کل بےحیائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کا نام تہذیب ترقی اور آرٹ قرار پا گیا ہے۔ یا ” تفریح “ کے نام پر اس کا جواز تسلیم کر لیا گیا ہے۔ تاہم محض خوشنما لیبل لگا لینے سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی اسی طرح شریعت اسلامیہ نے زنا اور اس کے مقدمات کو رقص وسرود بےپردگی اور فیشن پرستی کو اور مرد و زن کے بےباکانہ اختلاط اور مخلوط معاشرت اور دیگر اس قسم کی خرافات کو بے حیائی قرار دیا ہے، ان کا کتنا بھی اچھا نام رکھ لیا جائے مغرب سے درآمد شدہ یہ خباثتیں جائز قرار نہیں پا سکتیں۔ ” مُنْكَرٌ “ ہر وہ کام ہے جسے شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے اور ” بَغْيٌ “ کا مطلب ظلم وزیادتی کا ارتکاب۔ ایک حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ قطع رحمی اور بغی یہ دونوں جرم اللہ کو اتنے ناپسند ہیں کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ( آخرت کے علاوہ ) دنیا میں بھی ان کی فوری سزا کا امکان غالب رہتا ہے۔ ( ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ, ﻛﺘﺎﺏ الزھد, ﺑﺎﺏ ﺍﻟﺒﻐﯽ )
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
بر ابر کا بدلہ اللہ سبحا نہ وتعالیٰ اپنے بندوں کو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور سلوک و احسان کی رہنمائی کرتا ہے گو بدلہ لینا بھی جائز ہے جیسے آیت ( وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ01206 ) 16۔ النحل:126) میں فرمایا کہ اگر بدلہ لے سکو تو برابر برابر کا بدلہ لو لیکن اگر صبر و برداشت کرلو تو کیا ہی کہنا یہ بڑی مردانگی کی بات ہے۔ اور آیت میں فرمایا اس کا اجر خدا کے ہاں ملے گا۔ ایک اور آیت میں ہے زخموں کا قصاص ہے لیکن جو درگزر کر جائے اس کے گناہوں کی معافی ہے۔ پس عدل تو فرض، احسان نفل اور کلمہ توحید کی شہادت بھی عدل ہے۔ ظاہر باطن کی پاکیزگی بھی عدل ہے اور احسان یہ ہے کہ پاکی صفائی ظاہر سے بھی زیادہ ہو۔ اور فحشاء اور منکر یہ ہے کہ باطن میں کھوٹ ہو اور ظاہر میں بناوٹ ہو۔ وہ صلہ رحمی کا بھی حکم دیتا ہے۔ جیسے صاف لفظوں میں ارشاد آیت ( وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا 26 ) 17۔ الإسراء :26)۔ رشتے داروں، مسکینوں، مسافروں کو ان کا حق دو اور بےجا خرچ نہ کرو۔ محرمات سے وہ تمہیں روکتا ہے، برائیوں سے منع کرتا ہے ظاہری باطنی تمام برائیاں حرام ہیں۔ لوگوں پر ظلم و زیادتی حرام ہے۔ حدیث میں ہے کہ کوئی گناہ ظلم و زیادتی اور قطع رحمی سے بڑھ کر ایسا نہیں کہ دنیا میں بھی جلدی ہی اس کا بدلہ ملے اور اخرت میں بھی سخت پکڑ ہو۔ اللہ کے یہ احکام اور یہ نواہی تمہاری نصیحت کے لئے ہیں جو اچھی عادتیں ہیں، ان کا حکم قرآن نے دیا ہے اور جو بری خصلتیں لوگوں میں ہیں ان سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا ہے، بد خلقی اور برائی سے اس نے ممانعت کردی ہے۔ حدیث شریف میں ہے بہترین اخلاق اللہ کو پسند ہیں اور بد خلقی کو وہ مکروہ رکھتا ہے۔ اکثم بن صیفی کو جب رسول اللہ ﷺ کی بابت اطلاع ہوئی تو اس نے خدمت نبوی میں حاضر ہونے کی ٹھان لی لیکن اس کی قوم اس کے سر ہوگئی اور اسے روک لیا اس نے کہا اچھا مجھے نہیں جانے دیتے تو قاصد لاؤ جنہیں میں وہاں بھیجوں۔ دو شخص اس خدمت کی انجام دہی کے لئے تیار ہوئے یہاں آ کر انہوں نے کہا کہ ہم اکثم بن صیفی کے قاصد ہیں وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں اور کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں ﷺ اور دوسرے سو ال کا جواب یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول۔ پھر آپ نے یہی آیت انہیں پڑھ کر سنائی انہوں نے کہا دوبارہ پڑھئے۔ آپ نے پھر پڑھی، یہاں تک کہ انہوں نے یاد کرلی پھر واپس جا کر اکثم کو خبر دی اور کہا اپنے نسب پر اس نے کوئی فخر نہیں کیا۔ صرف اپنا اور اپنے والد کا نام بتادیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہیں وہ بڑے نسب والے، مضر میں اعلی خاندان کے ہیں اور پھر یہ کلمات ہمیں تعلیم فرمائے جو آپ کی زبانی ہم نے سنے۔ یہ سن کر اکثم نے کہا وہ تو بڑی اچھی اور اعلی باتیں سکھاتے ہیں اور بری اور سفلی باتوں سے روکتے ہیں۔ میرے قبیلے کے لوگو تم اسلام کی طرف سبقت کرو تاکہ تم دوسروں پر سرداری کرو اور دوسروں کے ہاتھوں میں دمیں بن کر نہ رہ جاؤ۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک حسن حدیث مسند امام احمد میں وارد ہوئی ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ اپنی انگنائی میں بھٹھے ہوئے تھے کہ عثمان بن مظعون آپ کے پاس سے گزرے آپ نے فرمایا بیٹھتے نہیں ہو ؟ وہ بیٹھ گیا، آپ اس کی طرف متوجہ ہو کر باتیں کر رہے تھے کہ حضور ﷺ دفعتہ اپنی نظریں آسمان کی جانب اٹھائیں کچھ دیر اوپر ہی کو دیکھتے رہے، پھر نگاہیں آہستہ آہستہ نیچی کیں اور اپنی دائیں جانب زمین کی طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف آپ نے رخ بھی کرلیا اور اس طرح سر ہلانے لگے گویا کسی سے کچھ سمجھ رہے ہیں اور کوئی آپ سے کچھ کہہ رہا ہے تھوڑی دیر تک یہی حالت طاری رہی پھر آپ نے اپنی نگاہیں اونچی کرنی شروع کیں، یہاں تک کہ آسمان تک آپ کی نگاہیں پہنچیں پھر آپ ٹھیک ٹھاک ہوگئے اور اسی پہلی بیٹھک پر عثمان کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے۔ وہ یہ سب دیکھ رہا تھا، اس سے صبر نہ ہوسکا، پوچھا کہ حضرت آپ کے پاس کئی بار بیٹھنے کا اتفاق ہوا لیکن آج جیسا منظر تو کبھی نہیں دیکھا، آپ نے پوچھا تم نے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا یہ کہ آپ نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی پھر نیچیں کرلی اور اپنے دائیں طرف دیکھنے لگے اور اسی طرف گھوم کر بیٹھ گئے، مجھے چھوڑ دیا، پھر اس طرح سر ہلانے لگے جیسے کوئی آپ سے کچھ کہہ رہا ہو۔ اور آپ اسے اچھی طرح سن سمجھ رہے ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھا تم نے یہ سب کچھ دیکھا ؟ اس نے کہا برابر دیکھتا ہی رہا۔ آپ نے فرمایا میرے پاس اللہ کا نازل کردہ فرشتہ وحی لے کر آیا تھا اس نے کہا اللہ کا بھیجا ہوا ؟ آپ نے فرمایا ہاں، ہاں اللہ کا بھیجا ہوا۔ پوچھا پھر اس نے آپ سے کیا کہا ؟ آپ نے یہی آیت پڑھ سنائی۔ حضرت عثمان بن مظعون ؓ فرماتے ہیں اسی وقت میرے دل میں ایمان بیٹھ گیا اور حضور ﷺ کی محبت نے میرے دل میں گھر کرلیا۔ ایک اور روایت میں حضرت عثمان بن ابو العاص ؓ سے مروی ہے کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا جو آپ نے اپنی نگاہیں اوپر کو اٹھائیں اور فرمایا جبرائیل ؑ میرے پاس آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اس آیت کو اس سورت کی اس جگہ رکھوں یہ روایت بھی صحیح ہے واللہ ! علم۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ یہ آیت اس لحاظ سے بہت مشہور ہے کہ اکثر جمعۃ المبارک کے خطبات میں شامل کی جاتی ہے۔ یہ بہت ہی جامع آیت ہے اور اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے انداز میں تین چیزوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین ہی چیزوں سے منع کیا گیا ہے۔ پہلا حکم عدل کا ہے اور دوسرا احسان کا۔ عدل تو یہ ہے کہ جس کا جس قدر حق ہے عین اسی قدر آپ اسے دے دیں ‘ لیکن احسان ایک ایسا عمل ہے جو عدل سے بہت اعلیٰ وارفع ہے۔ یعنی احسان یہ ہے کہ آپ کسی کو اس کے حق سے زیادہ دیں اور یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ چناچہ اللہ محسنین کو محبوب رکھتا ہے۔ تیسرا حکم قرا بت داروں کے حقوق کا خیال رکھنے کے بارے میں ہے یعنی ان سے حسن سلوک سے پیش آنا صلہ رحمی کے تقاضے پورے کرنا اور انفاق مال کے سلسلے میں ان کو ترجیح دینا۔ یہ تین احکام ان اعمال کے بارے میں ہیں جو ایک اچھے معاشرے کی بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ جن چیزوں سے یہاں منع فرمایا گیا ہے ان میں سب سے پہلے بےحیائی ہے۔ حیا گویا انسان اور ہر برے کام کے درمیان پردہ ہے۔ جب تک یہ پردہ قائم رہتا ہے انسان عملی طور پر برائی سے بچا رہتا ہے ‘ اور جب یہ پردہ اٹھ جاتا ہے تو پھر انسان بےشرم ہو کر آزاد ہوجاتا ہے۔ پھر وہ ” بےحیا باش و ہرچہ خواہی کن ! “ کا مصداق بن کر جو چاہے کرتا پھرتا ہے۔ بےحیائی کے بعد منکر سے منع کیا گیا ہے۔ منکر ہر وہ کام ہے جس کے برے ہونے پر انسان کی فطرت گواہی دے۔ تیسرا ناپسندیدہ عمل یا جذبہ البغی یعنی سرکشی ہے۔ یہ سرکشی اگر اللہ کے خلاف ہو تو بغاوت ہے اور یوں کفر ہے ‘ اور اگر یہ انسانوں کے خلاف ہو تو اسے ” عدوان “ کہا جاتا ہے یعنی ظلم اور زیادتی۔ بہرحال ان دونوں سطحوں پر یہ انتہائی ناپسندیدہ اور مذموم جذبہ ہے۔اگلی چند آیات مشکلات القرآن میں سے ہیں۔ ان کی تفسیر کے بارے میں بہت سی آراء ہیں جو سب کی سب یہاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ میں یہاں صرف وہ رائے بیان کروں گا جس سے مجھے اتفاق ہے۔ میری رائے کے مطابق ان آیات میں روئے سخن اہل کتاب کی طرف ہے۔ مکی سورتوں میں اگرچہ اہل کتاب سے ” یٰبَنِی اِسْرَاءِیل “ یا ” یٰاَھل الکتاب “ کے الفاظ سے براہ راست خطاب نہیں کیا گیا لیکن سورة الأنعام اور اس کے بعد مکی دور کے آخری سالوں میں نازل ہونے والی سورتوں میں اہل کتاب کو بالواسطہ انداز میں مخاطب کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک محمد رسول اللہ کے دعوائے نبوت کے بارے میں خبریں مدینہ پہنچ چکی تھیں اور یہود مدینہ ان خبروں کو سن کر بہت متجسسانہ انداز میں مزید معلومات کی ٹوہ میں تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو نبی آخر الزماں کو پہچان بھی چکے تھے اور وہ اس انتظار میں تھے کہ مزید معلومات سے آپ کی نبوت کی تصدیق ہوجائے تو وہ آپ پر ایمان لے آئیں۔ دوسری طرف یہود مدینہ ہی میں سے کچھ لوگوں کے دلوں میں آپ کے خلاف حسد کی آگ بھی بھڑک چکی تھی۔ اس قسم کے لوگ آپ کی مخالفت کے لیے قریش مکہ سے مسلسل رابطے میں تھے اور آپ کی آزمائش کے لیے قریش مکہ کو مختلف قسم کے سوالات بھیجتے رہتے تھے۔ ان سوالات میں ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق تو فلسطین میں آباد تھے لیکن ان کی اولاد یعنی بنی اسرائیل کے لوگ وہاں سے مصر کیسے پہنچے ؟ ان کا یہی سوال تھا جس کے جواب میں پوری سورة يوسف نازل ہوئی تھی۔ چناچہ یہ وہ معروضی صورت حال تھی جس کی وجہ سے مکی دور کی آخری سورتوں میں کہیں کہیں اہل کتاب کا ذکر بھی موجود ہے اور بالواسطہ طور پر ان سے خطاب بھی ہے۔ اس پس منظر میں میری رائے یہی ہے کہ آئندہ آیات میں روئے سخن اہل کتاب کی طرف ہے۔
إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي يعظكم لعلكم تذكرون
سورة: النحل - آية: ( 90 ) - جزء: ( 14 ) - صفحة: ( 277 )Surah An Nahl Ayat 90 meaning in urdu
اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور وہی تو ہے جو آسمان سے مینھ برساتا ہے۔ پھر ہم ہی (جو مینھ
- کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیا میں ان کو مال اور
- تو وہ اس روز خبروں سے اندھے ہو جائیں گے، اور آپس میں کچھ بھی
- اور (کافر) کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے نشانیاں کیوں
- جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی (بہتری) چالیں چلتے رہے ہیں سو چال
- اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو
- اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ڈرانے والا بھیج دیتے
- اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہے
- تو جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس (بستی) کو (اُلٹ کر) نیچے اوپر کردیا
- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں
Quran surahs in English :
Download surah An Nahl with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nahl mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nahl Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers