Surah Hadid Ayat 1 Tafseer Ibn Katheer Urdu

  1. Arabic
  2. Ahsan ul Bayan
  3. Ibn Kathir
  4. Bayan Quran
Quran pak urdu online Tafseer Ibn Katheer Urdu Translation القرآن الكريم اردو ترجمہ کے ساتھ سورہ حدید کی آیت نمبر 1 کی تفسیر, Dr. Israr Ahmad urdu Tafsir Bayan ul Quran & best tafseer of quran in urdu: surah Hadid ayat 1 best quran tafseer in urdu.
  
   

﴿سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾
[ الحديد: 1]

Ayat With Urdu Translation

جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے۔ اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے

Surah Hadid Urdu

تفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan


( 1 ) یہ تسبیح زبان حال سے نہیں، بلکہ زبان مقال سے ہے اسی لیے فرمایا گیا ہے، وَلَكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( بني إسرائيل: 44 ) ” تم ان کی تسبیح نہیں سمجھ سکتے “۔ حضرت داود ( عليه السلام ) کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح کرتےتھے۔ ( الانبیا:79 ) اگر یہ تسبیح حال یا تسبیح دلالت ہوتی تو حضرت داود ( عليه السلام ) کے ساتھ اس کو خاص کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔

Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر


کل کائنات ثناء خواں ہے تمام حیوانات، سب نباتات اس کی پاکی بیان کرتے ہیں، ساتواں آسمان، زمینیں، ان کی مخلوق اور ہر ایک چیز اس کی ستائش کرنے میں مشغول ہے گو تم ان کی تسبیح نہ سمجھ سکو اللہ حلیم و غفور ہے۔ اس کے سامنے ہر کوئی پست و عاجز و لاچار ہے، اس کی مقرر کردہ شریعت اور اس کے احکام حکمت سے پر ہیں۔ حقیقی بادشاہ جس کی ملکیت میں آسمان و زمین ہیں وہی ہے، خلق میں متصرف وہی ہے، زندگی موت اسی کے قبضے میں ہے، وہی فنا کرتا ہے، وہی پیدا کرتا ہے۔ جسے جو چاہے عنایت فرماتا ہے، ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، جو چاہتا ہے ہوجاتا ہے، جو نہ چاہے نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد کی آیت ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) 57۔ الحدید :3) وہ آیت ہے جس کی بابت اوپر کی حدیث میں گذرا کہ ایک ہزار آیتوں سے افضل ہے۔ حضرت ابو زمیل حضرت ابن عباس سے کہتے ہیں کہ میرے دل میں ایک کھٹکا ہے لیکن زبان پر لانے کو جی نہیں چاہتا اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے مسکرا کر فرمایا شاید کچھ شک ہوگا جس سے کوئی نہیں بچا یہاں تک کہ قرآن میں ہے آیت ( فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ 94 ۙ ) 10۔ يونس:94) ، یعنی اگر تو جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اس میں شک میں ہو تو تجھ سے پہلے جو کتاب پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے۔ پھر فرمایا جب تیرے دل میں کوئی شک ہو تو اس آیت کو پڑھ لیا کر ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ) 57۔ الحدید :3) اس آیت کی تفسیر میں دس سے اوپر اوپر اقوال ہیں۔ بخاری فرماتے ہیں یحییٰ کا قول ہے کہ ظاہر باطن سے مراد از روئے علم ہر چیز پر ظاہر اور پوشیدہ ہونا ہے۔ یہ یحییٰ زیاد فراء کے لڑکے ہیں ان کی ایک تصنیف ہے جس کا نام معانی القرآن ہے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ سونے کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے۔ اے اللہ اے ساتوں آسمانوں کے اور عرش عظیم کے رب، اے ہمارے اور ہر چیز کے رب ! اے تورات و انجیل کے اتارنے والے ! اے دانوں اور گٹھلیوں کو اگانے والے تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں میں تیری پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے کہ اس کی چوٹی تیرے ہاتھ میں ہے تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہ تھا تو ہی آخر ہے تیرے بعد کچھ نہیں تو ظاہر ہے تجھ سے اونچی کوئی چیز نہیں تو باطن ہے تجھ سے چھپی کوئی چیز نہیں ہمارے قرض ادا کرا دے اور ہمیں فقیری سے غنا دے۔ حضرت ابو صالح اپنے متعلقین کو یہ دعا سکھاتے اور فرماتے سوتے وقت داہنی کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ لیا کرو، الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے۔ ملاحظہ ہو مسلم۔ ابو یعلی میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کے حکم سے آپ کا بسترہ قبلہ رخ بچھایا جاتا آپ آ کر اپنے داہنے ہاتھ پر تکیہ لگا کر آرام فرماتے، پھر آہستہ آہستہ کچھ پڑھتے رہتے لیکن آخر رات میں با آواز بلند یہ دعا پڑھتے ( جو اوپر بیان ہوئی ) الفاظ میں کچھ ہیر پھیر ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں جامع ترمذی میں ہے کہ حضور ﷺ اپنے صحابہ سمیت تشریف فرما تھے کہ ایک بادل سر پر آگیا آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے با ادب جواب دیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ فرمایا اسے عنان کہتے ہیں یہ زمین کو سیراب کرنے والے ہیں ان لوگوں پر بھی یہ برسائے جاتے ہیں جو نہ اللہ کے شکر گزار ہیں نہ اللہ کے پکارنے والے پھر پوچھا معلوم ہے تمہارے اوپر کیا ہے انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ باخبر ہے، فرمایا بلند محفوظ چھت اور لپٹی ہوئی موج، جانتے ہو تم میں اس میں کس قدر فاصلہ ہے وہی جواب ملا، فرمایا پانچ سو سال کا راستہ۔ پھر پوچھا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ نے پھر اپنی لاعلمی ان ہی الفاظ میں ظاہر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کے اوپر پھر دوسرا آسمان ہے اور ان دونوں آسمانوں میں بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اسی طرح آپ نے سات آسمان گنوائے اور ہر دو میں اتنی ہی دوری بیان فرمائی۔ پھر سوال کر کے جواب سن کر فرمایا اس ساتویں کے اوپر اتنے ہی فاصلہ سے عرش ہے، پھر پوچھا جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے اور جواب وہی سن کر فرمایا دوسری زمین ہے، پھر سوال جواب کے بعد فرمایا اس کے نیچے دوسری زمین ہے اور دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اسی طرح سات زمینیں اسی فاصلہ کے ساتھ ایک دوسرے کے نیچے بتائیں، پھر فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر تم کوئی رسی سب سے نیچے کی زمین کی طرف لٹکاؤ تو وہ بھی اللہ کے پاس پہنچے گی پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی، لیکن یہ حدیث غریب ہے اس کے راوی حسن کا ایوب یونس اور علی بن زید محدثین کا قول ہے۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ اس سے مراد رسی کا اللہ تعالیٰ کے علم قدرت اور غلبے تک پہنچنا ہے ( نہ کہ ذات باری تعالیٰ ) اللہ تعالیٰ کا علم اس کی قدرت اور اس کا غلبہ اور سلطنت بیشک ہر جگہ ہے لیکن وہ اپنی ذات سے عرش پر ہے جیسے کہ اس نے اپنا یہ وصف اپنی کتاب میں خود بیان فرمایا ہے۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں دو دو زمینوں کے درمیان کا فاصلہ سات سو سال کا بیان ہوا۔ ابن ابی حاتم اور بزار میں بھی یہ حدیث ہے لیکن ابن ابی حاتم میں رسی لٹکانے کا جملہ نہیں اور ہر دو زمین کے درمیان کی دوری اس میں بھی پانچ سو سال کی بیان ہوئی ہے۔ امام بزار نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی آنحضرت ﷺ سے بغیر حضرت ابوہریرہ کے اور کوئی نہیں۔ ابن جریر میں یہ حدیث مرسلاً مروی ہے یعنی قتادہ فرماتے ہیں ہم سے یوں ذکر کیا گیا ہے پھر حدیث بیان کرتے ہیں صحابی کا نام نہیں لیتے۔ ممکن ہے یہی ٹھیک ہو، واللہ اعلم، حضرت ابوذر غفاری سے مسند بزار اور کتاب الاسماء و الصفات بیہقی میں یہ حدیث مروی ہے لیکن اس کی اسناد میں نظر ہے اور متن میں غربت و نکارت ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ امام ابن جریر آیت ( وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنّ 12ۧ ) 65۔ الطلاق:12) کی تفسیر میں حضرت قتادہ کا قول لائے ہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان چار فرشتوں کی ملاقات ہوئی۔ آپس میں پوچھا کہ تم کہاں سے آ رہے ہو ؟ تو ایک نے کہا ساتویں آسمان سے مجھے اللہ عزوجل نے بھیجا ہے اور میں نے اللہ کو وہیں چھوڑا ہے۔ دوسرے نے کہا ساتویں زمین سے مجھے اللہ نے بھیجا تھا اور اللہ وہیں تھا، تیسرے نے کہا میرے رب نے مجھے مشرق سے بھیجا ہے جہاں وہ تھا چوتھے نے کہا مجھے مغرب سے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں اسے وہیں چھوڑ کر آ رہا ہوں۔ لیکن یہ روایت بھی غریب ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت قتادہ والی اوپر کی روایت جو مرسلاً بیان ہوئی ہے ممکن ہے وہ بھی حضرت قتادہ کا اپنا قول ہو جیسے یہ قول خود قتادہ کا اپنا۔ واللہ اعلم

Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad


آیت 1 { سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ” تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے۔ “ ان سورتوں المُسَبِّحات کا یہ مضمون بہت اہم ہے۔ آگے چل کر سورة الحشر اور سورة الصف میں یہ آیت ” مَا فِیْ “ کے اضافے کے ساتھ اس طرح آئے گی : { سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِج } اور پھر سورة الجمعة اور سورة التغابن میں مزید ُ پرزور انداز میں فعل مضارع کے ساتھ یوں آئے گا : { یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ }۔ کائنات کی ہرچیز کس طرح اللہ کی تسبیح کرتی ہے ؟ اس کی ایک صورت تو ” تسبیح حالی “ کی ہے جو ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ ہرچیز اپنی زبان حال سے اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔ اس کی مثال ایک تصویر ہے جو اپنے مصور کے کمال فن یا عدم مہارت پر دلالت کرتی ہے۔ چناچہ جس طرح ایک خوبصورت تصویر زبان حال سے اپنے مصور کی تعریف کرتی نظر آتی ہے اسی طرح اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے وجود سے گواہی دے رہا ہے کہ میرا پیدا کرنے والا ‘ میرا صانع ‘ میرا خالق ‘ میرا مصور ہر عیب سے پاک ‘ ہر نقص سے بالا اور ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے ‘ اس کے علم ‘ اس کی قدرت اور اس کی حکمت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے۔ دوسری صورت ” زبانی تسبیح “ کی ہے جو کہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ سورة حٰمٓ السَّجدۃ کی آیات 20 اور 21 میں قیامت کے اس منظر کا ذکر ہے جب انسانوں کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے۔ اس پر وہ لوگ حیرت سے اپنی کھالوں سے پوچھیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ جواب میں ان کی کھالیں کہیں گی : { اَنْقَطَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ } آیت 21 کہ آج اس اللہ نے ہمیں بھی زبان دے دی ہے جس نے ہر شے کو زبان دی ہے۔ اس کے علاوہ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو اپنی تسبیح کے لیے ایک طریقہ تفویض کر رکھا ہے : { تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ } آیت 44” اسی کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور وہ تمام مخلوق بھی جو ان میں ہے۔ اور کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ تسبیح کرتی ہے اس کی حمد کے ساتھ ‘ لیکن تم نہیں سمجھ سکتے ان کی تسبیح کو۔ “ بہرحال کائنات کی ہرچیز اپنی زبان حال سے بھی اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اور اللہ کی عطا کردہ اپنی مخصوص زبان سے بھی اس کی تعریف و توصیف میں مشغول و مصروف ہے۔ اس کے علاوہ اس کی تسبیح کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں جو کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ { وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ } ” اور وہ بہت زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔ “ ان سورتوں میں اللہ تعالیٰ کے یہ دو اسماء اکٹھے ایک ساتھ بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ اسمائے حسنیٰ کا یہ جوڑا معنوی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ العزیز وہ ہستی ہے جس کا اختیار مطلق ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی سطح پر مطلق العنانیت کا تجربہ ہمیشہ بہت تلخ رہا ہے۔ عملی طور پر ہمارے ہاں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ جہاں مطلق العنانیت آتی ہے ‘ وہاں اختیارات کا ناجائز استعمال ضرور ہوتا ہے۔ بلکہ پولیٹیکل سائنس کا تو اس حوالے سے آزمودہ فارمولا یہ ہے : " Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts absolutely."چنانچہ جب کسی ملک کا آئین بنایا جاتا ہے اور معاشرے کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں تو متعلقہ ماہرین کی ساری کوشش اختیارات کو مشروط کرنے اور ان میں توازن قائم کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ایسی صاحب اختیار ہستی ہے جس کے اختیارات کی نہ تو کوئی حد ہے اور نہ ہی اس کے اختیارات کسی شرط سے مشروط ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ” الحکیم “ بھی ہے۔ وہ اپنے مطلق اختیارات میں خود ہی اپنی حکمت سے توازن قائم رکھتا ہے۔ چناچہ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ زبردست ہے ‘ وہ اپنی تمام مخلوقات پر غالب ہے ‘ اس کے اختیارات مطلق ہیں ‘ لیکن اس کا کوئی کام ‘ اس کا کوئی عمل اور اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

