Surah Saffat Ayat 98 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ الصافات کی آیت نمبر 98 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Saffat ayat 98 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ﴾
[ الصافات: 98]

Ayat With Urdu Translation

غرض انہوں نے ان کے ساتھ ایک چال چلنی چاہی اور ہم نے ان ہی کو زیر کردیا

Surah Saffat Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یعنی آگ کو گلزار بنا کر ان کے مکرو حیلے کو ناکام بنا دیا، پس پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، اور آزمائش کو عطا میں اور شر کو خیر میں بدل دیتا ہے۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


بت کدہ آذر اور حضرت ابراہیم ؑ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم سے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جب اپنے میلے میں چلے جائیں تو یہ ان کے عبادت خانے میں تنہارہ جائیں اور ان کے بتوں کو توڑ نے کا تنہائی میں موقعہ مل جائے۔ اسی لیے ایک ایسی بات کہی جو درحقیقت سچی بات تھی لیکن ان کی سمجھ میں جو مطلب اس کا آیا اس سے آپ نے اپنا دینی کام نکال لیا۔ وہ تو اپنے اعتقاد کے موجب حضرت ابراہیم ؑ کو سچ مچ بیمار سمجھ بیٹھے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔ حضرت فتادہ ؓ فرماتے ہیں۔ جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں۔ مطلب یہ ہے کہ غور وفکر کے ساتھ تاروں کی طرف نگاہ اٹھائی۔ اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ میں سقم ہوں یعنی ضعیف ہوں۔ ایک حدیث میں آیا کہ ابراہیم ؑ نے صرف تین ہی جھوٹ بولے ہیں جن میں سے دو تو اللہ کے دین کے لیے ان کا فرمان ( فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ 89؀ ) 37۔ الصافات:89) اور ان کا فرمان ( قَالَ بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ 63؀ ) 21۔ الأنبیاء :63) اور ایک ان کا حضرت سارہ کو اپنی بہن کہنا۔ تو یاد رہے کہ دراصل ان میں حقیقی جھوٹ ایک بھی نہیں۔ انہیں تو صرف مجازاً جھوٹ کہا گیا ہے کلام میں ایسی تعریفیں کسی شرعی مقصد کے لیے کرنا جھوٹ میں داخل نہیں، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ تعریض جھوٹ سے الگ ہے اور اس سے بےنیاز کردیتی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ حضرت خلیل اللہ ؑ کے ان تینوں کلمات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے حکمت عملی کے ساتھ دین اللہ کی بھلائی مقصود نہ ہو۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں میں بیمار ہوں سے مطلب مجھے طاعون ہوگیا ہے۔ اور وہ لوگ ایسے مریض سے بھاگتے تھے۔ حضرت سعید کا بیان ہے کہ اللہ کے دین کی تبلیغ ان کے جھوٹے معبودوں کی تردید کے لیے خلیل اللہ کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ ایک ستارے کو طلوع ہوتے دیکھ کر فرمادیا کہ میں مقیم ہوں۔ اوروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں یعنی یقینا ایک مرتبہ مرض الموت آنے والا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریض ہوں یعنی میرا دل تمہارے ان بتوں کی عبادت سے بیمار ہے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جب آپ کی قوم میلے میں جانے لگی تو آپ کو بھی مجبور کرنے لگی آپ ہٹ گئے اور فرما دیا کہ میں مقیم ہوں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ جب وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو آپ نے بہ فراغت ان کے معبودوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ وہ تو سب اپنی عید میں گئے آپ چپکے چپکے اور جلدی جلدی ان کے بتوں کے پاس آئے۔ پہلے تو فرمایا کیوں جی تم کھاتے کیوں نہیں ؟ یہاں آکر خلیل اللہ نے دیکھا کہ جو چڑھا وے ان لوگوں نے ان بتوں پر چڑھا رکھے تھے وہ سب رکھے ہوئے تھے ان لوگوں نے تبرک کی نیت سے جو قربانیاں یہاں کی تھیں وہ سب یونہی پڑی ہوئی تھیں یہ بت خانہ بڑا وسیع اور مزین تھا دروازے کے متصل ایک بہت بڑا بت تھا اور اس کے اردگرد اس سے چھوٹے پھر ان سے چھوٹے یونہی تمام بت خانہ بھرا ہوا تھا۔ ان کے پاس مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے جو اس اعتقاد سے رکھے گئے تھے کہ یہاں رہنے سے متبرک ہوجائیں گے پھر ہم کھالیں گے۔ ابراہیم نے اپنی بات کا جواب نہ پاکر پھر فرمایا یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ بولتے کیوں نہیں۔ اب تو پوری قوت سے دائیں ہاتھ سے مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ ہاں بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ اس پر بدگمانی کی جاسکے، جیسا کہ سورة انبیاء میں گذر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بیان ہوچکی ہے بت پرست جب اپنے میلے سے واپس ہوئے بت خانے میں گھسے تو دیکھا کہ ان کے سب خدا اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے ہیں کسی کا ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں حیران ہوگئے کہ یہ کیا ہوا ؟ آخر سوچ سمجھ کر بحث مباحثے کے بعد معلوم کرلیا کہ ہو نہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہے ( علیہ الصلوۃ والسلام ) اب سارے کے سارے مل جل کر خلیل ؑ کے پاس دوڑے، بھاگے، دانت پیستے، تلملائے کو ستے گئے۔ خلیل اللہ کو تبلیغ کا اور انہیں قائل معقول کرنے کا اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا فرمانے لگے کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تم بناتے ہو ؟ اپنے ہاتھوں گھڑتے اور تراشتے ہو ؟ حالانکہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق اللہ ہی ہے۔ ممکن ہے کہ اس آیت میں ما مصدریہ ہو اور ممکن ہے کہ الذی کے معنی میں ہو، لیکن دونوں معنی میں تلازم ہے۔ گو اول زیادہ ظاہر ہے۔ چناچہ امام بخاری ؒ کی کتاب افعال العباد میں ایک مرفوع حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے۔ پھر بعض نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ چونکہ اس پاک صاف بات کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا تو تنگ آکر دشمنی پر اور سفلہ پن پر اتر آئے اور کہنے لگے ایک بنیان بناؤ اس میں آگ جلاؤ اور اسے اس میں ڈال دو۔ چناچہ یہی انہوں نے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس سے نجات دی۔ انہی کو غلبہ دیا اور انہی کی مدد فرمائی۔ گو انہوں نے انہیں برائی پہچانی چاہی لیکن اللہ نے خود انہیں ذلیل کردیا۔ اس کا پورا بیان اور کامل تفسیر سورة انبیاء میں گذر چکی ہے وہیں دیکھ لی جائے۔

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 98{ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِیْنَ } ” تو اس طرح انہوں نے اس کے ساتھ ایک دائو آزمایا ‘ لیکن ہم نے ان کو ہی نیچا دکھادیا۔ “ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے خلاف کون سا دائو آزمایا تھا ‘ اس کی وضاحت قبل ازیں سورة الانبیاء کی آیت 70 کی تشریح کے ضمن میں ہوچکی ہے۔ دراصل وہ لوگ آپ علیہ السلام کو آگ میں جلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ محض ڈرانا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب آپ علیہ السلام دیکھیں گے کہ ان کے لیے آگ کا اتنا بڑا الائو دہکایا جا رہا ہے تو سارا نشہ ہرن ہوجائے گا ‘ اور پھر جب انہیں آگ کے دہانے پر لاکر کھڑا کیا جائے گا تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے اور آپ علیہ السلام تائب ہو کر اپنے عقائد سے رجوع کرلیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ ” فتنہ “ دب جائے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ بالکل ہی الٹ ہوگیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو الائو کے دہانے پر لایا گیا تو بقول اقبالؔ: ؎بے خطر کود پڑا آتش ِنمرود میں عشق عقل ہے محو ِتماشائے لب ِبام ابھی ! بہر حال جب ابراہیم علیہ السلام نے بھرپور استقامت کا مظاہرہ کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے لیے آگ کو گل و گلزار بنا دیا۔ اس طرح وہ لوگ اپنے ارادوں اور منصوبوں سمیت خائب و خاسر ہوگئے۔

فأرادوا به كيدا فجعلناهم الأسفلين

سورة: الصافات - آية: ( 98 )  - جزء: ( 23 )  -  صفحة: ( 449 )

Surah Saffat Ayat 98 meaning in urdu

انہوں نے اس کے خلاف ایک کاروائی کرنی چاہی تھی، مگر ہم نے انہی کو نیچا دکھا دیا


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. جو بشارت بھی سناتا ہے اور خوف بھی دلاتا ہے لیکن ان میں سے اکثروں
  2. تو کیا یہ جادو ہے یا تم کو نظر ہی نہیں آتا
  3. صرف ایک خدا کے ہو کر اس کے ساتھ شریک نہ ٹھیرا کر۔ اور جو
  4. انہوں نے کہا کہ نوح اگر تم باز نہ آؤ گے تو سنگسار کردیئے جاؤ
  5. تو ہم نے ان سے بھی بدلہ لیا۔ اور یہ دونوں شہر کھلے رستے پر
  6. کہہ دو کہ اگر خدا کے اولاد ہو تو میں (سب سے) پہلے (اس کی)
  7. تم تو صرف ڈرانے والے ہو
  8. مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے اور خدا کو بہت یاد کرتے
  9. پھر باوجود اس کے کہ وہ لوگ نشان دیکھ چکے تھے ان کی رائے یہی
  10. تم فرعون کے پاس جاؤ (کہ) وہ سرکش ہو رہا ہے

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Saffat with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Saffat mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Saffat Complete with high quality
surah Saffat Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Saffat Bandar Balila
Bandar Balila
surah Saffat Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Saffat Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Saffat Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Saffat Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Saffat Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Saffat Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Saffat Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Saffat Fares Abbad
Fares Abbad
surah Saffat Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Saffat Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Saffat Al Hosary
Al Hosary
surah Saffat Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Saffat Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Monday, November 18, 2024

Please remember us in your sincere prayers