Surah An Nahl Ayat 92 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾
[ النحل: 92]
اور اُس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے محنت سے تو سوت کاتا۔ پھر اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ کہ تم اپنی قسموں کو آپس میں اس بات کا ذریعہ بنانے لگو کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ غالب رہے۔ بات یہ ہے کہ خدا تمہیں اس سے آزماتا ہے۔ اور جن باتوں میں تم اختلاف کرتے ہو قیامت کو اس کی حقیقت تم پر ظاہر کر دے گا
Surah An Nahl Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی مؤکد بہ حلف عہد کو توڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی عورت سوت کاتنے کے بعد اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ یہ تمثیل ہے۔
( 2 ) یعنی دھوکہ اور فریب دینے کا ذریعہ بناؤ۔
( 3 ) أربیٰ کے معنی اکثر کے ہیں، یعنی جب تم دیکھو کہ اب تم زیادہ ہوگئے ہو تو اپنے گمان سے حلف توڑ دو، جب کہ قسم اور معاہدے کے وقت وہ گروہ کمزور تھا، لیکن کمزوری کے باوجود وہ مطمئن تھا کہ معاہدے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن تم عذر اور نقص عہد کر کے نقصان پہنچاؤ۔ زمانہء جایلیت میں اخلاقی پستی کی وجہ سے اس قسم کی عہد شکنی عام تھی، مسلمانوں کو اس اخلاقی پستی سے روکا گیا ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
عہد و پیمان کی حفاظت اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عہد و پیمان کی حفاظت کریں قسموں کو پورا کریں۔ توڑیں نہیں۔ قسموں کو نہ توڑنے کی تاکید کی اور آیت میں فرمایا کہ اپنی قسموں کا نشانہ اللہ کو نہ بناؤ۔ اس سے بھی قسموں کی حفاظت کرنے کی تاکید مقصود ہے اور آیت میں ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے قسموں کی پوری حفاظت کرو۔ پس ان آیتوں میں یہ حکم ہے۔ اور بخاری و مسلم کی حدیث میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں واللہ میں جس چیز پر قسم کھا لوں اور پھر اس کے خلاف میں بہتری دیکھوں تو انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اس نیک کام کو کروں گا اور اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔ تو مندرجہ بالا آیتوں اور احادیث میں کچھ فرق نہ سمجھا جائے وہ قسمیں اور عہد و پیمان جو آپس کے معاہدے اور وعدے کے طور پر ہوں ان کا پورا کرنا تو بیشک بیحد ضروری ہے اور جو قسمیں رغبت دلانے یا روکنے کے لئے زبان سے نکل جائیں، وہ بیشک کفارہ دے کر ٹوٹ سکتی ہیں۔ پس اس آیت میں مراد جاہلیت کے زمانے جیسی قسمیں ہیں۔ چناچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اسلام میں دو جماعتوں کی اپس میں ایک کی قسم کوئی چیز نہیں ہاں جاہلیت میں ایسی امداد و اعانت کی جو قسمیں آ پس میں ہوچکی ہیں اسلام ان کو اور مضبوط کرتا ہے۔ اس حدیث کے پہلے جملے کے یہ معنی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں کہ ایک برادری والے دوسری برادری کردیتا ہے۔ مشرق مغرب کے مسلمان ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہیں۔ بخاری مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت انس ؓ کے گھر میں رسول کریم علیہ افضل التسلیم نے انصار و مہاجرین میں باہم قسمیں اٹھوائیں۔ اس سے یہ ممنوع بھائی بندی مراد نہیں یہ تو بھائی چارہ تھا جس کی بنا پر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ آخر میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور ورثہ قریبی رشتے داروں سے مخصوص ہوگیا۔ کہتے ہیں اس فرمان الٰہی سے مطلب ان مسلمانوں کو اسلام پر جمع رہنے کا حکم دینا ہے جو حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمانوں کی جماعت کی کمی اور مشرکوں کی جماعت کی کثرت دیکھ کر تم اسے توڑ دو۔ مسند احمد میں ہے کہ جب یزید بن معاویہ کی بیعت لوگ توڑنے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنے تمام گھرانے کے لوگوں کو جمع کیا اور اللہ کی تعریف کر کے اما بعد کہہ کر فرمایا ہم نے یزید کی بیعت اللہ رسول ﷺ کی بیعت پر کی ہے اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ہر غدار کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ یہ غدار ہے فلاں بن فلاں کا۔ اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے بعد سب سے بڑا اور سب سے برا غدر یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی بیعت کسی کے ہاتھ پر کر کے پھر توڑ دینا یاد رکھو تم میں سے کوئی یہ برا کام نہ کرے اور اس بارے میں حد سے نہ بڑھے ورنہ مجھ میں اور اس میں جدائی ہے۔ مسند احمد میں حضور ﷺ فرماتے ہیں جو شخص کسی مسلمان بھائی سے کوئی شرط کرے اور اسے پورا کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو وہ مثل اس شخص کے ہے جو اپنے پڑوسی کو امن دینے کے بعد بےپناہ چھوڑ دے پھر انہیں دھمکاتا ہے جو عہد وپیم ان کی حفاظت نہ کریں کہ ان کے اس فعل سے اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے۔ مکہ میں ایک عورت تھی جس کی عقل میں فتور تھا سوت کاتنے کے بعد، ٹھیک ٹھاک اور مضبوط ہوجانے کے بعد بےوجہ توڑ تاڑ کر پھر ٹکڑے کردیتی۔ یہ تو اس کی مثال ہے جو عہد کو مضبوط کر کے پھر توڑ دے۔ یہی بات ٹھیک ہے اب اسے جانے دیجئے کہ واقعہ میں کوئی ایسی عورت تھی بھی یا نہیں جو یہ کرتی ہو نہ کرتی ہو یہاں تو صرف مثال مقصود ہے۔ انکاثا کے معنی ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ ممکن ہے کہ یہ نقضت غزلھا کا اسم مصدر ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بدل ہو کان کی کبر کا یعنی انکاث نہ ہو جمع مکث کی ناکث سے۔ پھر فرماتا ہے کہ قسموں کو مکر و فریب کا ذریعہ نہ بناؤ کہ اپنے سے بڑوں کو اپنی قسموں سے اطمینان دلاؤ اور اپنی ایمانداری اور نیک نیتی کا سکہ بٹھا کر پھر غداری اور بےایمانی کر جاؤ ان کی کثرت دیکھ کر جھوٹے وعدے کر کے صلح کرلو اور پھر موقع پا کر لڑائی شروع کردو ایسا نہ کرو۔ پس جب کہ اس حالت میں بھی عہد شکنی حرام کردی تو اپنے جمعیت اور کثرت کے وقت تو بطور اولی حرام ہوئی۔ بحمد اللہ ہم سورة انفال میں حضرت معاویہ ؓ کا قصہ لکھ آئے ہیں کہ ان میں اور شاہ روم میں ایک مدت تک کے لئے صلح نامہ ہوگیا تھا اس مدت کے خاتمے کے قریب آپ نے مجاہدین کو سرحد روم کی طرف روانہ کیا کہ وہ سرحد پر پڑاؤ ڈالیں اور مدت کے ختم ہوتے ہی دھاوا بول دیں تاکہ رومیوں کو تیاری کا موقعہ نہ ملے۔ جب حضرت عمرو بن عتبہ ؓ کو یہ خبر ہوئی تو آپ امیر المومنین حضرت معاویہ ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے اللہ اکبر ! اے معاویہ عہد پورا کر غدر اور بد عہدی سے بچ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جس قوم سے عہد معاہدہ ہوجائے تو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ ہوجائے کوئی گرہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت معاویہ ؓ نے اپنے لشکروں کو واپس بلوا لیا۔ ازبی سے مراد اکثر ہے۔ اس جملے کا یہ بھی مطلب ہے کہ دیکھا کہ دشمن قوی اور زیادہ ہے صلح کرلی اور اس صلح کو ذریعہ فریب بنا کر انہیں غافل کر کے چڑھ دوڑے اور یہ بھی مطلب ہے کہ ایک قوم سے معاہدہ کرلیا پھر دیکھا کہ دوسری قوم ان سے زیادہ قوی ہے، اس سے معاملہ کرلیا اور اگلے معاہدے کو توڑ دیا یہ سب منع ہے۔ اس کثرت سے اللہ تمہیں آزماتا ہے۔ یا یہ کہ اپنے حکم سے یعنی پابندی وعدہ کے حکم سے اللہ تمہاری آزمائش کرتا ہے اور تم میں صحیح فیصلے قیامت کے دن وہ خود کر دے گا۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا نیکوں کو نیک، بدوں کو بد۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 92 وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًادیکھو تم تو ایک مدت سے نبی آخر الزماں کے منتظر چلے آ رہے تھے اور اہل عرب کو اس حوالے سے دھمکایا بھی کرتے تھے کہ نبی آخر الزمان آنے والے ہیں جب وہ تشریف لے آئے تو ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں پر غالب آجائیں گے۔ اب جب کہ وہ نبی آگئے ہیں تو تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ تم ان کو جھٹلانے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہے ہو ! تو کیا اب تم لوگ اپنے منصوبوں اور افکار و نظریات کے تانے بانے خود اپنے ہی ہاتھوں تار تار کردینے پر تل گئے ہو ؟ کیا اس دیوانی عورت کی طرح تمہاری بھی مت ماری گئی ہے جو بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ کا تے ہوئے اپنے سوت کی تار تار ادھیڑ کے رکھ دے ؟تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ یعنی تم نے تو اس معاملے کو گویا دو قوموں کا تنازعہ بنا لیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی بشارت تمہاری کتاب میں موجود ہے تم آپس میں عہد و پیمان کر رہے ہو ‘ قسمیں کھا رہے ہو کہ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ تمہاری اس ہٹ دھرمی کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ تم قومی عصبیت میں مبتلا ہوچکے ہو۔ چونکہ اس آخری نبی کا تعلق بنی اسماعیل یعنی امیین سے ہے ‘ اس لیے تم لوگ نہیں چاہتے کہ بنی اسماعیل کو اب ویسی ہی فضیلت حاصل ہوجائے جو پچھلے دو ہزار سال سے تم لوگوں کو حاصل تھی۔اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ اس میں تمہاری آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم لوگ حق پرست ہو یا نسل پرست ؟ اگر تم لوگ اس معاملے میں نسل پرستی کا ثبوت دیتے ہو تو جان لو کہ اللہ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں اور اگر حق پرست بننا چاہتے ہو تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ ایک مدت تک اللہ تعالیٰ نے نبوت تمہاری نسل میں رکھی اور اب اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک فرد کو اس کے لیے چن لیا ہے۔ لہٰذا اسے اللہ کا فیصلہ سمجھتے ہوئے تمہیں قبول کرلینا چاہیے۔ تمہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بنی اسماعیل بھی تو آخر تمہاری ہی نسل میں سے ہیں۔ وہ بھی تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم ہی کی اولاد ہیں ‘ مگر تم لوگ ہو کہ تم نے اس معاملے کو باہمی مخاصمت اور ضد بَغْیًا بَیْنَہُمْ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس طرح تم لوگ اللہ کی اس آزمائش میں ناکام ہو رہے ہو۔
ولا تكونوا كالتي نقضت غزلها من بعد قوة أنكاثا تتخذون أيمانكم دخلا بينكم أن تكون أمة هي أربى من أمة إنما يبلوكم الله به وليبينن لكم يوم القيامة ما كنتم فيه تختلفون
سورة: النحل - آية: ( 92 ) - جزء: ( 14 ) - صفحة: ( 277 )Surah An Nahl Ayat 92 meaning in urdu
تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا تم اپنی قسموں کو آپس کے معاملات میں مکر و فریب کا ہتھیار بناتے ہو تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ کر فائدے حاصل کرے حالاں کہ اللہ اس عہد و پیمان کے ذریعہ سے تم کو آزمائش میں ڈالتا ہے، اور ضرور وہ قیامت کے روز تمہارے تمام اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی بہشت میں
- اور زمین میں کئی طرح کے قطعات ہیں۔ ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور انگور
- اور اس (ذات) کی قسم جس نے نر اور مادہ پیدا کیے
- (یعنی جبرائیل) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے
- اور یہ خدا کو کچھ مشکل نہیں
- اور تم میں کوئی (شخص) نہیں مگر اسے اس پر گزرنا ہوگا۔ یہ تمہارے پروردگار
- فرمایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ۔ تم میں بعض بعض کے دشمن
- لوگ تم سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں (کہ کب آئے گی) کہہ دو
- جس دن صور پھونکا جائے گا تو تم لوگ غٹ کے غٹ آ موجود ہو
- قیامت کے دن اس کو دونا عذاب ہوگا اور ذلت وخواری سے ہمیشہ اس میں
Quran surahs in English :
Download surah An Nahl with the voice of the most famous Quran reciters :
surah An Nahl mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter An Nahl Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers