Surah Al Hijr Ayat 94 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ الحجر کی آیت نمبر 94 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Al Hijr ayat 94 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ﴾
[ الحجر: 94]

Ayat With Urdu Translation

پس جو حکم تم کو (خدا کی طرف سے) ملا ہے وہ (لوگوں کو) سنا دو اور مشرکوں کا (ذرا) خیال نہ کرو

Surah Al Hijr Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) اصْدَعْ کے معنی ہیں کھول کر بیان کرنا، اس آیت کے نزول سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر تبلیغ فرماتے تھے، اس کے بعد آپ نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کر دی۔ ( فتح القدیر )

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


رسول اللہ ﷺ کے مخالفین کا عبرتناک انجام حکم ہو رہا ہے کہ اے رسول اللہ ﷺ آپ اللہ کی باتیں لوگوں کو صاف صاف بےجھجک پہنچا دیں نہ کسی کی رو رعایت کیجئے نہ کسی کا ڈر خوف کیجئے۔ اس آیت کے اترنے سے پہلے تک حضور ﷺ پوشیدہ تبلیغ فرماتے تھے لیکن اس کے بعد آپ اور آپ کے اصحاب نے کھلے طور پر اشاعت دین شروع کردی۔ ان مذاق اڑانے والوں کو ہم پر چھوڑ دے ہم خود ان سے نمٹ لیں گے تو اپنی تبلیغ کے فریضے میں کوتاہی نہ کر یہ تو چاہتے ہیں کہ ذرا سی سستی آپ کی طرف سے دیکھیں تو خود بھی دست بردار ہوجائیں۔ تو ان سے مطلقا خوف نہ کر اللہ تعالیٰ تیری جانب اتارا گیا لوگوں کی برائی سے تجھے محفوظ رکھ لے گا۔ چناچہ ایک دن حضور ﷺ راستے سے جا رہے تھے کہ بعض مشرکوں نے آپ کو چھیڑا اسی وقت حضرت جبرائیل ؑ آئے اور انہیں نشتر مارا جس سے ان کے جسموں میں ایسا ہوگیا جیسے نیزے کے زخم ہوں اسی میں وہ مرگئے اور یہ لوگ مشرکین کے بڑے بڑے رؤسا تھے۔ بڑی عمر کے تھے اور نہایت شریف گنے جاتے تھے۔ بنو اسد کے قبیلے میں تو اسود بن عبد المطلب ابو زمعہ۔ یہ حضور ﷺ کا بڑا ہی دشمن تھا۔ ایذائیں دیا کرتا تھا اور مذاق اڑایا کرتا تھا آپ نے تنگ آ کر اس کے لئے بد دعا بھی کی تھی کہ اے اللہ اسے اندھا کر دے بےاولاد کر دے۔ بنی زہر میں سے اسود تھا اور بنی مخزوم میں سے ولید تھا اور بنی سہم میں سے عاص بن وائل تھا۔ اور خزاعہ میں سے حارث تھا۔ یہ لوگ برابر حضور ﷺ کو ایذاء رسائی کے درپے لگے رہتے تھے اور لوگوں کو آپ کے خلاف ابھارا کرتے تھے اور جو تکلیف ان کے بس میں ہوتی آپ کو پہنچایا کرتے جب یہ اپنے مظالم میں حد سے گزر گئے اور بات بات میں حضور ﷺ کا مذاق اڑانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آیت ( فاصدع سے یعلمون ) تک کی آیتیں نازل فرمائیں۔ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ طواف کر رہے تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ آئے بیت اللہ شریف میں آپ کے پاس کھڑے ہوگئے اتنے میں اسود بن عبد یغوث آپ کے پاس سے گزرا تو حضرت جبرائیل ؑ نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا اسے پیٹ کی بیماری ہوگئی اور اسی میں وہ مرا۔ اتنے میں ولید بن مغیرہ گزرا اس کی ایڑی ایک خزاعی شخص کے تیر کے پھل سے کچھ یونہی سی چھل گئی تھی اور اسے بھی دو سال گزر چکے تھے حضرت جبرائیل ؑ نے اسی کی طرف اشارہ کیا وہ پھول گئی، پکی اور اسی میں وہ مرا۔ پھر عاص بن وائل گزرا۔ اس کے تلوے کی طرف اشارہ کیا کچھ دنوں بعد یہ طائف جانے کے لئے اپنے گدھے پر سوار چلا۔ راستے میں گرپڑا اور تلوے میں کیل گھس گئی جس نے اس کی جان لی۔ حارث کے سر کی طرف اشارہ کیا اسے خون آنے لگا اور اسی میں مرا۔ ان سب موذیوں کو سردار ولید بن مغیرہ تھا اسی نے انہیں جمع کیا تھا پس یہ پانچ یا سات شخص تھے جو جڑ تھے اور ان کے اشاروں سے اور ذلیل لوگ بھی کمینہ پن کی حرکتیں کرتے رہتے تھے۔ یہ لوگ اس لغو حرکت کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے تھے کہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے۔ انہیں اپنے کرتوت کا مزہ ابھی ابھی آجائے گا۔ اور بھی جو رسول کا مخالف ہو اللہ کے ساتھ شرک کرے اس کا یہی حال ہے۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان کی بکو اس سے اے نبی تمہیں تکلیف ہوتی ہے دل تنگ ہوتا ہے لیکن تم ان کا خیال بھی نہ کرو۔ اللہ تمہارا مدد گا رہے۔ تم اپنے رب کے ذکر اور اس کی تسبیح اور حمد میں لگے رہو۔ اس کی عبادت جی بھر کر کرو نماز کا خیال رکھو سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دو۔ مسند احمد میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ابن آدم شروع دن کی چار رکعت سے عاجز نہ ہو میں تجھے آخر دن تک کفایت کروں گا۔حضور ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ کا معاملہ آپڑتا تو آپ نماز شروع کردیتے۔ یقین کا مفہوم یقین سے مراد اس آخری آیت میں موت ہے اس کی دلیل سورة مدثر کی وہ آیتیں ہیں جن میں بیان ہے کہ جہنمی اپنی برائیاں کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے مسکینوں کو کھانا کھلاتے نہیں تھے باتیں بنایا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ موت آگئی یہاں بھی موت کی جگہ لفظ یقین ہے۔ ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون ؓ کے انتقال کے بعد جب حضور ﷺ ان کے پاس گئے تو انصار کی ایک عورت ام العلاء نے کہا کہ اے ابو السائب اللہ کی تجھ پر رحمتیں ہوں بیشک اللہ تعالیٰ نے تیری تکریم و عزت کی حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا تجھے کیسے یقین ہوگیا کہ اللہ نے اس کا اکرام کیا انہوں نے جواب دیا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں پھر کون ہوگا جس کا اکرام ہو ؟ آپ نے فرمایا سنو اسے موت آچکی اور مجھے اس کیلئے بھلائی کی امید ہے اس حدیث میں بھی موت کی جگہ یقین کا لفظ ہے۔ اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نماز وغیرہ عبادات انسان پر فرض ہیں جب تک کہ اس کی عقل باقی رہے اور ہوش حواس ثابت ہوں جیسی اس کی حالت ہو اسی کے مطابق نماز ادا کرلے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کر، نہ ہو سکے تو بیٹھ کر، نہ ہو سکے تو کروٹ پر لیٹ کر۔ بد مذہبوں نے اس سے اپنے مطلب کی ایک بات گھڑ لی ہے کہ جب تک انسان درجہ کمال تک نہ پہنچے اس پر عبادات فرض رہتی ہیں لیکن جب معرفت کی منزلیں طے کرچکا تو عبادت کی تکلیف ساقط ہوجاتی ہے یہ سراسر کفر ضلالت اور جہالت ہے۔ یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ انبیا اور حضور سرور انبیاء ( علیہم السلام ) اور آپ کے اصحاب معرفت کے تمام درجے طے کرچکے تھے اور دین کے علم و عرفان میں سب دنیا سے کامل تھے رب کی صفات اور ذات کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے باوجود اس کے سب سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور رب کی اطاعت میں تمام دنیا سے زیادہ مشغول رہتے تھے اور دنیا کے آخری دم تک اسی میں لگے رہے۔ پس ثابت ہے کہ یہاں مراد یقین سے موت ہے تمام مفسرین صحا بہ تابعین وغیرہ کا یہی مذہب ہے فالحمد للہ اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے اس نے جو ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے اس پر ہم اس کی تعریفیں کرتے ہیں اسی سے نیک کاموں میں مدد پاتے ہیں اسی کی پاک ذات پر ہمارا بھروسہ ہے ہم اس مالک حاکم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ بہترین اور کامل اسلام ایمان اور نیکی پر موت دے وہ جواد ہے اور کریم ہے۔ الحمد للہ سورة حجر کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے والحمد للہ رب العلمین۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 94 فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ اس حکم کو رسول اللہ کی دعوتی تحریک میں ایک نئے موڑ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سے قبل آپ اپنے قریبی ساتھیوں اور رشتہ داروں کو انفرادی طور پر دعوت دے رہے تھے ‘ جیسے آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ سے بات کی ‘ اپنے پرانے دوست حضرت ابوبکر صدیق کو دعوت دی ‘ اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کو اعتماد میں لیا جو آپ کے زیر کفالت بھی تھے اور اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید سے بھی بات کی۔ آپ کی اس انفرادی دعوت کا سلسلہ ابتدائی طور پر تقریباً تین سال پر محیط نظر آتا ہے۔ بعض لوگ اس دور کی دعوت کو ایک خفیہ underground تحریک سے تعبیر کرتے ہیں مگر یہ درست نہیں۔ اعلان نبوت کے بعد آپ کی سیرت میں کوئی دن بھی ایسا نہیں آیا جس میں آپ نے اپنی اس دعوت کو خفیہ رکھا ہو مگر ایسا ضرور ہے کہ آپ کی دعوت فطری اور تدریجی انداز میں آگے بڑھی اور آہستہ آہستہ ارتقا پذیر ہوئی۔ اس دعوت کا آغاز گھر سے ہوا پھر آپ تعلق اور قرابت داری کی بنیاد پر مختلف افراد کو انفرادی انداز میں دعوت دیتے رہے اور پھر تقریباً تین سال کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ اب آپ علی الاعلان یہ دعوت دینا شروع کردیں۔ اس حکم کے بعد آپ نے ایک دن عرب کے رواج کے مطابق کوہ صفا پر چڑھ کر لوگوں کو اونچی آواز سے اپنی طرف بلانا شروع کیا۔ عرب میں رواج تھا کہ کسی اہم خبر کا اعلان کرنا ہوتا تو ایک آدمی اپنا پورا لباس اتارتا ‘ بالکل ننگا ہو کر کسی اونچی جگہ پر چڑھ جاتا اور ” وَاصَبَاحَا “ کا نعرہ لگاتا کہ ہائے وہ صبح جو آیا چاہتی ہے ! یعنی میں تم لوگوں کو آنے والی صبح کی خبر دینے والا ہوں ! اس زمانے میں ایسی خبر عام طور پر کسی مخالف قبیلہ کے شب خون مارنے کے بارے میں ہوتی تھی کہ فلاں قبیلہ آج صبح سویرے تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔ ایسے شخص کو ” نذیر عریاں “ کہا جاتا تھا۔ اس رواج کے مطابق لباس اتارنے کی بیہودہ رسم کو چھوڑ کر آپ نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر ” وَاصَبَاحَا “ کا نعرہ لگایا۔ جس جس نے آپ کی آواز سنی وہ بھاگم بھاگ آپ کے پاس آپہنچا کہ آپ کوئی اہم خبر دینے والے ہیں۔ جب سب لوگ اکٹھے ہوگئے تو آپ نے ان کے سامنے اللہ کا پیغام پیش کیا ‘ جس کے جواب میں آپ کے بدبخت چچا ابو لہب نے کہا : تَبًّا لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا ؟ ” تمہارے لیے ہلاکت ہو نعوذ باللہ اس کام کے لیے تم نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ “ دعوت کو ڈنکے کی چوٹ بیان کرنے کے اس حکم اور اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت نبوت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی۔

فاصدع بما تؤمر وأعرض عن المشركين

سورة: الحجر - آية: ( 94 )  - جزء: ( 14 )  -  صفحة: ( 267 )

Surah Al Hijr Ayat 94 meaning in urdu

پس اے نبیؐ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے، اُسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کافر حق کے
  2. (خدا نے) فرمایا، نکل جا۔ یہاں سے پاجی۔ مردود جو لوگ ان میں سے تیری
  3. اے اہلِ کتاب تم خدا کی آیتوں سے کیوں انکار کرتے ہو اور تم (تورات
  4. اور ظالموں کے لئے اس کے سوا اور عذاب بھی ہے لیکن ان میں کے
  5. جو لوگ بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو خدا کی آیتوں
  6. یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی
  7. اور (اے بندے یہ) اسی کی قدرت کے نمونے ہیں کہ تو زمین کو دبی
  8. اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو خدا اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا
  9. جو خوف رکھتا ہے وہ تو نصیحت پکڑے گا
  10. کیا انہوں نے زمین میں کبھی سیر نہیں کی تاکہ دیکھتے کہ جو لوگ ان

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Al Hijr with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Al Hijr mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Al Hijr Complete with high quality
surah Al Hijr Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Al Hijr Bandar Balila
Bandar Balila
surah Al Hijr Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Al Hijr Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Al Hijr Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Al Hijr Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Al Hijr Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Al Hijr Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Al Hijr Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Al Hijr Fares Abbad
Fares Abbad
surah Al Hijr Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Al Hijr Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Al Hijr Al Hosary
Al Hosary
surah Al Hijr Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Al Hijr Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Thursday, November 21, 2024

Please remember us in your sincere prayers