Surah baqarah Ayat 98 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 98 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah baqarah ayat 98 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ﴾
[ البقرة: 98]

Ayat With Urdu Translation

جو شخص خدا کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو ایسے کافروں کا خدا دشمن ہے

Surah baqarah Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یہود کہتے تھے کہ میکائیل ہمارا دوست ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب میرے مقبول بندے ہیں جو ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی دشمن ہے، وہ اللہ کا بھی دشمن ہے۔ حدیث میں ہے: «مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ بَارَزَنِي بِالْحَرْبِ»۔( صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع ) ” جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی، اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا ہے “، گویا اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاء اللہ سے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی دشمنی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض وعناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔ اولیاء اللہ کون ہیں؟ اس کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ یونس، آیت62-63 ، لیکن محبت اور تعظیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں پر گنبد اور قبے بنائے جائیں، ان کی قبروں پر سالانہ عرس کے نام پر میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا جائے، ان کے نام کی نذرونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اور ان پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا، نافع وضار سمجھا جائے، ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ، جیسا کہ بدقسمتی سے ” اولیاء اللہ کی محبت “ کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پذیر ہے۔ حالانکہ یہ ” محبت “ نہیں ہے، ان کی عبادت ہے، جو شرک اور ظلم عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فتنۂ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


خصومت جبرائیل ؑ موجب کفر و عصیان امام جعفر طبری ؒ فرماتے ہیں اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت جبرائیل کو اپنا دشمن اور حضرت میکائیل کو اپنا دوست بتایا تھا اس وقت ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن بعض کہتے ہیں کہ امر نبوت کے بارے میں جو گفتگو ان کی حضور ﷺ سے ہوئی تھی اس میں انہوں نے یہ کہا تھا۔ بعض کہتے ہیں عمر بن خطاب ؓ سے ان کا جو مناظرہ حضور ﷺ کی نبوت کے بارے میں ہوا تھا اس میں انہوں نے یہ کہا تھا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہودیوں کی ایک جماعت رسول مقبول ﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ ہم آپ سے چند سوال کرتے ہیں جن کے صحیح جواب نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر آپ سچے نبی ہیں تو ان کے جوابات دیجئے آپ نے فرمایا بہتر ہے جو چاہو پوچھو مگر عہد کرو کہ اگر میں ٹھیک ٹھیک جواب دوں گا تو تم میری نبوت کا اقرار کرلو گے اور میری فرمانبرداری کے پابند ہوجاؤ گے انہوں نے آپ سے وعدہ کیا اور عہد دیا۔ اس کے بعد آپ نے حضرت یعقوب کی طرح اللہ جل شانہ کی شہادت کے ساتھ ان سے پختہ وعدہ لے کر انہیں سوال کرنے کی اجازت دی، انہوں نے کہا پہلے تو یہ بتائے کہ توراۃ نازل ہونے سے پہلے حضرت اسرائیل ؑ نے اپنے نفس پر کس چیز کو حرام کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا جب حضرت یعقوب ؑ عرق السناء کی بیماری میں سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ مجھے اس مرض سے شفا دے تو میں اپنی کھانے کے سب سے زیادہ مرغوب چیز اور سب سے زیادہ محبوب چیز پینے کی چھوڑ دوں گا جب تندرست ہوگئے تو اونٹ کا گوشت کھانا اور اونٹنی کا دودھ پینا جو آپ کو پسند خاطر تھا چھوڑ دیا، تمہیں اللہ کی قسم جس نے حضرت موسیٰ پر تورات اتاری بتاؤ یہ سچ ہے ؟ ان سب نے قسم کھا کر کہا کہ ہاں حضور سچ ہے بجا ارشاد ہوا اچھا اب ہم پوچھتے ہیں کہ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے ؟ اور کیوں کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی ؟ آپ نے فرمایا سنو مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آجائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو حکم الٰہی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو حکم الٰہی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں سچ بتاؤ میرا جواب صحیح ہے ؟ سب نے قسم کھا کر کہا بیشک آپ نے بجا ارشاد فرمایا آپ نے ان دو باتوں پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا۔ انہوں نے کہا اچھا یہ فرمائیے کہ تورات میں جس نبی امی کی خبر ہے اس کی خاص نشانی کیا ہے ؟ اور اس کے پاس کونسا فرشتہ وحی لے کر آتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کس خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی آنکھیں جب سوئی ہوئی ہوں اس وقت میں اس کا دل جاگتا رہتا ہے تمہیں اس رب کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کو توراۃ دی بتاؤ تو میں نے ٹھیک جواب دیا ؟ سب نے قسم کھا کر کہا آپ نے بالکل صحیح جواب دیا۔ اب ہمارے اس سوال کی دوسری شق کا جواب بھی عنایت فرما دیجئے اسی پر بحث کا خاتمہ ہے۔ آپ نے فرمایا میرا ولی جبرائیل ہے وہی میرے پاس وحی لاتا ہے اور وحی تمام انبیاء کرام کے پاس پیغام باری تعالیٰ لاتا رہا۔ سچ کہو اور قسم کھا کر کہو کہ میرا یہ جواب بھی درست ہے ؟ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ جواب تو درست ہے لیکن چونکہ جبرائیل ہمارا دشمن ہے وہ سختی اور خون ریزی وغیرہ لے کر آتا رہتا ہے اس لئے ہم اس کی نہیں مانیں گے نہ آپ کی مانیں ہاں اگر آپ کے پاس حضرت میکائیل وحی لے کر آتے جو رحمت، بارش، پیداوار وغیرہ لے کر آتے ہیں اور ہمارے دوست ہیں تو ہم آپکی تابعداری اور تصدیق کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ رعد کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں ادھر ادھر لے جاتا ہے۔ انہوں نے کہا یہ گرج کی آواز کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ اسی فرشتے کی آواز ہے ملاحظہ ہو مسند احمد وغیرہ۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جبحضور ﷺ مدینہ میں تشریف لائے اس وقت حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اپنے باغ میں تھے اور یہودیت پر قائم تھے۔ انہوں نے جب آپ کی آمد کی خبر سنی تو حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا حضور ﷺ یہ فرمائے کہ قیامت کی پہلی شرط کیا ہے ؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے ؟ اور کونسی چیز بچہ کو کبھی ماں کی طرف کھینچتی ہے اور کبھی باپ کی طرف، آپ نے فرمایا ان تینوں سوالوں کے جواب ابھی ابھی جبرائیل نے مجھے بتلائے ہیں سنو، حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا وہ تو ہمارا دشمن ہے۔ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر فرمایا پہلی نشانی قیامت کی ایک آگ ہے جو لوگوں کے پیچھے لگے گی اور انہیں مشرق سے مغرب کی طرف اکٹھا کر دے گی۔ جنتیوں کی پہلی خوراک مچھلی کی کلیجی بطور ضیافت ہوگی۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر سبقت کرجاتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی سے سبق لے جاتا ہے تو لڑکی ہوتی ہے یہ جواب سنتے ہی حضرت عبداللہ مسلمان ہوگئے اور پکار اٹھے حدیث ( اشھدان لا الہ الا اللہ وانک رسولہ اللہ ) پھر کہنے لگے حضور یہودی بڑے بیوقوف لوگ ہیں۔ اگر انہیں میرا اسلام لانا پہلے معلوم ہوجائے گا تو وہ مجھے کہیں گے آپ پہلے انہیں ذرا قائل کرلیجئے۔ اس کے بعد آپ کے پاس جب یہودی آئے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام تم میں کیسے شخص ہیں ؟ انہوں نے کہا بڑے بزرگ اور دانشور آدمی ہیں بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں وہ تو ہمارے سردار ہیں اور سرداروں کی اولاد میں سے ہیں آپ نے فرمایا اچھا اگر وہ مسلمان ہوجائیں پھر تو تمہیں اسلام قبول کرنے میں کوئی تامل تو نہیں ہوگا ؟ کہنے لگے اعوذ باللہ اعوذ باللہ وہ مسلمان ہی کیوں ہونے لگے ؟ حضرت عبداللہ جو اب تک چھپے ہوئے تھے باہر آگئے اور زور سے کلمہ پڑھا۔ تو تمام کے تمام شور مچانے لگے کہ یہ خود بھی برا ہے اس کے باپ دادا بھی برے تھے یہ بڑا نیچے درجہ کا آدمی ہے خاندانی کمینہ ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا حضور ﷺ اسی چیز کا مجھے ڈر تھا۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جبر، میک، اسراف، کے معنی عبد یعنی بندے کے ہیں اور ایل کے معنی اللہ کے ہیں تو جبرائیل وغیرہ کے معنی عبداللہ ہوئے بعض لوگوں نے اس کے معنی الٹ بھی کئے ہیں وہ کہتے ہیں ایل کے معنی عبد کے ہیں اور اس سے پہلے کے الفاظ اللہ کے نام ہیں، جیسے عربی میں عبداللہ عبدالرحمٰن عبدالملک عبدالقدوس عبدالسلام عبدالکافی عبدالجلیل وغیرہ لفظ عبد ہر جگہ باقی رہا اور اللہ کے نام بدلتے رہے اس طرح ایل ہر جگہ باقی ہے اور اللہ کے اسماء حسنہ بدلتے رہتے ہیں۔ غیر عربی زبان میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف بعد میں۔ اسی قاعدے کے مطابق ان ناموں میں بھی ہے جیسے جبرائیل میکائیل اسرافیل عزرائیل وغیرہ۔ اب مفسرین کی دوسری جماعت کی دلیل سنئے جو لکھتے ہیں کہ یہ گفتگو جناب عمر سے ہوئی تھی شعبہ کہتے ہیں حضرت عمر روحاء میں آئے۔ دیکھا کہ لوگ دوڑ بھاگ کر ایک پتھروں کے تودے کے پاس جا کر نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جواب ملا کہ اس جگہ رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا کی ہے، آپ بہت ناراض ہوئے کہ حضور ﷺ کو جہاں کہیں نماز کا وقت آتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے پہلے چلے جایا کرتے تھے اب ان مقامات کو متبرک سمجھ کر خواہ مخواہ وہیں جا کر نماز ادا کرنا کس نے بتایا ؟ پھر آپ اور باتوں میں لگ گئے فرمانے لگے میں یہودیوں کے مجمع میں کبھی کبھی چلا جایا کرتا اور یہ دیکھتا رہتا تھا کہ کس طرح قرآن توراۃ کی اور توراۃ قرآن کو سچائی کی تصدیق کرتا ہے یہودی بھی مجھ سے محبت ظاہر کرنے لگے اور اکثر بات چیت ہوا کرتی تھی۔ ایک دن میں ان سے باتیں کر ہی رہا تھا تو راستے سے حضور ﷺ نکلے انہوں نے مجھ سے کہا تمہارے نبی ﷺ وہ جا رہے ہیں۔ میں نے کہا میں ان کے پاس جاتا ہوں لیکن تم یہ تو بتاؤ تمہیں اللہ وحدہ کی قسم اللہ جل شانہ برحق کو مدنظر رکھو اس کی نعمتوں کا خیال کرو۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب تم میں موجود ہے رب کی قسم کھا کر بتاؤ کیا تم حضور کو رسول نہیں مانتے ؟ اب سب خاموش ہوگئے ان کے بڑے عالم نے جو ان سب میں علم میں بھی کامل تھا اور سب کا سردار بھی تھا اس نے کہا اس شخص نے اتنی سخت قسم دی ہے تم صاف اور سچا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انہوں نے کہا حضرت آپ ہی ہمارے بڑے ہیں ذرا آپ ہی جواب دیجئے۔ اس بڑے پادری نے کہا سنئے جناب ! آپ نے زبردست قسم دی ہے لہذا سچ تو یہی ہے کہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں میں نے کہا افسوس جب یہ جانتے ہو تو پھر مانتے کیوں نہیں کہا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس آسمانی وحی لے کر آنے والے جبرائیل ہیں جو نہایت سختی، تنگی، شدت، عذاب اور تکلیف کے فرشتے ہیں ہم ان کے اور وہ ہمارے دشمن ہیں اگر وحی لے کر حضرت میکائیل آتے جو رحمت ورافت تخفیف و راحت والے فرشتے ہیں تو ہمیں ماننے میں تامل نہ ہوتا۔ میں نے کہا اچھا بتاؤ تو ان دونوں کی اللہ کے نزدیک کیا قدر و منزل ہے ؟ انہوں نے کہا ایک تو جناب باری کے داہنے بازو ہے اور دوسرا دوسری طرف میں نے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو ان میں سے کسی کا دشمن ہو۔ اس کا دشمن اللہ بھی ہے اور دوسرا فرشتہ بھی کیونکہ جبرائیل کے دشمن سے میکائیل دوستی نہیں رکھ سکتے اور میکائیل کا دشمن جبرائیل کا دوست نہیں ہوسکتا۔ نہ ان میں سے کسی ایک کا دشمن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوست ہوسکتا ہے نہ ان دونوں میں سے کوئی ایک باری تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر آسکتا ہے نہ کوئی کام کرسکتا ہے۔ واللہ مجھے نہ تم سے لالچ ہے نہ خوف۔ سنو جو شخص اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو اس کے فرشتوں اس کے رسولوں اور جبرائیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اس کافر کا اللہ وحدہ لاشریک بھی دشمن ہے اتنا کہہ کر میں چلا آیا۔ حضور ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا اے ابن خطاب مجھ پر تازہ وحی نازل ہوئی ہے میں نے کہا حضور سنائیے، آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ میں نے کہا حضور آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہی باتیں ابھی ابھی یہودیوں سے میری ہو رہی تھیں۔ میں تو چاہتا ہی تھا بلکہ اسی لئے حاضر خدمت ہوا تھا کہا آپ کو اطلاع کروں مگر میری آنے سے پہلے لطیف وخبیر سننے دیکھنے والے اللہ نے آپ کو خبر پہنچا دی ملاحظہ ہو ابن ابی حاتم وغیرہ مگر یہ روایت منقطع ہے سند متصل نہیں شعبی نے حضرت عمر کا زمانہ نہیں پایا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جبرائیل ؑ اللہ کے امین فرشتے ہیں اللہ کے حکم سے آپ کے دل میں اللہ کی وحی پہنچانے پر مقرر ہیں۔ وہ فرشتوں میں سے اللہ کے رسول ہیں کسی ایک رسول سے عداوت رکھنے والا سب رسولوں سے عداوت رکھنے والا ہوتا ہے جیسے ایک رسول پر ایمان سب رسولوں پر ایمان لانے کا نام ہے اور ایک رسول کے ساتھ کفر تمام نبیوں کے ساتھ کفر کرنے کے برابر ہے خود اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کے نہ ماننے والوں کو کافر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا )النساء:150) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے دوسری آیت کے آخر تک پس ان آیتوں میں صراحتاً لوگوں کو کافر کہا جو کسی ایک رسول کو بھی نہ مانیں۔ اسی طرح جبرائیل کا دشمن اللہ کا دشمن ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آتے قرآن فرماتا ہے ( وما نتنزل الا بامر ربک ) فرماتا ہے آیت ( وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) 26۔ الشعرآء :192) یعنی ہم اللہ کے حکم کے سوا نہیں اترتے ہیں نازل کیا ہوا رب العالمین کا ہے جسے لے کر روح الامین آتے ہیں اور تیرے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ تو لوگوں کو ہوشیار کر دے صحیح بخاری کی حدیث قدسی میں ہے میرے دوستوں سے دشمنی کرنے والا مجھ سے لڑائی کا اعلان کرنے والا ہے۔ قرآن کریم کی یہ بھی ایک صفت ہے کہ وہ اپنے سے پہلے کے تمام ربانی کلام کی تصدیق کرتا ہے اور ایمانداروں کے دلوں کی ہدایت اور ان کے لئے جنت کی خوش خبری دیتا ہے جیسے فرمایا آیت ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ) 41۔ فصلت :44) فرمایا آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ) 17۔ الاسرآء :82) یعنی یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدیات و شفا ہے رسولوں میں انسانی رسول اور ملکی رسول سب شامل ہیں جیسے فرمایا آیت ( اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ ) 22۔ الحج:75) اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے اپنے رسول چھانٹ لیتا ہے جبرائیل اور میکائیل بھی فرشتوں میں ہیں لیکن ان کا خصوصاً نام لیا تاکہ مسئلہ بالکل صاف ہوجائے اور یہ بھی جان لیں کہ ان میں سے ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن ہے بلکہ اللہ بھی اس کا دشمن ہے حضرت میکائیل بھی کبھی کبھی انبیاء کے پاس آتے رہے ہیں جیسے کہ نبی ﷺ کے ساتھ شروع شروع میں تھے لیکن اس کام پر مقرر حضرت جبرائیل ہیں جیسے حضرت میکائیل روئیدگی اور بارش وغیرہ پر اور جیسے حضرت اسرافیل صور پھونکنے پر۔ ایک صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ رات کو جب تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے۔ دعا ( اللھم رب جبرائیل و بیکائیل و اسرافیل فاطر السموت والارض علم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم ) اے اللہ اے جبرأایل میکائیل اسرافیل کے رب اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے اے ظاہر باطن کو جاننے والے اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ تو ہی کرتا ہے، اے اللہ اختلافی امور میں اپنے حکم سے حق کی طرف میری رہبری کر تو جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ لفظ جبرائیل وغیرہ کی تحقیق اور اس کے معانی پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ حضرت عبدالعزیز بن عمر فرماتے ہیں فرشتوں میں حضرت جبرائیل کا نام خادم اللہ ہے۔ ابو سلیمان دارانی یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے یہ ایک روایت میری روایتوں کے ایک دفتر سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ جبرائیل اور میکائیل کے لفظ میں بہت سارے لغت ہیں اور مختلف قرأت ہیں جن کے بیان کی مناسب جگہ کتب لغت ہیں ہم کتاب کے حجم کو بڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ کسی معنی کی سمجھ یا کسی حکم کا مفاد ان پر موقف نہیں۔ اللہ ہماری مدد کرے۔ ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے۔ آیت کے خاتمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ بھی ان لوگوں کا دشمن ہے بلکہ فرمایا اللہ کافروں کا دشمن ہے۔ اس میں ایسے لوگوں کا حکم بھی معلوم ہوگیا اسے عربی میں مضمر کی جگہ مظہر کہتے ہیں اور کلام عرب میں اکثر اس کی مثالیں شعروں میں بھی پائی جاتی ہیں گویا یوں کہا جاتا ہے کہ جس نے اللہ کے دوست سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جو اللہ کا دشمن اللہ بھی اس کا دشمن اور جس کا دشمن خود اللہ قادر مطلق ہوجائے اس کے کفر و بربادی میں کیا شبہ رہ گیا ؟ صحیح بخاری کی حدیث پہلے گزر چکی کہ اللہ فرماتا ہے میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والے کو میں اعلان جنگ دیتا ہوں میں اپنے دوستوں کا بدلہ لے لیا کرتا ہوں اور حدیث میں ہی ہے جس کا دشمن میں ہوجاؤں وہ برباد ہو کر ہی رہتا ہے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے ‘ ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت یہود کے لیے بہت بڑی آزمائش ثابت ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ آخری نبوت کا وقت قریب ہے اور یہ نبی بھی حسب سابق بنی اسرائیل میں سے مبعوث ہوگا۔ لیکن نبی آخر الزمان ﷺ کی بعثت بنی اسماعیل میں سے ہوگئی۔ یہود جس احساس برتری کا شکار تھے اس کی رو سے وہ بنی اسماعیل کو حقیر سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اُمّی لوگ ہیں ‘ اَن پڑھ ہیں ‘ ان کے پاس نہ کوئی کتاب ہے نہ شریعت ہے اور نہ کوئی قانون اور ضابطہ ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک شخص کو کیسے چن لیا ؟ ان کا خیال تھا کہ یہ سب جبرائیل کی شرارت ہے کہ وہ وحی لے کر محمد عربی ﷺ کے پاس چلا گیا۔ لہٰذا وہ حضرت جبرائیل کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔ یہ بات شاید آپ کو بڑی عجیب لگے کہ اہل تشیع میں سے فرقہ غرابیہ کا عقیدہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔ حضرتّ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رح نے اپنے مکاتیب میں اس فرقے کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت علی رض دونوں کی ارواح ایک دوسرے کے بالکل ایسے مشابہ تھیں جیسے ایک غرابّ کو ا دوسرے غراب کے مشابہ ہوتا ہے۔ چناچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام دھوکہ کھا گئے۔ اللہ نے تو وحی بھیجی تھی حضرت علی رض کے پاس ‘ لیکن وہ لے گئے حضرت محمد ﷺ کے پاس۔ یہود کے ہاں یہ عقیدہ موجود تھا کہ اللہ نے تو جبرائیل علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں سے کسی کے پاس بھیجا تھا ‘ لیکن وہ محمد ﷺ کے پاس چلے گئے ‘ اور یہی مفروضہ ان کی حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دشمنی کی بنیاد تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : لَیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِ یْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ 12 میری امت پر بھی وہ تمام احوال لازماً وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر وارد ہوئے تھے ‘ جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے۔ چناچہ امت مسلمہ میں سے کسی فرقے کا اس طرح کے عقائد اپنا لینا کچھ بعید نہیں ہے۔ اس سے اس حدیث کی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔آیت 97 قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ اس معاملے میں جبرائیل علیہ السلام کو تو کچھ اختیار حاصل نہیں۔ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے حکم سے کرتے ہیں ‘ اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتے۔مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ اس کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ ‘ اس کے رسول ﷺ اور اس کے ملائکہ سب ایک حیاتیاتی وحدت organic whole کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ یہ ایک جماعت ہیں ‘ ان میں کوئی اختلاف یا افتراق نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی جبرائیل علیہ السلام کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا دشمن ہے ‘ اور اگر کوئی اللہ کے سچے رسول ﷺ کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا بھی دشمن ہے اور جبرائیل علیہ السلام کا بھی دشمن ہے