سبح لله ما في السموات والأرض وهو العزيز الحكيم

سورة: الحديد - آية: ( 1 )  - جزء: ( 27 )  -  صفحة: ( 537 )

Surah Hadid Ayat 1 meaning in urdu

اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اُس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے، اور وہی زبردست دانا ہے


English Türkçe Indonesia
Русский Français فارسی
تفسير Bengali اعراب

Ayats from Quran in Urdu

  1. بلکہ یہ روشن آیتیں ہیں۔ جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے اُن کے سینوں
  2. اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے
  3. یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے۔ اور جس کو چاہتا ہے
  4. اور میؤوں میں جو ان کو مرغوب ہوں
  5. اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روزِ آخرت
  6. جب تم لوگ غنیمتیں لینے چلو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ
  7. حٰم
  8. اور کہو کہ اے پروردگار مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کیجیو اور (مکے سے)
  9. پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دو
  10. کیا انہوں نے زمین میں کبھی سیر نہیں کی تاکہ دیکھتے کہ جو لوگ ان

Quran surahs in English :

Al-Baqarah Al-Imran An-Nisa
Al-Maidah Yusuf Ibrahim
Al-Hijr Al-Kahf Maryam
Al-Hajj Al-Qasas Al-Ankabut
As-Sajdah Ya Sin Ad-Dukhan
Al-Fath Al-Hujurat Qaf
An-Najm Ar-Rahman Al-Waqiah
Al-Hashr Al-Mulk Al-Haqqah
Al-Inshiqaq Al-Ala Al-Ghashiyah

Download surah Hadid with the voice of the most famous Quran reciters :

surah Hadid mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter Hadid Complete with high quality
surah Hadid Ahmed El Agamy
Ahmed Al Ajmy
surah Hadid Bandar Balila
Bandar Balila
surah Hadid Khalid Al Jalil
Khalid Al Jalil
surah Hadid Saad Al Ghamdi
Saad Al Ghamdi
surah Hadid Saud Al Shuraim
Saud Al Shuraim
surah Hadid Abdul Basit Abdul Samad
Abdul Basit
surah Hadid Abdul Rashid Sufi
Abdul Rashid Sufi
surah Hadid Abdullah Basfar
Abdullah Basfar
surah Hadid Abdullah Awwad Al Juhani
Abdullah Al Juhani
surah Hadid Fares Abbad
Fares Abbad
surah Hadid Maher Al Muaiqly
Maher Al Muaiqly
surah Hadid Muhammad Siddiq Al Minshawi
Al Minshawi
surah Hadid Al Hosary
Al Hosary
surah Hadid Al-afasi
Mishari Al-afasi
surah Hadid Yasser Al Dosari
Yasser Al Dosari


Monday, May 13, 2024

لا تنسنا من دعوة صالحة بظهر الغيب