Surah Takasur Ayat 1 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ﴾
[ التكاثر: 1]
(لوگو) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا
Surah Takasur Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) أَلْهَى يُلْهِي، کے معنی ہیں، غافل کر دینا۔ تَكَاثُرٌ، زیادتی کی خواہش۔ یہ عام ہے۔ مال، اولاد، اعوان وانصار اور خاندان وقبیلہ وغیرہ، سب کو شامل ہے۔ ہر وہ چیز، جس کی کثرت انسان کو محبوب ہو اور کثرت کے حصول کی کوشش وخواہش اسے اللہ کے احکام اور آخرت سے غافل کر دے۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسان کی اسی کمزوری کو بیان کر رہا ہے، جس میں انسانوں کی اکثریت ہر دور میں مبتلا رہی ہے۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
مال و دولت اور اعمال :ارشاد ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے پالینے کی کوشش نے تمہیں آخرت کی طلب اور نیک کاموں سے بےپرواہ کردیا تم اسی دنیا کی ادھیڑ بن میں رہے کہ اچانک موت آگئی اور تم قبروں میں پہنچ گئے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اطاعت پروردگار سے تم نے دنیا کی جستجو میں پھنس کر بےرغبتی کرلی اور مرتے دم تک غفلت برتی ( ابن ابی حاتم ) حسن بصری فرماتے ہیں مال اور اولاد کی زیادتی کی ہوس میں موت کا خیال پرے پھینک دیا صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں ہم لو کان لابن ادم واد من ذھب یعنی اگر ابن آدم کے پاس ایک جنگل بھر کر سونا ہو اسے قرآن کی آیت ہی سمجھتے رہے یہاں تک کہ الھا کم التکاثر نازل ہوئی مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ فرماتے ہیں میں جناب رسول اللہ صلی اللہ کی خدمت میں جب آیا تو آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ابن آدم کہتا رہتا ہے کہ میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال صر فوہ ہے جسے تو نے کھا کر فنا کردیا یا پہن کر پھاڑ دیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا صحیح مسلم شریف میں اتنا اور زیادہ ہے کہ اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو لوگوں کے لیے چھوڑ چھاڑ کر چل دے گا بخاری کی حدیث میں ہے میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں جن میں سے دو تو پلٹ آتی ہیں صرف ایک ساتھ رہ جاتی ہے گھر والے مال اور اعمال اہل و مال لوٹ آئے عمل ساتھ رہ گئے مسند احمد کی حدیث میں ہے ابن آدم بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن دو چیزیں اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور امنگ حضرت صحاک نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک درہم دیکھ کر پوچھا یہ درہم کس کا ہے ؟ اس نے کہا میرا فرمایا تیرا تو اس وقت ہوگا کہ کسی نیک کام میں تو خرچ کر دے یا بطور شکر رب کے خرچ کرے حضرت احنف نے اس واقعہ کو بیان کر کے پھر یہ شعر پڑھا انت للمال اذا امسکتہ فاذا انفقتہ فالمال لک یعنی جب تک تو مال کو لیے بیٹھا ہے تو تو مال کی ملکیت ہے ہاں جب اسے خرچ کردے گا اس وقت مال تیری ملکیت میں ہوجائیگا ابن بریدہ فرماتے ہیں بنو حارثہ اور بنو حارث انصار کے قبیلے والے اپنے میں سے ایسوں کو پیش کرتے تھے جب زندوں کے ساتھ یہ فخر و مباہات کرچکے تو کہنے لگے آؤ قبرستان میں چلیں وہاں جا کر اپنے اپنے مردوں کی قبروں کی طرف اشارے کر کے کہنے لگے بتاؤ اس جیسا بھی تم میں کوئی گذرا ہے وہ انہیں اپنے مردوں کے ساتھ الزام دینے لگے اس پر یہ دونوں ابتدائی آیتیں اتریں کہ تم فخرو مباہات کرتے ہوئے قبرستان میں پہنچ گئے اور اپنے اپنے مردوں پر بھی فخر و غرور کرنے لگے چاہے تھا کہ یہاں آ کر عبرت حاصل کرتے اپنا مرنا اور سڑنا گلنا یاد کرتے۔ حضرت قتادہ رحملہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی زیادتی اور اپنی کثرت پر گھمنڈ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک ایک ہو کر قبروں میں پہنچ گئے مطلب یہ ہے کہ بہتات کی چاہت نے غفلت میں ہی رکھا یہاں تک کہ مرگئے اور قبروں میں دفن ہوگئے صحیح حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی کی بیمار پرسی کو گئے اور حسب عادت فرمایا کوئی ڈر خوف نہیں انشاء اللہ گناہوں سے پاکیزگی حاصل ہوگی تو اس نے کہا آپ اسے خوب پاکا بتلا رہے ہیں یہ تو وہ بخار ہے جو بوڑھے بڑوں پر جوش مارتا ہے اور قبر تک پہنچا کر رہتا ہے آپ نے فرمایا اچھا پھر یوں ہی سہی اس حدیث میں بھی لفظ تزیرہ القبور ہے اور یہاں قرآن میں بھی زرتم المقابر ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مر کر قبر میں دفن ہونا ہی ہے ترمذی میں ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب تک یہ آیت نہ اتری ہم عذاب قر کے بارے میں شک میں ہی ررہے یہ حدیث غریب ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس آیت کی تلاوت کی پھر کچھ دیر سوچ کر فرمانے لگے میمون ! قبروں کا دیکھنا تو صرف بطور زیارت ہے اور ہر زیارت کرنے والا اپنی جگہ لوٹ جاتا ہے یعنی خواہ جنت کی طرف خواہ دوزخ کی طرف ایک اعرابی نے بھی ایک شخص کی زبانی ان دونوں آیتوں کی تلاوت سن کر یہی فرمایا تھا کہ اصل مقام اور ہی ہے پھر اللہ تعالیٰ دھمکاتے ہوئے دو دو مرتبہ فرماتا ہے کہ حقیقت حال کا علم تمہیں ابھی ہوجائیگا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے مراد کفار ہیں دوبارہ مومن مراد ہیں پھر فرماتا ہے کہ اگر تم علم یقینی کے ساتھ اسے معلوم کرلیتے یعنی اگر ایسا ہوتا تو تم غفلت میں نہ پڑتے اور مرتے دم تک اپنی آخری منزل آخرت سے غافل نہ رہتے پھر جس چیز سے پہلے دھمکایا تھا اسی کا بیان کر رہا ہے کہ تم جہنم کو انہی ان آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس کی ایک ہی جنبش کے ساتھ اور تو اور انبیاء ( علیہم السلام ) بھی ہیبت و خوف کے مارے گھٹنوں کے بل گرجائیں گے اس کی عظمت اور دہشت ہر دل پر چھائی ہوئی ہوگی جیسے کہ بہت سی احادیث میں بہ تفصیل مروی ہے پھر فرمایا کہ اس دن تم سے نعمتوں کی بازپرس ہوگی صحت امن رزق وغیرہ تمام نعمتوں کی نسبت سوال ہوگا کہ ان کا شکر کہاں تک ادا کیا ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ ٹھیک دوپہر کو رسول اللہ ﷺ اپنے گھر سے چلے دیکھا تو حضرت ابوبکر ؓ بھی مسجد میں آ رہے ہیں پوچھا کہ اس وقت کیسے نکلے ہو کہا حضور ﷺ جس چیز نے آپ کو نکالا ہے اسی نے مجھے بھی نکالا ہے اتنے میں حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی آگئے ان سے بھی حضور ﷺ نے یہی سوال کیا اور آپ نے بھی یہی جواب دیا پھر حضور ﷺ نے ان دونوں بزرگوں سے باتیں کرنی شروع کیں پھر فرمایا کہ اگر ہمت ہو تو اس باغ تک چلے چلو کھانا پینا مل ہی جائیگا اور سائے دار جگہ بھی ہم نے کہا بہت اچھا پس آپ ہمیں لے کر ابو الہیشم انصاری ؓ کے باغ کے دروازہ پر آئے آپ نے سلام کیا اور اجازت چاہی ام ہیثم انصاریہ دروازے کے پیچھے ہی کھڑی تھیں سن رہی تھیں لیکن اونچی آواز سے جواب نہیں دیا اور اس لالچ سے کہ اللہ کے رسول ﷺ اور زیادہ سلامی کی دعا کرئیں اور کئی کئی مرتبہ آپ کا سلام سنیں جب تین مرتبہ حضور ﷺ سلام کرچکے اور کوئی جواب نہ ملا تو آپ ﷺ واپس چلے دئیے اب تو حضرت ابو الہیشم کی بیوی صاحبہ دوڑیں اور کہا حضور ﷺ میں آپ کی آواز سن رہی تھی لیکن میرا ارادہ تھا کہ اللہ کرے آپ کئی کئی مرتبہ سلام کریں اس لیے میں نے اپنی آواز آپ کو نہ سنائی آپ آئیے تشریف للے چلئے آپ نے ان کے اس فعل کو اچھی نظروں سے دیکھا پھر پوچھا کہ خود ابو الہیشم کہاں ہیں مائی صاحبہ نے فرمایا حضور ﷺ وہ بھی یہیں قریب ہی پانی لینے گئے ہیں آپ تشریف لائیے انشاء اللہ آتے ہی ہوں گے حضور ﷺ باغ میں رونق افروز ہوئے اتنے میں ہی حضرت ابو الہیشم بھی آگئے بیحد خوش ہوئے آنکھوں ٹھنڈک اور دل سکون نصیب ہوا اور جلدی جلدی ایک کھجور کے درخت پر چڑھ گئے اور اچھے اچھے خوشے اتار اتار کردینے لگے یہاں تک کہ خود آپ نے روک دیا صحابی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ گدلی اور تر اور بالکل پکی اور جس طرح کی چاہیں تناول فرمائیں جب کھجوریں کھاچکے تو میٹھا پانی لائے جسے پیا پھر حضور ﷺ فرمانے لگے یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے ابن جریر کی اسی حدیث میں ہے کہ ابوبکر عمر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس حضور ﷺ آئے اور پوچھا کہ یہاں کیسے بیٹھے ہو ؟ دونوں نے کہا حضور ﷺ بھوک کے مارے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بھی اسی وجہ سے اس وقت نکلا ہوں اب آپ انہیں لے کر چلے اور ایک انصری کے گھر آئے ان کی بیوی صاحبہ مل گئیں پوچھا کہ تمہارے میاں کہاں گئے ہیں ؟ کہاں گھر کے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں اتنے میں تو وہ مشک اٹھائے ہوئے آہی گئے خوش ہوگئے اور کہنے لگے مجھ جیسا خوش قسمت آج کوئی بھی نہیں جس کے گھر اللہ کے نبی ﷺ تشریف لائے ہیں مشک تو لٹکا دی اور خود جا کر کھجوروں کے تازہ تازہ خوشے لے آئے آپ نے فرمایا چن کر الگ کر کے لاتے تو جواب دیا کہ حضور ﷺ میں نے چاہا کہ آپ اپنی طبیعت کے مطابق اپنی پسند سے چن لیں اور نوش فرمائیں پھر چھری ہاتھ میں اٹھائی کہ کوئی جانور ذبح کر کے گوشت پکائیں تو آپ نے فرمایا دیکھو ودھ دینے والے جانور ذبح نہ کرنا چناچہ اس نے ذبیحہ کیا آپ نے وہیں کھانا کیا پھر فرمانے لگے دیکھو بھوکے گھر سے نکلے اور پیٹ بھرے جا رہے ہیں یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا رسول اللہ ﷺ کے آزاد غلام حضرت ابو عسیب کا بیان ہے کہ رات کو رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی میں نکلا پھر حضور ابوبکر کو بلایا پھر حضرت عمر کو بلایا پھر کسی انصاری کے باغ میں گئے اور اس سے فرمایا لاؤ بھائی کھانے کو دو وہ انگور کے خوشے اٹھا لائے اور آپ کے سامنے رکھ دئیے آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے کھائے پھر فرمایا ٹھنڈا پانی پلواؤ وہ لائے آپ نے پیا پھر فرمانے لگے قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی حضرت عمر نے وہ خوشہ اٹھا کر زمین پردے مارا اور کہنے لگے اس کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں پرسش ہوگی۔ آپ نے فرمایا ہاں صرف تین چیزوں کو تو پرسش نہیں۔ پردہ پوشی کے لائق کپڑا بھوک روکنے کے قابل ٹکڑا اور سردی گرمی میں سرچھپانے کے لیے مکان ( مسند احمد ) کی ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی اور حضور ﷺ نے پڑھ کر سنائی تو صحابہ کہنے لگے ہم سے کس نعمت پر سوال ہوگا ؟ کھجوریں کھا رہے ہیں اور پانی پی رہے ہیں تلواریں گردنوں میں لٹک رہی ہیں اور دشمن سر پر کھڑا ہے آپ نے فرمایا گھبراؤ نہیں عنقریب نعمتیں آجائیں گی حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے جو حضور ﷺ آئے اور نہائے ہوئے معلوم ہوتے تھے ہم نے کہا حضور ﷺ اس وقت تو آپ خوش و خرم نظر آتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں پھر لوگ تونگری کا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو اس کے لیے تونگری کوئی بری چیز نہیں اور یاد رکھو متقی شخص کے لیے صحت تونگری سے بھی اچھی ہے اور خوش نفسی بھی اللہ کی نعمت ہے ( مسند احمد ) ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ترمذی شریف میں ہے نعمتوں کے سوال میں قیامت والے دن سب سے پہلے یہ کہا جائیگا کہ ہم نے تجھے صحت نہیں دی تھی اور ٹھنڈے پانی سے تجھے آسودہ نہیں کیا کرتے تھے ؟ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ اس آیت ثم لتسئلن الخ کو سنا کر صحابہ کہنے لگے کہ حضور ﷺ ہم تو جو کی روٹی اور وہ بھی آدھا پیٹ کھا رہے ہیں تو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ کیا تم پیر بچانے کے لیے جوتیاں نہیں پہنتے اور کیا تم ٹھنڈے پانی نہیں پیتے ؟ یہی قابل پرسش نعمتیں ہیں اور روایت میں ہے کہ امن اور صحت کے بارے میں سوال ہوگا پیٹ بھر کھانے ٹھنڈے پانی سائے دار گھروں میٹھی نیند کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔ شہد پینے لذتیں حاصل کرنے صبح و شام کے کھانے، گھی شہد اور میدے کی روٹی وغیرہ غرض ان تمام نعمتوں کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال ہوگا حضرت ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت کانوں اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں بھی سوال ہوگا کہ ان طاقتوں سے کیا کیا کام کیے جیسے قرآن کریم میں ہے ان اسلمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا ہر شخص سے اس کے کان اس کی آنکھ اور اس کے دل کے بارے میں بھی پوچھ ہوگی لوگ بہت ہی غفلت برت رہے ہیں صحت اور فراغت یعنی نہ تو ان کا پورا شکر ادا کرتے ہیں اور ان کی عظمت کو جانتے ہیں نہ انہیں اللہ کی مرضی کے مطابق صرف کرتے ہیں بزار میں ہے تہ بند کے سوا سائے دار دیواروں کے سوا اور روٹی کے ٹکڑے کے سوال ہر چیز کا قیامت کے دن حساب دینا پڑے گا مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن کہے گا اے ابن آدم میں نے تجھے گھوڑوں پر اور اونٹوں پر سوار کرایا عورتیں تیرے نکاح میں دیں تجھے مہلت دی کہ تو ہنسی خوشی آرام و راحت سے زندگی گزارے اب بتا کہ اس کا شکریہ کہاں ہے ؟ اللہ کے فضل و کرم سے سورة تکاثر کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمدللہ۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 1{ اَلْہٰٹکُمُ التَّکَاثُرُ۔ } ” تمہیں غافل کیے رکھا ہے بہتات کی طلب نے ! “ التکاثر کے معنی مال جمع کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے بھی ہیں اور مال و دولت کی کثرت پر فخر کرنے کے بھی۔ دولت انسان کے پاس چاہے جتنی بھی ہو اس کی طبیعت اس سے بھرتی نہیں اور وہ بدستور مزید حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔
Surah Takasur Ayat 1 meaning in urdu
تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور ہم نے اس کو اسی طرح کا قرآن عربی نازل کیا ہے اور اس
- بنی اسرائیل کے لیے (تورات کے نازل ہونے سے) پہلے کھانے کی تمام چیزیں حلال
- اور تہہ بہ تہہ کیلوں
- (مشرکو!) کیا تمہارے لئے تو بیٹے اور خدا کے لئے بیٹیاں
- بھلا یہ مہمانی اچھی ہے یا تھوہر کا درخت؟
- (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو فتح دی۔ فتح بھی صریح وصاف
- اور وہی تو ہے جو آسمان سے مینھ برساتا ہے۔ پھر ہم ہی (جو مینھ
- (حکم ہوگا کہ) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو
- اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا ہی کو ہے اور خدا ہر چیز پر
- تو جب مجھے تم سے ڈر لگا تو تم میں سے بھاگ گیا۔ پھر خدا
Quran surahs in English :
Download surah Takasur with the voice of the most famous Quran reciters :
surah Takasur mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Takasur Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers