Surah baqarah Ayat 74 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾
[ البقرة: 74]
پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے۔ گویا وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت۔ اور پتھر تو بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں، اور ان میں سے پانی نکلنے لگتا ہے، اور بعضے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے خوف سے گر پڑتے ہیں، اور خدا تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں
Surah baqarah Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہوگیا، دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر ” إِنَابَةٌ إِلَى اللهِ “ کا داعیہ اور توبہ واستغفار کا جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔ دلوں کا سخت ہوجانا یہ افراد اور امتوں کے لئے سخت تباہ کن، اور اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ دلوں سے اثر پذیری کی صلاحیت سلب اور قبول حق کی استعداد ختم ہوگئی ہے، اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل فنا اور تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے: «وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ» ( الحدید: 16 ) ” اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی، لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔ “
( 2 ) پتھروں کی سنگینی کے باوجود، ان سے جو جو فوائد حاصل ہوتے اور جو جو کیفیت ان پر گزرتی ہے، اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک واحساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ» ( بنی اسرائیل: 44 ) ( مزید وضاحت کے لئے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت 44 کا حاشیہ دیکھیے )۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
پتھر دل لوگ اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے۔ اسی لئے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا آیت ( اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ ۙ وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ) 57۔ الحدید :16) یعنی کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اللہ کے نازل کردہ حق سے کانپ اٹھیں ؟ اور اگلے اہل کتاب کی طرح نہ ہوجائیں جن کے دل لمبا زمانہ گزرنے کے بعد سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مرگیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوگئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں بعض پتھر خوف اللہ سے گرپڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے آیت ( تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا ) 17۔ الاسرآء :44) یعنی ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ اللہ تعالیٰ حلم و بردباری والا اور بخشش و عفو والا ہے۔ ابو علی جبانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں رازی بھی غیر درست بتلاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بےدلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے واللہ اعلم۔ نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گرپڑنا دل سے ڈرنا بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے یریدان ینقض یعنی دیوار گرپڑنا چاہ رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا۔ رازی قرطبی وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کرسکتا ہے دیکھئے اس کا فرمان ہے آیت ( اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ) 33۔ الأحزاب:72) یعنی ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کے اٹھانے سے مجبوری ظاہر کی اور ڈر گئے اور آیت گزر چکی کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور جگہ ہے آیت ( والنجم والشجر یسجدان یعنی اکاس بیل اور درخت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور فرمایا یتقیاظلالہ الخ اور فرمایا آیت (قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ ) 41۔ فصلت :11) زمین و آسمان نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں اور جگہ ہے کہ پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتے اور جگہ فرمان ہے آیت ( وقالوا لجلودھم ) یعنی گناہ گار لوگ اپنے جسموں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم سے اس اللہ نے بات کرائی جو ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرماتا ہے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ احد پہاڑ کی نسبت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر حضور ﷺ جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہوگا یہ اس کے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر۔ آیت میں لفظ " او " جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی تو کہتے ہیں کہ یہ تبخیر کے لئے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت۔ رازی نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لئے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں واللہ اعلم۔ اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ آؤ شک کے لئے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی اس کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے جیسے آیت ( وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا ) 76۔ الإنسان:24) میں اور آیت ( عذرا اور نذرا ) میں شاعروں کے اشعار میں اور واؤ کے معنی میں جمع کے لئے آیا ہے یا او یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہے جیسے آیت ( كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً ) 4۔ النساء:77) میں اور آیت ( وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ ) 37۔ الصافات:147) میں اور آیت ( فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ) 53۔ النجم:9) میں بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لئے ایسا کلام کرتے ہیں قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ) 34۔ سبأ :24) یعنی ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لئے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے آیت ( كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا ) 2۔ البقرۃ :17) پھر فرمایا آیت ( او کصیب ) اور فرمایا ہے کسراب پھر فرمایا آیت ( او کظلمات ) مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے واللہ اعلم۔ تفسیر ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کردیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہوجاتا ہے امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے بزار میں حضرت انس سے مرفوعاً روایت ہے کہ چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا۔ دل کا سخت ہوجانا۔ امیدوں کا بڑھ جانا۔ لالچی بن جانا۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 74 ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ جب دین میں حیلے بہانے نکالے جانے لگیں اور حیلوں بہانوں سے شریعت کے احکام سے بچنے اور اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے تو اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ دل کی سختی ہے۔فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط ” “یہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی قرآن حکیم کا ایک بڑا عمدہ مقام ہے۔وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ ط ” “ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآءُ ط ” “ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ” “ قساوت قلبی کی یہ کیفیت اس امت کے افراد کی بیان کی جا رہی ہے جسے کبھی اہل عالم پر فضیلت عطا کی گئی تھی۔ اس امت پر چودہ سو برس ایسے گزرے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ تھا کہ ان کے ہاں کوئی نبی موجود نہ ہو۔ انہیں تین کتابیں دی گئیں۔ لیکن یہ اپنی بدعملی کے باعث قعر مذلتّ میں جا گری۔ عقائد میں ملاوٹ ‘ اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں میں میخ نکال کر اپنے آپ کو بچانے کے راستے نکالنے اور اعمال میں بھی ” کتاب الحِیَل “ کے ذریعے سے اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے مبرا کرلینے کی روش کا نتیجہ پھر یہی نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس انجام بد سے بچائے۔ آمین !
ثم قست قلوبكم من بعد ذلك فهي كالحجارة أو أشد قسوة وإن من الحجارة لما يتفجر منه الأنهار وإن منها لما يشقق فيخرج منه الماء وإن منها لما يهبط من خشية الله وما الله بغافل عما تعملون
سورة: البقرة - آية: ( 74 ) - جزء: ( 1 ) - صفحة: ( 11 )Surah baqarah Ayat 74 meaning in urdu
مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمہارے دل سخت ہوگئے، پتھروں کی طرف سخت، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے اللہ تمہارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- دہکتی آگ میں داخل ہوں گے
- یعنی (انہوں نے) ملک میں غرور کرنا اور بری چال چلنا (اختیار کیا) اور بری
- یہی لوگ ہیں جن کے لئے روزی مقرر ہے
- اور وہ بہت بابرکت ہے جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ
- (اے پیغمبر) اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا
- اور شراب کے چھلکتے ہوئے گلاس
- تو جن کے (عملوں کے) بوجھ بھاری ہوں گے۔ وہ فلاح پانے والے ہیں
- خدا چاہتا ہے کہ (اپنی آیتیں) تم سے کھول کھول کر بیان فرمائے اور تم
- ہم گنہگاروں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں
- (ہر چند) چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں مگر اس سے نہیں نکل سکیں
Quran surahs in English :
Download surah baqarah with the voice of the most famous Quran reciters :
surah baqarah mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter baqarah Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers