Surah anaam Ayat 1 Tafseer Ibn Katheer Urdu
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ﴾
[ الأنعام: 1]
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا کے برابر ٹھیراتے ہیں
Surah anaam Urduتفسیر احسن البیان - Ahsan ul Bayan
( 1 ) ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی انواع بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی تمام انواع کو شامل ہے۔ ( فتح القدیر ) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے، چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں، اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔
( 2 ) یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔
Tafseer ibn kaseer - تفسیر ابن کثیر
اللہ کی بعض صفات اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کر رہا ہے گویا ہمیں اپنی تعریفوں کا حکم دے رہا ہے، اس کی تعریف جن امور پر ہے ان میں سے ایک زمین و آسمان کی پیدائش بھی ہے دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی ہے اندھیرے کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے لانا نور کی شرافت کی وجہ سے ہے، جیسے فرمان ربانی آیت ( عن الیمین و الشمائل ) میں اور اس سورت کے آخری حصے کی آیت ( وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) 6۔ الأنعام:153) میں یہاں بھی راہ راست کو واحد رکھا اور غلط راہوں کو جمع کے لفظ سے بتایا، اللہ ہی قابل حمد ہے، کیونکہ وہی خالق کل ہے مگر پھر بھی کافر لوگ اپنی نادانی سے اس کے شریک ٹھہرا رہے ہیں کبھی بیوی اور اولاد قائم کرتے ہیں کبھی شریک اور ساجھی ثابت کرنے بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے، اس رب نے تمہارے باپ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس کی نسل سے مشرق مغرب میں پھیلا دیا، موت کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، آخرت کے آنے کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، پہلی اجل سے مراد دنیاوی زندگی دوسری اجل سے مراد قبر کی رہائش، گویا پہلی اجل خاص ہے یعنی ہر شخص کی عمر اور دوسری اجل عام ہے یعنی دنیا کی انتہا اور اس کا خاتمہ، ابن عباس اور مجاہد وغیرہ سے مروی ہے کہ قضی اجلا سے مراد مدت دنیا ہے اور اجل مسمی سے مراد عمر انسان ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا استدلال آنے والی آیت آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ) 6۔ الأنعام:60) سے ہو، ابن عباس سے مروی ہے کہ آیت ( ثم قضی اجلا ) سے مراد نیند ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے، پھر جاگنے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے اور اجل مسمی سے مراد موت ہے یہ قول غریب ہے عندہ سے مراد اس کے علم کا اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہونا ہے جیسے فرمایا آیت ( قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ) 7۔ الأعراف:187) یعنی قیامت کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہی ہے، سورة نازعات میں بھی فرمان ہے کہ لوگ تجھ سے قیامت کے صحیح وقت کا حال دریافت کرتے ہیں حالانکہ تجھے اس کا علم کچھ بھی نہیں وہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے، باوجود اتنی پختگی کے اور باوجود کسی قسم کا شک شبہ نہ ہونے کے پھر بھی لوگ قیامت کے آنے نہ آنے میں تردد اور شک کر رہے ہیں اس کے بعد جو ارشاد جناب باری نے فرمایا ہے، اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے، نعوذ باللہ اللہ کی برتر وبالا ذات اس سے بالکل پاک ہے، آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاۗءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ ) 43۔ الزخرف:84) یعنی وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے، یعنی آسمانوں میں جو ہیں، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے، اب اس آیت کا اور جملہ آیت ( يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ ) 6۔ الأنعام:3) خبر ہوجائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ، جانتا ہے۔ پس یعلم متعلق ہوگا فی السموات وفی الارض کا اور تقدیر آیت یوں ہوجائے گی آیت ( وھو اللہ یعلم سر کم و جھر کم فی السموات وفی الارض و یعلم ما تکسبون ) ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت ( وھو اللہ فی السموات ) پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ آیت ( وفی الارض یعلم سر کم و جھر کم ) امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ہے۔
Tafsir Bayan ul Quran - Dr. Israr Ahmad
آیت 1 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ط یہاں ایک خاص نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ قرآن مجید میں تقریباً سات سات پاروں کے وقفے سے کوئی سورة اَلْحَمْدُ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن کا آغاز اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے ہوا ہے ‘ پھر ساتویں پارے میں سورة الأنعام اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ج سے شروع ہو رہی ہے ‘ اس کے بعد پندرھویں پارے میں سورة الكهف کا آغاز اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۔ سے ہو رہا ہے ‘ پھر بائیسویں پارے میں اکٹھی دو سورتیں سورۂ سبا اور سورة فاطر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سے شروع ہوتی ہیں۔ گویا قرآن کا آخری حصہ بھی اس کے اندر شامل کردیا گیا ہے۔ اس طرح تقریباً ایک جیسے وقفوں سے سورتوں کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف سے ہوتا ہے۔ دوسری بات یہاں نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ اس آیت میں خَلَقَ اور جَعَلَ دو ایک جیسے افعال مادّی اور غیر مادّی تخلیق کا فرق واضح کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ آسمان اور زمین چونکہ مادّی حقیقتیں ہیں لہٰذا ان کے لیے لفظ خَلَقَ آیا ہے ‘ لیکن اندھیرا اور اجالا اس طرح کی مادّی چیزیں نہیں ہیں بلکہ اندھیرا تو کوئی چیز یا حقیقت ہے ہی نہیں ‘ کسی جگہ یا کسی وقت میں نور کے نہ ہونے کا نام اندھیرا ہے۔ اس لیے ان کے لیے الگ فعل جَعَلَاستعمال ہوا ہے کہ اس نے ٹھہرا دیے ‘ بنا دیے ‘ نمایاں کردیے اور معلوم ہوگیا کہ یہ اجالا ہے اور یہ اندھیرا ہے۔ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ یَعْدِلُوْنَ یعنی یَعْدِلُوْنَ بِہٖ شُرَکَاءَ ھُمْکہ ان نام نہاد معبودوں کو اللہ کے برابر کردیتے ہیں ‘ جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات ‘ صفات یا حقوق میں شریک سمجھا ہوا ہے ‘ حالانکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ ظلمات اور نور کا بنانے والا بھی تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے ‘ لیکن پھر بھی ان لوگوں کے حال پر تعجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہمسر ٹھہراتے ہیں۔شرک کے بارے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی مورتی ہی سامنے رکھ کر اس کو سجدہ کیا جائے ‘ بلکہ اور بہت سی باتیں اور بہت سے نظریات بھی شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر دور میں بھیس بدل بدل کر آتی ہے ‘ چناچہ اسے پہچاننے کے لیے بہت وسعت نظری کی ضرورت ہے۔ مثلاً آج کے دور کا ایک بہت بڑا شرک نظریۂ وطنیت ہے ‘ جسے علامہ اقبال نے سب سے بڑا بت قرار دیا ہے ع ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے ! یہ شرک کی وہ قسم ہے جس سے ہمارے پرانے دور کے علماء بھی واقف نہیں تھے۔ اس لیے کہ اس انداز میں وطنیت کا نظریہ پہلے دنیا میں تھا ہی نہیں۔ شرک کے بارے میں ایک بہت سخت آیت ہم دو دفعہ سورة النساء آیت 48 اور 116 میں پڑھ چکے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج اللہ تعالیٰ اسے ہرگز معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ‘ البتہ اس سے کمتر گناہ جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ شرک سے کمتر گناہوں میں سے جو چاہے گا ‘ جس کے لیے چاہے گا ‘ بغیر توبہ کے بھی بخش دے گا ‘ البتہ شرک سے بھی اگر انسان تائب ہوجائے تو یہ بھی معاف ہوسکتا ہے۔ سورة النساء کی اس آیت کی تشریح کے ضمن میں تفصیل سے بات نہیں ہوئی تھی ‘ اس لیے کہ شرک دراصل مدنی سورتوں کا مضمون نہیں ہے۔ شرک اور توحید کے یہ مضامین حوا میم وہ سورتیں جن کا آغاز حٰآ سے ہوتا ہے میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوں گے۔ وہاں توحید عملی اور توحید نظری کے بارے میں بھی بات ہوگی۔ سورة الفرقان سے سورة الأحقاف تک مکی سورتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے ‘ جس میں سورة یٰسٓ‘ سورة فاطر ‘ سورة سبأ ‘ سورة صٓ اور حوا میم بھی شامل ہیں۔ سورة یٰسٓاس سلسلے کے اندر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں شامل تمام سورتوں کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔ بہرحال یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ جو حضرات شرک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حقیقت و اقسام شرک کے موضوع پر میری تقاریر سماعت فرمائیں۔ یہ چھ گھنٹوں کی تقاریر ہیں ‘ جو اسی عنوان کے تحت اب کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں بڑے بڑے جید علماء نے ان تقاریر کو پسند کیا ہے۔
الحمد لله الذي خلق السموات والأرض وجعل الظلمات والنور ثم الذين كفروا بربهم يعدلون
سورة: الأنعام - آية: ( 1 ) - جزء: ( 7 ) - صفحة: ( 128 )Surah anaam Ayat 1 meaning in urdu
تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں
English | Türkçe | Indonesia |
Русский | Français | فارسی |
تفسير | Bengali | اعراب |
Ayats from Quran in Urdu
- اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان نکاح مت کرنا (مگر
- یہ (پرانی) بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں۔
- جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی
- خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ایسی ہی زمینیں۔ ان
- کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ
- اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے پھر
- سو ثمود تو کڑک سے ہلاک کردیئے گئے
- اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان
- اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اُترا ہے
- یہ اس لیے کہ خدا ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دے۔ بےشک
Quran surahs in English :
Download surah anaam with the voice of the most famous Quran reciters :
surah anaam mp3 : choose the reciter to listen and download the chapter anaam Complete with high quality
Ahmed Al Ajmy
Bandar Balila
Khalid Al Jalil
Saad Al Ghamdi
Saud Al Shuraim
Abdul Basit
Abdul Rashid Sufi
Abdullah Basfar
Abdullah Al Juhani
Fares Abbad
Maher Al Muaiqly
Al Minshawi
Al Hosary
Mishari Al-afasi
Yasser Al Dosari
Please remember us in your sincere prayers