من كان عدوا لله وملائكته ورسله وجبريل وميكال فإن الله عدو للكافرين

سورة: البقرة - آية: ( 98 )  - جزء: ( 1 )  -  صفحة: ( 15 )

Surah baqarah Ayat 98 meaning in urdu

(اگر جبریل سے ان کی عداوت کا سبب یہی ہے، تو کہہ دو کہ) جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. (ان کی کیفیت یہ ہے کہ) جب فرشتے ان کی جانیں نکالنے لگتے ہیں اور
  2. کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مجھے تمہاری نسبت عذاب الیم کا
  3. رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات
  4. اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت (کے باغات) اور ریشم (کے ملبوسات)
  5. اور یہ (لوگ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان
  6. ہمیں شام کی سرخی کی قسم
  7. دیکھو یہ عنقریب جان لیں گے
  8. پھر اگر لوگ تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں تمہارے اعمال سے بےتعلق
  9. (یعنی) بہشت جاودانی (میں) جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے (اور
  10. اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو خدا اُن کا مددگار ہے (وہ

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :

surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
surah baqarah Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah baqarah Bandar Balila
Bandar Balila
surah baqarah Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah baqarah Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah baqarah Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah baqarah Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah baqarah Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah baqarah Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah baqarah Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah baqarah Fares Abbad
Fares Abbad
surah baqarah Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah baqarah Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah baqarah Al Hosary
Al Hosary
surah baqarah Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah baqarah Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Friday, November 22, 2024

Please remember us in your sincere prayers